مفتی ابو رفیدہ عارف محمود (استاذ ورفیقِ شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی)
زمانہ جاہلیت میں لوگ جس طرح کفروشرک میں مبتلا تھے، طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں، غلاموں پر بے جاتشدد کرنا، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا، یتیموں اور بیواؤں کا مال ہڑپ کرجانا، اور عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کرنا عام تھا، اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھا کہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں، باقی ورثا، یتیم بچے اور عورتیں، روتے اور چلاتے رہ جاتے، ان کے طاقتور چچا اور بھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پر قبضہ جمالیا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں کفر وشرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکام نازل ہوئے، دنیا ئے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کی پاکیزہ معاشرت میں زندگی گز ار نے لگی۔
اسبابِ میراث
زمانۂ جاہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی، ان میں ایک سبب’’نسب‘‘ تھا، دوسرا ’’معاہدہ‘‘
(یعنی ایک دوسرے سے خوشی وغم میں تعاون کرنا، ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا، اس بات کا معاہدہ کیا جاتا تھا) تیسرا سبب ’’متبنّٰی ‘‘ (یعنی منہ بولا بیٹا) وارث بنتا تھا، اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ ساتھ مؤاخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا، جو حقیقت میں معاہدہ کی ایک صورت تھی۔
وصیت کا حکم
اﷲ تعالیٰ کی ذات حکیم وعلیم ہے: چونکہ اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف وباخبر ہے: اس لیے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانۂ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاً احکام نازل فرمائے، اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ أ حَدَ کُمُ الْمَوْتُ انْ تَرَکَ خَیْرًاالوَ صِیَّۃُ للِْوَ الِدَیْنِ وَالأَ قْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ)
(البقرۃ :۱۸۰)
ترجمہ: تم پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ :جب کسی کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے، بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہوتو والدین اور اقارب کے لیے معقول طور پر کچھ کچھ بتلا جائے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ بیان القرآن (۱:۱۱۵) میں اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
’’شروع اسلام میں جب تک میراث کے حصے شرع سے مقررنہ ہوئے تھے، یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے بتلا جاوے، اتنا تو ان لوگوں کا حق تھا، باقی جو کچھ رہتا وہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا، اس آیت میں یہ حکم (یعنی وصیت ) ہے
اس حکم کے تین جزؤ تھے، ایک بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص وحقوق ترکہ میں معین نہ ہونا، دوم ایسے اقارب کے لیے وصیت کا واجب ہونا، تیسرے ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا، پس پہلا جزؤ تو آیت میراث سے منسوخ ہے، دوسرا جزؤ حدیث سے جو کہ مؤید بالا جماع ہے منسوخ ہے، اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہوگیا، یعنی وارث شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے، تیسرا جزؤ اب بھی باقی ہے، ثلث سے زائد میں بدوں رضا ورثہ بالغین کے وصیت باطل ہے‘‘۔
وصیت کے بارے میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مَاحقُّ امرِءٍ مسلمٍ لَہ شَیءٌ یُوْ صِیْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ الاَّ وَوَصِیَّتُہ مَکْتُوْ بَۃٌ عِنْدَہ‘‘
(صحیح بخاری ،کتاب الوصایا، رقم الحدیث: ۲۵۸۷)
ترجمہ: کسی بھی مسلمان کے پاس کو ئی چیز ہو جس کی وصیت کرنا ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گزر جائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ مَاتَ عَلٰی وَصِیَّتِہ مَاتَ عَلیٰ سَبِیْلٍ وَسُنَّۃٍ وَمَاتَ عَلٰی نُقیً وَشَھَادَۃٍ وَمَاتَ مَغْفُوْرًا لَہ‘‘
(سنن ابن ماجہ، الحث علی الوصیۃ رقم الحدیث: ۲۷۰۱)
ترجمہ: جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کرکے مرا) وہ صحیح راستہ اور سنت پر مرا، اور تقویٰ اور شہادت پر مرا، اور بخشاہوا ہونے کی حالت میں مرا۔
وصیت کے حوالے سے بتدریج احکام نازل ہوئے ان پر عمل ہوتا گیا تو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاً احکام نازل ہونا شروع ہوئے، اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہواکہ میراث جیسے مردوں کا حق ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے: چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی نازل ہوا:
(لِلرِّ جَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأ قْرَ بُوْنَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَ الِدَانِ وَالأَ قْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَفْرُ وْضاً) (النساء:۷)
ترجمہـ: مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس (مال ) میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس (مال ) میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ خواہ وہ چیز کم ہو یازیادہ،حصہ بھی ایسا جو قطعی طور پر مقرر ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر کچھ یوں ہے، تفسیر قرطبی میں ہے کہ: حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے پس ماندگان میں اہلیہ ام کُجّہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں، حضرت اوس بن ثابت کے چچا زاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے، انھوں نے سارامال خودلے لیا اور ام کُجّہ اور حضرت اوس رضی اﷲ عنہ کی بیٹیوں کو جائیداد میں حصے سے محروم کردیا، مظلوموں کا ماویٰ اور ملجا حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ کون تھا؟ !چنانچہ ام کُجّہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا، توحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مکان لوٹ جاؤ، جب تک اﷲ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو، اس پر اﷲ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانۂ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کاحصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایا کہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں، بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایا ہے: لہٰذا تم اوس بن ثابت کے مال کو بحفاظت رکھنا، اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ اس واقعہ پیش کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور عورتوں کا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیاگیا تھا، دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ہجری احد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعدبن ربیع انصاری رضی اﷲ عنہ شہید ہوئے، ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال وجائیدادپر قبضہ کرلیا اور ان کی اہلیہ اور دوبیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا، حضرت سعد کی اہلیہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال ان کے چچا نے لیا ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کردیاکہ صبر کرو عنقریب اﷲ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمادیں گے۔
