ڈاکٹرعمرفاروق احرار
قادیانیوں کو پاکستان میں غیرمسلم اقلیت قراردینے کی یادمیں ہرسال7؍ستمبرکو ’’یوم ختم نبوت‘‘ منایا جاتا ہے۔ کیونکہ 7؍ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اکیس روزکی کارروائی کے بعدمتفقہ طورپر قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کی قراردادمنظورکی تھی۔جس کی بدولت مسلمانانِ برصغیرکا نوے سالہ مطالبہ پوراہوا،اورپہلی بار منکرین ختم نبوت کی آئینی حیثیت متعین ہوئی ۔’’یوم ختم نبوت‘‘منانے کی داغ بیل آج سے تین دہائی قبل مجلس احرار اسلام نے ڈالی تھی۔الحمدﷲ یہ روایت اب اس قدر مستحکم ومضبوط ہوچکی ہے کہ اب نہ صرف پاکستان کے تمام شہروں اور قصبات کے تمام مسالک کے مسلمان اس تاریخی یوم کی یادوں کو زندہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں،بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اس روزعقیدۂ ختم نبوت سے اپنی لازوال اوراَمٹ عقیدت ومحبت کا اظہار بطور تجدید عہد کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یہ مبارک دن پورے تزک واحتشام کے ساتھ منایاگیا۔چھوٹے بڑے شہروں میں تحفظ ختم نبوت کے اجتماعات ہوئے۔ اس موقع پر اخبارات نے خصوصی اشاعتیں جاری کیں اورالیکٹرانک میڈیانے بھی سپیشل پروگرام پیش کر کے شہداو مجاہدین ختم نبوت کی جدوجہدکو سلام پیش کیا،جن کی محنت وسعی سے منکرین ختم نبوت اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
اس حقیقت کو دُہرانے کی اب ضرورت ہی باقی نہیں رہی کہ متحدہ ہندوستان میں قادیانیت کا خمیرانگریزنے اپنے مفادات کی خاطراُٹھایاتھا،جسے مذہب کارُوپ دیاگیااورمسلمانوں میں انتشارواِفتراق کا بیج بویاگیا۔اب مسلمان قادیانیت کے مکروفریب سے آگاہ ہوچکے ہیں،کیونکہ ماضی میں علمائے کرام،مشائخ عظام اورقومی رہنماؤں کی علمی اور نظریاتی جدوجہدنے جہاں قادیانیت کوہرمحاذپرچاروں شانے چت کیا،وہیں مسلمانوں میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت سے روشناسی پیداہوئی اورآج دنیابھر میں قادیانیت کو کفرواِرتدادکا مترادف سمجھاجاتاہے۔عرب دنیا میں قادیانیوں نے نقب لگانے کی کوشش کی اورکئی مسلمانوں کو راہِ ہدایت سے بھٹکادیا،مگر اب اُن میں سے باشعور لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کے مطالعہ کے بعددوبارہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔گزشتہ چندسالوں میں کئی اہم قادیانی عرب اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔جن میں ہانی طاہر(مقیم لندن)جوعرب ممالک میں قادیانیوں کے چینل ایم ٹی اے کے ناموراینکرپرسن تھے،وہ اسلام کی حقانیت سے متاثرہوکرقادیانیت ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہانی طاہرہی کی بدولت بہت سے افرادنے قادیانیت کو خیربادکہا۔اُن میں معروف صابر،حاتم بن عمر، صدیقی المہندس، محمد فوزی مصر،عکرمہ نجمی لندن اورحال ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے عراق کے نوجوان مصطفی عبد القادر کے نام نمایاں ہیں۔قادیانی فتنہ سے امت مسلمہ کی آگاہی اوردینی رہنماؤں کی محنت سے عوامی بیداری خوش آئندہے۔
