تالیف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
چھٹی قسط
باب اوّل
تحریک خلافت اور مہاتما گاندھی:
عبرت نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا واحسرتا یہ ہوا مسلمانوں کا انجام؟ پھراس نے نظریں نیچی کر لیں اور کہا کیا کلمہ گویوں میں کوئی رجل رشید نہیں رہا جو بربادیِ اسلام پر آنسو ہی بہائے اور خدا سے پریم کھیلنے کے لیے جان کا جواء لگادے اور مسلمانوں کی بگڑی بنانے کے لیے ہندوستان میں اٹھے اور اندوہ گین ملت اسلامیہ کا سر اونچا کرے؟ بہتوں نے دل کے کانوں سے اس آواز کو سنا تھوڑے حوصلے کر کے گھروں سے نکلے۔ امراء بدستور دادِ عیش دیتے رہے صوفیاء روحانیت کے گوشوں میں ڈرے سہمے بیٹھے رہے۔ درمیانے طبقے کے زیادہ تعداد پر مشتمل لوگوں نے خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی اور چاہا کہ روٹھی ہوئی قسمت کو زاری اور زور سے منائیں۔ راستے کی مشکل اور منزل کی دوری نے سب کو دل گرفتہ کررکھا تھا۔ مسلمانوں کی بہت سی تحریکیں نامرادی کی نیند سوچکی تھیں۔ اب بھی انگریزی سطوت کی علم بردار ہندوستانی پولیس ہر طرف مستعد نظر آتی تھی۔ جس فوج نے ہزاروں میل دور جاکر اسلامی ممالک کو تاراج کیا تھا انھیں یہاں کلمہ گویوں کا سر قلم کرنے میں دریغ کیا تھا۔ عوام کے ہاتھ میں محض کلر کی کاقلم رہ گیا تھا جہاد کے ابتدائی سامان سے محروم قوم خم ٹھوک کر میدان میں کیا نکلتی؟ احتیاج نے شیروں کو روباہ مزاج بنادیا اور احتیاط کا تقاضا یہ ہواکہ خُمیٰا کر بھیڑیے سے رحم کی درخواست کی جائے۔ روح جہاد کو ترک کر کے زیادہ سے زیادہ مسکین بننے کا مسلک اختیار کیا جائے جو مخالف کا دامن پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ’’مار اور مار‘‘ کہہ کرمار نے والے کو زچ کرتا ہے اور دیکھنے سننے والے کے رحم کو مدد کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ مہاتما گاندھی اس اصول سیاست کاماہر مانا جاتا تھا۔ اس بنیے کو یہ بزرگی سونپ دی گئی کہ پہلے تم ہی اپنے مزاج کے مطابق مار کھا کر دوسرے کو مہربان کرنے کے دعوے کی دلیل پیدا کرو۔ گاندھی فطری طور پر آندھی ہے شوکت علی اور محمد علی کا مسلمانوں میں اسے سہارا ملا تو اس نے ملک میں طوفان کھڑا کر دیا۔ طول و عرض ملک میں انگریزوں کے لیے فتنے بیدار ہوگئے۔ ایک دفعہ ایسا معلوم ہوا کہ تخت سلطنت ہل گیا ہے مردہ دل ہندوستانیوں میں آثارِ زندگی پیدا ہوگئے۔ گویا خزاں دیدہ ہندوستان میں بہار آگئی۔ ناگاہ چورا چوری کے واقعۂ ہائلہ نے گاندھی جی کے مزاج میں اعتدال پیدا کر دیا۔ سول نافرمانی کے سرپٹ گھوڑے کو یک دم روک دیا گیا۔ سب سیاسی کارکن محسوس کرنے لگے کہ وہ اونچی جگہ سے پتھریلی زمین پر گرے ہیں اور انھیں دن کو بھی چوٹ سے تارے نظر آنے لگے۔ قوموں کا بگڑکر بننا اور تحریکوں کارک کر چلنا مشکل ہوتا ہے۔ میدان جنگ میں ایک چال چوک جانے سے بھاگڑ مچ جاتی ہے۔ کانگرس اور خلافت کی صفوں میں انتشار سا پیدا ہو گیا۔ مسلمانوں کے بے عمل اعلیٰ طبقے کو یہ موقعہ خدا دے۔ انھوں نے کہا بنیے بقال کو قوم کا سردار بنانے والے لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ گویاوہ خود تلوار ٹیک کر جہاد زندگی کو نکلے ہیں۔ اورجو کام گاندھی، شوکت علی، محمد علی انجام نہ دے سکیں یہ آرام طلب امراء آسانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچالیں گے۔ جب تک خلافت کی تحریک زور پر تھی۔ بلوری گلاسوں میں گھونٹ گھونٹ شربت پینے والے ناز پروردہ اونچے گھرانے والوں نے دم نہ مارا۔ اب ترکِ سول نافرمانی کے بعد یہ کھل کھیلے کہا کہ خلافت لفنگوں کی جماعت ہے۔ یہ پبلک چندوں پر پرورش پانے والے لوگ قوم کی خدمت کیا کریں گے؟
