ڈاکٹر محمد آصف
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنْ۔( حم السجدہ 33)
ترجمہ: اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں ۔
اﷲ رب العالمین نے کیسا مبارک نسخہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے اچھی بات اور پیاری بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ ،دین کا پابند اور اﷲ تعالیٰ کا فرما بردار ہو۔
حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا! خدا کی قسم تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے (بخاری کتاب الجہاد)
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے اﷲ کا جو دین آپ کو ملا ہے اسے دوسروں تک پہنچانا آپ کا فرض ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ اسی وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش قرار پائیں گے جب آپ دنیا سے اس حال میں جائیں کہ اﷲ تعالیٰ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچا چکے ہوں یا اس پیغام کو پہنچا نے کا ذریعہ بن چکے ہوں۔
کفر و شرک، قدیم فتنوں، جدید ترین گمراہ کن عقائد ونظریات، رسم و رواج، نفرت اور دشمنی کے اس ماحول میں قرآن مجید کا یہ نسخہ اکسیر اعظم ہے۔ امت مسلمہ کا شیوہ اپنے نبی بر حق محسن انسانیت رحمۃ اللعالمین ،خاتم النبیین حضرت محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسو ہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے قادیانیوں سمیت تمام غیر مسلموں کو دعوت اسلام کا کام بغیر کسی دنیوی لالچ اور سیاسی و مادی مفاد کے کرنا ہے ۔
افسوس! کہ آج مسلمان اپنے اس منصب اور فرض سے اس قدر غافل ہو گیا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو بالکل بھول گیا او ر دیگر قومو ں کی طرح کمانا ،کھانا اور دنیوی ترقیات کو اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ کل تک جو امت، امت دعوت تھی آج وہ ایک مدعو امت بن گئی ہے۔ جو امت، امت خیر تھی آج وہاں سے شر پھوٹ رہا ہے۔
تمام دنیا کا کفر اور فتنوں کے شکار گروہ اسے اپنی اپنی دعوت دے رہے ہیں اور یہ صرف اپنے بچاؤ اور احتجاج پر لگی ہوئی ہے۔ ہمارا جو دیندار طبقہ کہلاتا ہے، جسے کچھ موت کا خیال یا آخرت کی فکر ہے، اس نے نماز ،روزہ کی ادائیگی اور ذکر وتلاوت جیسے اعمال کو مکمل دین سمجھ لیا ہے یا کسی عوامی معاملے پر احتجاج یا لعنتوں کی گردان پڑھ کر سمجھتاہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ بہت مختصر سے لوگ انفرادی طور پر دعوت کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ جماعتیں مسلمانوں میں اصلاح اور اعمال کی درستی پر کام کر رہی ہیں۔ وہ بھی ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں ایمان کی چنگاری فروزاں کرنا ان کے اندر ایمان کی دعوت کو عام کرنا بھی ضروری ہے۔
اپنے اندر دعوتی کا م کی صلاحیت موجود نہ ہونے کا احساس بھی انسان کو دعوت کے کام سے روکے رکھتا ہے۔ جس مسلمان کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے اس کو یقین ہے کہ کفر و شرک یا موجودہ دور کے کسی بھی فتنہ یا گمراہی کا شکار شخص مرتے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں چلا جائے گا۔
بس ہمیشہ کی دوزخ سے بچانے کا کرب اور اﷲ کے اس بندے پر ترس، دعوت دین کی بنیاد بنتا ہے اور یہ جذبہ ہر مسلمان کے اندر موجود ہوتا ہے دنیا میں جتنے بھی انبیاء ورُسل علیہم السلام مبعوث ہوئے ان سب کا ایک مشترکہ مشن تھا کہ عوام الناس کو کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لایا جائے۔ اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت جو منسوخ تعلیمات یا قدیم و جدید بے شمار فتنوں کا شکار ہو کرلذت حیات اور حقیقی ہدایت سے محروم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ایسے لوگ زندوں میں رہے نہ مردوں میں رہے۔ اپنے تن من دھن کے ساتھ جدوجہد کر کے ان کے بنیادی انسانی حقوق بحال کروا کے ان کو لذت زندگی سے آشنا کیا جائے اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر محاسبہ کی بات سمجھا کر اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کی خوشخبری سنا کر ہدایت کی روشنی کی طرف لایا جائے۔
حضو ر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعد امت میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں کا ذکر فرمایا ۔صیح مسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد میری امت پرایک ایسا وقت آئے گا کہ ان میں فتنے اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے کہ ایک شخص اگر صبح کو مؤمن ہے تو شام کو کافر ہو جائے گا اور اگر شام کو مؤمن ہے تو صبح کو کافر ہوجائے گا۔
ہمارا ایمان ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے پیارے حبیب حضرت محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی و رسول پیدا نہیں ہو گا اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہو کر احکامات لینے والی کوئی شخصیت اب قیامت تک نہیں آئے گی۔ قیامت تک حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا دور ہے۔ ایمان اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت سے محروم افراد تک ایمان کی دعوت پہنچانا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے اور سعادت مندی بھی، کیوں کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام والاکام ہے۔
ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق دعوتی کام میں حصہ لے سکتا ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمی جنت میں جائیں گے ،صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے پوچھا کہ وہ کیسے تو آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وہ شخص جو تیرجہادکی نیت سے تیار کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جو تیر پہنچا کر آتا ہے اور تیسرا وہ شخص جو اس تیر کو چلاتا ہے تینوں کو برابر اجر دیا جاتا ہے۔ اپنی صلاحیت کے مطابق جو دوست اس دعوتی کام میں حصہ لینا چاہیں وہ ہم سے رابطہ کریں کسی غیر مسلم تک دعوت پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔
پہلا ذریعہ آپ اپنے ارد گرد موجود کسی قادیانی، بہائی، ہندو، عیسائی یا کسی بھی فتنہ کے شکار شخص کو اگر جانتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ جان پہچان پیدا کر کے ہم سے رابطہ کریں لیکن یاد رکھیں یہ تعلق انتہائی پر خلوص، محبت اور خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ ہو۔ اس میں کسی قسم کے جبر کا عنصر نہ ہو۔ کیوں کہ ہمارے ذمہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ خیر کی بات پہنچانا ہے، منوانا ہمارے ذمہ نہیں ہے۔
دوسرا ذریعہ ہمارے اس دعوتی کام میں ہونے والے اخراجات میں اپنا حصہ ڈال کر شامل ہوسکتے ہیں۔
تیسرا ذریعہ رب العالمین کو پہچان کر آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والے ان خوش نصیب نو مسلمین کی کفالت کے لیے بھرپور معاونت کرکے اپنا حصہ شامل کرسکتے ہیں۔
الحمد ﷲ مجلس احرار اسلام کا قیام 29 ؍ دسمبر 1929ء میں ہوا، جبکہ 1934ء میں شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو قائم کر کے قادیان میں دفتر بنایا گیا تھا۔ مجلس نے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ اس شعبہ میں بھی فعال کردار اد اکیا ہے۔ اﷲ پاک کے فضل و کرم سے آج بھی مجلس احرار اسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے مبلغین پاکستان بھر میں اور پاکستان سے باہر بھی دعوت اسلام کے کام میں مصروف ہیں۔ اس شعبہ میں علماء کرام و مفتیان کے ساتھ ساتھ سابق قادیانی، سابق بہائی، سابق عیسائی اور سابق ہندو اور دہریت سے تائب صالح مسلمان ماہرین کی ایک مضبوط ٹیم موجود ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے والے داعیان الی اﷲ جہاں اسلام اور قادیانیت کے درمیان اختلافی مو ضوعات پر مہارت رکھتے ہیں وہاں وہ گفتگو میں اسلام کے دعوتی اصولو ں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ الحمد ﷲ اس شعبہ کے تحت بے شمار قادیانی، بہائی، عیسائی، دہریے، ہندو وغیرہ اپنا سابقہ مذہب چھوڑ کر حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن عاطفت ورحمت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ جب کہ قادیانیت سے متاثر بہت سے افراد کے شکوک و شبہات کو بھی احسن انداز سے دور کرنے اور انہیں اسلامی عقائد پر پختہ کرنے کے لیے محنت جاری ہے۔ نو مسلمین کو داعی بنا کر اپنے اپنے حلقے میں دعوت کا کام کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
آپ حضرات سے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ خاتم النبیین سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی محبت کی دعوت پر لبیک کہیے تاکہ تحفظ ختم نبوت و دعوت اسلام کی اس جد وجہد کا صدقہ جاریہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہے۔ آپ اور ہم روز قیامت آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بن جائیں۔ آمین یارب العالمین
دعوتی کام میں شامل ہونے کے لیے رابطہ نمبر 0300-9522878 خادم شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت مجلس احرار اسلام پاکستان۔
نوٹ: بلا جھجک فون کریں اگر ایک مرتبہ آپ کا فون اٹینڈنہیں ہوتا تو دوبارہ کسی وقت کر لیں ،یا میسج کر دیں تو ان شاء اﷲ آپ سے رابطہ کر لیا جائے گا۔ اس پیغام کی فوٹو کاپیاں کروا کے تقسیم کریں اور اپنے دوستوں کو بھی اس مقدس کام میں شمولیت کی دعوت دیں۔ والسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