تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعض بشری تقاضے اور خصائل

مولانا محمد الیاس با لاکوٹی

سمجھ لینا چاہیے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشریتِ کا ملہ میں جو بشری تقاضے اور آثار وخصائل ہیں، وہ بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے انسان او ر ذی مرتبت شخصیت کے آثار و مظاہر سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں، مثلا دیکھیں:
پسینہ:
ہر آدمی کو پسینہ آتا ہے اور یہ پسینہ آنا کوئی عیب ونقص نہیں، بلکہ صحت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم پسینہ کی کثرت ناگواریِ طبع اور ناپسندیدگی کا باعث ضرور ہوتی ہے، بلکہ بعض افراد کے پسینہ سے جلد ہی بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بہر نوع بدبو نہ بھی آئے تو پسینہ میں کون سی کشش اور دلچسپی کا عنصر ہوتا ہے؟ پسینہ آتے ہی گھٹن اور کوفت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب ذرا رحمت ِکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے بدنِ اطہر کے پسینے کا تصور فرمائیں، جس پسینے کی مہک سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بآسانی تلاش کرلیتے کہ جس گلی، کو چے، چٹان، درخت کے پاس سے گزر ہوا، معطر ومنور فضائیں پتہ دے رہی ہیں کہ عطر بیز جسد اطہر والے گزرے ہیں۔ حضرت سیدنا انس رضی اﷲ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ : حضور انور صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی کبھار دو پہر کا قیلولہ میرے ہاں فرماتے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پسینہ کثرت سے آتا تھا، دورانِ استراحت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے آرام میں خلل ڈالے بغیر چپکے سے میں آپ کا پسینہ ایک شیشی میں اکٹھا کر لیتی تھی۔ ایک مرتبہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا پسینہ اکٹھا کر رہی تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ:کیا کررہی ہو؟ میں نے عرض کیا: آپ کا پسینہ جمع کررہی ہوں۔ یہاں عجیب جملہ ارشاد فرمایا: ’’نُصْلِحُ بِھَا عُطُوْرَنَا‘‘ کہ’’ہم اس پسینہ مبارک سے اپنے پاس والے عطریات وخوشبویات کی اصلاح کرلیتے ہیں‘‘ یعنی آپ کا پسینہ ہمارے پاس جو خوشبوئیں اور عطر ہیں ان کو اعلیٰ وعمدہ بنا دیتا ہے، گویا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پسینہ خوشبو گر ہے، خوشبو ساز ہے۔ قارئین!آپ نے غور کیا؟ بشری تقاضے اپنی جگہ کہ پسینہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی آتا تھا، مگر کسی سے تقابل یا مواز نہ ممکن نہیں، فرق وتفاوت بھی سوچ وفکر سے وراء ہے۔
جسم کے بال :
عام لوگوں کے جسم کے بال جب تک تناسب سے حدِا عتدال پہ ہوں تو جسم پہ بھلے لگتے ہیں، مگر جسم سے الگ کرنے کے بعد وہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پہ پھینک دئیے جاتے ہیں۔ سرکے بال، مونچھیں زیادہ بڑھ جائیں تو بد صورتی کے علاوہ میل پکڑ لیتے ہیں، جوئیں بھی پڑ جاتی ہیں، خارش ہونے لگتی ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ ذرا سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسدِاطہر سے اُترے بالوں پر غور کریں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب حجامت بنواتے تو خود بال اُتار نے والے کی قسمت جاگ اُٹھتی، اپنی سعادت پہ وہ نازاں وفرحاں ۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہدکی مکھیوں کی طرح اُن پر جھپٹتے، ایک ایک بال کے طلب گار ہوتے، جسے براہِ راست نہ مل سکتا وہ اپنے دیگر ساتھیوں سے لے لیتا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چونکہ احرام کھولا گیا تھا تو سرمنڈانے کے باعث کافی مقدار میں بال تھے، جو خود تقسیم فرمائے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے ایک صحابیہ ؓ نے حضور کریم رحمۃُ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کے چند بال مبارک ایک نلکی میں محفوظ کر رکھے تھے۔ جہاں کسی بچے کی آنکھ دکھنے لگتی، پھنسی نکل آتی یا کوئی عارضہ لاحق ہوتا تو متعلقہ حضرات بڑی اماں کے پاس جاکر عرضِ احوال کرتے۔ اماں جی پانی کا گھونٹ لے کر اس نلکی میں ڈال کر ہلاتیں اور وہ محلول سائل کو دے دیتیں، وہ جام صحت بچے کی آنکھ پر مل لیا جاتا یا پانی پلا دیا جاتا۔ سبحان اﷲ! مشہور واقعہ ہے جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی کہ حضرت سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما نے ایک صحابی سے جن کے پاس آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعدد بال مبارک تھے، بڑی لجاجت ومنت سماجت سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چند بال عطا کرنے کی درخواست کی اور جب صحابی رضی اﷲ عنہ نے تمنا وچاہت پوری کردی اور بال مبارک عطیہ کردئیے تو وہ ان کے بڑے مرہون منت ہوئے اور بہت سامال وزراُن کی نذر کیا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے وقت وصال سے قبل اپنے لواحقین کو یہ وصیت فرمائی کہ میری میت کی تجہیز و تکفین کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک میری میت کی آنکھوں میں رکھ دئیے جائیں اور پھر مجھے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے سپرد کردیا جائے۔ قارئین!یہاں بھی بشریتِ رسول کا تقاضا اور اس کے آثار کا ظہور اپنی جگہ، مگر موازنہ یامماثلت کا دعویٰ کیوں کرکیا جاسکے گا؟
بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا
حشرات کے بارے میں:
مکھی مچھر وغیرہ ہر جسم پہ بیٹھتے ہیں، یہ کسی کے لیے پسندیدہ اور خوش کن صورت حال نہیں ہوتی، بلکہ آدمی ان موذی چیزوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ گندگی سے پیدا ہونے والے جانور ہیں اور قابل نفور بھی ہیں۔ رحمت کا ئنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسدِاطہر وطیب پر کبھی بھی مکھی نہیں بیٹھی اورنہ ہی جسدِاطہر سے ٹکرائی، نہ ہی آپ کے اوپر سے گزری، نہ ہی آپ کو کبھی مچھر نے کاٹا۔ البتہ بچھو کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ بچھو نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاؤں پہ کاٹنے کی کوشش کی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہیں اپنی نعلین مبارک سے اسے کچل دیا اور یہ ارشاد بھی فرمایا: ’’یہ عقرب (بچھو) لعنتی جانور ہے، یہ انبیاء پر بھی حملہ کرنے سے نہیں ٹلتا۔‘‘ قارئین: آپ نے دیکھا! یہاں بھی یہ انفرادیت صرف اور صرف جسدِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے، کوئی اور آپ کا شریک نہیں۔
قد کاٹھ :
انسانی قد کا ٹھ کی بھی یکسانیت نہیں ہوتی، کوئی بلند قامت تو کوئی پست قد، کوئی نہایت لاغرو اکہرے بدن کے، تو کوئی اچھے خاصے متبدّن (بھاری جسم والے) ہوتے ہیں، یہاں تک کہ حضرات خلفاء راشدین رضی اﷲ عنہم میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ دراز قد اور وجیہ تھے، جبکہ حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا قد مبارک اونچا نہیں تھا۔ حضرت سرور کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کا قد مبارک نہ لمبا تھا، نہ ٹھگنا اور نہ ہی اکہرا، نہ چوڑا چکلا (ظاہر ہے جس ذات کی تراش وخراش ،تزئین وتحسین خود خلاقِ کائنات نے براہِ راست اپنے طور پر فرمائی، ا س کا ثانی ہونا ممکن نہیں) یہاں پر تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی، یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے مصاحبین اور فدا کاروں میں محوِ سفر ہوتے یا جلوہ افروز ہوتے تو سب سے اونچے اور بلند نظر آتے ، حالانکہ بلند قامتی نہ تھی، مگر خلاقِ عالم نے ’’وَوَفَعْنَا لَکَ‘‘ کا جلوہ یہاں بھی قائم رکھا ہوا تھا، یعنی رفعت اور بلندی قد کا ٹھ کی نہ تھی، شان وآن کی تھی۔ قد مبارک متوازن وحسین تھا: ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ‘‘ سفر میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے اونچے نظر آتے تھے اور ہم رکا ب صحابہؓ سے نکلا ہو ابلند وبالا اور واضح جسم صرف آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی ہوتا تھا۔
