سید محمد کفیل بخاری
22؍ جولائی 2020ء کو پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیادِ اسلام بل‘‘ منظور ہوا۔ یہ قرار داد صوبائی وزیر جناب حافظ عمار یاسر نے پیش کی، جسے اپوزیشن اور حکومتی ارکانِ اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کی طرف قابلِ قدر پیش رفت ہے۔ اس سے قبل بھی پنجاب اسمبلی میں تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم، تحفظِ ناموسِ صحابہ رضی اﷲ عنہم اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی کے ساتھ لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ صلی اﷲ علیہ وسلم لازمی لکھنے کے عنوان سے متعدد بل منظور ہو چکے ہیں۔ نیز مقدس شخصیات، قرآنِ کریم، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے بارے میں گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے بھی قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کا اصل کریڈٹ سپیکر پنجاب اسمبلی جناب چودھری پرویز الٰہی، جناب حافظ عمار یاسر اور اُن کی پارلیمانی ٹیم کو جاتا ہے، جنھوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ مرحلہ وار اس کام کو بطورِ مشن آگے بڑھایا۔ قبل ازیں سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی کے ساتھ ’’خاتم النبیین‘‘ کے قرآنی لفظ کو لازمی لکھنے کی قرار داد منظور کی۔ پھر پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی، سینٹ اور آزاد کشمیر اسمبلی نے اسے منظور کیا۔ حیرت ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں ابھی تک خاموش ہیں۔ حالانکہ 1974ء میں سرحد اسمبلی نے قومی اسمبلی سے بھی پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا اور سب سے پہلے 1973ء میں آزاد کشمیر اسمبلی سے سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے قرار داد اقلیت منظور کرائی تھی۔ امید ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بھی مرکز اور دیگر صوبوں کی فوری تقلید کریں گی۔
میں اپنی جماعت مجلس احرارِ اسلام پاکستان کی طرف سے سپیکر پنجاب اسمبلی جناب چودھری پرویز الٰہی، صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر اور ان کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بھی شکریہ، جنھوں نے صوبائی کابینہ سے اس بل کو منظور کرایا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی جناب چودھری پرویز الٰہی کی یہ تجویز قابلِ توجہ ہے کہ اس بل کے سیکشن نمبر 3شق Fکو پاکستان پینل کوڈ 1860ء کی شق نمبر 295۔ سی میں شامل کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق اور تمام صوبے بھی پنجاب اسمبلی کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے فورمز پر ایسا ہی بل منظور کرائیں اور قانون سازی کر کے پورے پاکستان میں اسے نافذ کریں۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اس ملک کی بقاء و استحکام بھی تحفظِ اسلام اور نفاذِ اسلام سے ہی وابستہ ہے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے۔ لیکن اسلام آئین میں قید ہے، ملک میں نافذ نہیں۔ آئین کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ریاست بنایا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب حکمران آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ملک میں عملاً اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ یقینی طور پر یہ فریضہ حکمرانوں پر ہی عائد ہوتا ہے۔ اس لیے کہ قوتِ نافذہ انھی کے پاس ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ اس مقدس فرض سے عہدہ برآ ہوں۔ ورنہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں جواب دہی ہو گی اور اس وقت سوائے نقصان کے ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