مؤلف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ اشارات: مولانا عبید اﷲ احرار رحمہ اﷲ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمْ نَحْمد ہُ ونُصَلّیِ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم
اشارات :
مغلیہ بادشاہ اکبر، ہمایوں کے گھر میں اس وقت پیدا ہوا۔ جبکہ شیر شاہ سوری اس کے تعاقب میں تھا وہ بیچارہ صحراؤں ، دریاؤں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا تھا اس مسلسل بے چینی کی وجہ سے ہمایوں، اکبر کی تعلیم وتربیت کا کوئی بندوبست نہ کر سکا اس طرح یہ ذہین و فطین شہنشاہ ہر قسم کے علوم و فنون سے با لکل بے بہرہ رہا۔ اکبر نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف اپنی سلطنت اور قلم رو کو وسیع کیا بلکہ سیاسی مصالح کی بناء پر ہندوؤں کو بہت زیادہ مراعات دیں اور اپنی حرم سرا میں ہندو بیگمات کو داخل کرلیا۔ یہیں سے اس کے درباروسرکار میں الحاد اور بے دینی کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس بے دینی کی رہی سہی کسر ابوالفضل اور فیضی کی ملحدانہ سرگرمیوں نے پوری کردی۔ ان کی زندیقیت آخر میں اکبر کے دین الٰہی کا روپ دھار گئی۔ اکبر کا الحاد روز بروز فروغ پذیر ہوتا رہا۔ اسے حکومت کی سرپرستی نے اسلامیان ہند کے لیے ایک عظیم فتنہ کی صورت پیدا کردی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی دربار میں سجدۂ تعظیمی لازم قراردیا گیا، اکبر کو معصوم اور دین الٰہی کا بانی ثابت کیا گیا، محمد اور احمد کے نام پر بچوں کا نام رکھنا ممنوع قراردیا گیا، ہندوؤں کی رعایت سے ذبیحۂ گاؤ حکماً بند کردیا گیا، ختنہ ایسے مسنون فعل کو جرم گردانا گیا…… غرض اس قسم کی بے شمار خرافات، بدعات ، سیئات، منکرات اور فواحش کو سرکاری سرپرستی میں پھیلا یا گیا۔ اس قسم کی جتنی بھی نا معقول حرکات کی گئیں ابوالفضل اور فیضی کی بارگاہ سے انھیں سند جواز مہیا کی گئی۔ ابولفضل اور فیضی نے اپنے گھٹیا عقائد کے لیے ہمیشہ اکبر کے مذموم افعال کو دلیل بنانے کی ناکام کوشش کی۔ یہ فتنہ اس حد تک پھیلا کہ شیخ عبدالحق ، محدث دہلوی مرحوم ایسے یگانہ روز گار اشخاص نے بھی سکوت اور عزلت گزینی میں ہی مصلحت سمجھی، لیکن ہر فرعونے راموسیٰ کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے دین کی تجدید و احیاء کے لیے محبوب سبحانی ، مجدد الف ثانی، حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی رحمتہ اﷲ علیہ کو پیدا فرمایا۔ حضرت شیخ سرہندی کا علم تقویٰ ، خلوص، ﷲیت، حق گوئی، حق پسندی، جذبۂ اتباعِ سنت، استقلال، استقامت، دعوت ، عزیمت اور مخلصانہ مساعی جہانگیر اور شاہ جہاں کے عہد میں رنگ لائیں۔ یوں خدا تعالیٰ نے دین حنیف اورملت بیضاء کی حفاظت و صیانت اور تحفظ ودفاع کے سامان مہیا فرمائے۔
حضرت سلطان اورنگ زیب عالم گیر رحمتہ اﷲ علیہ کی رحلت کے بعد سترھویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے زوال کے آثار بالکل نمایاں ہوچکے تھے جنوبی اور مشرقی ہند کی طرف سے انگریز اپنی پوری ڈپلومیسی کے ساتھ ایک تاجر کے بھیس میں نہ صرف ہندوستان میں ڈیرے لگا چکا تھا بلکہ پلاسی اور سرنگاپٹم کے میدانوں میں اپنے جعفر و صادق اور ان کے زلہ خواروں کی غداری و ملت فروشی کی بدولت شیر بنگال سراج الدولہ اور مجاہد دکّن ٹیپو سلطان کو جام شہادت نوش کرانے کے خوف ناک قاتلانہ منصوبہ کی تکمیل کرچکا تھا۔ مسلسل اور بے راہ روحکم رانی کی وجہ سے مسلمانوں کے علمی و فکری قویٰ مضمحل ہوچکے تھے ان کے علمی اور فکری سوتے خشک ہوچکے تھے جمود و جہالت اور رافضیت و بدعت پرستی ان کے ایوانِ علم و عمل میں دھرنا مار کر بیٹھ چکی تھیں ان کی سیاسی صفوں میں نہ صرف بحرانی کیفیت رونما ہوچکی تھی بلکہ وہ شدید انتشار کی نذر ہوچکے تھے نتیجۃً مغلیہ اقتدار چراغ سحری کی طرح ٹمٹمارہا تھا۔
