حفیظ اﷲ خان نیازی
پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ جو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا ہے۔ ان کی جگہ اگر کوئی دوسرا لیڈر حکمران ہوتا، تو وہ اتنا بڑا قدم شاید نہ اٹھا پاتا۔ یہ پہلو ذہن میں رہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی اور اسی لیے انھیں امیدیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ وہ بھٹو کو اپنا ’’خاص بندہ‘‘ سمجھتے اور باور کراتے اور عام طور پر یہ کہتے تھے: ’’ہم نے تن، من، دھن سے پیپلز پارٹی کی مدد کی تھی اور اب بھٹو صاحب کی جانب سے ادائیگی واپس کرنے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔ لیکن بھٹو صاحب نے لیپا پوتی کر کے قوم کو چکر دینے کے بجائے، مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ جولائی، اگست اور ستمبر ۱۹۷۴ء کے دوران پوری قومی اسمبلی پر مشتمل اسپیشل کمیٹی کی کارروائی (۸؍ اگست تا ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء) کے متفقہ فیصلے کے ذریعے قادیانیوں کو آئینی طو ر پر غیر مسلم قرار دینے کا اعلان کر دیا۔
اس حوالے سے ایک اہم یاد داشت کو قومی امانت جانتے ہوئے، قوم کے حوالے کرنا میری ذمہ داری ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما، آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمنٹری سیکرٹری اور دسمبر ۱۹۷۴ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن محترم مولانا ظفر احمد انصاری (۱۹۰۸ء۔ ۱۹۹۱ء) سے اسلام آباد میں میرا (۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء) تقریباً روزانہ رابطہ رہتا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں، مَیں قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ گورنمنٹ ہوسٹل اسلام آباد میں عصر سے مغرب تک انصاری صاحب کی رفاقت سے فیض یاب ہوتا تھا۔ اگر وہ سوئے ہوتے تھے تو دروازہ کھٹکھٹا کر انھیں جگانا، چائے منگوانا اور پھر مولانا کی صحبت میں گفتگو سے استفادہ کرنا میرا معمول تھا۔ ہم اکثر مغرب کی نماز بھی اکٹھے پڑھتے تھے۔ اس زمانے میں وہ بہت کم کراچی جاتے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ انصاری صاحب کی دوستی بہت گہری اور باہمی احترام پر استوار تھی۔ بھٹو صاحب قومی، دستوری اور مذہبی معاملات میں ان پر بہت زیادہ اعتماد کرنے کے باوجود بعض سیاسی آرا پر اختلاف بھی رکھتے تھے۔ میرا حلقۂ احباب، انصاری صاحب کی بھٹو صاحب سے قربت پر ناراض رہتا تھا: ’’انھوں نے قومی اسمبلی میں آ کر، بھٹو جیسے آدمی کے ساتھ دوستی کیوں رکھی ہے؟‘‘
اگست ۱۹۷۴ء کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ ایک دن حسب معمول جب میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے ملنے گیا تو وہ میرے پہنچنے سے قبل ہی میرے لیے پیغام چھوڑ کر کہیں گئے ہوئے تھے کہ ان کا انتظار کروں۔ یاد رہے ان دنوں۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختم نبوت زوروں پر تھی اور قومی اسمبلی، قادیانیت کے مسئلے پر فریقین کے بیانات کی سماعت کر رہی تھی۔ ( اس تحریک کا فوری سبب یہ بنا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی حمایت یافتہ اسٹوڈنٹس یونین، نشتر میڈیکل کالج ملتان کے زیر اہتمام، کالج کے طلبہ سیاحتی سفر کے بعد ریل گاڑی سے واپس ملتان آ رہے تھے۔ ۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو جیسے ہی ان کی گاڑی چناب ایکسپریس، ربوہ ریلوے اسٹیشن پر رُکی تو قادیانی تونوجوانوں نے مذکورہ طلبہ کی بوگی نمبر ۴۰۵۵ پر آہنی سلاخوں اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا، جس میں ۵۰ طلبہ شدید زخمی ہو گئے۔ اس اشتعال انگیز کارروائی پر طالب علموں کی احتجاجی تحریک، ملک گیر تحریکِ ختم نبوت میں تبدیل ہو گئی۔ ادارہ)