ماء مستعمل :
انسانی بدن ناپاک گرچہ نہ بھی ہو، پھر بھی اس سے ٹپکتا گرتا پانی اصطلاحِ فقہ میں ماءِ مستعمل کہلا تا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ طاہر غیر مطہر ہے، یہ پانی ناپاک یا حرام نہیں کہلائے گا، مگر استعمال شدہ پانی سے آئندہ نہ غسل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وضو کیا جاسکتا ہے اور نہ کھانا پکانے، آٹا گوندھنے میں استعمال درست ہے، ہاں! ناپاک کپڑا اس سے پاک ہوجائے گاپیا جاسکتا ہے، زمین پر گرا ہو تو اُس پر نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(نوٹ: حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک مستعمل پانی ناپاک ہے، کیونکہ اس میں گناہوں کی نجاست شامل ہو جاتی ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ایسے ہی وار دہے، مگر دیگر اکا برِاُمت کی رائے وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ بہر حال یہ بات آپ کے علم میں آگئی کہ استعمال شدہ پانی ایک گونہ ناپسندیدہ شئے ہے، ناقص ضرور ہے، اعلیٰ نہیں۔)
حدیبیہ کے میدان میں مشرکینِ مکہ نے محمدی قافلہ کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ یہ داستانِ فدائیت اپنی جگہ اہلِ ایمان کے ایقان کو پختہ اور توانا کرنے والی توا ریخ اسلام کا حصہ ہے۔ طائف کے بنو ثقیف کے رئیس وسر دار مسعود ثقفی نامی قریش کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہوئے تھے، جہاں وہ مصالحتی کر دار ادا کر رہے تھے، وہاں یہ بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ محمد ی رضا کاروں ، جانثاروں کی کیا کیفیت ہے اور وہ کس حدتک جاسکتے ہیں، ان میں کتنا دم خم ہے؟! یہ صاحب جب مکہ مکرمہ واپس گئے تو قریش مکہ کے سامنے انہوں نے جو منظر دیکھا تھا، اس کی منظر کشی کچھ اس طرح کی:
’’میں بڑے بڑے رؤسا، امراء اور شاہی درباروں میں گیا ہوں اور ان کے حاضر باش درباریوں کے آداب، رکھ رکھاؤ اور ٹھاٹھ باٹھ بھی اچھی طرح دیکھے ہیں، ان کے جذبوں اور اظہارِمحبت والفت کے انداز بھی ملاحظہ کیے ہیں، مگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے جاں نثاروں کی جو صورت حال میں نے دیکھی ہے وہ نرالی ہے، نہایت محیرالعقول ہے۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب لعاب پھینکتے ہیں تو وہ لوگ اسے زمین پہ نہیں گرنے دیتے، بلکہ ہاتھوں پہ لے لیتے ہیں، اپنے منہ اور جسم پہ مل لیتے ہیں، جب وہ وضو کرتے ہیں تو پانی اپنے ہاتھوں پہ لے لیتے ہیں۔ اور ہجوم کے باعث حاضرین میں سے جسے وہ پانی نہ مل سکے تو وہ دوسرے ساتھی سے تھوڑی سی نمی لے کر اپنے اوپر مل لیتا ہے۔‘‘
غور کیجئے! یہ شخص اس وقت ایمان نہیں لایا ہوا تھا اور دشمن کیمپ کا نمائندہ بن کر آیا ہوا تھا،مگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم رکاب صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے حسن عقیدت و وارفتگی اور دل بستگی کی روح پر ور روئیداد کی منظر کشی کس بے ساختگی سے کررہا ہے، گویا کہ اس نے قریش مکہ کو اپنے طورپر یہ حقیقت بتلادی کہ جس شخص کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہوں کہ اس کے استعمال شدہ پانی اور لعاب کو ضائع نہیں ہونے دیتے، بھلا وہ لوگ ان کی ذات پر کوئی آنچ آنے دیں گے؟ قارئین! یہ صرف ایک واقعہ بطور استشہاد ذکر کیا گیا، ورنہ دیگر کتنے استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں، یہاں بھی موازنہ یا مطابقت کیسے متصور ہو سکتی ہے؟ ’’تو کجامَن کجا‘‘
نیند :
ویسے نیند انسانوں کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور انسانی ضروریات میں سے ایک اہم عنصر ہے۔ تا ہم ایک غفلت، بے خبری، ایک گونہ بے بسی کا ظہور نیند سے سامنے آتا ہے۔ نیند میں آدمی اپنے آپ سے اپنے ماحول سے کٹ جاتا ہے، حالانکہ و ہیں موجود ہوتا ہے۔ آج کے ہیجان خیز ماحول نے بعض لوگوں کو بے خوابی کا مریض بنا ڈالا ہے، چنانچہ وہ نیند لانے کے لیے خواب آور ادو یہ استعمال کرتے ہیں، نیند نہ آتی ہوتو دیگر کئی قسم کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تاکہ نیند آئے اور جسم کو سکون میسر ہو۔