اس یاس وقنوط کے عالم میں ہندوستان کی راج دھانی دہلی سے خاندان فاروقی کے گل سرسبد حضرت شاہ عبدالرحیم کے لخت جگر امام الہند حجتہ الاسلام حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ گمنامی کی صفوں سے اٹھے اپنی خداداد قابلیت، لیاقت، ذہانت، فطانت، علم، ریاضت اور تصنیفات کی بدولت شہرت کے آسمان پر پہنچے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ مرحوم نے خوب اچھی طرح یہ اندازہ کرلیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اب شدید سیاسی بحران اور سیاسی انتشار میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کی وحدت و مرکزیت ختم ہوچکی ہے مغلیہ دورِ حکومت کا آفتاب ڈھل چکا ہے ان کا اقتدار چراغ سحری ہے جو بجھا چاہتا ہے انگریزی برق رفتاری سے پورے ہندوستان پر قبضہ او رحکم رانی کے خواب دیکھ رہا ہے مسلمان امراء دولت اور اعضاؤ جوارحِ سلطنت اپنے ذاتی اقتدار ، ذاتی مفاد اور خود غرضی کے دلدل میں ایسے پھنس چکے ہیں اب انھیں یہاں سے نکالنا اور سیاسی سنبھالا دینا دشوار بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ادھر دینی طور پر بھی مسلمان انتہائی تنزل و انحطاط کی نذر ہوچکے تھے۔ توہم پرستی شرک و بدعت اور غیراسلامی رسم و رواج ان میں گھر کر چکے تھے۔ توحید وسنت سے گریز اور شخصیت پرستی ان کا وظیفہ حیات بن چکا تھا۔ جاہل مولوی اور جاہل پیران پر مسلط تھے۔ علمی و فکری طور پر یہ بالکل تہی کیسہ بلکہ یتیم ہوچکے تھے۔ الحاد اور بے دینی کو دین سمجھے ہوئے تھے۔ اخلاقی بیماریاں ان پر مستزاد تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حق پسندی اور حق گوئی کی یہ پوری قوت سے شدید مخالفت کررہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے دینی و سیاسی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں حضرت شاہ ولی اﷲ جیسی حساس اور درددل رکھنے والی شخصیت بھلا کب خاموش بیٹھ سکتی تھی چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب مرحوم نے اپنی پوری قوت سے بے شمار مشکلات کے باوجود ان کو علمی وفکری سنبھالا دینے کی مساعی کا آغاز فرمایا۔ ان کے قلم معجز رقم سے نہایت قیمتی محققانہ اور انقلابی تصانیف منظر عام پر آئیں یوں شاہ صاحب نے ایک نئے علمی و فکری انقلاب کی طرح ڈالی جس کی مزید تکمیل ان کے واجب الاحترام فرزندان ارجمند حضرت شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین ، شاہ عبدالغنی اورشاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اﷲ علیہم اجمعین نے فرمائی۔ اس انقلاب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے شیراسلام حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید اور مجدد ومجاہد اعظم امیر المومنین حضرت سید احمدشہید بریلوی رحمتہ اﷲ علیہما نے اپنے خون مقدس سے بالاکوٹ کی وادی کو لالہ زار بنا دیا اور صفحہ عالم پر اپنے ایثار و قربانی کے غیر فانی اور لازوال نقوش ثبت کر دیئے۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق!
ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما!
