مولانا منظور احمد آفاقی
آئیے صدی سوا صدی پہلے کے ہندوستان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے برما کی سرحد تک، ہمالیائی سلسلہ کوہ، نیپال اور بھوٹان کی سرحدوں سے بحرہند تک اس وسیع وعریض ملک میں ہر طرف مرزا غلام احمد قادیانی کے حق میں نعرے گونج رہے ہیں۔ کوئی انہیں مجدد مانتا ہے۔ کوئی مسیح، اور کوئی مہدی، غرض پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔ اور مر زا صاحب فرنگی کی چھتری تلے بیٹھے اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں۔ اُنہیں اس بات کی قعطاً پروا نہیں ہے کہ اُن کے رویے سے اُمّتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں اور فرنگی کا اقتدار واستبداد خوف ناک حدتک بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اندر ایں حالات ایک خضر صورت بزرگ کلہاڑی لیے فرنگی اور مرزا کا تعاقب کررہے ہیں۔
یہ ایک جلسہ گاہ ہے۔ پنڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہواہے۔ ختم نبوت کے پروانوں کا ذوق وشوق دیدنی ہے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا انتظار ہے۔ عقیدت مندوں کے دیدہ ودل فرش راہ ہیں اور ان کے گوش حقیقت نیوش ایک مترنم آواز کے منتظر ہیں۔
ہمہ آہوانِ صحرا سر خود نہادہ برکف
بہ امیدِ آں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد
لیجئے صاحب! انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ وہ دیکھیے بس اسٹاپ پر ایک تانگا آن رُکا ہے۔ ایک بزرگ اُتر رہے ہیں اور پنڈال کی طرف خراماں خراماں چلے آر ہے ہیں۔ ان کی ایک جھلک دیکھتے ہی لوگوں نے’’ امیر شریعت زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردیے ہیں۔ حضرت اسٹیج پر تشریف لے آئے ہیں اور اپنی نشست سنبھال لی ہے۔ جلسے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ لوجی حضرت کی باری بھی آگئی ہے۔ مائیک آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے قرآن حکیم کی تلاوت سے اپنی تقریر کا آغاز کردیا ہے۔ کلام اﷲ کی مٹھاس اور حضرت کی دل کش آواز نے ایک سماں باندھ دیا ہے۔ اور ایک ایسا سحرطاری کردیا ہے کہ لگتا ہے جیسے قرآن آسمان سے ابھی ابھی نازل ہورہا ہے۔
تلاوت مکمل ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرات! میں جلسہ گاہ کی طرف آنے کے لیے جس ٹانگے پر سوار ہوا تھا ا ُس میں جُتا ہوا گھوڑامجھ سے کہنے لگا کہ مرزا جھوٹا ہے۔ اور وہ سارے سفر میں ہی فقرہ دُہراتا رہا کہ مرزاجھوٹا ہے، مرزا جھوٹا ہے‘‘۔
سامعین حیران کہ حضرت امیر شریعت کیسی انوکھی کہانی سُنار ہے ہیں! کہیں گھوڑے بھی انسانوں سے باتیں کرتے ہیں۔
حضرت نے کچھ دیر انہیں حیرت زدہ کیے رکھا پھر ارشاد فرمایا:
’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے تو ہر قسم کی تکلیف اور مشقت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس دکھوں بھری دنیا میں امن، سکون اور خوش حالی کادور دورہ ہوگا۔ مرزا قادیانی نے بھی مسیح ہونے کا دعوی کر رکھا ہے۔ اس پر وہ گھوڑا زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ یہ کیسا مسیح ہے جس کے آنے سے میری مشقت تو ختم نہیں ہوئی! لہٰذا میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ مرزا جھوٹا ہے‘‘۔
مرزا قادیانی کے دور میں انگریز اپنے اقتدار کو مستحکم کرچکے تھے۔ وہ ہندوؤں کو اُبھارتے اور مسلمانوں کو گراتے تھے۔ اس اُتار چڑھاؤ کی سیاست میں مرزا جی انگریزوں کی مدح سرائی کیا کرتے تھے۔ یہ کیسا مسیح تھا۔ جسے اسلام کی نہیں بلکہ کفر کی ترقی عزیز تھی!
قیام پاکستان کے وقت پانچ دریاؤں کی سرزمین میں چھٹا د ریا مسلمانوں کے خون کا بہایا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کی دو عالم گیر جنگوں میں کروڑوں انسان ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ نائن الیون کے بعد تادم تحریر کم وبیش دس لاکھ بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اترچکے ہیں۔ مختلف ممالک میں ایٹمی اسلحہ اس قدر بن چکا ہے کہ اس کرہ ارض کو بیسیوں دفعہ تباہ کیا جاسکتا ہے۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ کیسا مسیح آیا ہے جس کے ظہور سے امن عالم تہہ وبالا ہوگیا ہے؟
عدالتوں کی حالت ِزار دیکھئے معمولی مقدمے بھی بیس بیس اور تیس تیس سالوں تک چل رہے ہیں داد اکے دائر کیے ہوئے مقدمے کا فیصلہ پوتے کے حق میں ہوتا ہے دو دو نسلیں انصاف سے محروم ہورہی ہیں قانون مکڑی کا جالا بن چکا ہے جو صرف کمزور کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ طاقتور لوگ قانون ہی کو اڑا دیتے ہیں، ان حالات میں ہمیں مژدہ سنایا جاتاہے کہ مرزا قادیانی کے روپ میں جناب مسیح علیہ السلام ظاہر ہوچکے ہیں ،یہ اچھے مسیح ٹھہرے جن کی آمد سے انصاف ہی سرے سے غائب ہوگیا ہے!
اس جیتی جاگتی دنیا پر ایک نظر ڈالیے، اقوام و ملل کا جائزہ لیجئے آپ کو امن و سکون ،عدل و انصاف،راحت و خوشی کے مواقع کم او رظلم وستم، جبر وقہر، مصائب و آلام کی گھٹائیں زیادہ ملیں گی۔ افرا تفری کی یہ فضااور ظلم وستم سے لبریز دنیا پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس مسیح کا انتظار تھا وہ ابھی تک نہیں آئے اور جسے سوا صدی قبل مسیح موعود بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ جھوٹا تھا۔