ناتربیت یافتہ عوام امراء کے ہاتھ میں موم کی ناک ہوتے ہیں گلی بازار میں کانا پھوسی شروع ہوئی کہ اتنا چندہ کہاں گیا۔ ان سرگوشیوں کو اور زبان لگی پھر حساب فہمی کی عام صدا میں تبدیل ہوگئی۔ حکومت کو اس آواز میں زور پیدا کرنا مطلوب تھا۔ اس کی کون سی ترکیب اٹھار کھی گئی۔ شہر شہر میں پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کی نیم سرکاری جماعتیں کھولی گئی تھیں۔ انھوں نے اور ہوادی حکومت کانگرس سے زیادہ خلافت سے خائف تھی کہ مسلمان کا ذہن ہندوسے زیادہ انقلابی ہے۔ مسلمان کام کرتے وقت انجام نہیں سوچتے اوربات بگڑ جانے کے بعد زیادہ افسوس نہیں کرتے اسی لیے مسلمانوں کی تحریکیں اکثر اندھے کالٹھ ہوتی ہیں جس کا وار عموماً خالی جاتا ہے۔
نوٹ: (اس عبارت سے آگے کا کچھ مضمون ۱۹۳۹ء کے ہنگامی اور جنگی دور میں انگریزی حکومت کی طرف سے دیگر پابندیوں کے علاوہ نشرو اشاعت پر سنسر کی گرفت کی نذر ہوگیا تھا اور افسوس کہ بعد میں اُس کا اصل مسودہ بھی نہ مل سکا ورنہ طبع دوم میں شامل کتاب کردیا جاتا۔ ]’’ابو معاویہ ابوذر‘‘ رحمہ اﷲ[)
رپورٹ حسابات:
سرکار کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا مجلس خلافت نے تقاضوں سے متاثر ہو کر تین پنجابی کارکنوں کی کمیٹی بنادی جس کا کام مرکزی خلافت کمیٹی کا حساب پڑتا ل کرنا تھا۔ بدقسمتی سے اس کمیٹی نے قلم کو حد اعتدال سے بڑھنے کی اجازت دے دی۔ واقعات کو ناول بنا کر پیش کردیا۔ بہت معمولی واقعات کو ضرورت سے ز یادہ اُچھالا قلم کی رنگین جنبش حکومت کے خوب کام آئی۔ اس رپورٹ کی ایک نقل مجلس میں پیش ہونے سے پہلے اڑالی گئی اور طول و عرضِ ہند میں روپے پانی کی طرح بہا کر اس کو پہنچایا گیا۔ مولانا محمد علی وشوکت علی ابھی جیل سے نہ آئے تھے کہ ان کے دفتر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دوست و دشمن کے ہاتھ میں مبالغہ آمیز صورت میں پہنچی۔ مولانا محمد علی، شوکت علی کے مخلص ساتھیوں اور ماحول کو اس رپورٹ سے بے حد صدمہ ہوا۔ یہ رپورٹ آئندہ غلط فہمیوں کا باعث ہوئی۔ ۱۹۱۷ء سے لے کر ۱۹۱۸تک اسلامی ہند کی رائے عامہ کی باگ ڈور تین شخصتیوں کے ہاتھ میں رہی۔ محمد علی جناح ، مولانا محمد علی اور مولانا آزاد۔ ۱۹۱۸ء میں یک بیک انقلابی سا دور آگیا۔ آئین پسند جناح آئین شکنی کی راہوں پر چلنے سے معذور تھا۔ اس لیے یہ عارضی طور پر گوشۂ گمنامی میں چلا گیا۔ اب سیاسی میدان دوسیاسی حریفوں کے ہاتھ میں تھا۔ مولانا آزاد کو علماء کی تائید حاصل تھی۔ مولانا محمد علی انگریزی خوانوں کے محبوب رہنما تھے۔ محمد علی کے ساتھ شوکت علی نے مل کر گاندھی جی کو اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔ او رسیاست ہند میں ایک بھونچال سا پیدا کردیا۔ مولانا آزاد علم کے سرمایہ دار اور شاہانہ مزاج تھے۔ عوام سے بے نیاز رہنا ان کی فطرت ثانی۔ وہ بھی اپنے پرجوش حریف محمد علی کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے او رسیاسیات میں انھیں پچھلی نشست ہی پر بیٹھنے والوں کی حیثیت اختیار کرنا پڑی۔ اس رپورٹ میں علی برادران کے خلافتی نظم و نسق پرشدید نکتہ چینی کی گئی تھی۔ درحقیقت یہ رپورٹ غیر محسوس طریق پر اسی حریفانہ چشمک کا نتیجہ تھی جوان دو رہنماؤں یعنی آزاد اور جوہر کے درمیان چلی آتی تھی۔ مولانا محمد علی کی پارٹی نے یہ سمجھا کہ رپورٹ مولانا آزاد کے دست راست مولانا عبدالقادر صاحب قصوری کی توجہات کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ بزرگ اس زمانے میں پنجاب خلافت کمیٹی کے صدر محترم تھے۔ لیڈر کو آبرو بنانے میں مدت لگتی ہے۔ مگر کوڑی کوڑی جمع کی ہوئی دولت چٹکی بجانے میں اڑائی جاسکتی ہے۔ ایک جھوٹا مگر دل لگتا الزام برسوں کی تکلیف سے حاصل کی ہوئی شہرت کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ اس رپورٹ سے علی برادران پر بھی ناکردہ گناہ یونہی الزام سا لگ گیا۔ اب جو ہر اور آزاد برابرکے تول ہوگئے۔
