نوراﷲ فارانی
شورش کاشمیری مرحوم لکھتے ہیں:لکھنے لکھانے کا شوق کبھی نہ تھا،البتہ خطوط کا جواب سفر وحضر دونوں صورتوں میں خود لکھتے۔(سید عطااﷲ شاہ بخاری ……سوانح وافکار ص:۳۶) اسی کتاب میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: قرطاس وقلم سے انہیں چڑ تھی۔با ایں ہمہ شاہ جی کے نثری ذخیرہ میں چند مضامین ایک دو مقدمات اور متعدد خطوط شامل ہیں جو ان کے تحریری بانکپن کا پتہ دیتے ہیں۔عموما آٹوگراف دینا پسند نہیں کرتے تھے،فرماتے میں درویش آدمی ہوں یہ باتیں لیڈروں کو زیب دیتی ہے،آٹوگراف کو انگریزی بدعت سے تعبیر کرتے۔آٹوگراف لینے والے کو اپنی خدا داد برجستہ گوئی اور گفتگو کے خطیبانہ طرز میں خوب سمجھاتے اور آٹوگراف دینے سے پہلو تہی کرلیتے۔ جناب ندیم انبالوی مرحوم لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں شاہ جی کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں نے حسب عادت آٹوگراف کیلئے بک ان کی طرف بڑھائی۔شاہ جی فرمانے لگے: میں تو ایک درویش آدمی ہوں۔ یہ باتیں لیڈروں کو زیب دیتی ہیں۔بھائی میں لیڈر نہیں ہوں۔میں نے بہت اصرار کیا،مگر شاہ جی نہ مانے۔(ماہنامہ نقیب ختم نبوت امیرشریعت نمبر،حصہ دوم، ص۵۰۶)
منظور احمد بھٹی مرحوم لکھتے ہیں:ایک زمانے میں مجھے بڑے لوگوں سے ان کے دستخطوں کے ساتھ کوئی پیغام لینے کا بڑا شوق تھا۔اس مقصد کے لیے میں نے ایک بڑی خوبصورت کاپی بنارکھی تھی۔شاہ جی دفتر احرار(لاہور) میں محفل جمائے بیٹھے تھے۔میں نے ڈرتے ڈرتے کاپی ان کے آگے بڑھا دی۔ دیر تک کاپی کی تعریف کرتے رہے اور مسکرا کر فرمایا:کیوں میاں یہ مجھے تحفہ دے رہے ہو۔؟عرض کیا : شاہ جی اس پر آپ اپنے قلم سے کچھ لکھ دیں۔فرمایا: نہ بھئی،اتنی خوبصورت کاپی میں کیوں خراب کروں ؟شاہ جی!یہ اسی مقصد کے لیے ہے۔یہ آٹوگراف بک ہے۔شاہ جی ذرا غصے میں آگئے۔ فرمایا:وہی انگریزی بدعت اور اس کے ساتھ ہی کاپی مجھے واپس لوٹانے لگے۔ دوبارہ عرض کیا:شاہ جی اس پر اپنی طرف سے کوئی پیغام لکھ دیجئے۔فرمانے لگے میں کیا اور میرا پیغام کیا؟پیغام لانے والا (صلی اﷲ علیہ وسلم) تیرہ سو سال پیشتر جو پیغام لایا تھا اس پر تم لوگ کیا عمل کر رہے ہو؟اسی پیغام کو سمجھو اور اسی پر عمل کرو۔دنیا وعقبی سنوارنے کے لئے کافی ہے۔(ماہنامہ نقیب ختم نبوت کا امیر شریعت نمبر حصہ دوم، ص ۲۲۲)
بعض لوگ آٹوگراف لینے کے بڑے دیوانے ہوتے ہیں اپنی پسندیدہ شخصیات کے آٹوگراف لینا جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اب تو خیر سے یہ شوق جان کنی کی حالت میں ہے مگر اب بھی بعض افراد کو یہ شوق دامن گیر رہتا ہے جس کے لیے وہ اپنی آئیڈیل شخصیات کی دامن گیری کرتے نظر آتے ہیں۔مگر شاہ جی کے آٹوگراف دینے سے تمام تر تنفر اور پہلوتہی کے باوجود بعض خوش قسمت عقیدت مند اس سعادت کے حصول میں کامیاب ہوئے اور شاہ جی کے دست مبارک سے آٹوگراف لے کے ہی رہے۔
جنید احمد کے لیے آٹو گراف:
