حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ
اﷲ تعالیٰ شانہ نے یوں تو ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر رحمت و عنایت اور اَجر وثواب کے وعدے فرمائے ہیں، نماز وزکوٰۃ اور روزہ واعتکاف وغیرہ سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں، لیکن تمام عبادات میں ’’حج بیت اﷲ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے، حج گویا دبستانِ عبدیت کا آخری نصاب ہے، جس کی تکمیل پر بار گاہ عالی سے رضا وخوشنودی کی آخری سند عطا کی جاتی ہے، کتنے عجیب انداز سے فرمایا گیا ہے:
’’والحج المبرور لیس لہ جزاءٌ الاالجنۃ‘‘
’’اور ’’حج مبرور‘‘ ایک ایسی عالی شان عبادت ہے کہ بجز جنت کے اس کا اور کیا بدلہ ہوسکتا ہے۔ ’’حج مبرور‘‘ جس کا بدلہ صرف جنت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اس میں گناہ کی آلودگی اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو، یعنی تمام سفر حج میں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے آدمی بچے اور محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حج کیا جائے۔ بلاشبہ اس شرط کا نبھانا بھی بہت مشکل ہے اور صرف اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل ہی سے یہ مشکل مرحلہ طے ہوسکتا ہے
حج کی ظاہری صورت بھی عجیب وغریب ہے اور اس میں غضب کی جاذبیت ہے، قدم قدم پر عشق ومحبت کی پُر بہار منزلیں طے ہوتی ہیں۔ سب سے بڑے دربار کی حاضری کا قصہ ہے، دِل میں دیار محبوب کی آرزؤیں مچلتی ہیں، سفر طویل ہے، حلال وطیب توشۂ سفر کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ نیک اور صالح رفیق کی تلاش ہورہی ہے۔ چشم پُرنم کے ساتھ عزیزو اقارب سے رخصت ہو رہے، لین دین کا حساب بے باق کیا جارہا ہے، حق حقوق کی معافی طلب کی جارہی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ اس دربار میں حاضر ہوں تو کسی کا معمولی حق بھی گردن پرنہ ہو۔ لیجئے روانگی کا وقت آیا، غسل کرلیجئے اور دوسفید نئی چادریں پہن لیجئے۔ گویا انسان خود اپنے ارا دہ و اختیار سے سفر آخرت پر روانہ ہورہا ہے۔ پہلے غسل سے بدن کے ظاہری میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور پھر کفن کی چادریں اوڑھ کر دو گا نہ احرام ادا کرتا ہے اس طرح گویا توبہ وانا بت سے دل کے میل کچیل سے اپنے باطن کو پاک صاف کرتا ہے اور ظاہری وباطنی نظافت کے ساتھ شاہی دربار میں نذرانۂ عشق ومحبت پیش کرنے کا عہد کرلیتا ہے۔ ارحم الراحمین نے دعوت دے کر بلایا ہے اور شاہی دربار سے بلاوا آیا ہے۔ یہ فوراً ’’بیت اﷲ الحرام‘‘ کے شوق دیدار میں اس دعوت پر لبیک اللّٰہم لبیک (میں حاضر ہوں، اے میرے اﷲ! میں حاضر ہوں) کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مستانہ وار سوئے منزل روانہ ہوجاتا ہے۔
یہ اس والہانہ وعاشقانہ عبادت کی ابتداء ہے،زیب وزینت کے تمام مظاہر ختم۔ راحت وآسائش کے تمام تقاضے فراموش…… نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں ڈھب کا جوتا، نہ بدن پر ڈھنگ کا کپڑا، دیوانہ وار رواں دواں منازلِ عشق طے کرتا ہوا جارہا ہے۔ دیار محبوب کی دُھن میں بادہ پیمائی ہور ہی ہے۔
