سید عدنان کریمی
فیس بک فرینڈز لسٹ میں ’’سرچ کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک گمنام، خاموش قاری ہوتے تھے، وال پر کسی قسم کی کوئی ایکٹیویٹی نہیں تھی، البتہ میسینجر پر راہ و رسم رکھتے تھے، کبھی اقوالِ زرّیں اور کبھی اپنی تصاویر بھیجا کرتے، بندہ جانا پہچانا سا لگتا تھا لیکن نام معلوم نہ تھا۔ ایک دن خاکسار نے اُن کا نام اور تعارف پوچھنے کی جسارت کی، بس پھر اُس دن سے تعلقات مزید پختہ ہوگئے۔جامعہ بنوریہ العالمیہ کی ختم بخاری سے ایک روز قبل خاکسار نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ مجھے مفتی محمد نعیم صاحب سے ملاقات کرنی ہے، کوئی ترتیب بنا دیجیے، انہوں نے جھٹ سے جواب دیا چونکہ کل ختمِ بخاری کی تقریب ہے، لہٰذا آپ پرسوں آجائیے اور ملاقات کا موضوع کیا ہے؟ جواباََ عرض کیا کہ کوئی خاص ایجنڈا تو نہیں البتہ ایک غیر رسمی سا انٹرویو کرنا ہے۔ مقررہ تاریخ کو صبح اُنہیں فون کرکے تصدیق چاہی کہ آج آسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ضرور آئیں بلکہ ظہر کی نماز جامعہ میں ادا کریں پھر ملاقات کروادیں گے۔
نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد مفتی محمد نعیم صاحب نظر آئے اور نہ ہی ہمارے وہ سہولت کار کرم فرما۔ دل بے ایمان ہونے لگا، وسوسے کلبلانے لگے، مبادا سیکریٹریز کے چکر میں یہ ملاقات بھی کھٹائی میں نہ پڑجائے، فون نکالا تو دھوپ کی روشنی میں فون اندھا، جوتے اٹھائے تو وہ گرم، دماغ تو پہلے سے ہی مائل بہ حرارت تھا۔ چھاؤں میں کھڑے ہوکر اِدھر اُدھر نظریں گھماتے ہوئے مجھے ہر فلپائنی اور انڈونیشین طالب علم میں مفتی صاحب کا عکس نظر آنے لگا، لیکن عکس کا وجود غائب۔ اپنے کرم فرما سے رابطہ بحال کیا تو معلوم ہوا کہ جامعہ بنوریہ کے اندر دو مساجد ہیں، ایک بڑی اور دوسری چھوٹی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آپ کونسی مسجد میں ہیں؟ میں نے کہا کہ ”بابِ نعیم” سے داخل ہوتے ہی جو مسجد ہے، وہاں کھڑا ہوں، کہنے لگے اپنی ناک کے سیدھ میں آگے آتے جائیے، ایک عمارت نظر آئے گی، اس میں داخل ہوجائیں اور چھوٹی مسجد کے ساتھ بہت سارے دفاتر ہیں، اُنہی دفاتر میں سے ایک مفتی نعیم صاحب کا دفتر ہے، میں وہاں آپ کا انتظار کررہا ہوں۔
چند منٹ کے فاصلے کو قدموں سے طے کرتے ہوئے عمارت اور پھر دفتر پہنچا تو دیکھا مفتی سیف اﷲ ربانی صاحب تشریف رکھتے ہیں، سلام علیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ بالکل بروقت پہنچے، تھوڑی دیر میں مفتی صاحب آتے ہیں تو ملاقات ہوجاتی ہے۔ گفتگو اور احوالِ زمانہ پر بے موسم تبصرے جاری تھے کہ اس دوران آستین چڑھائے مفتی نعیم صاحب سامنے سے آتے دکھائی دیے، دفتر میں داخل ہوتے ہی سب کو بآواز بلند سلام کیا اور دفتر کے اندر بنے اپنے مخصوص دفتر میں چلے گئے۔