جنید احمد صاحب نے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ سے 1990 میں مختلف علما اور ادیب حضرات کے آٹوگراف پر مشتمل ایک مجموعہ شائع کیا جس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اﷲ دہلوی، مولانا قاری محمد طیب،مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبیر احمد عثمانی ،مولانا سید عطااﷲ شاہ بخاری وغیرہ جیسے اساطین علم وادب کے آٹوگراف شامل ہیں۔اس کتاب کے صفحہ ۲۳ پر شاہ جی کا آٹوگراف موجود ہے۔تحریر فرماتے ہیں:”مخلوق میں جب تک خالق کا نظام نہیں چلایا جائے گا دنیا میں امن نہ ہوگا۔”سید عطااﷲ بخاری ۲۸ دسمبر ۱۹۴۵ء بمبئی دفتر ہلال نو۔
شاہ جی ۱۹۴۶ء کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں بمبئی کے دورے پر تھے حافظ علی بہادر مرحوم جو ہفت روزہ ’’ہلال نو‘‘ کے مدیر تھے، بمبئی سے احرار کے ٹکٹ پر انتخاب میں امیدوار تھے۔جنید احمد نے یہ آٹوگراف ’’ہلال نو‘‘کے دفتر میں شاہ جی سے لیا۔
محمد ایوب اولیا کے لیے آٹو گراف:
محمد ایوب اولیا اپنے ایک مضمون میں شاہ جی سے اپنی ملاقات کے احوال لکھتے ہوئے آٹوگراف لینے کے حوالے سے لکھتے ہیں:میں بھی آستانہ عالیہ پرجا پہنچا۔ شاہ جی نے کپڑے بدلے میرے پاس آٹو گراف البم تھا اور مجھے جستجو تھی کہ شاہ جی سے ہجوم کم ہو اور میں ان کا آٹو گراف حاصل کروں۔ میرے ساتھ میرے ایک عزیز دوست بھی تھے۔ باربار جرأت کرتا مگر شاہ جی کا بارعب چہرہ دیکھ کر گھبرا جاتا۔ ایک صاحب کہنے لگے واہ جی!آپ کو شاہ جی کیوں آٹوگراف دینے لگے۔ انہوں نے توشورش کو بھی آٹوگراف نہیں دیے ۔ میں بھی چٹان کے سالگرہ نمبر میں بخاری صاحب کے فوٹو گراف کے سامنے استفہامیہ علامت(؟) دیکھ چکاتھا۔(بعد میں شاہ جی نے شورش کاشمیری کو آٹوگراف دیتے ہوئے لکھا:
یہ کہہ رہے ہیں تجھ سے شہیدانِ راہِ عشق
تو دل کا خون کر لے محبت کا خوں نہ کر
iماہنامہ نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر حصہ دوم: ص۲۱۹)
میں نے کہا ہاں تم ٹھیک کہتے ہو ۔ اس سے میری جرأت کواور بھی ضعف پہنچا۔ گھر سے نکل چکا تھا۔ گوہرِ مقصود حاصل ہونے ہی والا تھا کہ آنجناب نے ٹانگ اڑائی اور مجھے دل بر داشتہ کردیا۔ میں بھی طے کرچکا تھاکہ اس شعر کے مصداق تو نہیں بنوں گا:
قسمت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے
جوتھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
شاہ جی کے عقیدت مند پاؤں دبار ہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس جاپہنچا اور شاہ جی سے آٹوگراف کے متعلق کہا،کہنے لگے بھئی شعر میں لکھوادیتا ہوں، لکھ لو نیچے میں دستخط کردوں گا۔ میں نے کہا خود ہی شعرلکھیے اوردستخط بھی کیجیے۔ کہنے لگے: تھک گیاہوں، اس لیے معذور ہوں۔ پاس ہی سائیں حیات اورامین گیلانی بیٹھے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے۔ لائیے ہم لکھ دیتے ہیں۔ شاہ جی سے صرف دستخط کروالیجیے گا۔ میں اس پربھی رضامند نہ ہوا۔ ایک صاحب کہنے لگے۔ شاہ جی کے دست مبارک سے شعر اور دستخط لینا چاہتے ہیں۔ میں نے فورا کہا۔ نہیں صاحب!دست مبارک سے نہیں بلکہ دست خاص سے۔شاہ جی اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے سن لیا بھئی! دست خاص سے لکھوانا ہے ان کو۔ اور پھر اس پر مسکرادیے۔ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور اپنے نانا(صلی اﷲ علیہ و سلم) کی تعریف میں ایک شعر لکھ دیا جونذرقارئین ہے:
