محمد اسامہ قاسم
ان روزوں مسلم لیگ ن اگر چہ اپنے قائدین کی بد عملیوں کے وبال میں شدید سیاسی ناکامی کا شکار ہے مگر اس کی صف قیادت میں کہیں کوئی ندامت یا کسی قسم کی اصلاحِ احوال کی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ مسلم لیگ کا مردہ گھوڑا ہمیشہ فوجی آمروں کے زیرِ زانو رہا ہے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک سبھی آمروں نے اس گھوڑے میں بہت جان ڈالی اور خوب دوڑایا۔ مسلم لیگ نے پاکستان میں سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ اسلام کا نام لے کر نفاذ اسلام کا راستہ روکا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مسلم لیگ ہی کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے پہلا مارشل لاء لگا کر دس ہزار مسلمانوں کو جرمِ عشقِ محمد میں شہید کیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے قادیانیوں کو اپنا بھائی کہا اور ختم نبوت سے متعلق قوانین کو عالمی استعمار کی خوشنودی کے لیے ختم کرنے کوشش کی، جن میں حلف نامۂ ختم نبوت کا معاملہ سر فہرست ہے۔ مسلم لیگ کے موجودہ قائد میاں شہباز شریف کا پنجاب کی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے کے لیے برطانیہ سے قادیانی ماہر درآمد کرنا بھی ہمیں بھولا نہیں۔
پاکستان کی سیاست گواہ ہے کہ مسلم لیگ ہمیشہ تاریخ کی غلط سمت کھڑی رہنے والی جماعت ہے۔ دین بیزاری ہو، علماء دشمنی ہو، سامراج دوستی اور استعمار پرستی ہو یا بد نہاد آمروں کی خوشامد…… یہ مسلم لیگ کے آپریٹنگ سسٹم کے اندرونی وائرس ہیں۔ آج کل مسلم لیگ کی اس تاریخی بیماری کا مظہر خواجہ آصف ہیں۔ کبھی موصوف نے ظفر اﷲ قادیانی کے حوالے سے اسمبلی فلور پر بات کی، کبھی امریکہ کے سامنے اچھا بچہ بننے کے لیے اسامہ بن لادن پر تبرا کیا، پھر مذہب اسلام کو سب مذاہب کے برابر قرار دیا۔ سب سے دل چسپ قصہ وہ تھا جب موصوف نے تحریک پاکستان میں علماء کے کردار پر تبصرہ کیا کہ مولوی لوگ تو دو قومی نظریے کے ہی مخالف تھے اور پھر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی تائید کرتے ہوئے معلوم نہیں موصوف کون سے دو قومی نظریے کے چیمپئن بنے۔ اگرسب مذاہب برابر ہیں اور ملک ایک ہی قوم کی تشکیل کرتا ہے تو پاکستان کیا صرف شاہ عالمی بازار کے ہندؤوں کی دکانیں لوٹنے کے لیے بنایا گیا تھا؟
چونکہ پاکستان میں سیاست کا معیار جہالت و رعونت ہے (کہ سب سے بڑے جاہل کو سب سے بڑا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے) اس لیے ہمیں ان کی لا علمی پر حیرت نہیں۔ خواجہ صاحب پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال مرحوم کے شہر سے منتخب ہونے کے باوجود ہر گز یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ علامہ اقبال نے بہت پہلے فرمایا تھا کہ:’’قادیانیت، یہودیت کا چربہ ہے‘‘۔وہ یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ نے اپنے دور میں پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغی مراکز میں تبدیل کر دیا، یہودیوں سے گٹھ جوڑ کر کے اسرائیل میں قادیانی سنٹر قائم کیا اور قادیانیوں نے یہودیوں کے لیے فلسطینی مسلمانوں کی جاسوسی کی۔ان کو بھلا کہاں معلوم ہو گا کہ جس چوہدری ظفراﷲ کی تعریفیں کر رہے ہیں اس نے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی بانیٔ پاکستان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، اس لیے کہ ظفراﷲ خان اپنے عقیدے کے مطابق محمد علی جناح سمیت تمام امت مسلمہ کو کافر سمجھتا تھا۔جس کے نتیجے میں غیر احمدیوں سے نکاح اور ان کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے ۔
پھر چونکہ خواجہ آصف کی مسلم لیگیت قلمی نہیں بلکہ تخمی ہے لہذا ان سے اس طرح کی جہالتوں کا صدور عین فطری ہے۔ ان کے والد خواجہ صفدر نے 1953ء کی تحریک ختم نبوت کی شدید مخالفت کی تھی۔ جس کی پاداش میں سیالکوٹ کے عشاقان و مجاہدین ختم نبوت نے ان کا منہ کالا کر کے شہر میں ان کو پھرایا تھا۔(خواجہ صفدر کا منہ کالا کرنے کی تفصیلات درج ذیل کتب میں موجود ہیں۔ ان کہی سیاست: سید مرید حسین، فرد حیات: اے کے خالد، رپورٹ تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953ء: جسٹس منیر)۔ لیکن خواجہ صفدر مرحوم کو تو دور آخر میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان ہو گئی تھی اور وہ1974 کی تحریک میں مفتی محمودرحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور قومی اسمبلی کے ممبر ہوتے ہوئے قادیانی مسئلے پر ہونے والے بحث میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔اسی طرح انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین کی حیثیت سے 12؍ اکتوبر 1984ء کو چیچہ وطنی میں ختم نبوت چوک کا افتتاح کیا تھا۔
کچھ کہنے والے اگرچہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 1974ء کی تحریک ختم نبوت کی حمایت خواجہ صفدر کی مجبوری تھی۔ مفتی محمود صاحب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے اور جمہوری محاذ کے بڑے رہنما۔ خواجہ صفدر ان کی زیر قیادت بھٹو کے طوفان سے تحفظ کے لیے جمہوری محاذ میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ دوسرا آپشن ہی نہیں تھا۔ ان کے اصل عقائد و نظریات وہی ہیں جن کا اظہار خواجہ آصف نے کیا ہے۔ بلکہ مسلم لیگ ن کی پوری قیادت کا آج بھی یہی بیانیہ اور عمل ہے، مسلم لیگ کا ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی ہے۔
خواجہ آصف اپنے افکارِ باطلہ کا استدلال جمہوری فکر میں تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جمہوری ضلالت اپنی فطرت میں کفر و ارتداد کی حلیف ہے مگر خواجہ آصف کو بطور خاص ذرا ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ ان کے والد محترم خواجہ صفدر اسّی کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے خوشہ چیں اور ان کی مارشل لاء حکومت میں شامل (چیئر مین مجلس شوریٰ) تھے۔ بلکہ خود خواجہ آصف پر الزام ہے کہ وہ ملک کے با اختیار طاقتوروں سے رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرنے کے عادی ہیں۔ جمہوریت کے اصولوں سے یہ کس نوعیت کی وفاداری ہے کہ جمہوری طرزِ حکومت کے دشمنِ اعظم آمر جرنیلوں کو تو برداشت کیا جا سکتا ہے مگر محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین پر چھری چلاتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ نہیں ہوتی اور اس سلسلے میں احکامِ الہیہ کو ہی بدلنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