سیٹھ چھوٹانی اور مجلسِ خلافت:
مصیبت جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی ۔ قسمت کے زینے سے پاؤں پھسلے تو اکثر کئی پٹریاں انسان یونہی پھسلتا چلا آتا ہے۔ اس رپورٹ کا منحوس سایہ ابھی اٹھا نہ تھا کہ سیٹھ چھوٹانی کے واقعے نے خلافت کمیٹی کی بساط الٹ دی۔ سیٹھ موصوف خلافت کی تحریک سے پہلے لکڑی کی تجارت کے بادشاہ کہلاتے تھے سرکاری دربار میں رسوخ تھا۔ انھوں نے کمال ایثار سے کام لے کر مجلس خلافت کی بطور صدر کے باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی۔ اب سوتن سہیلی کیا؟ حکومت نے اسے مخالف قرار دے کر تمام ٹھیکے منسوخ کرکے اس کی مالی ساکھ بگاڑ دی۔ خلافت کا سارا سرمایہ سیٹھ مرحوم کی فرم کے حساب میں جمع تھا تجارتی نقصان اس روپے سے پورا ہوتا رہا۔ یہ خبر پَر لگا کر ہر طرف پہنچی کہ قومی سرمایہ شخصی نقصان پورا کرنے کے کام آرہا ہے۔ آخر سیٹھ چھوٹانی سا ملز ومجلس خلافت کے سپرد ہوئی اور سیٹھ صاحب سب دنیاوی دولت سے دامن جھاڑ کر شہرت کی دنیا سے الگ ہوگئے۔ مجلس کو اس کی بدولت اور اس کو مجلس کی بدولت کئی لاکھ کا نقصان اٹھانا پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ مجلس خلافت اور بدقسمت سیٹھ چھوٹانی ایک دوسرے کو لے ڈوبے۔ ساتھ ہی علی برادران کے اقبال کا آفتاب غروب ہوگیا۔ خلافت کے نقصانِ مایہ کے علاوہ شماتتِ ہمسایہ علی برادران کے حصے میں آئی۔ سیاسیات میں رحم کون جانتا ہے سیٹھ چھوٹانی دراصل خلافت کے باعث برباد ہوا مگر خائن کہلا کر نکلا۔ اب چھپے ہوئے سرمایہ داروں نے کمین گاہوں سے سرنکالا۔ رائی کاپہاڑ بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ اب تووجہ معقول اور نقصان گراں عالم آشکار تھا جو جو انھوں نے کہا عوام نے سچ مانا۔ مجلس جمہور میں واقعی چوروں کی جماعت مانی جانے لگی۔
خلافت پنجاب باغی قرار پائی:
علی برادران متوسط گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ مزاج امیرانہ اور طبیعت میں انکسار تھا۔ ایسے لوگ درمیانے طبقے کے محبوب اور ادنیٰ درجے کے لوگوں میں ہردل عزیز ہوتے ہیں۔ یہ ادا ہندو، مسلمان امراء کو نہ بھاتی تھی۔ سیٹھ چھوٹانی کے واقعہ سے انھیں عوام کی نظروں میں بے توقیر کرنے کا عمدہ موقع میسر آیا۔ مولانا محمد علی انگریزی علم و ادب کا خزانہ تھے۔ مگر اس کے فخر کے بوجھ سے دبے ہوئے نہ تھے۔ بخلاف مولانا آزاد اپنے دوستوں سے بے حد بے تکلف تھے اوربرابر کے بھائی تھے۔ مزاج میں ذرا ضد تھی طبیعت میں قدرے تیزی۔ وہ مخالف سے بے دریغ لڑجاتے تھے اور لڑائی میں انجام نہ سوچتے تھے۔ ان کو خیال ہوگیا کہ پنجاب کے کارکنوں کا سارا گروہ ان کے مخالفوں میں سے ہے۔ حالانکہ یہ بات نہ تھی۔ سوائے چند افراد کے باقی جماعت کو علی برادران سے عداوت نہ تھی۔ احرار پارٹی میں وہ لوگ شامل نہیں جنھوں نے بمبئی کے حسابات کی رپورٹ لکھی نہ وہ ہیں جنھوں نے سیٹھ چھوٹانی کے واقع کو علی برادران کے دامن کا داغ بنانے کی سعی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب خلافت کمیٹی کی سرداری ان کے ہاتھ میں تھی جن کادل مولانا محمد علی کی بجائے مولانا آزاد کے ساتھ تھا۔ تاہم خلافت مرکزیہ نے علی برادران کے اشارے پر پنجاب خلافت کمیٹی کو باغی قرار دیا۔ پنجاب خلافت کمیٹی کا الحاق ٹوٹ جانے کے بعد خلافت مرکزیہ مردہ رہ گئی۔ کیونکہ وہ موجودہ احرار گروہ کی خدمت سے محروم ہو گئی یہی گروہ ہندوستان کی مجلس خلافت کی جان تھا۔ حقیقت حال کی بنا پر عرض کرتا ہوں مجلس احرار کے موجودہ کارکن جب خلافت کمیٹی میں شامل تھے۔ اگرچہ مولانا آزاد کے ہوا خواہوں کے ساتھ نتھی تھے مگر پارٹی بازی میں براہ راست شامل نہ تھے۔ انھیں خدمت اسلام کے سوا کچھ اور نہ سوجھتا تھا۔ مولانا آزاد اور مولانا محمد علی کی چشمک کا کچھ ہلکا سا احساس اور تھوڑا سا شعور ضرور تھا۔ مگر پورے طور پرامر واضح نہ تھا کہ ہم ایک فریق کے حق میں استعمال ہورہے ہیں کیوں کہ جوہر وآزاد کی لڑائی ابھی اجاگر نہ ہوئی تھی۔
گروہِ احرار:
پنجاب خلافت کمیٹی جو مجلس مرکزیہ کے جسم کے لیے روح کا حکم رکھتی تھی۔ غیرارادی وغیر شعوری طور سے اس کے اپنے اندر دو گروہ موجود تھے۔ خلافت پنجاب کا طبقہ اعلیٰ یعنی حاکم گروہ اور تھا اور طبقہ ادنیٰ یعنی حکم بردار گروہ اور حاکم گروہ رنڈی کے پوت اور سودا گر کے گھوڑے کی طرح کام چور اور آرام طلب تھا۔ طول و عرض ہند میں بھاگ دوڑ کا کام طبقۂ کا کام تھا۔ طبقۂ اعلیٰ کو اپنے گروہ کے موجود ہونے کا علم تھا لیکن طبقہ ادنی ٰ کو الگ احساس خودی نہ تھا۔ اس کا ہر فرد اپنے آپ کو کل کا جزء سمجھ کرمطمئن کام سرانجام دے رہا تھا۔ تاہم حکم بردار گروہ سے حاکم گروہ اندر ہی اندر خائف ساتھا اور کچھ الگ الگ کھچا کھچا سارہتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو امیر طبقے سے متعلق اور عقل کا سرمایہ دار سمجھتا تھا۔ اور گروہ ادنیٰ کو علم و سرمائے سے محروم قیاس کر کے چھوٹی موٹی خدمات سرانجام دینے کا اہل خیال کرتا تھا۔ جب مجلس خلافت پنجاب کا الحاق مرکز سے ٹوٹ گیا ۔ تو اس اعلیٰ گروہ کے کام کرنے کی طاقتوں نے بالکل جواب دے دیا۔ وہ کلی طور پر کانگریس کا سہارا لینا چاہتا تھا۔ ان کا قیاس تھا کہ مسلمان خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیتوں سے محروم ہوچکا ہے۔ طبقہ اولیٰ اپنی قوتِ عمل پر ساری قوم کا قیاس کرکے ہندوستانی مسلمان کو فوری انقلاب میں کامیاب نکلنے کا اہل سمجھتا تھا۔ لیکن یہ دونوں فریقوں کو بربنائے تجربہ احساس تھا کہ ہند و اور مسلمان میں کوئی یگانگت موجود نہیں۔ ہندو کی چھوت چھات نے دوقوموں کے درمیان دیوار چن رکھی ہے۔ چنانچہ ۱۹۲۴ء میں دونوں گروہ مل کر چھوت چھات کے خلاف آواز بلند کر چکے تھے اور جانتے تھے کہ ہندوؤں کی ’’مجھے نہ چھوؤں‘‘ کی پالیسی سے مسلمان ناقابل بیان حد تک بیزار ہے۔ کانگریس میں بعض پاکیزہ خیال اور نیک طبیعت لوگ توہیں لیکن اکثر وہ جو پالٹکیس میں بھی مجلسی تنگ نظری سے کام لے رہے ہیں اور اس لیے مجلس خلافت پنجاب کے اعلیٰ طبقے نے مسلم نیشنلسٹ پارٹی بنائی اور ادنیٰ طبقے نے مجلس احرار بنانے کا اعلان کیا۔ا ن حالات میں بھی دونوں گروہوں کی تقسیم پوری واضح نہ ہوئی تھی بظاہر کوئی جھگڑا نہ تھا۔ غالب قیاس یہ تھا کہ نیشنلسٹ پارٹی کے کرتا دھرتا ڈاکٹر محمد عالم ہیں۔ زیادہ دیر تک یہ گروہ قائم نہ رہے گا چند دن میں یہ برائے نام جھگڑا مٹ جائے گا اور ایک نام کے ساتھ کام ہونے لگے گا۔
مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۹ء کانگریس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوا۔ جس میں سید عطاء اﷲ شاہ نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہراوّل ثابت ہوں آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے۔‘‘
اس کے تھوڑے عرصے کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا اور کانگریس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں۔
