)حافظ لدھیانوی مرحوم
بحضور سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم
سارے قرآں میں ہے بیاں تیرا ہے خدا آپ مدح خواں تیرا
تو ہے شہکار کبریائی کا تو ہے آئینہ حق نمائی کا
تیرا دربان جبرئیلِ امیں تجھ سے روشن ہے قدسیوں کی جبیں
ہیں شہنشاہ جو زمانے کے وہ گدا تیرے آستانے کے
سارا عالم ظہور تیرا ہے ہر حسیں شے میں نور تیرا ہے
یہ ہے صدقہ ترے پسینے کا حسن مہکا ہے جو مدینے کا
حُسنِ یوسفؑ میں ہے جھلک تیری دمِ عیسیٰ میں ہے مہک تیری
تیرے قدموں سے ہے فلک روشن چاند تارے ہیں آج تک روشن
تجھ سے پیدا ہیں صبح کے انوار تجھ سے روشن ہیں ثابت و سیّار
تجھ سے ہیں آبشار کے نغمے فصلِ گل کے بہار کے نغمے
تیری نکہت چمن چمن پھیلی تیری خوشبو وطن وطن پھیلی
ہر جگہ تجھ کو جلوہ گر پایا تیری رحمت کا سب پہ ہے سایا
آستاں پر غلام آئے ہیں آج بہرِ سلام آئے ہیں
روحِ کونین، رحمتِ عالم اس طرف بھی ہو ایک چشمِ کرم
تیرے در پر فقیر آئے ہیں ہر طرف رحمتوں کے سائے ہیں
جو تیرے آستاں پہ آتے ہیں اپنی اپنی مُراد پاتے ہیں
اپنی رحمت سے جھولیاں بھر دے ہم تہی دامنوں کو گوہر دے
درد کو زندگی عطا ہو جائے سوزِ دل اور بھی سوا ہو جائے
دامنِ دل کو نور سے بھر دے اسے کیف و سرور سے بھر دے
یہ وظیفہ رہے سدا میرا لب پہ ہر دم ہو وردِ صلِّ علیٰ
ہو تری یاد کائنات مری یوں فروزاں رہے حیات مری
دل خزینہ ہو تیری الفت کا درد کا، شوقِ بے نہایت کا
آنکھ کو ذوقِ دُر فشانی دے لب کو توفیقِ مدح خوانی دے
دولتِ درد و آگہی مل جائے قلب کو سوزِ زندگی مل جائے
چشم کو نور دے، بصیرت دے عقل کو مشعلِ حقیقت دے
دل میں بس اک خدا کی ذات رہے ما سوا کی نہ کوئی بات رہے
ہو زیارت ہمیں نصیب تری ہو شفاعت ہمیں نصیب تری
ہے ترے ہاتھ عاصیوں کی لاج سب ترے آستاں کے ہیں محتاج
تو سہارا ہے بے سہاروں کا درد مندوں کا دلفگاروں کا
تو خدا کا ہے اور خدا تیرا روز محشر ہے آسرا تیرا
کوئی خالی نہیں گیا در سے سب پہ ابر کرم ترا برسے
کس طرح تجھ سے عرض حال کریں ہے کہاں تاب ہم سوال کریں
نغمۂ درد و شوق و الفت سے تو ہے واقف دلوں کی حالت سے
لب کو آہِ سحر عطا کردے سازِ خاموش کو صدا کردے
اشکِ غم حرفِ التجا ہوجائے خامشی شرحِ مدعا ہو جائے