۲۴ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۶؍مئی ۱۸۳۱ء روز چہار شنبہ (بدھ) کو سانحۂ بالاکوٹ کے بعد تحریک مجاہدین کی عملی قیادت علماء صادق پور پٹنہ بہار بالخصوص مولانا ولائت علی مرحوم اور ان کے جانشین مولانا عبداﷲ ، مولانار حمت اﷲ، مولانا نعمت اﷲ ،مولانا عبدالرحیم ، مولانا احمد اﷲ ، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی ، مولانا محمد بشیر لاہوری، مولانا محمد علی قصوری رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ راقم الحروف کے والد جناب حاجی نور محمد مرحوم، مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا ولی محمد فتوحی والے بھی اس تحریک سے وابستہ رہے۔ یہ لوگ عُسر ویُسر کی حالت میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ مستعدر ہے۔ انگریز جس کی سلطنت پر آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا۔ ڈیڑھ صدی تک ربع مسکون پر دادِ حکم رانی دینے کے باوجود مٹھی بھر حق پسندوں اور مجاہدوں کی اس جماعت کو ختم نہ کرسکا آج بھی اس قافلۂ حریت کے میر کارواں حضرت صوفی عبداﷲ صاحب مہتمم دارالعلوم اہل حدیث اوڈاں والاضلع لائل پور کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اب انگریز ہر طرف سے مطمئن ہو کر اپنے رسوائے زمانہ ضابطہ سیاست ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کے ماتحت پوری دغابازی اور عیاری ومکاری سے ہندوستان کے قریباً اکثر حصوں پر قابض ہوچکا تھا۔ ادھر مجاہدین وطن اور محبان آزادی کا اضطراب برابربڑھ رہا تھا فرنگی کے خلاف نفرت وبیزاری کے جذبات تیزی سے ابھر رہے تھے۔ جذبۂ حریت استخلاص وطن کے احساسات وجذبات کا طوفان ان سینوں میں موجزن تھا، عوام میں انگریز کے خلاف مسلح انقلاب کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا جو بالآخر ۱۸۵۷ء میں پھٹ پڑا اور سارے ملک میں آزادی کی مسلح تحریک چل نکلی۔ علمائے کرام اوردیگر مجاہدین وطن بلا امتیاز مذہب وملت پورے شعور و اطمینان عزم وہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ صف آراہوکر انگریز کے خلاف مصروف جہاد ہوگئے اگر ملت کے غداروں اور وطن فرشوں کی سازشیں اور جفاکاریاں نیز محبان آزادی میں باہمی نظم وضبط کا فقدان جیسی چیزیں آڑے نہ آتیں تو ہندوستان بھر سے فرنگی سامراج کا ٹاٹ یقینااسی وقت لپیٹ کر رکھ دیا جاتا اور ملک انگریز کی ڈیڑھ سوسالہ غلامی کی نحوستوں سے بال بال بچ جاتا۔ حکیم احسن اﷲ خان، رجب علی، غلام مرتضیٰ والد مرزاغلام احمد قادیانی متنبیٔ کادیان ایسے ذلیل غداروں کی بدولت جنگ آزادی کا یہ آخری وار ناکام ہوگیا۔ فرنگی سامراج اور اس کے ازلی و ابدی کا سہ لیسوں نے اس جہاد کا نام غدر (انگریزی حکومت سے بے وفائی) رکھا حالانکہ یہ تحریک آزادی کی ایک بھر پور اور شدید انگڑائی تھی غدر قطعاً نہ تھا ڈاکوؤں، لیٹروں اور بدمعاشوں کو ملک سے نکالنے کی تحریک کو غدر کا نام ہر گز نہیں دیا جا سکتا۔
مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار سراج الدین بہادر شاہ ظفر مرحوم کے بیٹوں کو فرنگی ظالم نے وحشت وبربریت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذبح کرڈالا۔ بہادر شاہ ظفر کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر پابجولاں بٹھا کر رنگون( برما) کے طویل سفر پر بھیجا جاچکا تھا عروس البلا ددہلی اجڑ چکی تھی شاہراہ اعظم کے اونچے اونچے درختوں کے تنے مجاہدین وطن و محبان آزادی کے لیے تختہ دار بنائے جاچکے تھے سقوط ہندوستان اور سقوط دہلی کا حادثہ اسلامیان عالم بالخصوص مسلمانان ہندوستان کے لیے سقوط بغداد اور سقوط اندلس (ہسپانیہ) سے کم نہ تھا۔