مولانا محمد علی اور لالہ لاجپت رائے ازل سے ایک طبیعت لے کر آئے تھے۔ دل دریا، مزاج پر جوش تھا طبیعت کی طغیانی کے باعث امنڈتے دریا کی طرح کہیں ڈھاتھے کہیں بناتے رہتے تھے۔ مولانا نے کانگریس سے ناراض ہوکر مسلم کانفرنس کی طرح ڈالی تھی خلافت مرکزیہ کا فعال طبقہ دوگروہوں میں تقسیم تھا۔ کانگریسی حصہ کم پرجوش نہ تھا۔ اسی نے کانگریس کی تحریک میں مسلمانوں کے شایانِ شان قربانیاں کیں کانگریس کی اس سول نافرمانی میں احرار کے موجودہ کارکن روح دراں تھے وجوہات سمجھ میں نہیں آئیں مگر خود مسلمان کارکنوں نے بھی جیل سے واپس آکر محسوس کیا کہ ہندو ’’گاندھی اردن‘‘ پیکٹ کو محض اپنے ایثار کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ ذمہ دار مسلمان کانگریسوں کے اشارے پر مسلمان محبوسین کی فہرستیں شائع کی گئیں تاکہ یہ اثر دور ہو محولہ پیکٹ کے بعد ہندو عوام پر ایک نشہ سا طاری تھا۔ مسلمان یونہی کچھ کھوئے کھوئے سے تھے اگر پرانا خلافتی گروہ سارے کاسار اکانگریس کے شامل حال ہوتا تو شاید مسلمان ہندوؤں کی طرح اس فتح کو اپنی فتح سمجھتے مگر نہرو رپورٹ کے بعد مسلم عوام کی نظر میں کانگریس ایک ہندوجماعت بن گئی تھی۔ کانگریس میں جو مسلمان تھے ان کی دیانت پر برملا شبہ ظاہر کیا جانے لگا تھا۔
نہرو رپورٹ:
کانگریسی رہنما فریب افرنگ میں مبتلا ہو کر ان ہونی بات کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ یعنی غلامی میں آزادی کا ایساآئین تیار کرنے لگے جو برطانیہ کے اس چیلنج کا جواب ہو کہ حکومت ہندوستان کے مشترکہ فارمولا کی بنیاد پر نیا آئین تیار کرنے کو آمادہ ہے۔ لارڈ بروکن ہیڈ وزیر ہند جانتے تھے کہ نہ نومن تیل ہوگانہ رادھا ناچے گی۔ لکھنو آل پارٹیز کانفرنس میں صلح کے تار ہلائے گئے۔ امید کی رادھا ناچے گی۔ لکھنو آل پارٹیز کانفرنس میں صلح کے تار ہلائے گئے۔ امید کی رادھا ناچی۔ مگر آنگن ٹیڑھا نظر آیا۔ اتفاق کی بجائے اختلاف کی خلیج کا پاٹ اور بڑھ گیا۔ شہرت اور عزت شریف انسان کے دل کی بدترین کمزوری ہے جس جگہ ذرا سی سبکی ہو وہ اسے ضرورت سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔ مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی کے مقابلے میں گنوار کالٹھ سمجھے جاتے تھے لیکن عوام میں کام کرنے کا ڈھنگ وہ سب سے زیادہ جانتے تھے۔ مولانا محمد علی آل پارٹیز لکھنو کے ایام میں حج کو گئے ہوئے تھے۔ شوکت علی وہاں موجود تھے مگر کٹے ہوئے پتنگ کی طرح کچھ الگ الگ اور مولانا آزاد وہاں بیاہ میں نائن کی طرح کار فرما تھے۔ ہندوستان کی سیاسیات میں موتی لعل ایک ضدی طبیعت، زود رنج مگر صاف دل راہ نما تھے۔ وہ محمد علی اور شوکت علی سے زیادہ مولانا آزاد سے مانوس تھے۔ انھوں نے مولانا شوکت علی کو حتیٰ الامکان آل پارٹیز کی کارروائیوں میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ شوکت ایسی چوٹوں کو خاموشی سے سہنا نہ جانتے تھے۔ فوراً جوابی کارروائیوں میں لگ گئے اور کانفرنس کو ناکام بنانے کے جوڑ توڑ کرنے لگے۔ عمل پر آمادہ شوکت علی بے پناہ قوت تھے اسی جگہ مسلمانوں کے ایک متقدر لیڈر کو نہرو خاندان سے بدظن کردیا۔ حالاں کہ علی برادران کے لفٹنٹ مسٹر ’’شعیب ‘‘قریشی جو بعد میں مولانا محمد علی کے داماد بنے نہرو رپورٹ کے مجوز تھے۔ نہرو رپورٹ کی بنیاد دو موٹے اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ جنوبی افریقہ کی طرز کی وحدانی حکومت اور مخلوط انتخاب، مجلس احرار کے موجودہ کارکن وحدانی حکومت کے قائل نہ تھے۔ اور وہ صوبوں کی آزادی کے ساتھ فیڈریشن کا قیام چاہتے تھے۔ بطور آخری چارہ کار ہر بالغ کے ووٹ کی بنا پر مخلوط انتخاب کو قبول کرنے پر بھی تیار ہوگئے تھے۔ کیونکہ مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر عالم اور پنجاب کے کئی اور ساتھیوں کو مخلوط انتخاب پر اصرار تھا۔ میری اپنی طبیعت علیحدہ انتخاب کی طرف رجوع تھی۔ سب کا خیال تھا کہ مخلوط انتخاب کو پنجاب پارٹی نہ مانے گی سچ یہ ہے کہ احرار کا موجودہ گروہ آخری وقت تک علیحدہ انتخاب پر مصر تھا۔ مولانا شوکت علی خوش تھے۔ مجھے باربار خیال آتا تھا کہ نہرو رپورٹ سکھوں کی موت ہے۔ نہرو آئین میں سکھوں کے لیے ایک سیٹ حاصل کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں۔ سکھ ہر ضلع میں اقلیت میں ہیں لیکن سکھ مطمئن تھے کہ پنجاب کے مسلمان مخلوط انتخاب کو ہرگز نہ مانیں گے۔ کانفرنس کے آخری دن سرتیج بہادر سپرو، موتی لعل، سر علی امام ، لالہ لاجپت رائے، سروجنی نائیڈو، مولانا آزاد اور پنڈت مدن موہن مالوی پنجابی مسلمانوں کے سر ہوگئے کہ بھلے لوگو! کام نہ بگاڑو۔ سکھوں کو کامل یقین تھا کہ پنجاب کے کارکن مسلمان مخلوط انتخاب کوقبول نہ کریں گے۔ ہم نے ان لیڈروں کی وساطت سے دریافت کیا کہ آیا سکھ پنجاب میں نہرو رپورٹ کے فارمولے کو مان لیں گے؟ سب کے سامنے انھوں نے اقرار کیا کہ ہمیں منظور ہے۔ ہم نے بھی اعلان کر دیا کہ پنجاب میں نہرورپورٹ کو قبول کرلیں گے۔ پھر کیا تھا خالصاجی کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ ان کے اندھے لیڈر در گیانی شیر سنگھ نے آنکھیں پھیر کر کہا کہ صاحبو! تمہاری پوزیشن بُری ہو گئی ہے۔ ہم نہرو رپورٹ منظور نہیں کرسکتے۔ خالصہ جی کی اس زُود پشیمانی پر ہم کو ہنسی آئی اور لیڈروں کو پریشانی ہوئی۔ ہمیں میاں سر فضل حسین کا مختلف قوموں کے خصائص کا نظریہ سچ نظر آیا۔ میاں صاحب موصوف فرمایا کرتے تھے کہ انگریز کام کرنے سے برسوں پہلے سوچتا ہے ہندو مہینوں پہلے نقشہ تیار کرتا ہے مسلمان عین وقت پر سوچنے لگ جاتا ہے اور خالصہ جی کی قوم کام کرنے کے بعد غور کرتی ہے۔ واقعی سکھوں نے اس موقع پر ایساہی کیا۔ پھر ان پر زور دیا گیا تو انھوں نے دستخط کردیئے پھر نتیجہ سمجھ میں آیا تو اعلان کیا کہ ہم نے (UNDER PROTEST)دستخط کیے ہیں۔ ایسی ہی نادانیوں کے باعث دانائے فرنگ مسٹر رامزے میکڈانلڈ وزیر اعظم انگلستان سے گول میز کانفرنس کے موقع پر ’’دلچسپ قوم‘‘ کا خطاب حاصل کیا تھا۔ سردار سمپورن سنگھ نے بھی عدالت کے سامنے اسی دعوے کو زندہ رکھا اور ساری کانگریس کی سول نافرمانی کے سر خاک ڈال دی۔
گاندھی اور مَالوِیہ مخالفوں میں:
دوستوں کی طرف سے میں نے کھلے اجلاس میں صوبوں کی آزادی اور فیڈریشن کی قائمی کے حصول کو منوانے کی ناکام کوشش کی مجھے تعجب ہوا۔ کہ میری ترمیم کو مسلمان نہ سمجھ سکے اہل الرائے مجھ سے پوچھتے تھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ زمانے کے انقلاب ہیں۔ وہی لوگ اب پاکستانی بنے بیٹھے ہیں۔ جو نہرورپورٹ کو اسلامی سیاسیات کے لیے تریاق سمجھتے تھے۔ اور اس کو بلا شرط قبول کرنے پر زور دیتے تھے۔ اور چھوڑو یہی مسٹر جناح جو پاکستان کی خیالی سلطنت کے شہنشاہ ہیں ہمیشہ مخلوط انتخاب کے لیے جان دیتے رہے۔ وہ فارمولا جو دہلی پروپوزل (PROPOSAL) کے نام سے مشہور تھا۔ مخلوط انتخاب کے نام پر مرتب ہوا تھا جس کے مجوزین میں مولانا محمد علی، مسٹر جناح، ڈاکٹر انصاری وغیرہ ہر طبقے کے مسلمان شامل تھے۔ لیکن نہرو رپورٹ پر طوفان اٹھایا گیا اور بڑا کامیاب طوفان۔ اس لیے کہ اس پر دستخط کرنے والے نسبتہً غریب جماعت کے مسلمان تھے۔ ورنہ یہ نہیں کہ کچھ اصول سے اختلاف تھا۔ میاں سر فضل حسین نے تو تمام مسلمان ممبر ان کونسل کے سامنے میری تصریحات سن کر صاف کہہ دیا تھا کہ ’’جو کچھ تم کر آئے ہو وہ مسلمانوں کے لیے غیر مفید نہیں لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ پنجاب کاہند و اور سکھ نہرورپورٹ کو قبول نہیں کرے گا۔ اس لیے عملی دنیا میں نہرورپورٹ ایک بے معنی دستاویز ہے اس کی حمایت کااعلان نہیں کرسکتا‘‘۔