در بیابانہا ز شوق کعبہ خواہی زد قدم
سرزنشہا گر کند خارِ مغیلاں غم مخور
ترجمہ: کعبہ مکرمہ کے شوق میں ویرانوں میں قدم رکھنے ہوں گے، (پھر) اگر نوکیلے کانٹے سرزنش کریں تو غم نہیں کرنا چاہیے۔
پہنچتے ہی مرکز تجلیات (کعبہ) پر نظر پڑتی ہے تو بے ساختہ دارِ محبوب کا طواف کرتا ہے بار بار چکر لگاتاہے۔ حجر اسود جو یمین اﷲ فی الارض کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو چومتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے، ملتزم سے چمٹتا ہے، زار وقطار روتا ہے۔ گویا زبانِ حال سے کہتا ہے:
نازم بچشم خود کہ روئے تو دیدہ است
افتم بپائے خویش کہ بکویت رسیدہ است
ہزار بار بوسہ زنم من دست خویش را
کہ بدامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است
ترجمہ: مجھے اپنی آنکھ پر فخر ہے کہ یہ تیرا جمال دیکھ چکی ہے۔ میں اپنے پاؤں کے قربان جاتا ہوں کہ یہ تیرے کوچے تک پہنچ چکا ہے۔ میں خود اپنے ہاتھوں کو ہزار بار چومتا ہوں کہ یہ تجھے دامن سے پکڑ کر میری طرف کھینچ چکے ہیں۔
ا س بے خود عاشق زار کو، جو قلب تپاں اور جگر سوزاں لے کر آیاتھا، پہلی مہمانی کے طورپر آبِ زم زم کا تحفۂ شیریں پیش کیا جاتا ہے جس سے تسکین قلب بھی ہوگی اور جگر کی پیاس بھی بجھے گی او ر حکم ہوتا ہے کہ جتنا پیا جاسکے پی لے،خوب دل ٹھنڈا کرلے کوئی کسر نہ چھوڑے۔ یہاں سے فارغ ہوکر صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتا ہے۔ پھر منیٰ پہنچتا ہے پھر اس سے آگے عرفات کا رخ کرتا ہے ۔ آج وادی عرفات سچ مچ ہنگامہ محشرکا منظر پیش کر رہی ہے، حیرت انگیز اجتماع ہے رنگارنگ شکلیں مختلف زبانیں، بوقلموں مناظر ہیں۔ یہ سب رب العالمین کے دربارِقدس کے مہمان ہیں۔ یہ شاہی دربار میں عبدیت وبندگی،ضعف وبے کسی، عجزو درماندگی اور ذلت ومسکنت کا نذرانہ پیش کریں گے اور رضاء ومغفرت، فضل واحسان اور انعام واکرم کے گوہر مقصود سے جھولیاں بھر کرلے جائیں گے۔ اپنے لیے اپنے اعزہ واقارب اور دوست احباب کے لیے آج جو کچھ مانگیں گے نقد ملے گا۔ زوال ہو اتو ہر چہار طرف سے آہ وبکاکا شور برپا ہوا۔ اس کی آواز بھی اس حیرت انگیز طوفان گریہ وزاری میں ڈوب گئی، شام تک کا سارا وقت اسی عالم تحیر میں گذارتا ہے، کبھی خوب رو روکر مانگتا ہے، کبھی لبیک اللھم لبیک کا نعرہ لگا تا ہے، کبھی تکبیر کی گونج سے زمزمہ آرا ء ہوتا،کبھی تہلیل سے نغمہ سرا ہوتا ہے، کبھی لااِلہ الا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ سے وحدانیت ور بوبیت کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ عابدو معبود کا یہ تعلق کتنا دلر با ہے اور بندگی وسرافگند گی کا یہ منظر کس قدر حیرت افزا ہے؟