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی نیندعام انسانوں کے برعکس خدا تعالیٰ کے برگزیدہ ترین صالحین اور کاملین کی مقبول عبادت کے لمحات سے بھی کہیں بہتر ہوتی ہے، دیکھئے! حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب ہی تو تھا جس کی بنا پر انہو ں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا عظیم اقدام کیا اور مقبولیت کا مقام پاگئے، جبکہ اسلام میں فریضۂ حج میں مقام منیٰ کے سب اعما ل ،قربانی،رمیِ جمار، وغیرہ انہی کی سنت ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’وَتَرَ کْنَا عَلَیْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ‘‘ یعنی ہم نے ان کی اس قربانی کے عظیم عمل کو آنے والی نسلوں کے لیے جاری کردیا۔ ظاہر ہے خواب کا تعلق نیند سے ہے اور یہ اس کی ہی فرع ہے، نیز معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی نیند میں دیکھی گئی چیز بھی وحیِ الٰہی کہلاتی ہے اور احکام شریعت کا حصہ بنتی ہے، بلکہ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر سلسلۂ وحی شروع ہونے سے قبل رؤیائے صالحہ کا سلسلہ جاری ہوا تھا۔ ارشاد فرمایا: جو اس وقت خواب میں دکھایا جاتا نصف النہار کی طرح اس کا ظہور ہوتا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’تَنَامُ عَیْنَایَ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ أَوْکَمَا قَالَ‘‘ یعنی میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سونے سے ہر آدمی کا وضو جاتا رہتا ہے، مگر انبیاء کرام علیہم السلام کا وضو قائم رہتا تھا۔ قارئین کرام! آپ نے مذکورہ معروضات سے بخوبی اندازہ کرلیا ہوگا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بلکہ سب انبیا ء کرام علیہم السلام اور دیگر اُمتیوں کی نیند اور خوابوں میں کتنا تفاوت اور عظیم فرق ہے۔
خون :
خون جسدِ انسانی کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور ہر جسم میں خون لازماً ہوتا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا خروج بھی ہو ہی جاتا ہے۔ خون جسم انسانی کی بقاء وصحت کا ضامن ہے، مگر خون خواہ انسان کا ہو یا جانور کا، پھر جانور خواہ حلال ہو یا حرام،خون بہر حال ناپاک بھی ہے اور حرام بھی۔بدن کپڑے یا زمین جس جگہ جہاں لگ جائے وہ نجس کہلائے گی، اسے پاک کرنے کے لیے دھونا یا دور کرنا ضروری ہوگا۔
جسدِ اقدس کا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجامہ کروایا، بدنِ اقدس سے نکلا ہو الہو ایک برتن میں پڑا تھا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے بھانجے حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما آئے تو حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: عبداﷲ! یہ خون لے جاؤ، کہیں دبادو۔ سیدنا عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما و ہ پیالہ اُٹھا کر لے گئے۔ اب ضمیر کی خلش نے عجیب مخمصے میں ڈال دیا کہ مفخر موجودات، سیدالاولین والآ خرین کے جسدِاطہر واطیب،ارفع اعلیٰ سے نکلا ہوا یہ خون ہو اور یہ نعمت بے بہا میسر بھی ہو، میں اُسے پھینک دوں؟ دبادوں؟ ضائع کردوں؟دماغ یہ وزن نہ اُٹھا سکا، احساسات قلبی کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے چپکے سے وہ پی لیا۔ جی ہاں!اپنے من کا یہ فیصلہ ان کو صحیح محسوس ہوا اور پھر خاموشی سے لا کر برتن رکھ دیا۔ حضور اکرم رحمت مجسم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبداﷲ کے چہرہ پر نگاہ ڈالی جو اُن کی اندرونی کیفیت اور بشاشت کا پتہ دے رہا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: پھینک آئے؟ سر ہلا کر عرض کی: جی چھپا، دبا آیا۔ حضور کریم رؤف رحیم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :’’لَعَلَّکَ شَرِبْتَ‘‘ یعنی شاید تو نے پی لیا‘‘……یہاں انکار یا تاویل کی گنجائش نہ تھی اور نہ کوئی معذرت کی ضرورت۔ سبحان اﷲ!اس پر ارشاد نبوی کا حاصل کچھ اس طرح ہے کہ تمہارے دشمنوں کے لیے بربادی وہلاکت ہے۔ گویا کہ فرمان یہ تھا کہ: میرے جسم سے کشید کردہ خون جس جسم کا حصہ بن گیا اس جسم کے کیا کہنے! اس کی جرأت وبسالت، ہمت وحوصلے کے کیا کہنے! اس شخص سے ٹکرانے والے کی بدقسمتی پر بھی تف ہے، اس کی شامت آئے گی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اس حرکت پر تنبیہ نہیں کی،ٹوکا نہیں کہ یہ کیا حرکت ہے؟! تم نے پی کیوں لیا؟ چہرۂ انور پر کوئی ناگواری کا اثر بھی ظاہر نہیں ہوا۔ قارئین کرام! یہاں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ بتقاضائے بشریت بطورِعلاج خون نکلوایا گیا، یہ بات بس یہاں تک محدود رہے گی، آگے خون کے احکامات یا موازنہ یاتقابل یا کچھ مزید کہنا تو یہ بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں آئے گا اعاذنا اﷲ منھا۔
(نوٹ: سطور بالا اور گزشتہ معرو ضات سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ جسدِ اطہر سے نکلی دیگر رطوبات بھی اسی نسبت سے اعلیٰ وارفع ہوں گی اور یہ تفادت مبنی بر حقیقت ہوگا، مجاز یا صرف حسنِ عقیدت ومحبت ہی نہ ہوگا۔)
فضلہ جات:
آدمی جو خوراک کھاتا ہے اس کا کچھ حصہ جزوِ بدن بن جاتا ہے، باقی اس کا فضلہ بنتا ہے اور وہ اپنے فطری طریقے سے خارج ہوتا ہے، جسے ہم پیشاب پاخانہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا خروج بھی ناگزیر اور امورِ طبعیہ سے ہے، یہ سلسلہ زندگی کا لازمہ ہونے کے باوجود دلچسپی یا دل بستگی کا عنوان نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی خوبی وکمال یا مقام مدح بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بہ تقاضائے بشریت یہ عمل بھی جسدِمحمدی سے صادر ہونا تھا، سو ہوا۔ آخر اُمت کے لیے اس میں بھی ہدایت ور اہنمائی چاہیے تھی۔ بعض اُمور امت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسے پیدا کرکے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے صادر کروائے، تاکہ ان کی اُمت کے لیے راہنمائی کا سامان ہوسکے۔ ایک یہودی نے ایک صحابی ؓ کو بطور طعن کہا: تمہارے نبی نے تو تمہیں پیشاب کرنے کے بھی آداب سکھائے ہیں؟! اس پر صحابیؓ نے مرعوب ہونے کی بجائے پورے شرح صدر سے جواب دیا: ہاں! میرے نبی نے ہمیں بتلایا کہ رو بقبلہ ہوکر پیشاب مت کرو، نیچی جگہ سے اونچی طرف نہ کرو، پیشاب سے بچو،وغیرہ۔
قضائے حاجت:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے، یہاں تک کہ بعض مرتبہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے۔ ویسے بھی ضرورت ہی کم پڑتی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قضائے حاجت سے فراغت کے بعد کوئی اثریا نشان نہیں پایا گیا۔ ایک سفر میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو قضاء حاجت کی ضرورت تھی، وہاں آس پاس کوئی اوٹ یا ٹیلا نہ تھا۔ حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کافی فاصلے پر ایک درخت کو اشارہ کیا، درخت تعمیل ارشاد میں حاضر ہوگیا، پھر دوسرے درخت کو بلایا اور دونوں کی اوٹ میں فراغت کی، پھر ان دونوں درختوں کو واپس اپنی اپنی جگہ پر چلے جانے کا حکم ہوا اور وہ چلے گئے۔
قارئین باتمکین! سطور بالا میں مذکور بعض ان اعراض کا ذکر ہوا جو جسدِ نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام سے صادر ہوئے اور یہ معروضات جسدِ نبوی سے خارج شدہ ناقص، انقص اور ادنیٰ سے ادنیٰ کے احوال تھے۔ سوچیں! ناقص کا یہ عالم ہے تو اعلیٰ وارفع کی بالاتری کا عالم کیا ہوگا؟! ؂ قلم ایں جا رسید و سر بشکست
اﷲم صل وسلم علیٰ نبیک وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین
محمد بشر ولیس کالبشر
ھوفی الناس کالیا قوت فی الحجر
(مطبوعہ: ماہنامہ ’’بینات‘‘ دسمبر ۲۰۱۹ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.