سید محمد کفیل بخاری
(1966ء …………2020ء)
رحیم یار خان سے گیارہ کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ’’بستی مولویان‘‘ تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ یہاں چوہان برادری کی اکثریت آباد ہے۔ 30جون 2020ء کو چوہان برادری کے ایک باہمت پُرعزم او ر بہادر سیاسی وسماجی رہنما حافظ مولوی محمد طارق چوہان انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولوی محمد طارق چوہان رحمہ اﷲ کے خاندان سے خانوادۂ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کا قدیمی تعلق ہے۔ اُن کے دادا مولوی قمر الدین رحمہ اﷲ علاقے کی معروف ومحترم شخصیت تھے۔ اسی طرح مولوی صالح محمد چوہان رحمہ اﷲ بھی اپنی برادری میں بہت معزز ومحترم تھے۔ پیشے کے لحاظ سے دونوں زمیندار تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پر حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ پہلی مرتبہ 1952ء میں بستی مولویان میں تشریف لائے اور عوام سے خطاب بھی فرمایا۔ پھر انہی بزرگوں نے جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ کو 1967ء میں دعوت دے کر اپنے پاس بلایا اور مجلس احرار اسلام کی باقاعدہ تشکیل کی۔
مولوی قمر الدین چوہان رحمہ اﷲ کا خاندان ہمیشہ انباء امیر شریعت اور اکابر احرار کا میزبان رہا اور محبت وخدمت کا حق ادا کیا۔ مولوی قمرالدین رحمہ اﷲ کے فرزندان صوفی محمد اسحق، حافظ محمد اسمٰعیل اور مولوی محمد ادریس رحمھم اﷲ نے اپنے والد ماجد کے تعلق کو جس خلوص وایثار اور وفاداری سے نبھایا وہ لازوال اور اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنی اولادوں کو بھی اسی راہ پر گامزن کیا اور تیسری نسل کو خانوادۂ امیر شریعت سے جوڑ دیا۔
مولوی محمد طارق چوہان رحمہ اﷲ سے میری پہلی ملاقات تحریک طلباء اسلام پاکستان کے مرکزی کنونشن منعقدہ 29۔30۔ نومبر 1974ء ٹاؤن ہال رحیم یار خان کے اجتماع میں ہوئی تھی۔ تب اُن کی عمر 8سال تھی۔ وہ اپنے والد صوفی محمد اسحق رحمہ اﷲ کے ساتھ تحریک طلباء اسلام کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔ میں پہلی مرتبہ اسی موقعے پر رحیم یار خان گیا تھا۔ لیکن بستی مولویان میں 1980ء کے عشرے میں مجلس احرار اسلام کی تنظیمی سرگرمیوں کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلے اُن کے والد صوفی محمد اسحق رحمہ اﷲ کے ڈیرے پر قیام رہا، بعد میں اُن کے چچا حافظ محمد اسمٰعیل رحمہ اﷲ کے ڈیرے پر قیام رہا جو احرار کی سرگرمیوں کا مرکزبن گیا۔
مولوی محمد طارق چوہان نوجوانی میں ہی سیاسی وسماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑے ہی عرصے میں وہ اپنے علاقے میں سیاسی افق پر اُبھرے اور برادری میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ اگرچہ اُن کا دینی وفکری تعلق ہمیشہ مجلس احرار اسلام سے ہی رہا لیکن علاقائی سیاست کے تقاضوں کے تحت وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔ جہانگیر ترین، مخدوم احمد محمود اور خسرو بختیار جیسے گھاگ جاگیرداروں کی موجودگی میں الیکشن لڑنا بڑی جرأت اور بہادری کا کام تھا۔ 2012ء سے 2018ء تک انہوں نے ضمنی اور جنرل الیکشن میں چار بار حصہ لیا۔ آخری الیکشن میں انہوں نے 52ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن کا میاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے اپنا سیاسی کیریئربنانے میں بہت محنت کی۔ ان کی چوہان برادری نے بھی بہت ساتھ دیا۔ جس طرح وہ اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کر رہے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ آئندہ انتخاب میں وہ نمایاں کا میابی حاصل کریں گے۔