آفتاب غروب ہوا اور اس دشت پیمانے بوریا بستر باندھ مزدلفہ کا رُخ کیا، شب بیداری وہاں ہوگی۔ مغرب وعشاء کی نماز وہاں پڑھی جائے گی، اظہار آداب بندگی میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے تو وہاں نکالی جائے گی۔ کبھی رکوع وسجود ہے، کبھی وقوف وقیام ہے، کبھی تہلیل وتکبیر ہے، کبھی تسبیح وتلبیہ ہے۔ گریہ وزاری، دُعا ومنا جات اور تضرع وابتہال کا نصاب پورا ہوا تو کامیابی وکامرانی کی نعمت سے سرشار ہوکر وہاں سے منیٰ کو چلا، دشمن انسانیت، عدومبین،راندۂ بارگاۂ ابلیس لعین کی سر کوبی کے لیے جمرہ کی رمی کی، خلیل وذبیح (علی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام) کی سنت قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے اﷲ تعالی کے نام پر قربانی دی اور رضائے محبوب کے لیے جان ومال کے ایثار وقربانی کا عہد تازہ کرلیا۔ وہاں سے بارگاہ قدس کے مرکز انوار کی زیارت کر چلا، اور طواف کعبہ کے انوار و برکات سے دیدہ و دل کی تسکین کا سامان کیا۔
الغرض اس عاشقانہ ووالہانہ عبادت میں دیوانہ وار ایثار قربانی اور عبدیت وفنائیت کاریکار ڈ قائم کرلیتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے انوار و برکات سے سراپا نور بن جاتا ہے اور رحمت، رضوان کے تحفوں سے مالا مال ہو کر اور استحقاقِ جنت کی آخری سَند لے کر اپنے وطن کو واپس لوٹتا ہے۔ اس طرح بندہ بندگی کا ثبوت دے کر جنت ورضوان الٰہی کی نعمتوں سے سرفرازی کے تمغے وصول کرلیتا ہے۔ ’’والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ ‘‘ (مقبول حج کا بدل جنت سے کم کچھ نہیں ہو سکتا۔ حدیث شریف)کے آخری انعام سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کس انداز سے عشق ومحبت کی منزلیں طے کی گئیں اور کس کس طرح شاباشوں سے نوازا کیا۔ یہ اس عاشقانہ وعارفانہ عبادت کا بہت ہی مختصر سانقشہ ہے۔
ظاہر ہے کہ مقصد بہت ہی اعلیٰ ہے، اس لیے کبھی کبھی اس مقصد کے حصول کے لیے امتحان بھی ناگزیر ہوتا ہے، مدتوں کے جمے ہوئے تہ برتہ زنگ وغبار کو دور کرنے کے لیے شدید تنقیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی جان پر امتحان آتا ہے، کبھی مال پر کبھی رفقاء سے تنہا کرا کر تڑپایا جاتا ہے، کبھی پٹوا کر رُلا یا جاتا ہے، کبھی ہر آسائش وراحت چھین کر آخرت کی آسائش وراحت کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ بہر حال یہ راز سر بستہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ شان ربوبیت کے کریمانہ کرشمے ہیں۔ شان صمدیت کا ظہور ہے اور ارحم الراحمین کی رحمت خفیہ کے شُیون ہیں۔ رحمت الٰہی کا ظہور کبھی بصورت رحمت ہوتا ہے کبھی بشکل زحمت۔ کسی کو چون وچرا کی گنجائش نہیں یہ وہ مقام ہے کہ عارفین،جو دریائے معرفت کے غوطہ زن ہیں وہ بھی سر حیرت جھکا کر خاموش ہیں۔ صبرآزما امتحان لیا جاتا ہے،کبھی جوع وخوف کے، کبھی نفس واموال زیر امتحان ہوتے ہیں، رضا بالقضاء کے لیے مجاہدہ کرایا جاتا ہے اور مہر بانی اور شاباش کی بارش ہوتی اور آخر میں جنت کی سند مل جاتی ہے اور ’’والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ‘‘ کا تحفہ عطا کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ عبدیت کا ظہور اور شان عشق ومحبت کا مظاہرہ جس طرح حج بیت اﷲ الحرام میں ہوتا ہے کسی اور عبادت میں نہیں ہوتا۔
دوران حج احتیاط
