قاری محمد اکرام ۔ سیالکوٹ
مجلس احرار کے شب زندہ داروں کو سلام
آسمان حریت کے چاند تاروں کو سلام رونق محفل تھے جو احرار کے اسٹیج پر
ان سبھی علم وعمل کے شہسواروں کو سلام وردیوں میں کار کن جن کے جلو میں شاہ جیؒ
دین حق کے سر بکف خدمت گزاروں کو سلام شاہ جیؒ کے اک اشارے پر فدا ہوتے تھے جو
اُن مقدس غازیوں اور جان بازوں کو سلام کٹ گئے کتنے وفادار نبی صلی اﷲ علیہ وسلم لاہور میں
راہِ حق کے سب شہیدوں کامگاروں کو سلام خون دیا ختم نبوت کی حفاظت کے لیے
اعتقادِ مرکزی کے پاسداروں کو سلام آج بھی اکرامؔ ان کی عظمتوں کی جیت ہے
راہ حق میں جان دینا عاشقوں کی ریت ہے
_____________________
زندگی
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی تلخ تر ہو کر بھی میٹھی ہے شراب زندگی
طول عمر نوحؑ سے ہم کو ملا ہے یہ سبق ڈوب جاتا ہے بالآخر آفتاب زندگی
زیر چرخ نیلگوں کچھ سانس لینے کیلئے پینا ہی پڑتا ہے سب کو زہر ناب زندگی
حکم یار ہی تو دکھاتا ہے ہمیں راہ عمل اور مقصد سے ہٹاتا ہے سراب زندگی
زندگی کی شادیوں رعنائیوں پر مت مچل توڑ دیتی ہے قضا سب آب وتاب زندگی
نا مرادی بے بسی مایوسیوں کے باب ہیں میں نے دیکھی ہے جہاں تک بھی کتاب زندگی
عالم نا سوت کا اؤل بھی غم اور آخر بھی غم نکتہ دانوں سے ہوا حاصل جواب زندگی
ایک ہچکی ہے طلسمِ رنگ وبو کا اختتام تھا یہی اکرامؔ سرمایہ خواب زندگی