مؤلف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ، پیش لفظ: ماسٹر تاج الدین انصاری رحمہ اﷲ
پیش لفظ:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، نَحْمدُہ وَنُصَلّیِ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس احرار اسلام کو پرور دگار نے ایسے بلند پایہ ادیب ، مخلص قائد اور بے مثال خطیب عطاء کیے تھے کہ دوسری تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں احرار رہنماؤں کا لوہا مانتی تھیں۔ افتاد یہ پڑی کہ مجلس احرار کوا بتداء ہی میں ہنگاموں نے گھیر لیا ابھی ایک تحریک ختم نہ ہوتی تھی کہ کوئی دوسرا محاذ کھل جاتا۔ حالات ایسے تھے کہ مدتوں بعد دورِ غلامی کا جمود ٹوٹا، فرزندانِ وطن کے سامنے ملکی اور ملی مسائل کا ایک لا متناہی سلسلہ موجود تھا، ہر محاذ پر عملی اقدام کی ضرورت تھی۔ مسلمانوں میں اس وقت مجلس احرار کے سوا کوئی اور فعال جماعت موجود نہ تھی۔ دوسری جو بھی جماعت تھی میدان عمل میں قدم بڑھانے سے ہچکچاتی تھی ۔ دیوانوں کا یہی سرفروش گروہ جسے احرار کے نام سے پکارا جاتا ہے مذہبی ہو یا سیاسی ہر محاذ پر نبرد آزما تھا۔ عملی اقدامات کی کڑیوں کی ایک طویل زنجیر بنتی جارہی تھی۔ غرضیکہ مجلس احرار کے ذمہ دار اور قابل احترام رہنماؤں کو آئے دن کی مصروفیتوں نے بری طرح الجھا رکھا تھا، میدان کارزار میں احرار کا طوطی بول رہاتھا کہ اچانک موت نے حملہ کیا۔ کسی قافلے کے محبوب سالار یکے بعد دیگرے قافلے کو میدان آزمائش میں بے یارو مددگار چھوڑ جائیں تو اس مجروح دل قافلے کی پریشانی کا کیا حال ہوگا؟ ہوا یہ کہ تقریباً سبھی ذمہ دار رہنما اس انتظار میں دنیا سے رخصت ہوگئے کہ حالات پرسکون ہوں تو مجلس احرار کی تاریخ کے صحیح خط و خال سپرد قلم کیے جائیں تاکہ آنے والی نسلیں صحیح صورت حال سے کماحقہ واقفیت حاصل کر سکیں اور انھیں معلوم ہوسکے کہ اسلام کے مخلص فرزندوں کو خدمت ملک و ملت کے میدان میں کن روح فرسا اور حوصلہ شکن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ جنہیں مجلس احرار کا دماغ سمجھاجاتا تھا سختی سے محسوس کررہے تھے کہ حالات کتنے بھی ناساز گار کیوں نہ ہوں مجلس احرار کے ماضی کی تاریخ جس حد تک بھی ممکن ہو ضبط تحریر میں آجانا چاہیے مگر جب زبان اور قلم پر قد غن لگی ہو اور قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں تو کوئی کیا کرے۔ بہر حال چودھری صاحب موصوف نے جرات سے کام لے کر اپنی زندگی ہی میں احرار کے ماضی کی اجمالی صورت پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر ’’تاریخ احرار‘‘ لکھتے وقت ہزار احتیاط کے باوجود جو کچھ لکھا اسے حکومت نے من وعن برداشت نہ کیا۔ فرنگی غلاموں او رسرکاری کارندوں کی ملی بھگت نے موصوف کی لکھی ہوئی ’’تاریخ احرار‘‘ پر جہاں چاہا خط تنسیخ کھینچ دیا۔ سنسر کی تلوار اپنا کام کرگئی اور چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ صبر کا تلخ گھونٹ پی کررہ گئے۔ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ برطانوی کارندے اور اس کے لگے بندھے گروہ مختلف ناموں سے میدان آزادی میں روک ٹوک اور رکاوٹیں کھڑی کرنے لیے موجود تھے۔ حکومت اور اس کے ان کارندوں کے ہاتھ کھلے تھے ۔ غریب احرار جو حقیقتاً غریبوں ہی کے نمائندے تھے ہرطرح کی دنیا وی آسائشوں اور آسانیوں سے یکسر محروم تھے۔ احرار کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ احرار کو اپنے مرکز یعنی خطۂ پنجاب میں جن طاقتوں سے نبردآزماہونا پڑا ان کی پشت پر براہ راست برطانوی اقتدار کا ہاتھ تھا۔ یہی خطۂ پنجاب ہندوستان میں برطانیہ کی ریڑھ کی ہڈی اور بازوئے شمشیرزن سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی سرکار پنجاب کو ہر قسم کی سیاسی آلائشوں سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ پنجاب میں ٹوڈیان کرام اور سرکاری پیرانِ عِظام کے علاوہ برطانیہ نے بکمال ہوشیاری وعیاری پیرانِ پیر یعنی اپنے ڈھب کا ایک نبی بھی لا کھڑا کیا اور انھی چند عناصر کے ذریعے پنجاب کو مضبوطی سے جکڑلیا گیا۔
دور غلامی میں خطۂ پنجاب حکومت برطانیہ کا مضبوط قلعہ بن چکا تھا۔ اس طرح نظر بظاہر مسلمان قوم برطانوی اقتدار کے لیے ممدومدد گار اور ایک حد تک قابل اعتماد سمجھی جاتی تھی۔ ان دنوں مسلمانوں کو قوم پرور (نیشنلسٹ) جماعتوں سے دوررکھنے کی انتہائی کوشش کی گئی اس کوشش میں برطانوی حکومت تقریباً کامیاب بھی تھی۔ ایسے مایوس کن حالات میں مجلس احرار ایسی غریب مسلمان جماعت کا نعرۂ حق بلند کرتے ہوئے میدان کارِزار میں اُترنانا رِ نمرود میں کود نے کے مترادف تھا، مگر خلوصِ نیت سے اﷲ پر بھروسا کر کے اسلام کی سربلندی اور ملک و ملت کی فلاح کے لیے کام کیا جائے تو خلاف توقع کامیابی کے آثار نمایا ں ہونے لگتے ہیں۔ چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ نے احرار کے ماضی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے عام فہم زبان اور قلم حق رقم سے احرار کی تاریخ جن مجبوریوں میں لکھی ہے اسے بیتے دنوں اور جنگ آزادی کے ابتدائی دور کی دلدوز اور خونچکان داستان کا ہلکا ساعکس سمجھئے، واقعات اور حالات چونکہ مجملاً آگئے ہیں اب یہ بات قطعی نامناسب معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی جائے۔ حالات کی ناساز گاری اور مشکلات کا ہجوم نہ ہوتا تو چودھری صاحب کیا کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ اور وہ احرار جاں فروشوں اور کفن بردوش مجاہدوں کے کارناموں کو الفاظ کا کتنا خوب صورت جامہ پہناتے آزادی کے ساتھ موصوف اپنی تحریر کے اچھوتے انداز میں جو کچھ لکھتے ان کی وہ تصنیف ایک نادردستاویز کی صورت میں موجود ہوتی ! مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ جنگ آزادی کے انجام اور آفتاب آزادی طلوع ہونے سے قبل ہی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ ان کے بعد……
پھر ان کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مجلس احرار کو آزمائش کی انتہائی خطرناک راہوں سے گذرنا پڑا۔ آرزوئیں اور امیدیں غم کے بوجھ تلے دب گئیں۔ بندے جو کچھ سوچتے ہیں وہی کچھ جوں کا توں ہوجائے تو بندے خدانہ بن جائیں۔ وہی ہوتا ہے جو اﷲ کو منظور ہو، جماعت احرار کے لیے جو کچھ لکھا گیا ہے جماعت نے اسی کو غنیمت سمجھا او رخدا کا شکر ادا کیا ۔چند سال قبل کی بات ہے احباب نے مجھ سے تقاضا کیا کہ چودھری صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی زندگی میں ماضی کے حالات تو قلم بند کردیئے ہیں اس کے بعد کے حالات اور واقعات ضبط تحریر میں آجانا چاہئیں جب اس تقاضے نے زور پکڑا تو میں اپنی استطاعت کے مطابق سرگذشت کے عنوان سے لکھنے بھی بیٹھ گیا۔ ابھی اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور کے واقعات ہی قلم بند کیے تھے تو مجھے معلوم ہوا کہ شیخ حسام الدین مرحوم تاریخ احرار لکھنے کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں میرا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا اسے لپیٹ کر رکھ دیا۔ انھی دنوں آغا شورش نے شیخ صاحب سے تبادلہ خیال کیا ۔طے یہ پایا کہ شیخ صاحب لکھاتے جائیں اور کوئی سمجھ دار پرانا ساتھی لکھتا جائے۔ اس کے بعد مسودہ پر ذمہ دار احباب نظرثانی کرلیں اور مکمل تاریخ احرار شائع کردی جائے۔ کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ اشرف عطا صاحب روزانہ دو گھنٹے شیخ صاحب کے درِدولت پرجا کر اس کار خیر میں ہاتھ بٹائیں ۔ بدقسمتی سے اس فیصلے کے بعد اچانک شیخ صاحب تنفُّس کے دورے میں مبتلا ہوکر صاحبِ فراش ہوگئے اشرف عطا صاحب روزگار کے سلسلے میں گوجرانوالہ چلے گئے اس طرح یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ واحسر تاکہ تنفس کے یہ نامراد دورے بالآخر احرار کے بہادر جرنیل اور قابل فخر رہنما شیخ حسام الدین مرحوم کے لیے موت کا پیغام بن گئے اور مجلس احرار کالٹا پٹاقافلہ موت کی چیرہ دستیوں سے مضمحل ہوکر رہ گیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ کی تصنیف ’’تاریخ احرار‘‘ اب تقریباً نایاب ہوچکی ہے اس لیے احباب نے ضرورت محسوس کی کہ دوسری جلد کی ترتیب وتدوین سے قبل چودھری صاحب کی لکھی ہوئی ’’تاریخ احرار‘‘ دوبارہ شائع کردی جائے تاکہ میدان سیاست کے نوواردوں کو کچھ تو معلوم ہو کہ قصر آزادی کی بنیاد وں میں کن غازیان اسلام کے مقدس خون اور ہڈیوں سے کام لیا گیا۔ احرار کے جانبازوں نے آزادی کی ابتدائی منزل کو کس بے جگری سے پار کیا اور احرار کے جیالے رضاکاروں نے کس طرح کفر پرمسلمانوں کے رعب کا سکہ جمایا؟
ایک اندیشہ: مجھے اب بھی اندیشہ ہے کہ ہمارے بعض دیرینہ کرم فرما ’’تاریخ احرار‘‘سے اپنے مطلب کے تراشے کاٹ چھانٹ کر حسب سابق تنقید کے زہر آلود تیروں سے احرار کو چھلنی کرنے اور احرار کے خلاف ناانصافی سے کام لیتے ہوئے پراپیگنڈا کرنے کی ناکام کوشش کریں گے ۔ چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ کی زندگی ہی میں ایک بار اس قسم کی بے ہودگی اور ناانصافی سے کام لے کر یہ پراپیگنڈا کیا گیا تھا کہ احرار تو پاکستان کو پلید ستان کہتے ہیں یہ دیکھ لیجیے کہ ان کے لیڈر کی اپنی تحریر میں ’’تاریخ احرار‘‘ کے فلاں صفحے پر واضح الفاظ میں یہ فقرہ موجودہے ۔ ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں اور جب تک مرزائیت کا طلسم ٹوٹ نہیں جاتا وہ بڑی عیاری سے مسلمانوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لیے احرار کے خلاف چھینٹا بازی کرتے ہی رہیں گے مگر حق کبھی باطل سے دبا نہیں ہے۔ احرار کے جری اور بہادر رہنماؤں نے ہمیشہ حق بات کہی اور ہمت ومردانگی سے اس کی سزا بھی بھگتی، وقت پر مسلمانوں نے دشمن کے پراپاگنڈے سے متاثر ہو کر احرار کو جھٹلایا مگر وقت گذر جانے پر ساری قوم وہی بات دہرانے لگی جوا حرار نے ابتدا میں کہی تھی۔ مسجد شہید گنج کے واقعے ہی کو لیجیے۔ اب مسجد شہید گنج کی مسمار شدہ عمارت جوں کی توں موجود ہے مسجد گراکر انگریز چلا تو گیا مگر جاتے جاتے مسجد کا ملبہ احرار پر گرادیاگیا۔ اس سنگ دلانہ واقعہ کے بعد کسی نے احرار کے مخالفین کو یہ نہ پوچھا کہ بھلے لوگو بیگانی شہ پر حکومت میں کعبے کی بیٹی کا ماتم کرتے تھے اب تو اپنی حکومت اور اپنا راج ہے کعبہ کی بیٹی کا کیا بنا؟ بھولی بھالی جذباتی قوم اپنے ہی مخلص خادموں کو ذبح کرکے اب کہتی ہے کہ احرار سچ تو کہتے تھے۔ برطانوی حکومت اور اس کے کارندوں نے مسلمانوں کو دھوکے میں مبتلا کرکے احرار کے خلاف خطرناک چکر چلا دیا تھا وقت گذر گیا احرار شکوہ نہیں کرتے کہ اپنوں نے بیگانوں کی جھوٹی بات سن کر اپنے سچے اور مخلص خادموں کو بلا قصور بے عزت کیا اور قوم کے مخلص مجاہدوں کی راہ میں کانٹے بکھیر دیئے ایسا تو ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتارہے گا جسے خدا اور رسول کی خوشنودی کے لیے خدمت کرنا مقصود ہے اس کو ان مشکل اور صبر آزماراہوں سے گذرنا ہی پڑے گا
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
درد مندانہ گذارش: ’’تاریخ احرارا‘‘ کا مطالعہ کرتے وقت یہ خیال رہے کہ چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ نے پاکستان کے بارے میں جوکچھ لکھا ہے جن خیالات کا اظہار کیا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسلم لیگ قرارداد لاہور کے ذریعے مطالبہ پاکستان کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان میں طرزِ حکومت کی بحث میں الجھ رہی تھی۔ مجلس احرار نے انھی دنوں یعنی ۲۶ ؍اپریل ۱۹۴۳ء کو اجلاس سہارن پور میں حکومت الٰہیہ کی مندرجہ ذیل تجویز منظور کر کے اپنی جماعتی پالیسی کا اعلان کردیا۔
حکومت الٰہیہ زندہ باد:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمْ۔ نَحْمد ہُ ونُصَلّیِ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم
’’مجلس احرار اسلام حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی خواہاں ہے‘‘
مجلس مرکزیہ احرار اسلام ہند کا اہم فیصلہ
اکھنڈ بھارت پاکستان اور آزاد پنجاب کے بارے میں اظہارِ خیال
’’مجلس احرار اسلام ہند نے اپنے اجلاس سہارن پور میں ۲۶؍ اپریل ۱۹۴۳ء کو موجودہ ملکی وسیاسی صورت حالات کے پیش نظر مندرجہ ذیل قراداد منظور کی۔
مجلس احرار اسلام ہند نے اکھنڈ بھارت پاکستان اورآزاد پنجاب وغیرہ سکیموں کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جنگ عالم گیر کی تباہ کاریوں اور جنگی رقبوں سے ہزاروں میل دور علاقوں میں جنگ کے تکلیف دہ اور فتنہ زا اثرات پر دھیان دیتی چلی آئی ہے۔
مجلس تمام غوروفکر کے باوجود اپنے آپ کو اپنا یہ پرانا مسلک چھوڑنے پر آمادہ نہیں پاتی کہ ہندوستان کی سیاست کا پیچیدہ مسئلہ بہر حال اس ملک کے رہنے والے لوگوں کے درمیان امن و اعتماد باہمی کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اس لیے مجلس ان تمام سکیموں کے حامیوں سے بھی عرض کرنا چاہتی ہے کہ اکھنڈ بھارت پاکستان یا آزاد پنجاب جیسی کوئی سکیم بھی باہمی اعتماد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی اور اگر کسی فریق کا یہ خیال ہے کہ وہ انگریزی حکومت کے سہارے سے اپنی کوئی سکیم منوا سکتا ہے ۔ تو اسے یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ انگریزی بمباروں کے سہارے جوسکیم بھی منوائی جائے گی وہ انگریز کی غلامی پر مجبور کرے گی اور اسی وقت تک قائم رہ سکے گی جب تک اس غلامی کا طوق گراں بارموجود ہو۔
