پروفیسر عبدالواحد سجاد
مسلم معاشرہ جن اسما،افعال اور مقامات سے پہچانا جاتا ہے، انہیں شعائر اسلام کہا جاتا ہے، شعائر کو آپ آسان الفاظ میں علامات اور نشانات کہہ سکتے ہیں، اس سے مسلمانوں کی پہچان ہوتی ہے اور مسلم آبادیوں کی یہ شناخت ہوتے ہیں۔ ا مت مسلمہ کے شعائر میں کعبہ، مسجد، کلمہ، اذان، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے احکامات اور مقامات شامل ہیں۔ مرزا قادیانی کے پیرو کاران تمام شعائر میں مسلمانوں سے الگ ہیں، کیونکہ وہ عقیدہ ختم نبوت سمیت اسلام کے کئی بنیادی عقائد کا انکار کرتے ہیں اور خود مرزا غلام احمد قادیانی اس علیحدگی کا قائل تھا۔ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود ان کے یہ الفاظ نقل کرتا ہے:
’’یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا چند مسائل میں ہے، آپ (مرزاقادیانی) نے فرمایا اﷲ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل، 30جولائی 1930ء)
اس اعتراف کے بعد کیا قادیانیوں کا مسلم شعائر کا استعمال کھلی نا انصافی نہیں؟ جب وہ خود مسلم شعائر میں اکثریت کے ساتھ اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان شعائر کا پر چار کیا انہیں زیب دیتا ہے؟
رسول اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں قادیانیوں کا عقیدہ کسی ذی شعور سے پوشیدہ نہیں، مسلمان آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لیے خاتم الابنیا ء اور اکمل ترین شخصیت مانتے ہیں جبکہ قادیانی ظلی اور بروزی کی اصطلاحات باطلہ کی آڑ میں مرزا قادیانی کی نبوت کو مانتے ہیں، وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں، ایک ظہور عربی اور دوسرا ظہور ہندی اور مرزا قادیانی کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نہ صرف دوسرا ظہور قرار دیتے ہیں بلکہ اسے (ظہور ہندی کو) پہلے ظہور سے زیادہ کامل قرار دیتے ہیں، مرزا قادیانی کے ایک پیرونے یہ اشعار پڑھے۔
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(نعوذ باﷲ) (اخبار ’’بدر‘‘ قادیان، 25اکتوبر 1906ء)
قرآن کے بارے میں مرزا بشیر الدین کلمۃ الفصل، صفحہ 173میں لکھتا ہے:
ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے ؟اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی، مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے، اس لیے ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اﷲ کو بروزی طور پر دنیا میں معبوث کرکے آپ پر قرآن اتارا جائے۔
نماز کے حوالے سے مرزا قادیانی اپنی کتاب تذکرہ جسے قادیانی ’’وحی‘‘ قرار دیتے ہیں کے صفحہ 40طبع دوم میں لکھتا ہے: یاد رکھو کہ جیسے خدا نے تجھے اطلاع دی ہے کہ تمہارے اوپر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر، مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہیے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔
مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے، غیر مسلم کی عبادت گاہ مسجد نہیں کہلا سکتی، مسجد کے ساتھ اذان بھی شعائر اسلام میں سے ہے اور قرآن کریم نے سورۃ الحج کی آیت 40میں بیان کیا ہے کہ
وَلَوْ لاَ دَفْعُ اللّٰہ ِ النَّا سَ بَعْضَم بَعْضٍ لَھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْ کَرُ فِیھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً (اگر اﷲ بعض کو بعض سے نہ روکتا تو گرادیے جاتے تکیے، گرجے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں اﷲ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے)
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب تم کسی مسجد کو دیکھو یا اذان سنو تو کسی ایک کو بھی قتل نہ کرو۔‘‘ (ابوداؤد)
آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ’’جب تم کسی شخص کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اﷲ کی مساجد کو وہی آباد کرتے ہیں جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ ‘‘(ترمذی)
ان آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد اسلامی شعائر میں سے ہیں، اگر قادیانی یا کسی دوسرے غیر مسلم کو ایسی عبادت گاہ بنانے کی اجازت ہو جسے وہ مسجد کا نام دے تو کیا وہاں آنے جانے والے کو مسلمان کہا جاسکے گا؟ چودھری ظفر اﷲ خان کا یہ اعتراف کرنا کہ’’اگر احمدی مسلمان نہیں تو ان کا مسجد کے ساتھ کیا واسطہ؟‘‘ (تحدیث نعمت ،صفحہ 162) یہ ثابت نہیں کرتا کہ مسجد یں مسلمانوں کی عبادت گاہیں غیر مسلموں کا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا؟
اگر کافر اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دیں تو اس سے مسلمانوں کا تشخص مجروح ہوتا ہے، قرآن مجید اور تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ سورۃ توبہ میں منافقین کی ’’مسجد ضرار‘‘ کا ذکر موجود ہے: ’’اور جنہوں نے مسجد بنائی ضد، کفر اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے اور گھا ت اس شخص کے لیے جو اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ پہلے سے لڑرہا ہے، اب وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے توبھلائی چاہی تھی اور اﷲ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ‘‘(التوبہ 107)
وحیٔ الٰہی کے مطابق حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مالک بن وخشمؓ اور معن بن عدیؓ کے ذریعے اسے جلا دیا۔ یمن میں مشرکین نے کعبہ یمانیہ کے نام سے ایک عبادت خانہ تعمیر کیا تو حضرت جریر بن عبداﷲ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے 150آدمیوں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے مسمار کرکے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ہم نے اس عمارت کو خارش زدہ اونٹ کی طرح کردیاتو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔
اسی طرح اذان بھی اسلامی شعائر میں سے ہے اور یہ نماز کے لیے دعوت ہے اور اذان کے لیے قرآن میں نماز کے لیے’’بلاوا‘‘ (آواز) کا نام دیا گیا ہے اور تینوں مقامات پر اہل ایمان کومخاطب کیا گیا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت 58، سورہ حم السجدہ کی آیت 33اور سورۃ الجمعہ کی آیت 9کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے دو آیات میں یا ایھاالذین امنوا (اے ایمان والو!) ہے اور حم السجدہ میں اِنَّنِیْ مِنَ المُسْلِمِیْنَ (میں مسلمان ہوں) کے الفاظ اس کی شہادت دیتے ہیں اب مسلمانوں کے اس امتیازی نشان کی اجازت کسی غیر مسلم کو کیسے دی جاسکتی ہے۔ یہ شعائر امت مسلمہ کے تشخص کے قیام کے لیے ضروری ہیں اور مسلمان دوسری اقوام میں انہی نشانات سے پہچانے جاتے ہیں، اب اگر کوئی غیر مسلم اقلیت ان شعائر اسلامیہ کو خو د سے منسوب کرنے پر مصر ہو اور وہ اپنی عبادت گاہ کو مسلمانوں والا نام دے اور عبادت کے لیے بلانے کے لیے اذان کہے اور اس کے لیے الفاظ بھی وہی استعمال کرے جو مسلمانوں کے ہوں تو کیا اسے ’’مذہبی آزادی‘‘ کے نام پر اس کی اجازت ہونی چاہیے تو یہ اس کی اجازت دنیا کے کسی آئین اور دستور میں ہے نہ اس کا اخلاقی جواز ہے، الٹا یہ اکثریت کی مذہبی آزادی اور تشخص کو برباد کرنے کی کوشش ہی قرار پائے گا، جب قادیانیوں کے معتقدات الگ ہیں تو وہ مسلم شعائر کو کیسے خود پر چسپاں کرسکتے ہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر قادیانی فریب کاری کررہے ہیں تو ہمارے لبرلز اور سطحی علم رکھنے والے بھی حقائق کو جانے بغیر ان کی حمایت کرکے مسلم اکثریت کے تشخص کو دھند لانے میں مصروف ہیں، اسلامی شعائر کے حوالے سے قادیانی طرز عمل پر یہی کہا جاسکتا ہے
دنگ ہوں فریب کاری کے انبار دیکھ کر
چہرے پہ اور چہروں کی بھرمار دیکھ کر