علامہ عبدالرشید نسیم طالوت رحمہ اﷲ
پوچھو نہ مجھ سے اس کی خرابی
جس قوم کے ہوں رہبر شرابی
اک ہاتھ میں ہے مفتی کا فتویٰ
اک ہاتھ میں ہے ساغر گلابی
معجون بھی ہے الہام بھی ہے
پیری کو آئی وحیِ شتابی
سنتے نہیں وہ اب بات میری
لے ڈوبی مجھ کو حاضر جوابی
بچتے ہیں اب تو ہر جعفری سے
اﷲ ان کی عصمت مآبی
جامِ پلومر پھر ہاتھ میں ہے
چندوں میں ہوگی پھر بے حسابی
اپنا رہے ہیں ہر گندگی کو
رکھتے ہیں گویا وصف ذبابی
تقلید سے ہیں جو دور کوسوں
کہتے ہیں مجھ کو وہ بھی وہابی
دل میں ہے میرے عشق ان کا نافذ
شاہد ہیں جس پر اشک ِصنابی