تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حضرات عشرہ مُبشرہ رضی اﷲ عنہم

حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ

۱۔ سیدنا ابوبکر صدیق ۲۔ سیدنا عمربن الخطاب ۳۔ سیدنا عثمان بن عفان ۴۔ سیدنا علی المرتضیٰ ۵۔ سیدنا طلحہ ۶۔ سیدنا زبیر ۷۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ۸۔ سعدبن ابی وقاص ۹۔سیدنا ابوعبیدۃ بن الجراح ۱۰۔سیدنا سعیدبن زیدرضی اﷲ عنھم اجمعین
امام ابن عبدالبرایک جگہ چند صحابہ کرام کے اسماء گرامی لکھ کر فرماتے ہیں: وفضائلہم لایحیط بھا کتاب (الاستیعاب ص۳۲۷) ان حضرات کے کے فضائل تو ایک کتاب میں بھی نہیں آسکتے۔ یہی گزارش ہم کرتے ہیں کہ حضرات خلفاء راشدین، خاتون جنت سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اور سیدا شباب اہل الجنۃ حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کے حالات ایک تو لکھے پڑھے لوگوں کو کچھ معلوم ہی ہیں، دوسرے اگر ان حضرات پر کچھ لکھنا شروع کریں تو بے ساختہ بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اور یوں ایک غیر معمولی ضخامت کی کتاب مرتب ہوجائے گی، جو من وجوہ ہماری وسعت سے باہر ہے۔ اس لیے ہم ان حضرات کے تذکرے سے سکوت اختیار کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔ رضی اﷲ عنہم وارضاھم
سیدنا طلحہؓ
دشمنا ن اسلام کی ایک سازش……اور بہت بڑی سازش ……اپنا کام کرگئی۔ امت مسلمہ کے ایک نزاعی مسئلہ نے خطرناک خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی۔ وہ تلوار جو پہلے کفر کی شہ رگ کاٹ رہی تھی آج مسلمانوں کی گردنوں پر چل رہی تھی۔ تھوڑے سے وقت میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ جمل کے روز جانبین سے ہزاروں مسلمان کھیت رہے۔ جنگ کا بادل چھٹاتو خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ نے اعلان فرمایا کہ کسی مسلمان کی کوئی چیز مال غنیمت سمجھ کر نہ لی جائے۔ طرفین کے مقتولین کو جمع کرکے ان کے جنازے پڑھے جائیں گے اور انہیں باقاعدہ دفن کیا جائے گا۔
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ چلتے چلتے ایک لاش کے پاس آکر رک گئے، کچھ دیکھا، کچھ سوچا اور پھر میت کا ایک ہاتھ(جومدت ہوئی شل ہو چکا تھا اور اب محض ایک لوتھڑے کی شکل میں بدن کا حصہ تھا) اسے اٹھا کر بوسہ دیا، اناﷲ پڑھا اور بے ساختہ آنسوؤں کے چند قطرے ڈھلک پڑے۔ یہ نعش کس کی تھی؟ سیدنا طلحہ بن عبید اﷲ رضی اﷲ عنہ کی، جن کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماچکے تھے۔
ا۔ طَلحَۃ فِی الجَنَّۃ طلحہ بہشت میں جائیں گے
ب۔ طَلحَۃُ وَالزُّبَیر جَارَایَ فِی الجَنَّۃ طلحہ اور زبیر بہشت میں میرے ہمسائے ہوں گے
ج۔ مَن سَرَّہ اَن یَنظُرَ اِلٰی شَھِید یَمشِی عَلی وَجہِ الاَرضِ فَلیَنظُر اِلیٰ طَلحَۃ بنِ عُبَیداللّٰہ
جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھے، تو وہ طلحہ بن عبید اﷲ کو دیکھ لے۔ حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ شل کیونکر ہوا تھا؟آئیے اس کا پس منظر مختصراً سنیے۔
شوال ۳ھ کامہینہ ہے۔ مدینہ منورہ کے شمال میں کوہ احد کے دامن میں ایمان والوں اور مشرکین کے درمیان گھمسان کارن پڑا ہوا ہے۔ مشرکین مکہ کا لشکر کیل کانٹے سے لیس اور تعداد میں مسلمانوں سے چار پانچ گناہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ افرادی قوت ہے ،نہ جنگی سازو سامان، البتہ دلوں میں ایمانی جذبات موجزن ہیں اور توکل علی اﷲ ان کا سرو سامان۔ پہلے ریلے میں کافروں کے پاؤں اکھڑگئے، فتح مسلمانوں کے قدم چومتی ہے۔ ناگاہ مسلمانوں سے ایک لغزش سرزو ہوجاتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچاس تیراندازوں کو ایک درے پر تعینات فرمایا تھا۔ فتح کے آثار دیکھ کر ان میں سے چالیس افراد نیچے اتر آئے۔ کفار کو موقعہ مل گیا، انہوں نے پیچھے لوٹ کر ہلہ بول دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانسہ پلٹ گیا۔ فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ادھر یہ مشہور ہوگیا کہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں۔ سراسیمگی اور پریشانی کے عالم میں صحابہ رضی اﷲ عنہم، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو میدان میں چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف چند حضرات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گردوپیش رہ گئے، بعد میں دوسرے لوگ بھی لوٹ آئے۔ اس موقعہ پر جن حضرات نے خصوصیت سے فدائیت کا مظاہرہ کیا اور داد شجاعت دی، ان میں حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ، امتیازی شان کے مالک ہیں۔
آپ کا نام طلحہ، والد کا نام عبید اﷲ، کنیت ابو محمد اور عرف طلحہ الخیر ہے۔ قبیلہ قریش کے معزز خانوا دہ سے تعلق ہے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے تجارت کرتے تھے، بعد میں بھی اسی پیشے سے تعلق رہا۔ آپ کے اسلام قبول کرنے کا عجیب واقعہ ہے، جو خود ان کی زبانی کتابوں میں منقول ہے۔ بیان کرتے ہیں:
میں بُصری کے میلے میں گیا، وہاں گرجاگھر کے ایک پادری نے لوگوں سے کہا کہ دریافت کرو، یہاں کوئی شخص مکہ سے آیا ہوا ہے۔ پوچھنے پر میں نے کہا، ہاں میں ہوں۔ مجھے اس کے پاس لے گئے تو اس نے پوچھا: کیا تمہارے عبدالمطلب کے پوتے، عبداﷲ کے بیٹے، احمد کا ظہور ہوچکا ہے؟ یہی مہینہ ہے جس میں اس کا ظہور ہونا ہے، وہ اﷲ کے آخری نبی ہوں گے۔ ان کا ظہور مکہ میں ہوگا اور پھر ایسے شہرکو ہجرت کریں گے جہاں کھجور کے درخت ہوں گے۔ اس کی زمین پتھریلی یا شور زدہ ہوگی۔ یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔ میں جلدی سے مکہ واپس آگیا اور آتے ہی میں نے پوچھا: کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ لوگوں نے بتایا،ہاں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابو قحافہ کا بیٹا (ابوبکر) اس کے پیچھے لگ گیا ہے۔ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے ہاں چلاگیا اور پھر ان کے ہمراہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ میں نے پادری کا واقعہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی سنایا (اصابہ) ۔
حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ نے اسلام نے قبول کیا تو مشرکین مکہ کے ظلم وستم کانشانہ بنے۔ اگرچہ انہو ں نے ظلم ڈھانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی مگر آپ کا ایک ہی جواب ہوتا۔
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
ہجرت کے بعد ان کا شمار قریبی جاں نثاروں میں ہوتا تھا۔ جنگ احد میں جب کافروں نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نرغے میں لینا چاہا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف تیروں کی بوچھاڑ کردی تو حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ سینہ سپر ہو کر آگے کھڑے ہو گئے۔ دشمن کی جانب سے آنے والے ہر تیر کو اپنے ہاتھ سے (۱) روکتے تاکہ ذات اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے پائے۔ پھر کیا تھا؟ تیروں کو روکتے روکتے ہاتھ لہولہان ہوگیا اور بالآخر ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ ا س روز تلواروں، نیزوں اور تیروں کے پچھترزخم آپ کے بدن پر آئے تھے۔
حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کی سوانح حیات کا یہ بھی ایک لطیفہ (امتیاز) ہے کہ انہو ں نے چار شادیاں کی تھیں اور چاروں کے لحاظ سے وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم زلف (ساڑھو) تھے۔ جدول ذیل میں دیکھے۔
حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کی بیویوں کے نام