ایسے اکھنڈ بھارت پاکستان اور آزاد پنجاب کے نمونے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں انگریزی حکومت کی آمد کے وقت سے موجود چلے آرہے ہیں۔ اس لیے سیاسین ہند کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی گرم روی میں ایسے حالات پیدانہ کریں جو بالآخر چند ایک اور مجبور ومحصور ریاستیں ہندوستان میں پیدا کردیں اور بس۔
اندر یں حالات مجلس احرار اسلام اپنی روش کا اظہار ان الفاظ میں کردینا مناسب سمجھتی ہے:
(۱) مجلس احرار اسلام کو کسی ایسی تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی جس کی کامیابی کے لیے لندن کے طواف کی ضرورت یا انگریزی سنگینوں کی احتیاج ہو۔
(۲) مجلس احراراسلام اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہندوستان میں ایک مرکز قائم کیا جائے یازیادہ اور اس کے صوبوں کی موجودہ تقسیم کو روا رکھا جائے ۔ یا اس میں تبدیلی کرنے کی خواہش ہو ہر حالت میں صلح جو یانہ عہد و پیمان اور امن و آشتی کا ماحول ہی بہترین فیصلہ میں مدد دے سکتا ہے۔
(۳) مجلس احرار اسلام اس منافرت انگیز پراپیگنڈا کو جو کسی طرف سے بھی کیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے ہندوستان کے مستقبل یا اکھنڈ بھارت یا پاکستان یا آزاد پنجاب وغیرہ کے قیام کے لیے مہلک سمجھتی ہے اور اس لیے ہر اسکیم کے حامیوں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ملک کی فضا کو مسموم کرنے والی تقریروں تحریروں اور دیگر پراپیگنڈا سے باز رہیں اور اپنے راستے میں خود ہی کانٹے نہ بوئیں۔
(۴) مجلس احرار اسلام زمانہ کے موجودہ حالات میں فیصلہ کرچکی ہے کہ اب ہمیں ملک کو اندرونی فساد کے فرقہ وارانہ یا اقتصادی خطروں سے بچانے کی ضرورت ہے اس لیے اسی کام پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے پس جہاں مجلس اس وقت حکومت سے متصادم نہیں ہے وہاں وہ مذہبی یا سیاسی اختلاف کی بنا پر بھی کسی فریق یا جماعت سے تصادم مناسب نہیں سمجھتی اور جہاں وہ ہندو سکھ یا عیسائی وغیرہ سے تصادم یا فتنہ انگیز اختلاف مناسب نہیں سمجھتی وہاں وہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی پیدا کرنا ہرگز ہرگز پسندیدہ تصور نہیں کرتی ۔
(۵) گو مجلس موجود وقت میں حکومت برطانیہ سے کوئی مطالبہ کرنا پسند نہیں کرتی اور اپنی قسمت کو اﷲ کے سپرد کرنا زیادہ مناسب سمجھتی ہے پھر بھی وہ ہندوؤں اور مسلمانوں یامسلم لیگ او رکانگریس کے سمجھوتے کی راہ میں سنگ گراں بننے کی خواہش مند نہیں ہے اسے ایسے سمجھوتوں سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تاہم جولوگ اس وقت سمجھوتے کی کوشش کرنا چاہیں وہ ان کو روکنا بھی پسند نہیں کرتی۔ ان حالات میں وہ سمجھوتے کی علیحدہ کوشش کرکے مسلمانوں میں باہمی خلفشار کو ہوادینا نامناسب سمجھتی ہے اور واضح کردینا چاہتی ہے کہ جو کوئی سمجھوتا چاہتا ہے وہ بے شک مسلم لیگ سے اور جس کسی جماعت سے چاہے باتیں کرے لیکن وہ مجلس احرار سے امید نہ رکھے کہ وہ ایسے مخمصوں میں پھنس کر مسلمانوں میں باہمی خانہ جنگی کا دروازہ کھولے گی ۔
