حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ
سنہ۵ھ میں خندق کا معرکہ پیش آیا۔ بنو قریظہ (یہودیوں) کے محلہ کے نزدیک مسلمان عورتوں کو ایک قلعہ نما عمارت میں رکھا گیا تھا تا کہ دشمن کی دست برد سے محفوظ رہیں۔ یہودی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے ایک یہودی کو پھاٹک کے پاس پھرتے ہوئے دیکھ لیا، انہوں نے فوراً خیمے کی ایک چوب اکھاڑ لی اور یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کی کھوپڑی پھٹ گئی، پھر اس کا سر کاٹ کر نیچے پھینک دیا۔ اس سے یہودی یہ سمجھے کہ قلعہ میں سپاہ موجود ہے، اس لیے انہیں پھر کسی زیادتی کی جرأت نہ ہوئی۔
یہ بی بی صفیہ رضی اﷲ عنہا کون ہیں؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی، حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور شیر خدا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی بہن۔ وصف شجاعت ان کی خاندانی میراث تھی۔ اُحد کے روز شکست کی خبر مدینہ منورہ میں پہنچی تو وہ فوراً جنگ کے میدان میں پہنچ گئیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے صاحبزادے (حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ) سے فرمایا اپنی والدہ کو حمزہ رضی اﷲ عنہ کی لاش سے دور رکھو، کہیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔ ان کے کانوں تک آواز پہنچ گئی، وہ بولیں: میں ماجرا سن چکی ہوں، اﷲ کے راستے میں سب گوارا ہے۔ شہید بھائی کی مثلہ شدہ لاش دیکھی تو انا ﷲ پڑھا اور جگر تھام کے رہ گئیں۔
جب مائیں ایسی مثالی شجاعت اور بسالت کی مالک ہوں تو ان کی کو کھ سے جنم لینے والے فرزند کا کیا حال ہوگا؟ یہ تھے حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ، حضرت عبدالمطلب کے نواسے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پھوپھی زاد بھائی، حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے سگے بھتیجے، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے داماد، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے بہنوئی، بی بی اسماء رضی اﷲ عنہا کے شوہر اور سیدنا عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے والد۔ سبحان اﷲ کیسی کیسی نسبتیں ان کے حصے میں آئی تھیں؟
سولہ سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر الَسَّابِقُوْنَ الْاَ وَّلُوْنَ کے زمرۂ قدسیہ میں شامل ہوئے۔ گھر والوں نے ایذار سانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جادۂ مستقیمہ سے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر دھونی دیتا تھا، مگر کیا مجال کہ پائے ثبات میں کوئی لغزش آجائے۔
جنوں جب کار فرما ہو، تو کام آتی نہیں اصلاً
یہ تادیبیں یہ تہدیدیں، یہ تنبیہیں یہ تعزیریں
پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہاں سے واپس آئے تو مدینہ منورہ چلے گئے۔ بہادر تو تھے ہی، تمام غزوات میں شریک ہو کر دادِ شجاعت دیتے رہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے تلوار میان سے باہر نکالنے والے حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ ہی ہیں۔ قصہ یہ پیش آیا کہ مکی زندگی میں ایک روز یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اِنہوں نے سنا تو بے چین ہوگئے ۔فوراً ننگی تلوار لے کر لوگوں کو چیرتے ہوئے بارگاہ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم میں پہنچ گئے۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا زبیر! کیا بات ہے؟ عرض کیا حضور! صلی اﷲ علیہ وسلم میں نے اس طرح سنا تھا …… حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فوراً دعا کے ہاتھ اٹھا دئیے۔ نہ صرف زبیر رضی اﷲ عنہ کے حق میں بلکہ ان کی شمشیر بے نیام کے حق میں بھی (استیعاب ص ۲۰۸)
حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ نے بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں مرد انگی کے جوہر دکھائے۔ باڈی گارڈ کی حیثیت سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آس پاس رہتے تھے۔ آپ کے خیمے کی پاسبانی کرتے غزوۂ خندق کے موقعہ پر یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ نے بد عہدی دکھائی۔ میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہو ں نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی کو بھیج کر ان کی سرگرمیوں کے بارے میں دریافت فرمانا چاہتے تھے۔ آپ نے تین مرتبہ پوچھا: کون ہے جو ان کی خبر لے آئے؟ ہر مرتبہ حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ اپنی خدمات پیش کرتے رہے اس پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اِنَّ لِکُلِّ نَبِیّ حَوَارِیاً وَحَوَارِیِّی الزُّبَیر (بخاری، مسلم وغیرہ) ہر نبی کو ایک خاص مدد گار ملتا ہے اور میرا خاص مدد گار زبیر ہے۔
جب حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ بنو قریظہ سے واپس آئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رپورٹ سنائی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تحسین میں فرمایا۔ فداک ابی وامی (بخاری وغیرہ) ان دو ارشادات کے علاوہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ دو فرمان بھی حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ کے سر افتخار کو بلند کرتے ہیں۔
(۱لف) اَلزُّبَیرُ فِی الجَنَّۃ (ب) طَلحَۃُ وَالزُّبَیرُ جَارَایَ فِی الجَنَّۃِ
عہد نبوت کے بعد،د ور خلافت راشدہ میں بھی، حضرت زیبر رضی اﷲ عنہ کی کار کردگی مثالی رہی۔ مگر زمانے کی بو قلمونی دیکھیے کہ وہ حواریٔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم جو کبھی دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو الٹ پلٹ دیتا تھا، جنگ جمل کے روز، جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے سمجھا نے پر وہ کنارہ کش ہو کر چلے گئے، تو پیچھے سے ایک بد بخت نے جاکر عین نماز کی حالت میں ان کا سرتن سے جدا (۱) کردیا، پھر ان کی تلوار لے کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں واپس آیا۔ و ہ دادو تحسین کا امید وار تھا، مگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے جہنم کی وعید سنائی۔ (استیعاب ص ۲۰۹۔ اصابہ ص ۵۴۶)
حاشیہ
(۱) قدرت کے کھیل بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مدینہ منورہ میں منبر پر کھڑے ہوئے سینکڑوں میل دور نہاوند کے مقام پر لڑنے والے سالار کو ہدایت دیتے ہیں: یا ساریۃ الجبل (اے ساریہ! تم پہاڑ کی اوٹ میں چلے جاؤ) اور ایک وہ وقت آیا کہ آپ رضی اﷲ عنہ نماز پڑھانے کے لیے مصلیٰ پر کھڑے ہیں۔ پتہ نہیں چلتا کہ آگے دشمن بر ہنہ خنجر لے کر بیٹھا ہے۔ وہ وار کرتا ہے جو کاری ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ حضرت زبیر کا ہے۔ یا تو ان کی تلوار اوروں کی حفاظت کرتی تھی یا پھر دشمن کے ایک ہی وار نے ان کا کام تمام کردیا۔ ماشاء اللّٰہ کان ومالم یشاء لم یکن۔