سیدمحمد کفیل بخاری
گزشتہ دو ماہ سے وطن عزیز میں تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات جس تسلسل سے رونما ہوئے ہیں ان سے حکومتی کار گردگی پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ 29ء جولائی2020ء کو پشاور ہائی کورٹ میں ایک نوجوان غازی فیصل خالد نے ایک مبینہ مدعیٔ نبوت طاہر نسیم احمد کو قتل کردیا۔ اسی طرح 13اگست 2020ء کو پشاور میں ہی معراج احمد نامی ایک قادیانی کو قتل کردیا گیا۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن لاہور کے ایک رہائشی نے14؍ اگست 2020ء کو دعویٰ نبوت کیا تو لوگوں نے اُسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔
کذاب طاہر نسیم احمد نے کئی سال قبل نبوت کا دعویٰ کیا، پھر تو بہ کرکے رجوع کیا اور چند سال قبل دوبارہ دعویٰ نبوت کیا تو مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ دو سال سے مقدمہ چل رہا تھا لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا۔
معراج احمد، مسلمانوں میں قادیانیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ شکایات کے باوجود اس کے خلاف کوئی قانونی کا رروائی نہ کی گئی۔ بحریہ ٹاؤن لاہور کا جھوٹا مدعیٔ نبوت جیل میں ہے اور قانون سرد خانے میں۔
ادھر سوشل میڈیا پر ایک گروہ کے متشد د رہنماؤں نے خلفاء راشدین سیدنا ابوبکر وعمر وعثمان اور دیگر صحابۂ کرام رضی اﷲ عنھم کو نام لے کر اور استعارے وکنائے میں ہدف تنقید بنایا، ان مقدس ہستیوں پر الزام ودشنام اور تبریٰ وگالی کا طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ ان واقعات وحالات سے ہر محب وطن پاکستانی کا دل زخمی ہوا ہے۔ ایسے حالات کو سنبھالنااور امن قائم کرنا ریاست وحکومت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آئین وقانون موجود ہے لیکن اس پر عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ بُرے حالات پیدا ہوئے اور پر تشدد واقعات رونما ہوئے۔ اگر طاہر نسیم احمد کے مقدمے کو غیر ضروری طول نہ دیا جاتا اور اسے قانون کے مطابق بروقت سزا دے دی جاتی تو غازی فیصل خالد کبھی قانون ہاتھ میں نہ لیتا۔ یہی معاملہ معراج احمد قادیانی کا ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ تو ہین رسالت و توہین صحابہ اور توہین مذہب کے ملزمان کے خلاف صحیح طور پر قانونی کار روائی کی گئی نہ انہیں سزادی گئی۔ کسی عدالت نے سزا دی تو دوسری نے بری کردیا۔ ملعونہ آسیہ مسیح کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ تمام شواہد کے باوجود اسے باعزت بری کرا کر املک سے فرار کرایا گیا۔ جس طرح امریکہ یورپ میں اُسے پروٹو کول دیا گیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات ونظام میں کتنی بیرونی مداخلت اور دباؤ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے وعدے کے باوجود امت مسلمہ کی بیٹی عافیہ صدیقی کو تو امریکہ سے رہائی دلانہ سکے اور آسیہ کی رہائی کو اپنا فخریہ کار نامہ بتاتے ہیں ۔ اپنے دورہ ٔامریکہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ اٹھانا اُن کے منصب کا تقاضا اور قومی وملکی ذمہ داری تھی لیکن انہیں اس کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
قادیانی گروہ آئین پاکستان کے مطا بق غیر مسلم اقلیت ہے ۔ لیکن وہ آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ عالمی استعمار کی شہ پر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور پوری امتِ مسلمہ کو کافر۔جب آئین کے رکھوالے ہی اس پر عمل نہیں کریں گے تو نتائج وہی نکلیں گے جن سے اس وقت ہمیں سامنا ہے ۔
سو چنے کی بات ہے کہ تمام سال امن و امان سے گزرجاتا ہے لیکن جونہی محرم آتا ہے پورے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوجاتاہے ،آخر کیوں؟یقینا کوئی تو ہے جو آئین و قانون ، اخلاق و شرافت اور باہمی رواداری کی قدروں کو پامال کرتاہے۔ جس کے نتیجے میں پورا ملک سیکورٹی رِسک بن جاتاہے ۔
دوسری طرف حکومتی اقدامات اور پالیسیاں بھی یک طرفہ دکھائی دیتی ہیں ۔ عوام پوچھتے ہیں کہیں یہ بھی بیرونی دباؤ کا نتیجہ تو نہیں ؟ کہاں ہے وہ خود مختار ریاست و حکومت جو اپنی مرضی سے اپنے عوام کے لیے فیصلے کرنے کی دعوے دارہے ؟
سائبر کرائمز کا قانون موجود ہے لیکن مذہبی جذبات مجروح کیے جارہے ہیں ۔ خلفاء راشدین و صحابۂ کرام رضی اﷲ عنھم کو گالیاں دی جارہی ہیں ۔ لیکن قانون خاموش ہے۔ دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی خاص طبقہ کے خلاف حرکت میں آتا ہے ۔ اربابِ حکومت سے ہماری گزارش ہے کہ آئین اور قانون پر بلا تفریق عمل درآمد کو یقینی بنائیں ۔ تاکہ ملک میں امن و سلامتی اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
قادیانیوں کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف رپورٹ :
20ء جولائی 2020ء کو برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسز کے تقریباً 40ارکان پر مشتمل آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ فار دی احمدیہ مسلم کمیونٹی نے پاکستان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی ایک انتہائی خطرناک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قادیانیوں کے خلاف ظلم واستبداد اور بین الاقوامی انتہا پسندی میں اضافہ ریاست پاکستان کی سر پرستی میں ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرتے وقت پاکستانی ہائی کمیشن لندن یا پاکستانی وزارت خارجہ سے کوئی مؤقف نہیں لیا گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں موجود ایک دو قادیانی ارکان نے پاکستان کے خلاف لابنگ کرکے ارکان پارلیمنٹ کو گمراہ کیا اور دھوکہ دہی سے پاکستان کے خلاف ان کی جماعت حاصل کی۔
167صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ جھوٹ کا پلندہ اور پاکستان کے خلاف ایک خطرناک دستاویز ہے۔ جسے قادیانیوں نے لکھا اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بغیر تحقیق اس پر دستخط کردیے۔ قادیانی،پاکستانی کے خلاف خود ہی مدعی اور خود ہی جج بنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی نا پاک مہم جوئی کی۔ حکومت پاکستان اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ پاکستانی ہائی کمشنر لندن اور وزارت خارجہ اس رپورٹ میں پاکستان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دے۔ قادیانیوں کو پاکستان میں بے پناہ مراعات دینے اور ان کا دفاع کرنے والے حکمران سوچیں کہ جن کے لیے وہ دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے ہیں وہ پاکستان کے خلاف کیا کر رہے ہیں؟ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے سچ ہی تو فرمایا تھا: ’’قادیانی، اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں‘‘۔