پورے ملک پر خوفناک سناٹا طاری تھا۔ فرنگی سامراج نے چوں کہ اقتدار ہندی مسلمانوں سے چھینا تھا اسے ہر وقت مسلمانوں کے اٹھ کھڑے ہونے کا خطرہ لاحق تھا اس لیے وحشیانہ مظالم کا تختہ مشق بھی مسلمان ہی تھے۔ فرنگی شاطر نے اپنے مظالم کا دوسرا بڑا نشانہ علماء کرام کو بنایا چنانچہ کتنے ہی علماء کو پابہ زنجیر دریائے شور لاپانی عبور کراکے جزائر انڈیمان میں قید کیا گیا۔ بے شمار علماء اس گناہِ بے گناہی کے جرم میں تختہ دار پر کھینچ دیے گئے۔ بہت سوں کو انبالا سازش اور قاضی کوٹ سازش کے نام پر فرضی مقدمات تیار کر کے حبس دوام کی سزائیں دی گئیں لیکن کیفیت یہ تھی کہ
بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں ہر سزا کے بعد
وہ نشۂ آزادی سے سرشار ہو کر تعذیب وعقوبت پر مسکرارہے تھے۔ قیدوبند، کالاپانی، عبور دریائے شور،حبس دوام، تختۂ دار، قتل ونہب، جائدادکی ضبطی کوئی بھی فرعونیت ان کو جادۂ حق سے نہ ہٹا سکی ۔
اب ہندوستان پر انگریز بلاشرکت غیرے حکمران تھے، شیخ المشائخ، حضرت مولانا حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی، مولانا شاہ محمد اسحاق، مولانا شاہ محمد یعقوب رحمتہ اﷲ علیہم بھی ہجرت کر کے مکہ مکرمہ جا چکے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ، مولانار شید احمد گنگوہی، مولانا عبدالحی لکھنوی، مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا نواب سید صدیق حسن خان ، مولانا عبدالعزیز رحیم آباد ی، مولانا حافظ عبداﷲ غازی پوری ، مولانا سید عبداﷲ غزنوی ، مولانا محمد ابراہیم آروی ، مولانا حافظ محمد لکھنوی، مولانا عبدالمنان وزیر آبادی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا اور مولانا محمد بشیر سہسوانی رحمتہ اﷲ علیہم حالات وظروف کے مطابق مختلف مقامات پر علم کی مسندیں بچھا کر بیٹھ گئے اور پوری خاموشی، سکون اور یک جہتی سے دینی علوم کی تدریس شروع کردی۔ اسی طرح بعض دیگر ہمدردان ملت نے چند نظری اختلافات کے باوجود جدید دنیا وی تعلیم گاہوں کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کی تدابیر پر عمل پیرا ہوئے۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر ملک میں آزادی استقلال کے لیے آئینی تحریکیں شروع ہوگئیں اور مختلف جماعتوں کا قیام عمل میں آگیا۔ اسی طرح ملت کے دیگر علمی ، ادبی، تبلیغی، تصنیفی، اصلاحی، قومی اور سیاسی محاذوں پر علمائے کرام کی خاصی بڑی تعداد مصروف عمل ہوگئی اس سلسلہ میں حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید عبدالحی ندوی، علامہ شبلی نعمانی، خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا محمد سعد بنارسی، مولانا عصمت اﷲ جیراج پوری، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سید عبدالجبا رغزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا سید عبدالواحد غزنوی، علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری، مولانا عبدالرحمن مبار ک پوری، مولانا عبدالسلام مبارک پوری، مولانا ثناء اﷲ امرت سری، مولانا محمد جونا گڑہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا محمد ابراہیم سیال کوٹی، مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا شمس الحق ڈبانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ ابوالقاسم بنارسی، علامہ نواب محسن انصاری یمنی، مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علی، مولانا عبداﷲ الباقی، مولانا عبداﷲ الکافی رحمہم اﷲ تعالیٰ اجمعین کی علمی، دینی، تبلیغی، اصلاحی، سماجی، قومی، سیاسی، تصنیفی، تدریسی، ادبی اور تحقیقی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔
انیسوی صدی کے اختتام پر انڈین نیشنل کانگرس کی تشکیل ایک سماجی اور اصلاحی جماعت کے بھیس میں عمل میں آچکی تھی ۔ جو بہت جلد ایک زبردست اور فعال سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر گئی بیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں ڈھاکا مشرقی پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آچکا تھا جو اس وقت صرف نوابوں اور رئیس زادوں کی جماعت تھی اور ان مسلم رؤسااور جاگیرداروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمِ وجود میں آئی تھی۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد مسلم لیگ بھی ایک عوامی او رسیاسی جماعت بن گئی۔ اب غیر مسلم لیڈروں کے پہلو بہ پہلو امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ، مولانا حسرت موہانی ، مولانا ظفر علی خان، حکیم حافظ محمد اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری ، مولانا عبدالقادر قصوری ، مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلوی ، مولانا احمد سعید دہلوی ، مولاناسید محمد داؤد غزنوی اور مولانا حبیب رحمان لدھیانوی سیاسیات میں بھر پور حصہ لے رہے تھے اورا ن کی انقلابی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال وا لبلاغ نے مولانا محمد علی جوہر کے کامریڈ اور ہمدرد نے اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندار نے زور دار مقالات و مضامین کے ذریعہ مسلمانوں میں صور بیداری پھونکا اور انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے سلسلہ میں وہ کارہائے نمایا ں انجام دیئے جنھیں مؤرخ کا قلم کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح علامہ اقبال مرحوم کے کلام اور تصنیفات نے نوجوانانِ ملت کی بیداری میں مہمیز کا کام دیا۔ یہ اعاظم رجال عباقرۂ زمانہ اور نوابغ عصرحضرات بذات خود ایک انجمن اور چلتے پھرتے ادارے تھے ان کے خاراشگاف قلم کی معجز نمائیوں ،ادیبانہ دلآویزیوں، خطیبانہ سحر طرازیوں، عالمانہ وجاہتوں اور مجاہدانہ جلالتوں نے مسلمانو ں کو خوابِ غفلت سے جھنجوڑا اور خوئے غلامی کو توڑا۔ ان میں مطالبۂ آزادی کا عزم و حوصلہ پیدا کیا ان کو اپنے اصل مقام سے روشناس کیا اور ان میں ان کے شاندار ماضی اور عظمت رفتہ کو واپس لانے کے جذبات ابھارے۔ ان اکابر کی مخلصانہ مساعی کا یہ ردِ عمل ہو اکہ مسلمانوں نے انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزادیِ وطن کا مطالبہ کیا اور جہاد حریت میں شریک ہوگئے۔
۱۹۱۴ء میں افقِ عالم پر جنگ عظیم اوّل کے مہیب بادل چھاگئے فرنگی غاصب نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اکثر مسلم زعماء کو پابند سلاسل کردیا۔ انگریز نے جو جُو ع الارض کا مریض تھا اپنی شاطرانہ چالوں سے جرمنی کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ (ترکی) کو بھی جنگ میں الجھا لیا اور شرقِ اوسط بالخصوص عرب ممالک کو ترکی خلافت سے کاٹ کر ان کے تیل پٹرول اور جنگی محل وقوع کے پیش نظر ان پر خود قابض ہونے کے ناپاک منصوبے بنائے اور ذلیل سازشیں شروع کردیں حتیٰ کہ خاتمۂ جنگ تک ترکی سلطنت کے حصے بخرے کرکے متعدد ممالک عربیہ پر ظالمانہ تسلط جمالیا۔
