حضرت سید عبدالرب صوفی علیہ الرحمہ
انھیں آخر نہ ہوگی دین و دنیا کی خبر کب تک نہ ہوگا قصہ ان کی غفلتوں کا مختصر کب تک
نہ ہوں گے اُف یہ آوارہ نظر بالغ نظر کب تک نہ ہوں گے نور ایمان سے مسلماں دیدہ ور کب تک
ملے یوسف سے پر سو نگھی نہ بوئے پیر ہن اب بھی پڑھا قرآں نہ سمجھے معنی قوم ووطن اب بھی
خدا نے اِنَّ ارضی واسِعہ ارشاد فرمایا خطاب مؤمنون أِخْوَۃٌ سے یاد فرمایا
انھیں کعبہ کے گردا گرد یوں آباد فرمای کہ ربط اتحاد مرکزی ایجاد فرمایا
کہیں پھولیں پھلیں ہر باغ ہے قومی چمن ان کا یہ ساری پود مسلم قوم ہے دنیا وطن ان کا
وطن سارا جہاں ہے مرکز قوم ووطن کعبہ کہیں یہ پود پہنچے ہر ذخیرہ کا چمن کعبہ
کہیں آوارۂ تبلیغ ہوں ہے انجمن کعبہ
بنا لیں گھر کہیں بھی ہے مگر بیتِ کہن کعبہ کہیں بھی جا کے چھا جائے مسلماں قوم واحد ہے
وطن اس قوم کا سارا جہاں تاریخ شاہد ہے اگر مکہ میں تنگی ہو حبش بھی ہے وطن اپنا
حبش سے دل اگر اٹھے مدینہ ہے چمن اپنا کہیں کی خاک کا بندہ نہیں ہر گز بدن اپنا
جہاں چاہیں کریں روشن چراغ انجمن اپنا سکون و انقلاب اپنا قرار و اضطراب اپنا
دن اپنا آفتاب اپنا شب اپنی ماہتاب اپنا اگر سوئے حبش ہجرت کریں وہ بھی مسلماں ہیں
اگر اسپین میں چھکیں تو وہ بھی تیغِ ایماں ہیں ڈکاریں ہند کے بن میں تو وہ بھی شیریزداں ہیں
کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں مسلماں ہیں تو یکساں ہیں وہ دن بھی تھے کہ پاس اُخرِجَتْ لِلنَّاس تھا
جہاں پر حکمراں صوفیؔ تھے جب احساس تھا ہم کو