حبیب الرحمن بٹالوی
قرآن وسُنّت کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہم لوگ بہت سی ایسی باتوں کے خود گر ہوگئے ہیں جن کا رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلا وضو کرنے کے بعد انگلی آسمان کی طرف کرکے کلمۂ شہادت پڑھنا (وضو کے بعد آسمان کی طرف دیکھ کر کلمۂ شہادت پڑھنا سُنّت ہے۔ انگلی اٹھا کر نہیں) جمعہ کے دن پہلے خطبے کے دوران ہاتھ باندھ کر بیٹھنا اور دوسرے خطبے کے دوران گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا درمیان میں ہاتھ اٹھا کر دعاکرنا۔ (دونوں خطبوں کے دوران متوجہ ہو کر بیٹھنا ضروری ہے۔ کوئی بات نہ کی جائے۔ کوئی خاص شکل اختیار کرنا ضرور ی نہیں) اور پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں حرج کیا ہے؟ حرج یہی ہے کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں کہا۔ اسی طرح کی اور بہت سی باتوں میں ہم نے دینی شعائر میں خود سے اضافہ کر لیا ہے۔ جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بس اپنے کسی بڑے کو ایسے کرتے دیکھا اور اُس پر ڈٹ گئے کہ جی ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ ہمارے باپ دادا ایسے ہی کرتے آئے ہیں۔ جیسے ایک بزرگ درس دے رہے تھے کہ بلیّ آگئی۔ ادھر اُدھر بھاگ رہی تھی۔ سامعین کی توجہ درس سے ہٹ گئی۔ بزرگوں نے اپنے کسی عزیز کو اشارے سے کہا کہ اسے باندھ دو۔ درس کے بعد کھول دینا۔ اب جب بھی درس ہوتا ہے گھر کی وہ بلیّ باندھی جاتی رہی۔ حضرت فوت ہوگئے۔ اُن کا بیٹا درس دینے لگا تو بھی بلیّ باندھی جاتی رہی۔ اس طرح یہ طریق اُن کے ہاں رواج پاگیا، پوچھنے پر یہی جواب ملتا کہ ہمیں اور کچھ پتہ نہیں ہمارے بزرگ ایسے ہی کرتے آئے ہیں۔
قارئین کرام! جہالت پر مبنی ان ہی چیزوں میں ایک صفر کے مہینہ کے بارے میں تو ہمات بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صفر کے مہینے کے ابتدائی تیرہ دن منحوس ہوتے ہیں۔ انہیں تیرہ تیزی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرض میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ صفر کے آخری بدھ (آخری چہارشنبہ) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا۔ چہل قدمی کی تھی۔ اسی لیے بعض لوگ اسی دن سیر کرنا لازمی قرار دیے ہیں۔ غسل کرتے ہیں کالے چنے اور میٹھی روٹی تقسیم کرتے ہیں۔ کئی سادہ لوح مسلمان صفر کے مہینے میں شادی کرنا منحوس سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ اس مہینے میں مصیبتں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ اور ان باتوں پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں اُن لوگوں کی نفسی خواہشات کا دخل ہوتا ہے جو جی میں آیا کرتے چلے گئے حالانکہ دین اپنے جی کی پیروی کا نام نہیں۔ دین رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کا نام ہے۔ جو آپ نے فرمایا کیا وہ دین ہے اور صفر کے بارے میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بڑا واضح فرمان موجود ہے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بیماری،صفر،نحوست کوئی چیز نہیں۔ یہ حدیث شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ’’مَاثَبتَ مِنَ السْنّۃ ‘‘ میں نقل کی ہے۔ حضرت ابویرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عدویٰ، طیرہ، ہامہ اور صفر میں کوئی شے نہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ماہ صفر میں بیماری، نحوست، بدفالی کا دین میں کوئی وجود نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آخر ی چہارشنبہ کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ قاضی سلیمان منصور پوریؒ اپنی کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ میں لکھتے ہیں۔ 29صفر یوم شنبہ (سوموار) تھا نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم ایک جنازے سے واپسی آر ہے تھے۔ راہ ہی میں درد سر شروع ہوگیا۔ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری اپنی کتاب ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ میں مروی ہمیں کہ ماہ صفر کے آخری دوشبنہ (سوموار) کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک جنازے میں جنت البقع‘‘ تشریف لے گئے۔ واپسی پر سردرد محسوس ہوا۔ اور یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہماری کی ابتدا تھی۔ مولانا محمد جعفر پھلواروی اپنی کتاب ’’پیغمبر انسانیت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ایک دن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جنت البقع سے واپس تشریف لائے تو سردرد کی تکلیف محسوس ہوئی۔ اُس دن 29صفر 11ھ یوم دوشنبہ (سوموار تھا۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ تحریر کرتے ہیں۔ ’’آخر ی چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس میں آپ صلی اﷲ کی صحت ہالی کا کوئی احکام شریعت حصہ دوم صفحہ 193۔194)۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒلکھتے ہیں۔: ’’آخری چہار شبنہ کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ اس دن رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو شدت مرض واقع ہوئی۔ تو یہودیوں نے خوشی منائی تھی (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 15)
اس کے بعد یہ کہنا کہ صفر کے آخری چہار شبنہ کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غسل صحت کیا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ جب کہ آپ کے عارضے دوشنبہ یعنی سوار کے بعد تو صفر کا آخری چہار شبنہ آیا ہی نہیں۔
دوسری طرف ماہ صفر کے حوالے سے کچھ اہم باتیں قابل غور ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفر کے مہینے میں اپنی علالت کے باوجود حضرت زیدؓ (لشکر روانہ کرنے کے حوالے سے اپنے دست مبارک سے جھنڈا تیار کیا اور یہ دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے: ’’اﷲ کے نام کی برکت سے اﷲ کے راستے میں جہاد کے لیے اﷲ کی رضا کے لیے‘‘۔ (معارج النبوۃ صفحہ 479) صفر کی ستائیس تاریخ کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی کہ ماہ صفر میں آزریا ہئجان فتح ہوا۔ صفر کی دس تاریخ کو یمنی قبائل نے اسلام قبول کیا۔ صفر کے مہینے میں حضرت خالد بن ولیدؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس لیے علماء نے ایسی مہینے کو صفر المظفرکا میابی والا مہینہ قرار دیا ہے۔
لہٰذا سمجھ دار انسان وہ ہے کہ جسے عمر کے جس حصے میں بھی پتہ چل جائے کہ یہ چیز غلط ہے۔ اُسے چھوڑ دے نہ کہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ ہمیں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کو اپنی بات پر ترجیح دینی چاہیے کہ ’’دین میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا اضافہ کرنا گمراہی ہے اور گمررہی جہنم میں لے جائے گی۔ اور دین وہی ہے جو رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کرنے کا حکم دیا کرکے دکھایا یا صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا اور اسے حدیث کی شکل میں محفوظ کردیا اور
محمد کی غلامی دین حق کی شرط اوّل ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے