مفتی محمد راشد ڈَسکوی (استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی)
اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو سال کے بارہ مہینوں میں خاص طرح کا امتیاز حاصل ہے، صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارکہ ہے، جس میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک طویل اور نہایت ہی قیمتی نصائح پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی:
’’(اس وقت) زمانہ اسی رفتار اور ہیئت پر آ چکا ہے، جس دن اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا تھا، ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے یعنی: ذوالقعدہ ذوالحج اور محرم الحرام تو مسلسل ہیں۔ اور ایک ’’رجب‘‘ کا مہینہ ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۴۲۹۴)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مختلف فرمان کے مطابق اس ماہ مبارک میں کیے جانے والے اعمال کا اجر بنسبت دیگر ایام یا مہینوں کے زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مہینے میں روزے رکھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اﷲ تعالیٰ کے یہاں محرم الحرام کے روزے ہیں‘‘۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۱۶۳)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس ماہ کا ہر نیک عمل بہ نسبت دوسرے مہینوں کے بہت بڑھا ہوا ہے؛ چنانچہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے، معاشرے میں ماہِ محرم الحرام سے متعلق کچھ ایسا تصور اور رجحان عام ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے حالانکہ شریعت کا مزاج اور احکام اس کی صریح نفی کرتے ہیں۔
’’عمل ِ نکاح‘‘ چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے، اور مباح کام کا ناجائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ہوتا ہے؛ لیکن اس مہینے میں، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے؛ چنانچہ جب ایسا ہے تو اس ماہ کا نکاح اپنی اصل (مباح ہونے)کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام کا اس بات پر کہ (محرم یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں نکاح کرناجائزہے) کم از کم اجماعِ سکوتی ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم، تابعین وتبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے، جو اس ماہ مبارک میں شادی، بیاہ وغیرہ کو ناجائز قرار دیتا ہو۔ لہٰذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہے تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔
اس ماہ میں نکاح سے منع کرنے کی بنیاد کیا ہے ؟چنانچہ تتبع سے عقلاً اس کی بنیاد اس مہینے کا منحوس ہونا ہو سکتی ہے، یا غم والا مہینہ ہونا(جس کی بناء پر سوگ کو لازم سمجھا جاتا ہے اور سوگ والے دنوں یا مہینوں میں شادی کو جائز سمجھا جاتا)۔ ذیل میں ہر دو امر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
کیا ماہ محرم نحوست والا مہینہ ہے؟
مزاج شریعت سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس مہینے کی نحوست کا قائل نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات سے بہت پہلے سے ہی اس مہینے کا معزز ومکرم اور صاحب شرف ہونا مشہور ومعروف چلا آ رہا ہے، حتی کہ زمانے کی ابتدا سے اب تک ہر ذی شان کام کا اسی مہینے میں وقوع پذیر ہونا زبان زد عام ہے؛ بلکہ روایات کے مطابق تو وقوع قیامت کا عظیم الشان واقعہ بھی اس مہینے میں ہو گا۔
چنانچہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے اس مہینہ کو نحوست والا قرار دینا ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس بنا پر تو اس مہینے میں نکاح سے روکنا عقلا بھی درست نہیں ہے۔
کیا ماہ محرم غم والا مہینہ ہے؟
اس مہینے میں شادی سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر شادی سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہ رسول حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیاتھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، تو یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے؛ اس لیے کہ ’’شہادت‘‘ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے، یہ تو سعادت کی چیز ہے۔ یہاں سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟ تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الف تحیہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا شوق شہادت
یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے، (صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم أن تعری المدینۃ، رقم الحدیث:۱۸۹۰،۲۳؍۳، دارطوق النجاۃ)
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کا شوق شہادت
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اﷲ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اﷲ میں مصروف رہے؛ لیکن اﷲ کی شان انھیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سنۃ احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: ۱۱۴؍۷ ، مکتبۃ المعارف، بیروت)
جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا شوق شہادت
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے، جس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاؤں‘‘۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب: فضل الجھاد والخروج فی سبیل اﷲ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷ )
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے، جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر غور کر لیا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا مہینہ یا دن ہے؟ جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، مثلاً:
صفر: ۳ ھ میں مقام رجیع میں ۸/ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو شہید کیا گیا۔ صفر: ۴ ھ میں بئر معونہ کے واقعے میں کئی اصحاب صفہ کو شہید کیا گیا۔صفر: ۵۲ھ میں حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔
ربیع الاول: ۱۸ ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الاول: ۲۰ ھ میں ام المومنین حضرت زینب بن جحش رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔
ربیع الثانی: ۲۱ھ میں مقام نہاوند میں ایرانی کفار سے لڑائی کے لیے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دو لاکھ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج بھیجی جس میں تقریباتین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور کفار کے تقریباًایک لاکھ افراد واصل جہنم ہوئے، اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ربیع الثانی:۲۱ھ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الثانی:۵۰ ھ میں حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔
جمادی الاولی: ۸ ھ میں حضرت سراقہ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اور اسی سال، اسی مہینے میں حضرت عبادہ بن قیس رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی۔جمادی الاولی: ۸ ھ میں ہی غزوہ موتہ ہوا، جس میں کئی جلیل القدر اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے۔
جمادی الاخری: ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ عبد اﷲ بن عبد الاسد رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔ جمادی الاخری: ۳۱ ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۲۱ھ میں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۵۰ھ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔
رجب المرجب:۱۵ھ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب:۲۰ھ میں حضرت اُسید بن حضیر رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔رجب المرجب:۴۵ھ میں حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔
شعبان: ۹ ھ میں بنت ِ رسول حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔شعبان:۵۰ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کاانتقال ہوا۔ شعبان: ۹۳ھ میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔
رمضان:۱۰نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان:۲ھ میں بنت رسول حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان:۱۱ھ میں بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔ رمضان:۳۲ھ میں حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا۔
شوال: ۳ھ میں حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی۔ شوال: ۳۸ھ میں حضرت صہیب رومی رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔
ذوالقعدہ: ۶۲ھ میں مشہور تابعی حضرت مسلمہ بن مخلد رحمہ اﷲ کا انتقال ہوا۔ ذوالقعدہ:۱۰۶ھ میں حضرت سالم بن عبد اﷲ بن عمر بن خطاب کا انتقال ہوا۔
ذو الحجہ: ۵ ھ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔ ذو الحجہ: ۶ھ میں حضرت ام رومان رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔ ذو الحجہ: ۱۲ھ میں حضرت ابو العاص رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی۔
اس پوری تاریخ کا مقتضی تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے۔ اور شادی وغیرہ ہر خوشی اور اظہار خوشی سے گریز کیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔
نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی؛ لیکن کیا ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بہ طور یادگار کے منایا نہیں؛بالکل نہیں، تو پھر کیا ہم اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں! خدا را!ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی گم راہ کن رسومات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔
شرعاًسوگ کرنے کا حکم
شرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے لیے نہ کہ مردوں کے لیے:
(۱) ایسی عورت جس کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
(۲) جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
(۳) کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔
اور سوگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوسنگھار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلاً: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا جائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک وملت کو عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟؟!!
محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم
اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بھی نہیں بن سکتی۔
بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی
بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک معتبر قول کے مطابق امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اﷲ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں۔(ملاحظہ ہو: تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاۃ والسلام وأزواجہ: ۱۲۸؍۳ ، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبری، ذکر ما کان من الأمور فی السنۃ الثانیۃ، غزوۃ ذات العشیرۃ ۴۱۰؍۲ ، دار المعارف بمصر)
محرم الحرام کے دنوں میں فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پر ایک میسج بہت زیادہ گردش کرتا ہے، جس میں تین شخصیات کے نکاح کا محرم الحرام میں ہونا مذکور ہوتا ہے:
(۱) زوجہ النبی حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے۔
(۲) حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا سے۔
(۳) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے۔
تو اس میسج کا تحقیقی رُخ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المظفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اﷲ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔
بقیہ دو شخصیات کا نکاح محرم میں نہیں ہوا، جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح ۷/ ہجری، ماہ صفر میں ہوا۔ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا نکاح حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا سے ۳/ ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوا اور رخصتی جمادی الاخری کے آخر میں ہوئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اپنے مدعیٰ کے ثبوت کے لیے غیر محقق امور کو پیش کرنا مناسب نہیں ہے، معتبر اور محقق بات ہی پیش کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔
چند فقہی کتب کا حوالہ
اکابر مفتیانِ عظام کے فتاوی میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاوی رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے:
(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں، حرام ہے، آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لا یحل لامرأۃ تومن باﷲ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعۃ أشھر وعشراً‘‘·
ترجمہ: ’’جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے‘‘۔
(بخاری، باب: تحد المتوفی عنھا أربعۃ أشھر وعشراً إلخ، ص:۳۰۸، ج:۲، پ:۲۲)، (صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد فی عدۃ الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶ ، ج:۱)، (مشکوٰۃ، باب العدۃ، الفصل الأول، ص : ۲۸۸)
ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں، ان میں شرکت حرام ہے۔
’’مالابد منہ‘‘ میں ہے: ’’مسلم را تشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔‘‘ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔ (ص: ۱۳۱)
ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے:
(سوال) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ۲: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ ۳:ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟
(الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ (احکام شریعت، ص:۹۰، ج:۱) فقط واﷲ اعلم بالصواب
(فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعۃ والسنۃ، ماہ محرم میں شادی کرے یا نہیں؟ ۱۱۵؍۲، دارالاشاعت، کراچی)
اسی طرح فتاوی حقانیہ (کتاب البدعۃ والرسوم،محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم؟ ۲/۹۶، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)میں بھی موجود ہے۔
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رکھے! آمین