(۱) عورتوں اور مردوں کا ناگفتہ بہ اختلاط طوافوں میں، نماز میں او رسلام کی حاضری میں غیر شرعی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورتوں کے طواف کے لیے رات یا دن میں کوئی وقت مخصوص کرلیا جائے اور اس طرح سلام کی حاضری کے لیے بھی وقت مخصوص ہو ان اوقات میں مردوں کو طواف یا حاضری سے رو کا جائے۔
(۲) نہ تو عورتوں پر جماعت کی پابندی ہے، نہ مسجد کی حاضری کی فضیلت ہے، نہ نماز جمعہ ان پر فرض ہے، اس لیے عورتیں گھر میں نماز پڑھا کریں۔ اور اسی طرح جمعہ میں عورتوں کی حاضری روکی جائے، موجودہ صورتحال نہ شرعاً درست ہے، نہ عقلاً قابل برداشت ہے۔
(۳) رمی جمرات کے لیے عورتیں رات کو جایا کریں، جس طرح بوڑھوں اور مریضوں کے لیے بھی یہی وقفہ مناسب ہے بلاشبہ بغیر عذرکے یہ خلاف سنت ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں ان شاء اﷲ کراہت بھی ختم ہو جائے گی۔
(۴) اس وقت جو صورتحال ہے قانون وفقہی احکام کے پیش نظر تو یہ اُمید رکھنا بہت مشکل ہے، یہ عبادت صحیح ادا ہوئی یاحج مبرور ہوگا۔ صحیح طواف کیسے ہو؟ اور اس میں کیا کیا باریکیاں ہیں؟ اگر ایک قدم طواف کا ایسا ادا ہوکہ بیت اﷲ کی طرف سینہ ہو جائے۔ تو سارا طواف بیکار ہوگیا۔ اگر شروع کرنے میں حجرا سودسے تقدم ہوگیا تو طواف میں نقصان آجاتا ہے، اگر ایک انچ ہٹ کر طواف شروع کیا تو سر ے سے طواف ہوا ہی نہیں۔ خاص کراژ دہام وہجوم میں صحیح طواف کرنا بے حدو شوار مرحلہ ہے عورتیں مردوں کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ایک عورت اگر صف میں مردوں کے درمیان کھڑی ہوگئی تو تین مردوں کی نماز غارت ہوگئی، جو شخص دائیں ہو، جو بائیں ہو جو اس کی سیدھ میں پیچھے ہو۔ اگر ایک ہزار عورتیں اس طرح صفوں کے درمیان ہیں تو تین ہزار مردوں کی نماز فاسد ہوگئی۔ دوران سفر بہت سی نمازیں قضاء ہو جاتی ہیں اگر فرض نماز قضاء ہوگئی تو حج مبرور کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ الغرض اس طرح دسیوں مسائل ہیں کہ جن سے عوام تو کیا علماء بھی غافل ہیں۔ ’’رمی جمرات‘‘ میں معمولی عذر پر دوسروں کو وکیل بنایا جاتا ہے، اس طرح وہ توکیل صحیح نہیں ہوتی۔ دم لازم آجاتا ہے۔ غور کرنے سے محسوس ہوا کہ جہاں تک مسائل واحکام کا تعلق ہے مشکل سے یہ کہا جائے گا کہ یہ حج صحیح ادا ہوگیا لیکن حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کاملہ کے پیش نظر کوئی بعید نہیں کہ اگرنیت صحیح ہو اور جذبہ سچا ہو تو تمام کوتا ہیاں اور قانونی فرو گذاشتیں سب معاف ہوں، اور ارحم الراحمین کی رحمت عامہ سے یہی اُمید ہے کہ اپنے گنہگار بندوں کی کوتا ہیوں سے در گزر فرما کر اپنی رحمت ونعمت سے نوازے اور نہ معلوم کس کی کون سی اداء قبول ہوجائے اور کیا کچھ خزانہ رحمت سے ملے اور بلا شبہ حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کاملہ کی موسلاد ھار بارش میں کوئی بدنصیب ہی محروم رہے گا، ہوسکتا ہے کہ چند مقبولین بارگاہ کے طفیل سب کا حج قبول ہو۔ اس کی شان کریمی کے سامنے سب کچھ آسان ہے۔ کا ش اگر حق تعالیٰ کی اتنی مخلوق قانون کے مطابق جذبات صادقہ سے والہانہ انداز سے یہ فریضہ ادا کرتی تو اُمت کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور تمام عالم میں ان نمائندگان بارگاہ قدس کا فیض جاری ہوتا۔ جس حریم قدس کو ان شاندار کلمات سے وحی ربانی میں یاد کیا ہو:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَ کًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰٰلَمِیْنَ۔ فِیْہِ اٰیٰتٌ م بِیّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عن الْعٰلَمِیْنَ (سورۃاٰل عمران 96،97)