سرسکندر حیات خان جو اس وقت گمنامی کے گوشے میں پڑے تھے۔ نہرو رپورٹ کے حق میں زیادہ گرم جوش تھے۔ باوجو داس کے ایک دنیا گواہ ہے کہ ہم پر خِشت باری کی گئی ہمیں برملا رخمی کیا گیا۔ مولانا محمد علی باوجود کانگریس سے روٹھ جانے کے زندگی کے آخری لمحوں تک مخلوط انتخاب کے علم بردار رہے لیکن اونچے طبقے کے لوگوں نے عوام کو بھڑکاکر ہمارے خلاف غصہ نکالا۔ ادھر ہندوپریس کا یہ حال کہ وہ سکھوں کو بھڑ کا کر نہرو رپورٹ کی مخالفت کو ہوا دیتے تھے۔ لکھنو سے واپس ہو کر سکھ دستخط کنندگان نے نہرو رپورٹ کی علانیہ مخالفت شروع کردی۔ پنڈت مالویہ اور مہاتما گاندھی نے ان کی پیٹھ ٹھونکی اور صاف صاف کہہ دیاکہ نہرو رپورٹ کی تجویز میں سکھوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ پنڈت موتی لعل سیاسیات میں ایک منہ زور گھوڑے کی طرح تھے جن سے معاصرین ڈرتے تھے اور جن کو ناپسند کرتے تھے۔ اس لیے کہ جو بیوی دل پسند نہیں۔ اس کے کام میں اوجیکڑے پڑتے ہیں۔ نہرو رپورٹ بالآخر راوی کی لہروں میں اس لیے بہادی گئی کہ یہ جواہر لال اور موتی لال کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ نوجوان نہرو روس کی اقتصادی تحریک سے متاثر تھا۔ سرمایہ دار طبقہ اس کے نام کا اچھلنا پسند نہ کرتا تھا۔ لیکن تقدیر کی انمٹ تحریر کہو یا واقعات کی مجبوری کہ گاندھی جواہر لال کو نظر انداز نہ کرسکا۔ اسے کانگریس کا صدر بنا کر اس کی رفتارِ ترقی کو روکا اور اس کے خیالات کو پابند کردیا۔ اس طرح سرمایہ داروں کے مہاتما گاندھی کا کمیونسٹ جواہر چیلا بنا۔ انقلاب زندہ باد کا شیدائی، گاندھی کی جے پکارنے لگا۔ ہندوستانی عوام کی قسمت کا چراغ روشن ہو کر بجھ گیا۔ ہندوستان میں کوئی ایسی شخصیت نہ رہی۔ جو غریب عوام کو سرمایہ داروں کے جال سے نکالنے کا اعلان کرتی۔
اختلاف کی ابتداء:
اس دور کو سمجھنے کے لیے کچھ اور واقعات کے رُخ سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خلافت کی تحریک بظاہر ایک فرقہ وارانہ تحریک تھی۔ لیکن گاندھی کی شخصیت نے اس کو عمومی رنگ دے کر انگلستان کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کر دی۔ اور سچ یہ ہے کہ خلافتی مسلمان عملی طور پر یہ سوچنے لگا کہ ہندو اور مسلمان کو بطور ایک قوم کے کام کرنے کے سوا چارہ کار نہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے سوا جماعتی اور قومی مشکلات کے حل کی اور کوئی صورت نہ تھی۔ اس لیے ہندو اور مسلمان سیاسین ابتدائی تین چار سال تک توشیر و شکر رہے۔ مگر پھر ایک دوسرے سے کچھ اکتا سے گئے۔ موپلوں کی بغاوت میں ہندوؤں پر موپلوں کی طرف سے کچھ سختی ہوئی۔ شمالی ہند کے کچھ ہندو اخباروں نے واقعہ کو اُچھالا۔ ہندوؤں کے ایجی ٹیشن کے خوف سے جمعیتہ العلماء نے اپنے لاہور کے اجلاس میں مولانا آزاد کی سرکردگی میں موپلوں کی مذمت کا ریزولیوشن پاس کردیا، میں اس اجلاس میں موجود تھا۔ میں نے مخالفت اس بنا ء پر کی کہ اس ریزولیوشن سے گورنمنٹ موپلوں کو لاوارث سمجھ کر تباہ کر دے گی۔ لیکن میری تقریر خلاف ضابطہ قراردی گئی۔ کیونکہ میں سندیافتہ عالم نہ تھا۔ لیکن واقعات نے میری رائے کے مطابق صورت اختیار کی حتیٰ کہ جنوبی ہند کا عام ہندو بھی موپلوں پر لرزہ خیز مظالم کی تاب لاسکا اور ان کی تباہی پر آنسو بہانے لگا۔ آنکھوں دیکھتے دیکھتے ۱۹۲۲ء موپلوں کی مکمل تباہی تحریک خلافت کا ایک افسوس ناک پہلو ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے حلقے سے ان کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی۔ شمالی ہند کے آریہ اخبارات بدستور مسلمانوں کے خلاف آگ برساتے رہے۔ ۱۹۲۳ء میں سوامی شردھانند قبل از وقت رہا ہو کر میانوالی جیل سے باہر آئے اور شدھی کی تحریک کے علم بردار بنے۔ عوام میں اتنی برداشت کہاں کہ وہ سیاسی موافقت میں مذہبی مخالفت برداشت کر سکیں۔ چند ہزار ملکانوں کے نام مسلمان ہوجانے کو ہندوؤں نے ویدک دھرم کی فتح سمجھا اور قیاس کیا کہ بس اسی ایک سلسلے میں سارے مسلمانوں کو اُوم کے جھنڈے تلے کر کے چھوڑیں گے۔ مسلمانوں نے خیال کیا۔ خلافت کی بحالی تو دور کی کوڑی لانا ہے۔ آؤ ان مارِ آستین آریاؤں سے نپٹ لیں۔ ملکانوں کے علاقے میں دورہ کرنے سے مسلمانوں کویہ معلوم ہوا کہ یہ مذہب کی برتری کا سوال نہیں بلکہ چھوت کے باعث جو مسلمانوں میں مجلسی کمتری کی حالت پیدا ہوگئی ہے اس سے آریہ لیڈر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یعنی ملکانوں سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھو! مسلمان ہمارے اچھوت ہیں۔ کیا تم عزت والے لوگ ان اچھوتوں کا جزوبن کر رہنا چاہتے ہو یا معزز لوگوں کی دعوت کو قبول کرکے اپنا درجہ بلند کرنا چاہتے ہو؟
ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی شخص مجلسی طور پر کم درجہ میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ ملکانوں پر مذہبی نہیں بلکہ مجلسی جادو چل گیا۔ اکثر قوموں نے مجلسی برتری حاصل کرنے کے لیے مذہب کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسلام میں یہی جادو تھا کہ وہ گری ہوئی قوموں کا فوراً مجلسی درجہ بلند کر کے ادنیٰ کو اعلیٰ کے برابر بنا دیتا تھا۔ مگر اب مسلمان ہندوستان میں ہندو کا اچھوت رہنے پر مطمئن ہوگیا ہے۔ اسلام میں مساوات کی کشش باقی نہ رہی۔ آخر کس خوبی کے باعث تبدیلی مذہب پر کوئی آمادہ ہوسکے؟ بہر حال اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ سر پھٹول کا بازار گرم ہوا۔ آزادی وطن کی جگہ تبلیغ و تنظیم، شدھی و سنگھٹن کا نعرہ بلند ہوا۔ لاہور ، امرت سر، کوہاٹ اور ملتان میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے گئے۔ اس میں مسلمانوں نے زیاہ چابک دستی کا ثبوت دیا۔ اس طرح بطور ایک دنیاوی تنظیم کے اہم مقابلے کامیاب رہے۔ لیکن بطور خیرالامت کے خدا کے حضور میں ہم ناکام ٹھہرے کیونکہ بہت سے بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ حالانکہ بطور سچے مسلمان کے ہمارا حق یہ تھا کہ ہمسائے کی جان و مال کی حفاظت میں جانیں لڑا کر اخلاق اسلامی کا ثبوت دیتے۔ کیوں کہ میری ساری دلچسپی مسلمانوں کے عمل سے ہے۔ اس لیے مجھے دکھ ہے تو یہ کہ ہم بلووں میں اسلامی معیار کے مطابق پورے نہیں اترتے۔ غیروں کی طرح بازاری اخلاق کے مرتکب ہوتے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کے متعلق احرار کے موجودہ گروہ کا اوّل روز سے یہ نظریہ رہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں زیادہ سے زیادہ حفاظت خود اختیاری میں مرنے اور مارنے کا حق ہے۔ لیکن خود بلوہ کر کے ہندوؤں پر ٹوٹ پڑنے کا حق نہیں۔ بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں پر تو کسی حال میں بھی ہاتھ اٹھانا ٹھیک نہیں۔ سچا مذہب تو جماعتی ذہن کے تابع ہوگیا ہے۔ دوسری قوم کی عداوت کے مقابلے میں خود ناانصافی کر گزرنا جائز سمجھا جانے لگا ہے۔ حالانکہ حکم حق او رہے۔
(جاری ہے)