(۶) مجلس احرار اسلام واضح کردینا چاہتی ہے کہ اس کا نظریہ یہ نہیں ہے کہ کسی جغرافیائی یا نسلی یا لسانی وغیرہ حدود کو قائم کرنا یا برقرار رکھنا مسلمان کا مذہبی یا حقیقی اور قطعی فریضہ ہے بلکہ ہر حالت میں خدا اور رسول کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنا دنیا میں نیکی سے رہنا ،نیکی سے تعاون کرنا،نیکی کی حکومت قائم کرنا اور نیکی کو رواج دینا ہی خلقت انسانی کی خداوندی حکمت و مصلحت ہے اور مجلس احرار اسلام دنیا کے جس حصہ میں بھی ممکن ہو حکومت الٰہیہ کے قیام کی خواہاں ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ اسلام کے زریں اصولوں پر کار بند ہو کر کس طرح دنیا کے مصائب کا علاج کیا جا سکتا ہے اور دنیا و آخرت میں فلاح کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے؟ـ
اس ضمن میں مجلس احرار اسلام یہ واضح کردینا بھی مناسب سمجھتی ہے کہ کسی علاقہ میں محض مسلمانوں کی اکثریت یا افراد کے ہاتھوں میں حکومت کا آجانا حکومت الٰہیہ کا مترادف نہیں بلکہ ایسی شخصی یا جماعتی حکومتوں نے جو اسلام کے نام پر اپنی اغراض کی تکمیل کے درپے رہیں۔ اسلام کے روئے روشن پر دھبا لگایا اور دنیا کو اسلام سے متنفر ہونے کی گنجائش دی مجلس کسی ایسے تجربہ کو دہرانے کے لیے مسلمانوں کی دین سے بے بہرہ کسی جماعت یا گروہ کے ہاتھ حکومت دے کر مطمئن نہیں ہوسکتی اور وہ مسلمانوں سے پرزور درخواست کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا فوری اور کلی احساس کریں اور اپنی نگاہ سے حکومت الٰہیہ کو اوجھل کرکے اسلام کے نام پر الحاد وزندقہ کے فروغ کا موقع نہ دیں بلکہ سب مسلمانوں کو اطاعت خدا اور رسول پر کمر بستہ ہونے کی تلقین و تاکید کریں‘‘۔
دیگر سیاسی جماعتوں سے اشتراک رکنیت کا خاتمہ
دوسری قراداد جو مجلس مرکزیہ احرار اسلام ہند نے سہارن پور میں ۲۶؍ اپریل ۱۹۴۳ء کو منظور کی: ’’مجلس احرار اسلام ہند کایہ اجلاس طے کرتا ہے کہ مجلس احرار اسلام کا کوئی ابتدائی ممبر کسی دیگر سیاسی جماعت کا ابتدائی ممبر نہ بنے تاکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے باہمی کشمکش کا سبب پیدانہ ہوسکے‘‘۔
حکومت الٰہیہ کی قراداد اور واضح پالیسی کے اعلان کے بعد مجلس احرار کتاب وسنت اور اسوۂ صحابہ کے مطابق اسلامی آئین کی تشریح کرتے ہوئے مسلم عوام کو حکومت الٰہیہ کے خط و خال سمجھانے میں مصروف ہوگئی پراپاگنڈا جاری تھا مجلس احرار کے سحر بیان مقرر واضح الفاظ میں قیام حکومت الٰہیہ اور عوامی حقوق کی مساویانہ اسلامی تقسیم کا مژدہ سناتے وقت ایک خدشے کا اظہار کرتے تھے وہ یہ بات برملا کہتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ نئی بننے والی قومی حکومت میں اسلام کے نام پرکوئی سراسر غیراسلامی نظام اور دستو رمسلط کردیا جائے اور مسلم عوام کے حقوق ہندو سرمایہ داروں سے چھین کر مسلمان سرمایہ دار کے سپرد کردیئے جائیں اور غریب مسلم عوام منہ تکتے رہ جائیں۔ احرار کے اس جائز اور خالص اسلامی مطالبے پر مسلم لیگ کا سرمایہ دار طبقہ بدک رہا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ احرار کی یہ بنیادی بات عوام کے ذہن نشین ہوجائے یہی سرمایہ دار طبقہ احرار اور مسلم لیگ کے درمیان حدِ فاصل بن کر کھڑا ہو گیا ورنہ مسلم لیگ اور احرار کا مطالبہ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا تھا یعنی پاکستان کے بغیر حکومت الٰہیہ قائم نہ ہوسکتی تھی اور حکومت الٰہیہ کے بغیر پاکستان شرمندہ معنی رہتا ۔