یتیمِ مکہ محمد کہ آبروئے خدا است
کسے کہ خاک رہش نیست برسرش خاک است
(عطا اﷲ شا ہ بخاری،۲۸ـ فروری۵۶ء ۔ گو جرانوالہ )
ہفت اقلیم کی دولت مل چکی تھی، غنچۂ دل باغ باغ تھا ،شاہ جی کاشکر یہ اداکیا، ساری کوفت دور ہوگئی۔ (نیرنگ نظر از محمد ایوب اولیا ص 61)
اکرام آصفی کے لیے آٹوگراف:
رازی پاکستانی شاہ جی کے عقیدت مندوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔انہوں نے اپنے بھائی اکرام آصفی کی معیت میں ۱۰؍ اپریل ۱۹۵۶ کو شاہ جی سے ملتان شہر میں ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ اس دوران ان کے بھائی اور انہوں نے شاہ جی سے آٹو گراف لیے۔رازی صاحب نے آٹوگراف لکھتے وقت شاہ جی کی روسی کیمرہ سے تصویر لی۔یہی وہ تصویرہے جس میں شاہ جی کچھ لکھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ شاہ جی کی یہی تصویر اور آصفی کا آٹوگراف شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’سید عطااﷲ شاہ بخاری…… سوانح وافکار‘‘کے پہلے ایڈیشن میں شائع کیے تھے۔جناب رازی پاکستانی لکھتے ہیں:……اس دن شاہ جی نے مجھے اور میرے بھائی اکرام آصفی کو بھی آٹوگراف دئیے تھے۔اکرام کی آٹوگراف بک پر انہوں نے یہ شعر تحریر فرمایا کہ:
کانٹوں میں ہے گھرا ہوا چاروں طرف سے پھول
پھر بھی کھلا ہی پڑتا ہے، کیا خوش مزاج ہے
(ماہنامہ نقیب ختم نبوت کا امیر شریعت نمبر حصہ دوم ص:۳۴۰)
(شعر کے نیچے شاعر کانام ’’شاد عظیم آبادی‘‘اس کے بعد دستخط سید عطااﷲ بخاری۱۰؍اپریل ۵۶ملتان شہر تحریر ہے )
مختار مسعود کے لیے آٹو گراف:
مختار مسعود کی معروف زمانہ کتاب ’’آواز دوست‘‘ جو دومضامین پر مشتمل ہے پہلا مضمون ’’مینار پاکستان‘‘ جبکہ دوسرا مضمون ’’قحط الرجال‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ مضمون اس آٹوگراف بک کے گرد گھومتا ہے جو ۱۹۳۸ء میں مختار مسعود نے جب وہ پانچویں جماعت کے طالب علم تھے اپنے والد کے مشورہ پر خریدی تھی۔مختار مسعود نے ان تمام شخصیتوں کا نہایت دلچسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے آٹو گراف لیے،جن شخصیتوں کے انہوں نے آٹو گراف لئے ان میں قائد اعظم ، سروجنی نائڈو، مارشل ٹیٹو،خالدہ ادیب خانم ، ملا واحدی، حسرت موہانی، ظفر علی خان، نواب بھوپال، راجہ صاحب محمود آباد اور سید عطااﷲ شاہ بخاری نمایاں ہیں۔مختار مسعود شاہ جی سے اپنی ملاقات کے احوال لکھتے ہوئے آٹوگراف لینے کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں:’’……میں نے موضوع بدل دیا اور اپنی آٹو گراف البم ان کے سامنے کر دی، شاہ جی نے اسے پہلو پر رکھا اور لکھا:
وہ اٹھتا ہوا اک دھواں اول اول
وہ بجھتی سی چنگاریاں آخر آخر
قیامت کا طوفان صحرا میں اول
غبارِ رہِ کارواں آخر آخر
چمن میں عنادل کا مسجود اول
اور گیاہِ رہِ گل رخاں آخر آخر
ان تین اشعار کے نیچے ایک طویل کش کے ساتھ سید لکھا اور سید کے اوپر عطااﷲ بخاری لکھ کر دستخط مکمل کر دئیے۔(آواز دوست ص:۱۵۴،از: مختار مسعود)
واضح رہے یہ اشعار شاہ جی کے ہیں جو انہوں نے اپنے مجموعہ کلام ’’سواطع الالہام‘‘ (اشاعت مارچ ۱۹۵۵ء)کی اشاعت کے بعد دورِآخر میں کہے ۔