منصور اصغر راجہ
29؍ جولائی 2020ء کو پشاور ہائی کورٹ میں ایک نوجوان غازی فیصل خالد نے جھوٹے مدعی نبوت طاہر نسیم احمد کو قتل کردیا۔ اسی طرح 13؍ اگست 2020ء کو معراج احمد نامی ایک قادیانی کو بھی قتل کردیا گیا۔ ذیل کی تحریر انہی واقعات کے اسباب ومحرکات پر جناب منصور اصغر راجہ کے بے لاگ تجز یے پر مشتمل ہے (ادارہ)
گزشتہ چند روز سے پشاور واقعے کے متعلق مذہبی و غیر مذہبی دانشوروں کی آرا ء نظر سے گزر رہی ہیں۔ ایک طرف اگرتوہین اور اس کی شرعی سزا کے بارے میں فقہی موشگافیاں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب یار لوگ غریب مولوی کو منہ بھر بھر کے ملاحیاں سنا رہے ہیں کہ اس پر یہ الزام ہے کہ وہ لوگوں کو جذباتی طور پر مشتعل کرتا ہے۔ جس کے باعث ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہمارے ایک ادیب دوست تو اس واقعے پر اتنے رنجیدہ ہیں کہ انہوں نے اس قوم کو ہی ’’ بندے مار قوم‘‘ قرار دے دیا۔ ہم ان دانشوران قوم کی آراء کا احترام کرتے ہیں لیکن صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سوال اٹھانے کی جسارت ضرور کریں گے کہ آخر ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟
نائن الیون کے بعدجہاں دنیا بھر میں اور کئی تبدیلیاں آئیں اور نئی عسکری، سیاسی و غیر سیاسی اور تہذیبی روایات نے جڑ پکڑی، وہیں پاکستان میں خاص طور پر توہین مذہب اور توہین رسالت کو بھی فیشن کے طور پر رواج دینے کی سعی کی گئی۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کا نصاب پڑھانے والے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوخیز ذہن جب مستشرقین کی لکھی ہوئی اسلامیات پڑھتے ہیں تو وہ انہی کے انداز میں بحث کرتے ہیں جس سے بات بگڑتی ہے ور ردعمل کی صورت میں گاہے تشدد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لوگ اسی وقت قانون ہاتھ میں لیتے ہیں جب قانون و عدل کے ایوانوں میں ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال آسیہ مسیح کیس ہے۔ یاد رہے کہ جس روز سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کو رہا کرنے کا حکم سنایا، عین اسی وقت اس کیس کے مدعی قاری سالم صاحب کو سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر پولیس نے یہ کہہ کر روک رکھا تھا کہ آپ کو کمرہ ٔعدالت میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت اس طور قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرے گی تو پھر عام آدمی لامحالہ طور پر دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچے گا۔ کچھ دانشوروں کو اس بات کی بڑی تکلیف ہے کہ جب بھی پشاور جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگوں کو غازی علم الدین شہید رحمہ اﷲ کے بارے میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا یہ جملہ یاد آنے لگتا ہے کہ…… ’’اسی گلاںّ کردے رہ گئے ، ترکھا ناں دا منڈا بازی لے گیا۔‘‘ اس سلسلے میں تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جب راجپال کی شائع کردہ دل آزار کتاب کے خلاف مسلمانوں نے قانونی چارہ جوئی کی تو عدالت نے انہیں بے حد مایوس کیا۔ مقامی عدالت نے راجپال کو صرف چھے مہینے قید کی سزا دی۔ ملزم نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی تو جسٹس دلیپ سنگھ نے سزا کو معطل کرتے ہوے ملزم کو بری کر دیا۔ ہم آج بھی یہ سوچتے ہیں کہ اگر عدالت راج پال کیس میں قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرتی تو شاید ’’ترکھاناں دا منڈا‘‘ قانون ہاتھ میں نہ لیتا۔ دانشوران قوم کو یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ توہین رسالت کے بارے میں مسلم امہ بے حد حساس ہے۔ اس حساسیت کے سامنے صرف قانون ہی بند باندھ سکتا ہے، اگر وہ اپنا کام صحیح کرے تو۔ اس لیے مولوی کو کوسنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ سرکار کو مشورہ دیا جاے کہ ایک تو وہ نجی اداروں میں پڑھائی جانے والی اسلامیات کے بارے میں کوئی متفقہ پالیسی طے کرے تاکہ نوخیز ذہنوں کو آلودہ کرنے کی اس بین الاقوامی سازش کے آگے بند باندھا جا سکے۔ دوسرا یہ کہ ایسے مقدمات میں قانون و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ مقدمات کو خواہ مخواہ لٹکایا نہ جاے۔ اگر خدشہ ہو کہ جرح کے دوران ایسے نکات اور مباحث سامنے آ سکتے ہیں جس سے عام آدمی مشتعل ہوسکتا ہے تو پھر ایسے حساس مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں نہیں ہونی چاہیے۔ اور آخر ی بات سرکاری سطح پر یہ تاثر ختم کرنا ضروری ہے کہ توہین رسالت کے ملزموں کے مقدمات کو اس لیے لٹکایا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی مناسب وقت پر بیرون ملک فرار کرایا جاسکے۔ یاد رہے کہ لوگ اسی وقت قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں جب قانون و عدل کے ایوانوں میں ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