مسلم لیگی سرمایہ داروں کی مخالفت کے باوجوداحرار نے بالآخر اپنے حلقہ اثر میں پاکستان کی حیثیت کے بارے میں ہر قسم کی بحث ختم کرتے ہوئے ذمہ داری سے یہ اعلان کردیا کہ لفظ پاکستان دکھی دلوں کی پکار ہے اس کی مخالفت یکسر ختم کردی جائے مطلب یہ کہ احرار کا جائز مطالبہ سرمایہ دار طبقہ اگر نہیں مانتا نہ مانے سرمایہ دار طبقے کا قبضہ ہوتا ہے تو ہوجائے عوام کے حقوق کے لیے پاکستان بن جانے کے بعد بھی خاطرخواہ تصفیہ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے مسلم لیگ کے سرمایہ دار طبقے اور احرا ر کی نزاع کی اصل بنیاد مساویانہ تقسیم حقوق تھی ورنہ احرار خود ہند و ذہنیت کی تنگ دلی سے سخت نالاں تھے احرار کاجذبہ ناراضگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی جس کی واضح اور ناقابل تردید شہادت یہ ہے کہ تحریک خلافت کے خاتمہ پر مجلس احرار کی بنیاد رکھنے والے تمام مسلم زعماء خصوصاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکابر ایک ایک کرکے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور پھر آخر میں اس کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوگئے چنانچہ ۱۹۲۹ء میں کانگریس کے اجلاس کراچی سے واپسی پر چودھری افضل حق مرحوم نے مستعفی ہو کر ہندوذہنیت سے بیزاری اور مسلمانوں کے لیے تحفظ حقوق کی جداگانہ تحریک وجماعت سازی کی ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اور اسی سال ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو مجلس احرار اسلام ہند کی بنیاد رکھ دی گئی بہر حال مجلس احرار کے بیدار مغز اور دور اندیش رہنما چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ نے مستقبل کے خطرات کی صرف نشاندہی کی تھی اور وہ نشاندہی کسی بدنیتی پر مبنی نہ تھی انصاف سے کام لیا جائے تو آج بھی ہر منصف مزاج پاکستانی مسلمان چودھری صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے خدشات کی اہمیت کو محسوس کرے گا موصوف نے پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے بارے میں اسلام کے تقاضوں کے عین مطابق اصولی بحث کی ہے اور یہ بحث بھی ایسے نازک دور کی بحث ہے جب ہم برطانوی سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے تنگ دل ہمسایہ بہت بڑی عددی اکثریت رکھنے کے باوجود مسلمان اقلیت کے حقوق تسلی بخش صورت میں طے کرنے پر آمادہ نہ تھا مجلس احرار جس نے وطن عزیز کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے غیر مسلموں سے کم قربانیاں نہ کی تھیں مسلم حقوق کے تحفظ کے لیے اسی طرح بے چین تھی جس طرح ایک مسلمان جماعت کو ہونا چاہیے تھا یہ الگ بات ہے کہ مجلس احرار کا اندازِ فکر دوسروں سے جداتھا مگر حق طلبی میں احرار کا نقطہ نظر خالص اسلامی تھا۔ کیا یہ درست نہیں کہ اسلام عوام پر خدا کی حاکمیت قائم کرتا ہے اسلام مال ودولت کی مساویانہ تقسیم کا قائل ہے اور غریب عوام کو عقیدہ جان اور مال جیسے بنیادی حقوق کا تحفظ حاصل ہونا چاہیے اور کیا برسوں پہلے مسلمانوں کے لیے ان اصول پر مشتمل پاکیزہ نظام زندگی برپا کرنے کی غرض سے مسلم لیگ سمیت تمام مسلمان جماعتوں کو قیام حکومت الٰہیہ کا نعرہ لگا کر مجلس احرار نے اک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت نہیں دی۔مگر احرار کی اسی حق پسندی کو جھوٹے پراپیگنڈے کے زور پر غداری سے تعبیر کیا گیا اور احرار کے خلاف مخالفت کی آندھی چلائی گئی۔
