مفتی محمد شعیب
آج کل معاشی حالات کی وجہ سے ایک سوچ یہ بھی پائی جا رہی ہے کہ ’’قربانی دینے کی بجائے غریبوں کی مالی امداد کر دی جائے‘‘ ۔ لیکن یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں۔آج کل کے حالات میں بھی قربانی ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ:
1۔ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جس سے مقصود اﷲ کا حکم پورا کرنا ہے، غریبوں کی امداد اس سے براہ راست مقصود نہیں اور عبادات مقرر کرنے یا انھیں تبدیل کرنے کا اختیار صرف اﷲ کے پاس ہے۔ علماء کے پاس بھی نہیں ہے۔
2۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال دو خوبصورت مینڈھوں کی قربانی فرمائی، حالانکہ اس زمانے کے معاشی حالات آج کے معاشی حالات کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور تھے، دو وقت کا کھانا بھی آرام سے میسر نہیں تھا، لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُمت کو اپنے ارشاد اور عمل سے قربانی کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قربانی کو غریبوں کی مدد کے ساتھ تبدیل کرنے کی نہ ترغیب دی اور نہ عمل کیا۔
کیا ہم یہ فلسفہ پیش کر کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے آپ کو غریبوں کا ہمدرد ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
3۔ غریبوں کی مدد کرنا، صدقہ زکوٰۃ اور عطیات دینا شریعت کا علیحدہ حکم ہے، اس حکم کو اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے خوب بجا لانا چاہیے، مگر ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنے کا رجحان بہت خطرناک ہے۔ آج قربانی کو مالی امداد سے تبدیل کرنے کی بات ہے، کل کو حج بھی ختم کرنے کی بات ہونے لگے گی، پھر یہ بھی نقطہ نظر سامنے آئے گا کہ نماز میں اتنا وقت خرچ ہوتا ہے۔ یہ کاروباری سرگرمیوں میں لگا کر لوگوں کے معاشی حالات سنوارنے چاہئیں۔ گمراہی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔
4۔ کچھ حلقوں سے یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ قربانی بعض اہل علم کے ہاں سنت ہے، لہٰذا موجودہ حالات میں اسے ترک کرنے کی گنجائش ہے۔ بات یہ ہے کہ ان اہل علم کے ہاں قربانی ہر قسم کے حالات میں سنت ہے، چاہے حالات کچھ بھی ہوں، اس لیے یہاں اہل علم کی اس بات کو لینا مقصود نہیں بلکہ اپنی فکر کو بعض اہل علم کی بات کا سہارا دینا یا لبادہ اڑھانا ہے۔
لہٰذا ! مسلمان ان باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے قربانی کے مبارک اور باعثِ ثواب عمل کو (حکومتوں کی جانب سے بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر کے ساتھ) جاری رکھیں۔ واﷲ الموفق