مولوی طارق چوہان رحمہ اﷲ اپنی سیاسی مشغولیت کے باوجود خانوادۂ امیر شریعت اور اکابر احرار کی خدمت کے لیے بہت وقت نکالتے،جس طرح اُن کے دادا مولوی قمرالدین رحمہ اﷲ ،والد صوفی محمد اسحق رحمہ اﷲ اور چچا حافظ محمد اسمٰعیل رحمہ اﷲ نے جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ، حضرت سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ، حضرت سید عطا المؤمن بخاری رحمہ اﷲ، اور قائد ا حرار حضرت پیرجی عطاء المہیمن بخاری دامت برکا تہم کا ساتھ دیا۔ مجلس احرار اسلام کو افرادی ومالی قوت بہم پنچائی اسی طرح مولوی محمد طارق چوہان رحمہ اﷲ نے اپنی موروثی وخاندانی روایت کو زندہ رکھا۔ اپنا گھر، ڈیرہ، وسائل ، اولاد اور دوست احباب کو خدمت احرار کے لیے وقف کیے رکھا۔ ابناء امیر شریعت اور دیگر احرار رہنما دو دوہفتے اور کبھی اس سے بھی زیادہ اُن کے مہمان رہے۔ ضلع بھر کے تنظیمی دورے کیے لیکن ان کے خاندان نے ہمیشہ دل وجان سے جماعت کی خدمت کی۔
1977ء کے انتخابات میں ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ نے صوبائی سیٹ پر انتخاب لڑا، اسی خاندان نے مہینہ بھر کی انتخابی مہم کے مصارف بڑی خوشی سے برداشت کیے۔
جون 2020کے آخری عشرے میں مولوی طارق رحمہ اﷲ نے فون پر مجھے اپنی علالت کی خبردی کہ میرا کورونا ٹیسٹ پاز یٹو آگیاہے۔ لیکن وہ مکمل حوصلے میں تھے۔ لاہور میں علاج کے دوران بھی اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہے۔ لاہور سے اپنے گھر رحیم یار خان واپس جاتے ہوئے بھی فون پر بڑے حوصلے کے ساتھ اپنی صحت کے متعلق بتایا کہ بہتر ہور ہی ہے۔ مسلسل دعاؤں کی درخواست کرتے رہے۔
انتقال سے تین چار روز قبل بھی فون پر رابطہ کیا اور بہتری کی خوش خبری سنائی۔30جون کی صبح اُن کے فرزند محمد زہیر کی کال آئی تو میرا ماتھا ٹھنکا، اﷲ خیر کرے۔ اُدھر سے بھرائی ہوئی آواز میں زہیر نے صرف ایک جملہ کہا:
’’شاہ جی! ابو چھوڑ گئے‘‘ بے ساختہ انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور نماز جنازہ میں شرکت کے لیے سفرکی تیاری کرکے جناب ڈاکٹر محمد آصف کی معیت میں روانہ ہوگیا۔ دوران سفر اُن کے ساتھ چالیس سالہ رفاقت کے واقعات یاد آتے رہے۔ اُن کی جدائی پر دل بہت غمگین رہا ۔نماز جنازہ راقم نے ہی پڑھائی۔ نماز جنازہ میں عوام کا بہت بڑا ہجوم تھا جو انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کے لیے دعا ء مغفرت کر رہا تھا۔ یہ اُن کی عوام سے محبت اور خدمت کا نتیجہ تھا۔ یار مہربان مولوی محمد طارق چوہان نے 54سال عمر پائی۔
پسماندگان میں تین فرزند ان محمد عمیر، محمد عزیر، محمد زہیر تین بیٹیاں اور ایک بیوہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی لغزشیں معاف فرمائے، حسنات قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور تمام لو احقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے (آمین)