ان آیات بینات اور ان برکات وتجلیات کا کیا ٹھکانا؟ بہر حال کہنا یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ قانون کی رُو سے بھی صحیح حج ہو، اور نیت وجذبہ بھی سچا ہو، اور قدم قدم پر تقصیر کا احساس ہو، اور یہ تصور مستمر قائم ہو کہ اس حریم اقدس میں حاضری کے آداب کی اہلیت کہاں، ہم جیسے نا پاکوں کو اس پاک سر زمین میں حاضری کی دعوت دی گئی اور پہنچ گئے۔ یہ محض حق تعالیٰ شانہ کا عظیم احسان ہے کہ اس مقدس زمین اور بُقعۂ نور میں، سراپا ظلمات والے کو جگہ عطا فرمادی۔ توقع ہے کہ اس احساس سے بارگاہ قدس میں شرف قبولیت نصیب ہو، یہ جوکچھ بیت اﷲ کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ بہت سطحی حقائق کے درجہ میں بات عرض کی گئی،ورنہ جو حقائق واسرار عارفین وکبار صوفیاء کرام، شیخ اکبر امام ربانی شیخ احمد سر ہندی، حضرت شیخ سید آدم بنوری،شاہ عبدالعزیز اور حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم ناناتوی رحمہم اﷲ جمیعاً نے بیان فرمائے ہیں وہ دائرہ بیان سے بالاتر ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے رسالہ ’’بُغیۃ الاریب فی القبلۃ والمحاریب‘‘ کے آخر میں کچھ تھوڑا سا حصہ بیان کیا ہے۔ بہر حال کعبۃ اﷲ اس مادی کا ئنات میں’’شعائر اﷲ‘‘ میں داخل ہے، نماز میں اگر حق تعالیٰ شانہ سے منا جات وہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو حج میں حق تعالیٰ کے گھر میں مہمانی کا شرف ومجد حاصل ہے۔ جب ہم کلامی کی عظمت بیت اﷲ الحرام میں نصیب ہو اور دونوں عظمتیں جمع ہوجائیں تو جوکچھ بھی اس کا درجہ ہوگا۔ تصوروخیال سے بالا تر ہے۔
ــ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘
یہ وہ مقام ہے کہ انتہائی تعظیم وادب کی ضرورت ہے لیکن آج کل ہماری غفلت وجہالت سے جو صورت حال ہے وہ ظاہر ہے۔ افسوس یہ کہ ہماری تمام عبادات کی صرف صورت رہ گئی، روح نکل گئی ہے۔ تمام عبادات بے جان لاشے ہیں، اگر ان میں جان ہوتی تو آج اُمت محمد یہ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ حق تعالیٰ کی رحمت ہے اور اسلام کا حکیمانہ نظام ہے کہ مساجد بھی بیوت اﷲ ہیں۔ وأنَّ المساجد للّٰہ فلا تدعوا مع اللّٰہ احدا۔ (مساجد صر ف اﷲ تعالیٰ کی ہیں اُن میں صرف اﷲ ہی کی عبادت ہونی چاہیے) آخری سب سے بڑا مرکزی گھر وہ مسجد حرام وہ بیت الحرام ہے، جس سے عالم میں بجز اس مقام کے جہاں حضرت سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرمارہے ہیں کوئی مقدس قطعہ نہیں، جہاں پر حق تعالیٰ کی طرف کے انوار کی موسلادھار بارش برستی ہے، فرشتے طواف کے لیے آسمانوں سے اُترتے ہیں، حق تعالیٰ مسلمانوں اور حجاج کرام کو توفیق نصیب فرمائے کہ اس مقام کی صحیح معرفت نصیب ہو۔ بقدر طاقت بشری حق ادا کرسکیں۔آمین