چند ہی لمحوں میں ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا، کوئی اپنے نجی معاملات لارہا ہے تو کوئی اپنی مسجد کمیٹی کے دکھڑے سنارہا ہے، کوئی اپنے تھانہ کے ایس ایچ او سے پریشان ہے تو کوئی دینی معاملات میں شرعی آگہی کا خواہشمند ہے، کوئی اسلام قبول کرنے کے لیے آرہا ہے تو کوئی مالی معاونت چاہتا ہے۔ غرض یہ کہ تمام لوگوں سے باری باری ملاقات ہوتی ہے، مسائل سُنے جاتے ہیں اور حتی الامکان اُسے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چائے پینے کے بعد مولانا ربانی اٹھے اور مجھے کہا کہ آئیے چلتے ہیں، مفتی نعیم صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو الگ ہی دنیا تھی، ہر چیز سلیقہ اور قرینے سے رکھی گئی تھی۔ کمرہ کے چاروں طرف اسکرین اور اسکرین پر جامعہ کے تمام نقل و حرکات کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔ وقتا فوقتا مفتی صاحب اسکرینز پر طائرانہ نگاہ ڈالتے اور پھر اپنے کام میں جُت جاتے۔
موصوف ربانی صاحب نے خاکسار کا تعارف کروایا تو مفتی صاحب چشمہ کے پیچھے سے گھورنے لگے۔ اُن کے گھورنے سے اوسان تو خطا نہیں ہوئے تاہم ہمت منتشر ہونے لگی تھی کہ یکایک مفتی صاحب کی آواز گونجی: جی صاحب! فرمائیے کیسے آنا ہوا؟ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا نیز انٹرویو کی بابت اُن کی اجازت کے لیے تمہید اِن الفاظ میں باندھنی پڑی:
حضرت! آپ میرے اساتذہ کے استاذ ہیں، میرے اُستاذوں میں سے کسی نے آپ سے شرح وقایہ اور شرح تہذیب پڑھی ہے تو کسی نے مقامات اور ہدایہ۔ گویا آپ میرے دادا استاد ہوئے، میرے سوالات کچھ عجیب سے ہوتے ہیں، اگر اُنہیں اوٹ پٹانگ کہہ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں تاہم ان سوالات سے آپ کی توہین اور تنقیص قطعی مقصود نہیں بلکہ آپ اور آپ کے جامعہ سے متعلق پھیلائی جانے والی باتوں کی حقیقت جاننا ہے۔ امید ہے کہ آپ محسوس نہیں کریں گے بلکہ ذرہ نوازی فرماتے ہوئے جواب عنایت فرمائیں گے۔ میری خطبہ نما تمہید ختم ہوئی تو وہ مسکرا دیے، کہا، بڑے سمجھدار لگتے ہو، کہاں کے فاضل ہو؟ خاکسار نے اپنی مادر علمی اور سن فراغت سے متعلق آگاہ کیا تو اُن کی آنکھوں میں گویا چمک اتر آئی۔ بولے: جی شروع کریں، آپ کا وقت شروع ہوتا ہے۔ اب کی بار مختصر سا انٹرویو ہوجائے تو اچھا ہے کیونکہ تھوڑی دیر میں ایک میٹینگ کے لیے نکلنا ہے، بعد میں پھر کبھی تفصیلی انٹرویو قلمبند کرلیجیے گا۔ بندہ نے سرِ تسلیم خم کیے بنا سر کو صرف ذرا سا جنبش دیا تو سامنے لگی گھڑی کی سوئیاں سرعت سے یہاں وہاں سرپٹ دوڑنے لگیں۔
مفتی صاحب! شنید ہے کہ آپ مولویوں کے الطاف حسین ہیں۔ کورٹ کچہری، تھانہ، میڈیا، بدمعاشوں اور مافیاز کو قابو کرنے کے لیے آپ کے پاس کونسی ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ آپ جس پر پھیرتے ہیں وہ رام ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس دوران مفتی صاحب کے زور دار قہقہہ نے خاکسار کے سوال کو نکتۂ تکمیل پر پہنچنے سے پہلے ہی ائیر کنڈیشنڈ کی مصنوعی ہواؤں اور ٹھنڈک میں اڑا دیا۔ ہنسنے کے بعد چشمہ اتار کر ایک طرف پھینکا، آنکھوں کو مَلتے ہوئے بولے کہ یہ سوال تو آپ کا صحافیانہ اختراع ہے۔ اﷲ معاف فرمائے، ہمیں ایسے شخص سے نہ ملائیے جو ملک و ملت کا دشمن اور ریاست کا غدار ہو۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہم نے ہر کسی سے مضبوط روابط اور اچھے تعلقات بنارکھے ہیں جس کی بنا پر ہر کوئی ہماری سنتا ہے اور ہم کسی کی سُنتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے اچھے تعلقات ہی جادو کی چھڑی ہے۔