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے نام
(۱) حضرت ام کلثوم بنت سیدنا ابی بکر رضی اﷲ عنہما

ام ا لمومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
(۲) حضرت حمنہ بنت حجشرضی اﷲ عنہا

[ام ا لمومنین سیدہ زینب بنت حجش رضی اﷲ عنہا
(۳) حضرت بارعہ بنت ابی سفیان رضی اﷲ عنہما

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اﷲ عنہما
(۴) حضرت رقیہ بنت ابی امیہ رضی اﷲ عنہا

ام ا لمومنین سیدہ ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اﷲ عنہا
حواشی
(۱) اس روز جن حضرات نے خصوصیت سے بے جگری اور پامردی کا ثبوت دیا تھا ان میں سے ایک حضرت ابو دجانہ انصاری رضی اﷲ عنہ ہیں۔ بات سن کر آگے نکل جانا بڑا آسان ہے۔ ذرا ٹھہر کر سوچئے تو اس وقت کیا عالم ہوگا، جب کہ دشمن تیروں کی بارش کر رہا ہے اور انصاری سورما، ابود جانہ رضی اﷲ عنہ کبڑے ہو کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھکے ہوئے ہیں۔ تیروں سے پیٹھ چھلنی ہو رہی ہے، لیکن کیا مجال کہ زبان سے اف تک نکل جائے۔ دل میں ایک لگن ہے عشق ہے محبت ہے اور بزبان حال کہہ رہے ہیں۔
موج خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے
آستان یار سے ہم اٹھ جائیں کیا؟
جن لوگوں کے بدن میں اﷲ کے دین کی خاطر کبھی ایک پھانسی تک نہیں چبھی، وہ کیا جانیں قدرو منزلت ایسے جاں نثاروں کی؟ اچھا اور کوئی جانے نہ جانے، اﷲ علیم و خبیر تو خوب جانتا ہے اور وہ اجر دینا بھی جانتا ہے۔
کہ خواجہ خود روش بندہ پروری داند

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.