حبیب الرحمن بٹالوی
اک بے وفا سے وفا چاہتا ہوں
’’میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘
نفرت میں سب کچھ روا ہوتا ہوگا
محبت میں صدق وصفا چاہتا ہوں
اذاں میں کہاں وہ روح بلالی!
اذانواں میں کیف صدا چاہتا ہوں
لفظوں کی ترتیب، شعروں کی بندش
میں حرفوں میں حُسنِ ادا چاہتا ہوں
بالوں میں چاندی اُترنے سے پہلے
بر دستِ دختر حنا چاہتا ہوں
گلشن میں، بن میں، کوہ و دمن میں
میں بادِ نسیم و صبا چاہتا ہوں
کھری بات کرنے کا عادی ہوں پیارے
’بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں‘‘