جب انصاری صاحب واپس آئے تو انھیں کچھ پریشان پایا۔ میں یہ سمجھا کہ عمر کی وجہ سے تھکاوٹ ہو گی کہ آج دوپہر کو وہ سو نہ سکے تھے۔ میں انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، جس پر جواباً انصاری صاحب کہنے لگے کہ’’ میرے اس وقت اوسان خطا ہیں اور عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار ہو کر آیا ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’جی! کیا ہوا؟ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے ایک گاڑی آپ کو لینے آئی تھی۔ یقینا بھٹو صاحب نے کسی بات چیت کے لیے بلایا ہو گا‘‘۔
مولانا انصاری صاحب نے اثباتاً کہا: ’’بھٹو صاحب کی طرف سے پیغام ملا تھا کہ قادیانیوں کا ایک بہت بڑا وفد انھیں (بھٹو صاحب سے) ملنے آ رہا ہے، اس لیے فوری طور پر وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جائیں‘‘۔ دراصل بھٹو صاحب قادیانی وفد سے ملاقات کرنے سے پہلے متوقع امور پر انصاری صاحب سے مشورہ کرنا چاہتے تھے۔
مولانا انصاری صاحب نے بتایا: ’’میٹنگ ہال میں قادیانی وفد آ چکا تھا اور بھٹو صاحب کی کرسی خالی پڑی تھی۔ بھٹو صاحب نے بیٹھتے ہی وفد کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا‘ جی، بتائیں کیا بات ہے؟‘‘
قادیانی وفد کے سربراہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’’بڑا کڑا وقت ہے۔ آپ پر بھی دباؤ ہے، ہمارا وقت آپ کے ساتھ بڑا اچھا گزرا ہے اور ہم آپ کو اس مشکل سے نکالنا چاہتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی وفد کے سربراہ نے ایک یادداشت کا مسودہ بھٹو صاحب کو پیش کرتے ہوئے کہا: ’’ہم ایک حل لے کر آئے ہیں۔ آپ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے بجائے ہماری تجویز کردہ سفارشات کسی طور پر اسمبلی سے منوا لیں، اس طرح آپ بھی مشکل سے نکل آئیں گے اور یوں درمیانی راستے سے ہمارے لیے بھی بچت ہو جائے گی‘‘۔
بھٹو صاحب نے قادیانیوں کا پیش کردہ مسودہ لیا، پڑھا اور پھر اس کاغذ کو ہاتھ میں موڑ توڑ کر کہا:
Do you people really believe that bastard was a prophet ?
یہ کہہ کر بھٹو صاحب اٹھ کر میٹنگ ہال سے باہر چلے گئے‘‘۔
مولانا انصاری صاحب نے بتایا کہ اس قادیانی وفد میں بڑے اثر و رسوخ والے افراد، جرنیل اور طاقت ور بیورو کریٹ شامل تھے، لیکن بھٹو صاحب نے ان کی ذرّہ برابر پروا نہیں کی اور اپنے دلی جذبات کا برملا اظہار کر دیا۔
مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے یہ سب کچھ اسی روز ملاقات کے تقریباً آدھ پون گھنٹے بعد مجھے بتا دیا تھا، جس سے ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ بھٹو کے دل میں اب قادیانیوں کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی نہیں رہا ہے اور آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے گا اور جہاں تک مولانا انصاری صاحب کی پریشانی کا تعلق ہے، تو اس کا سبب یہ تھا کہ یہ گروہ حکومت کو اور خود ریاست پاکستان کو کہیں نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش نہ کرے۔
(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، جون ۲۰۲۰ء)