اسلام کی بادِ بہاری کے جانفزا جھونکے جاری ہیں۔چنددن پہلے 2؍ستمبرکویہ خوش کن اعلان دیکھنے کو ملاکہ کینیڈا کی ایک پیدائشی قادیانی خاتون وجیہہ ظفرنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیااورقادیانی سربراہ مرزامسروراحمدکو ایک خط کے ذریعے اپنے فیصلہ سے مطلع کرتے ہوئے لکھا کہ ’’میں جماعت احمدیہ کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکی ہوں۔ جن میں انتظامی امور کے علاوہ درس وتدریس اوررسائل کی ادارت وغیرہ شامل ہے۔مجھے جماعت احمدیہ میں بہت سے نقائص نے بانی جماعت [مرزاغلام احمد] کی کتب کا مکررمطالعہ کرنے پر مجبورکیا اورجماعت کے سربراہان کے فیصلوں اور عہدیداروں کے رویوں اوربانی جماعت مرزاقادیانی کی قرآنی تعلیمات کی صریحاً غلط تشریحات نے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ اگر میں اس اسلام پر قائم رہناچاہتی ہوں جوقرآن کریم پیش کررہاہے تو مجھے جماعت احمدیہ کی غیر قرآنی تعلیمات کو چھوڑنا ہوگا اور مرزا غلام احمد قادیانی جن کو میں اپنے آباواجدادکے عقیدے کے مطابق اما م مہدی، مسیح موعود اور نبی مانتی تھی،اب قرآنی تعلیم سمجھنے کے بعدمیں مرزاغلام احمدقادیانی کوایک کاذب اورمفتری جانتی ہوں۔ قرآن میں کاذب کے متعلق ’’لعنت اﷲ علی الکذبین‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اورمیں ایسے شخص اوراُس کے جانشین مرزا مسرور سے اپنے تعلق کو جو ایک بیعت نامہ کی شکل میں تھا، اس تحریرکے ذریعے اُسے ختم کرتی ہوں۔ لہٰذا اب آپ کے متعلقین مجھ سے کسی قسم کارابطہ نہ کریں۔‘‘ وجیہہ ظفربہن کے اس خط نے ہمیں یہ پیغام دیاہے کہ قادیانیت کے محاذپر کام کرنے کے لیے ہمیں اپنے اسلوب کو بدلنے کی ضرورت ہے۔حکمت ونصیحت کے ساتھ دعوتِ اسلام دینے کی مستقل حکمت عملی اختیارکرناوقت کا ناگزیرتقاضاہے۔تاکہ قادیانیت کے نرغے میں آئے ہوئے لوگ اسلام کی آغوش میں آسکیں۔
عقیدۂ ختم نبوت مسلمانوں کی اجتماعیت ومرکزیت کا عظیم نشان اورمنفردشناخت ہے۔اس کے تحفظ کے لیے ہزاروں مسلمانوں نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔قربانی وایثارکے اس تسلسل کو برقراررکھنااورختم نبوت کے عظیم منصب کی پاسبانی کرناہمارادینی فرض ہے۔جس کو بجالانے کے لیے ہماری تمام صلاحیتیں اوروسائل صرف ہونے چاہئیں۔تاکہ دشمن ہمارے عقیدہ کو زک پہنچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔دوماہ پیشتر برطانوی پارلیمنٹ کے چالیس ارکان پر مشتمل فورم ’’آل پارٹیزپارلیمنٹری گروپ فاردی احمدیہ مسلم کمیونٹی ‘‘نے پاکستان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی ایک انتہائی خطرناک رپورٹ جاری کی ہے۔جس میں پاکستان کی حکومت پر قادیانیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد انگیزی کے الزامات عائدکرتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ جبروتشددریاستی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔ 167صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کے موقف کو لیے بغیراُسے نشانہ پر رکھا گیا ہے۔ اس بے بنیاد اور شرمناک رپورٹ کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ جس کا حکومتی سطح پرجواب دیا جانا اشد ضروری ہے۔ رپورٹ میں حسب عادت مجلس احراراسلام پر بھی تنقیدسے گریزنہیں کیاگیا۔مجلس احراراسلام کے ترجمان نے اس رپورٹ کو شرانگیز قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے اِس عزم کا اظہارکیاہے کہ ’’قادیانیوں اور اُن کے دائمی برطانوی سرپرستوں کے بے بنیاد پراپیگنڈے کے باوجود عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی پُر امن آئینی وعوامی جدوجہد جاری رہے گی۔‘‘شہیدانِ ختم نبوت کا مقدس خون بھی ہم سے یہی تقاضاکرتاہے کہ تمام تر قدغنوں اور رُکاوٹوں کے باوجوداپنے قافلہ کو ہمیشہ کی طرح رواں دواں رکھا جائے۔اِسی عزم وارادے کی تجدید ’’یومِ ختم نبوت‘‘ کے موقع پر بھی کی گئی اورنظریاتی وجغرافیائی دشمنوں سے اسلام اورپاکستان کے تحفظ کے عہد کو دُہرایا گیا۔