اچھا مفتی صاحب! یہ دوسرا سوال نہیں بلکہ پہلے سوال ہی کا تتمہ ہے، کیونکہ میرا سوال مکمل نہیں ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ایسا کوئی مولوی یا مہتمم نہیں دیکھا کہ جسے ہر نیا آنے والا آئی جی (انسپکٹر جنرل پولیس) فون کرکے نیک تمناؤں کا اظہار کرے اور تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہے۔ سنا ہے کہ آج کل میں آنے والے نئے آئی جی صاحب کی آپ سے نہیں بنتی، کیا یہ حقیقت ہے؟ دوسری بات یہ کہ ہمیں باہر چائے پیتے پتا چلا کہ کسی مسجد کمیٹی کو تھانہ ایس ایچ او نے زچ کر رکھا تھا، ملاقاتیوں میں سے کسی ایک نے ابھی آپ کو شکایت دی اور آپ نے فورا ڈی جی آئی کو فون کرکے اُس کی معطلی کے بارے میں بات کی اور آپ کو گرین سگنل بھی مل گیا۔ کیا یہ سب سچ ہے؟
سامنے رکھے مکتب پر اپنی کہنیاں ٹکاتے ہوئے گویا ہوئے: جی بالکل ایسا ہی ہے، نئے آنے والے آئی جی صاحب سے اُن کے پچھلے دور میں مدارس اور طلبہ کے ایشو پر ان بن ہوئی تھی، لیکن اب وہ جھگڑا ختم ہوگیا ہے، موصوف نے کل مجھے کال کرکے دینی مدارس و قیادت کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی کہا کہ بہت جلد جامعہ کا دورہ بھی کروں گا۔ رہا وہ کوکنی گراؤنڈ والی مسجد اور ان کے تھانہ کا معاملہ، تو ڈی آئی جی صاحب ہمارے اچھے دوست ہیں، بڑی گپ شپ ہے، ایسے چھوٹے موٹے قصے تو معمول کی بات ہے۔
حضرت! آپ بنوری ٹاؤن کے ہونہار فاضل اور مدرس تھے، کیا وجہ بنی کہ آپ بالکل الگ تھلک ہوکر شہر کے ایک کونے میں آبسے اور اپنے جامعہ کا نام بھی حضرت بنوری کے نام سے موسوم کیا۔ سنا ہے کہ یہ سب آپس کے کسی اندرونی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ میرے دوسرے سوال پر ایک گونہ تنک گئے، کہنے لگے کہ لگتا ہے آپ کی ”شنید” اور آپ کا ”سننا” دونوں شریر قسم کے بھائی بہن ہیں۔ میں اس قسم کی جھوٹی باتوں کی سختی سے تردید کرتا ہوں۔ جھوٹوں پر خدا کی مار پڑے، ہمارے کوئی اندرونی اختلافات نہیں تھے، بلکہ والد صاحب کو یہاں یہ جگہ مل رہی تھی تو حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب کی مکمل مشاورت اور ان کی تائید سے اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا، مزید یہ کہ ادارہ کا نام اور اس کا افتتاح بھی حضرت نے کیا، پھر اگلے روز وہ انتقال کرگئے۔ بنوری ٹاؤن میری مادر علمی ہے، میں اس سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتا، وہاں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ آپ بے فکر رہیے، یہ سب افواہیں اور بغض کا شاخسانہ ہے۔
اس دوران فون کی گھنٹی بجی تو مفتی صاحب کال میں مصروف ہوگئے اور بندہ اپنے سوالات کے نوک پلک سنوارنے میں لگا رہا۔ فون سے فارغ ہوتے ہی استفسار کیا کہ آپ ایک منجھے ہوئے استاد اور کہنہ مشق مفتی ہیں، کیا وجہ ہے کہ آج کل آپ نے تدریس سے کنارہ کر رکھا ہے۔
بڑے پیار سے بولے: بیٹا! آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میں نے تدریس سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی ہے؟ مصروفیات کی وجہ سے تدریس کو اگرچہ کم وقت مل رہا ہے تاہم پابندی کے ساتھ تدریس جاری ہے۔ بخاری شریف میں مغازی سالہا سال سے میرے پاس ہے۔ تدریس اور میرا رشتہ گویا روح اور جسم کا رشتہ ہے۔ اگر جسم سے روح نکال دی جائے تو جسم بیکار، اسی طرح اگر مجھ سے کلیتاََ تدریس کی ذمہ داریاں لے لی جائیں تو میرا بھی کوئی فائدہ نہیں۔
قبلہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ غیر محسوس طریقے سے صرف برسر اقتدار جماعت کے ہی قریب رہتے ہیں، کسی زمانہ میں ایم کیو ایم سے آپ کی قربت تھی، آج کل حکمران جماعت تحریک انصاف آپ کی منظور نظر ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا یہ بھی لوگوں کی نظروں کا دھوکا ہے؟ سامنے لگی اسکرین پر نظریں جماتے ہوئے کہنے لگے: ہماری تو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے سلام دعا رہتی ہے البتہ متحدہ کے ساتھ پہلے بھی قربت تھی اب بھی قربت ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ۔ حالانکہ ایم کیو ایم آج سب سے زیادہ مطعون جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح حکمران جماعت سے بھی صرف مدارس کے ایجنڈے، مدارس کے معاملات اور غیر ملکی طلبہ کے ایشوز پر تعاون جاری رکھنے تک اتحاد ہے۔ ابھی گزشتہ روز ختم بخاری کی تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل صاحب آئے تھے، میں نے ان کے اچھے اقدامات پر ان کی تعریف کی اور بعض امور پر ان سے برملا شکوہ بھی کیا۔
مفتی صاحب! آخری دو سوالات کے بعد اجازت چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ مضاربہ اسکینڈل کو آپ کا مکمل سپورٹ حاصل رہا ہے، آپ ان تمام بدنہاد کرداروں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو کہ آپ نے اپنے پورے ادارہ کو بھی اس کام میں مصروف رکھا تھا۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ سراسر بہتان ہے کہ میں مضاربہ اسکینڈل کے پیچھے تھا یا ان کو میری معاونت حاصل تھی۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے خود اپنے پیسے لگائے اور اپنے جاننے والوں کے پیسے لگائے لیکن کسی کو ترغیب دی اور نہ ہی کسی کو اکسایا۔ اب دیکھیے نا وہ بندہ فرار ہے لیکن ہم سکون سے بیٹھے ہیں کہ تمام ادارے جانتے ہیں کہ ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔مفتی صاحب کی بات کاٹتے ہوئے میں بول پڑا کہ کیا یہ اتنی سادہ سی بات ہے جتنی سادگی سے آپ بیان کررہے ہیں؟ لاحول پڑھ کر کہا: اور نہیں تو کیا میں اس کے لیے قسم اٹھاؤں؟؟
حضرت! آخری سوال ہے، میں نے اپنی زندگی میں صرف دو بندوں کو کھلے گریبان اور آستین چڑھائے ہوئے چلتے دیکھا۔ ایک ایس پی چودھری اسلم اور دوسرے آپ۔ آپ کو شروع سے ایک ہی حالت میں، ایک جیسے کپڑے اور ایک جیسے اسٹائل میں دیکھا۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کا لباس کے حوالہ سے وہ کروفر نہیں جو دیگر مذہبی رہنماؤں کا دیکھنے میں آتا ہے۔ ٹشو پیپر کے تین چار ڈبے سامنے موجود ہونے کے باوجود جیب سے رومال نکالا، چہرہ صاف کیا اور ساتھ رکھے زیتون کے تیل کی بوتل سے ہلکا سے تیل ہاتھوں میں لیا اور چہرے پر مَلتے ہوئے گویا ہوئے: بچپن سے والد صاحب نے لباس سے متعلق تکلف و تصنع سے دور رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ مجھے دیکھیں گے کہ کسی بھی قسم کا کوئی بھی اجتماع یا تقریب ہو، میں آپ کو ایک ہی حلیہ میں نظر آؤں گا اور یہ انداز اب مجھے پرسکون لگتا ہے۔ (مطبوعہ دلیل ڈاٹ پی کے)