آج ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ احرار نے سلطنت سے پہلے اس کے لیے نظام زندگی اور آئین کا مسئلہ طے کرنے کی تجویز پیش کرکے او راس کے لیے پر امن اور مثبت تحریک چلا کر مسلم عوام کے دکھیا دلوں کی صحیح ترجمانی کی تھی یانہیں اور جن لوگوں نے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد قوم کو دستوری مسئلہ کے جنجال میں پھنسانے کا پروگرام بنایا تھا کیا انھوں نے بیس برس گذر نے پر بھی اپنا وعدہ پورا کیا؟ عوام ہندو سرمایہ داری کے پنجے سے نکل کر مسلمان کے لیے سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسنے سے بچ گئے؟ دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگئی؟ عوام کے حقوق کا تحفظ ہوگیا؟ کیا مسلمانوں کو ان کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ان کے دین و دنیا کی مشکلات کا صحیح حل کتاب و سنت او راسوہ صحابہ کے مطابق خالص اسلامی نظام نافذ کیاگیا ؟اور کیا پاکستان مسلم لیگ کے نعروں اور دعویٰ کے مطابق اصلی اور حقیقی پاکستان بن گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب واضح اور مکمل نفی میں ہے گویا احرار کا خدشہ آج واقعہ اور ناقابل تردید حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے لیکن غیروں کے اس جرم پر بھی غریب احرار ہی کو سزا کا مستحق سمجھا گیا ہے ۔
آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے؟
اب آپ’’ تاریخ احرار‘‘ کا مطالعہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اس جماعت نے بے سر و سامانی میں خدمت خلق کا بیڑا اٹھاکر کتنی خدمت کی اور اسے کن کٹھن منزلوں سے گذرنا پڑا مجلس احرار غریبوں کی جماعت ہے یہ غلطی بھی کر سکتی ہے مگر سوال نیت کا ہے ہوسکتا ہے کہ’’ تاریخ احرار‘‘ کے مطالعہ کے بعد بعض حضرات آج بھی احرار کی رائے یاعمل کے کسی حصے سے اختلاف کریں مگر اختلافِ رائے کا کیا یہ طریقہ مناسب ہے کہ احرار کی تمام قربانیوں پر خط تنسیخ کھینچ کر مرزائیوں کو احرار کے خلاف پراپیگنڈے کا موقع بہم پہنچایا جائے مجھے اس گذارش کی اس لیے ضرورت محسوس ہوتی کہ ابھی حال ہی میں امت مرزائیہ نے ’’تاریخ احمدیت‘‘ کی ساتویں جلد میں اس قسم کی تمام تحریریں جو مسلمانوں کے نام سے احرار کے خلاف لکھی گئیں درج کر کے دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں میں صرف احرارہی ایک ایسی جماعت ہے جو قادیانی نبوت کے خلاف پراپاگنڈا کرتی ہے مگر مسلمان قوم اس جماعت کے بارے میں رائے نہیں رکھتی۔ امت مرزائیہ کے پاس احرار کے معقول اعتراضات کا کوئی جواب نہیں ہے اس لیے ذمہ دار مرزائی حضرات براہ راست کوئی جواب نہیں دیتے البتہ نہایت عیاری اور چالاکی سے وہ مسلمانوں ہی میں سے کسی ایک کو بہکا کر احرار کے خلاف اوٹ پٹانگ لکھوالیتے ہیں اور پھر اسے پمفلٹ اور اخبارات کے ذریعے اچھالتے ہیں اس لیے درد مندانہ گذارش ہے کہ ’’تاریخ احرار‘‘ پررائے کا اظہار کرتے وقت احرار کی مشکلات اور حالات کی ناساز گاری کو نظر انداز نہ کیا جائے۔۔۔ وما علینا الا البلاغ۔
خادم احرار:تاج الدین
شب پنج شنبہ:۲۱؍۷؍۸۷ھ مطابق ۲۶؍۱۰؍۶۷ء
دفتر مجلس احرار اسلام پاکستان بیرون دہلی دروازہ لاہور