۱۹۱۹ء میں جنرل اڈوائر نے امرت سر کے جلیاں والا باغ میں ایک خوفناک خونی ڈرامہ کھیلا بربریت و بہیمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چشم زدن میں مادرہند کے ہزاروں بہادر سپوتوں کو اپنی خون آشامیوں کا نشانہ بنایا اور گولیوں کی باڑ سے ان کے سینے چھلنی کرڈالے۔ پنجاب مرحوم میں مارشل لاء نافذ کر کے داروگیر کی ایک ہیبت ناک فضاء قائم کردی اس وقت اکثر مسلم اکابر اور عمائد جیلوں میں محبوس تھے۔ مولانا عبدالباری فرنگی مرحوم نے لکھنؤ میں جرأت کر کے ہندوستان بھر سے مسلم زعماء اور علمائے کرام کو مدعو کر کے خلافت ِعثمانیہ کے تحفظ و بقاء کی تدابیر و تجاویز پر غور کرنے کی طرح ڈالی۔ اسی مقصد کے لیے ہندوستان میں ایک زوردار تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کیا۔ چنانچہ مسلمانا ن پنجاب کی طرف سے مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحومین ،ملک لعل خان اور آغا صفدر سیال کوٹی مرحوم اس میں شامل ہوئے، اسی وقت آل انڈیا مجلس خلافت قائم کر کے نئی آئینی سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا گیا مجلس خلافت پنجاب کے پہلے صدر مولانا عبدالقادر قصوری مرحوم منتخب ہوئے، حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحوم کی تحریک اور کوشش سے حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اور غازی عبدالرحمان امرت سری بھی تحریک میں شامل ہوگئے۔ مسٹر گاندھی اور دوسرے ہندوؤں نے مسلمانوں سے کامل اشتراک کیا لیکن لالہ لا لجپت رائے قسم کے متعصب ہندولیڈروں نے ہندومسلم کے اس اتحاد کو فرنگی شاطر کے ایماء سے پارہ پارہ کرنے کی ناپاک کوششیں شروع کردیں ، دوقومی اختلافات کے سوال کو خوب ہوادی تاکہ ملک میں ہندومسلم کشیدگی پیدا ہوکر فسادات شروع ہوجائیں اور موجودہ خوش گوار فضارغارت ہوکر رہ جائے نہرورپورٹ نے کانگریس بالخصوص ہندو کی اصل ذہنیت کو بالکل بے نقاب کردیا اور بعض کانگریسی ہندولیڈروں نے متعصب ہندو جماعتوں کی کھلم کھلا سرپرستی اور حوصلہ افزائی شروع کردی اس سے حساس اور مخلص بزرگوں کو شدید صدمہ پہنچا۔ ایسے سنگین اور نازک حالات میں ایک اولوالعزم بہادر مخلص، خالص عوامی اور اسلامی جماعت کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی تاکہ غیر مسلم جماعتوں کی زبردستیوں اور جارحانہ تحریکات کا ضروری سدباب اور مستقل محاذپر انگریز کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ جماعت ملکی سیاسیات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ اور حکومت الٰہیہ کے قیام کی علم بردار ہوجوپوری قوت جرات اور استقلال کے ساتھ آزادی وطن کی جنگ لڑسکے، چنانچہ اسی غرض سے ۱۹۲۹ء میں مسلم بہادروں، اولوالعزم مجاہدوں ، سربکف جانبازوں ، عظیم الشان شجاعوں اور عظیم محب وطن انسانوں کی جماعت مجلس احرار اسلام ہند کے نام سے عالم وجود میں آئی۔ اس کے اولین بانیو ں میں چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا ظفر علی خان، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ، غازی عبدالرحمن امرت سری، جناب شیخ حسام الدین اور جناب مولوی مظہر علی اظہر رحمۃ اﷲ علیہم شامل تھے۔ راقم الحروف بھی تاسیس جماعت سے ہر ابتلا و آزمائش اور ہر تنگی و آسانی میں مجلس احرار اسلام سے وابستہ رہا ہے اور بحمد اﷲ اب بھی اہل حق کے اسی جاں باز گروہ کا حامی اور خادم ہے۔
مجلس احرار اسلام ہند کا قیام عمل میں کیوں آیا؟ اس کے اسباب ووجوہ کیا تھے؟ اور پس منظر کیا تھا؟ اس کے اصول اور مقاصد کیا تھے؟ اس کی تنظیم کیسی تھی؟ اس کے کارکنوں کے کیا اوصاف و خصوصیات تھے؟ مجلس احرار کے قیام سے ملک خصوصاً پنجاب میں کیا ردِ عمل ہوا؟اور سیاسی قبرستانوں میں اس نے حق کی اذانیں کس طرح بلند کیں؟ اس کی سیاسی سماجی اورتبلیغی خدمات کا دائرہ کتنا وسیع تھا؟ اس کے ہمہ جہت قومی اور اسلامی کارناموں کی تفصیل کیا ہے؟ کشمیر ایجی ٹیشن، مغل پورہ ایجی ٹیشن، کپور تھلا ایجی ٹیشن، تحریک شہید گنج، تحریک مدح صحابہ، فوجی بھرتی بائیکاٹ وغیرہ میں اس کا کیا کردار رہا؟ اس کے جیوش کی شان و شوکت کاکیا عالم ہوتا تھا؟احرار کی تبلیغی و سیاسی کانفرنسیں اور قومی اجتماعات کس قسم کے ہوتے تھے؟ انگریز نے اس پر کیا مظالم ڈھائے؟ ٹوڈی مسلمانوں انگریز کے کاسہ لیس رئیسوں اور غاصب جاگیرداروں نے اس سے کیا سلوک روارکھا؟ کادیان کی لند ن ساختہ نبوت کا ذِبہ کاتاروپود بکھیرنے اور اس کے بخیے ادھیڑنے میں اس کا کیا طرز تھا؟ اور مرزائی ڈاکوؤں کے تعاقب میں اس کا طریق کار کیا تھا؟اس نے مسئلہ ختم نبوت کا دفاع اور عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کس انداز میں کیا؟ نیز زعماء اور کارکنوں کے سوانحی خاکے اور دیگر پوری تفصیلات ’’تاریخ احرار ‘‘ کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں کہ جن کا اجمال اور خلاصہ مفکر احرار رحمتہ اﷲ علیہ نے بڑے مشکل وقت میں قلم بند کر کے ایک اہم فرض اداء کیا تھا۔ لیکن یہ تصنیف او ردوسرا بہت سا جماعتی لٹریچر عرصہ دراز سے زاویۂ خمول اور گوشۂ گمنامی میں پڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاسبانِ ختم نبوت حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے جانشین وفرزند ِاکبر حضرت مولانا حافظ سید ابومعاویہ ابوذر عطاء المنعم بخاری ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام پاکستان نے مجلس کی تنظیم جدید کے بعد تاریخ احرار اور دوسرے جماعتی لٹریچر کی نئی اشاعت کا اہتمام کر کے اسلامیان برصغیر بالخصوص احرار حلقوں پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس ضمن میں حافظ صاحب کے متعدد عظیم الشان علمی وتحقیقی شاہکاروں کی اشاعت سے بھی انشاء اﷲ جماعتی تاریخ اور تحریک آزادی کے نہایت قیمتی باب ہمیشہ کے لیے محفوظ و مصؤن ہوجائیں گے۔ سید ابومعاویہ یقینا ہم سب کے شکریہ کے حق دار ہیں جن کی علمی و ادبی کاوشوں اور جماعتوں کے لیے تقریری و تحریری خدمات سے ملک کا اہل علم طبقہ عظیم استفادہ کرسکے گا حافظ صاحب موصوف الولد سرلأبیہ (بیٹا باپ کے رازوں کا امین ہوتا ہے) کا ایک عظیم مظہر ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو فصاحت و بلاغت ، تقریر و خطابت ، حق گوئی و حق پسندی، راست بازی وبے باکی، جرات و حو صلہ مندی، استقامت و عزیمت اور صبر وثبات کی بے بہادولت سے نوازا اور سرفراز فرمایا ہے۔ قسام ازل نے موصوف کو تصنیف و تالیف کے پختہ ذوق کا سرمایہ بھی پوری فیاضی سے عطا فرمایا ہے۔ ان کے ادیبانہ قلم کی جولانیاں قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتیں ۔
قصہ مختصر…… زیر نظر کتاب بہ وقت تصنیف نامساعدحالات کی وجہ سے گو اپنے موضوع کا احاطہ نہیں کر سکی اور بعدازاں اس کے مصنف گرامی قدرجناب مفکر احرارچوہدری افضل حق ارحمتہ اﷲ علیہ کی وفات کے باعث مکمل صورت بھی اختیار نہ کر سکی۔ تاہم موجودہ حالات میں جبکہ مختلف قومی اور سیاسی حوادث و آفات نے جماعت کے دفتری نظام اور شعبۂ تصنیف و اشاعت کو معطل کردیا تھا، یہ کتاب رفقائے جماعت کے لیے ماضی کا عظیم ورثہ، حال کے لیے دلیل راہ، خصوصاً نوجوان نسل کے لیے احرار کے اخلاص وایثار، عزم وعمل، صبر و ثبات، جہاد و قربانی او رشوق شہادت کے ایمان افروز مناظر سے رنگین تاریخ کے ساتھ تعارف و روشناسی اور مستقبل میں خالص اسلامی قیادت و رہنمائی کا الہامی صحیفہ ثابت ہوگی۔ نیز برصغیر ہندوپاک کی مختلف سیاسی و دینی تحریکوں سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس کا مطالعہ بیش از بیش مفید ہوگا۔ والسلام۔ وآخرُدعوانا اَنِ الحمدُ للّٰہِ ربِ العٰلمین :
عبیداﷲ احرار، لائل پور
(سابق امیر مجلس احرار اسلام پاکستان)
بروز شنبہ۱۷؍۱۱؍۱۳۸۷ھ/ مطابق :۱۷؍۲؍۱۹۶۸ء