میراث کے تفصیلی احکام :
تفسیر قرطبی، مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اﷲ تعالیٰ نے عورتوں اور لڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لیے اس آیت کو نازل فرمایا (یُوْ صِیْکُمُ اللّٰہ فِیْ أولاَدِ کُمْ لِلذَّ کَرِ مِثْلُ حِظِّ الاُّ نْثَیَیْنِ ) (النساء:۱۱)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دولڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے والدین کو صاف صرا حتاً حکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کا حق ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سعد کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دو، اور باقی مال تمہارا ہے، اسلام کے قاعدہ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔
زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم :
بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد واقربا میں تقسیم کردیتے ہیں، عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیا جاتا ہے اور بیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں، ان لوگوں کو حالت صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے: لیکن یادر ہے ان کایہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس روح ومقتضا کے خلاف ہے: چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہا اﷲ نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، وضو فرمایا اور کچھ چھینٹیں مجھ پر ماریں، مجھے کچھ افاقہ ہوا، میں نے پوچھاکہ میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ’’یُوْ صِیْکُمْ اللّٰہُ فیِ اَوْلَادِکُمْ الخ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجمعہ،رقم :۴۵۷۷)
اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی مال میں سے حصہ دو۔ مشکوٰۃ شریف کی ایک صحیح حدیث میں وار د ہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعت خدا وندی میں مشغول رہتے ہیں: لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یاتو حق داروں کا حصہ کم کردیتے ہیں، یا مکمل حصے سے محروم کردیتے ہیں، ایسے شخص کو اﷲ تعالیٰ سید ھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔
قارئین کرام! غور فرمائیں!میراث کے بارے میں اﷲ کے ایک حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر عبادتیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تبلیغ اور دیگر اعمال ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے: بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے، سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے: ’’مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثاً فَرَضَہ اللّٰہُ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْرَاثَہ مِنَ الْجَنَّۃِ ‘‘(رقم :۲۵۸) یعنی جو شخص اپنے مال میں سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ میراث کو ختم کردیتا ہے، اﷲ تعالیٰ جنت سے اس کی میراث ختم کردیتے ہیں۔
عورتوں کے حصوں کے بیان کرنے میں قرآن کا اسلوب
معزز قارئین! آپ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور فرمائیں ’’للِذَّ کَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُ نْثَیَیْنِ‘‘ یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا، اﷲ تبارک وتعالی نے:لِلْأ نْثَیَیْنِ مِثْلُ حَظِّ الذَّکَرْ‘‘ نہیں فرمایا کہ دولڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا، علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے للذ کر مثل حظ الا نثیین فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے، لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے، ان کی اس عادت سیۂ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دولڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا، گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کوحصہ دیتے ہو، ہم نے ان کا حصہ دگنا کردیا ہے لڑکیوں کے مقابلے میں: لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا، ان کو میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ ’’احکام القرآن ‘‘ میں اس آیت کے بارے فرماتے ہیں: ھٰذِہِ الآیَۃُ رُکْنٌ مِنْ أرْکَانِ الدِّیْنِ وَعُمْدَۃٌ مِنْ عُمْدِ الدِّیْنِ وَأمٌ مِنْ اُمَّھَاتِ الْاّ یَاتِ، فَانَّ الْفَرَائِضَ عَظِیْمَۃُ الْقَدْرِ، حَتّٰی أنَّھَا ثُلُثُ الْعِلْمِ ‘‘یہ آیت (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَؤ لاَدِکُمْ) ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے :اس لیے کہ فرائض (میراث) کا بہت عظیم مرتبہ ہے، یہاں تک کہ یہ ثلث علم ہے۔
اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اﷲ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تِلْکَ حُدُدُاللّٰہِ یہ میراث کے احکام اﷲ تعالیٰ کے بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا:(مَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یُدْ خِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الٔاَ نْھٰرُ خَالِدِ یْنَ فِیْھَا وَذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ) ترجمہ: جواﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے ایسی جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، و ہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح میراث کے سلسلے میں اﷲ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے آگ اور ذلّت کا عذاب ہوگا، ارشاد ربانی ہے: (وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْھَا وَلَہ عَذَابٌ مُھِیْنٌ ) ترجمہ: جواﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے او ر اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے، اﷲ ا س کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیزعذاب ہوگا۔
جاہلا نہ طرزِعمل
بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کو محروم کرنا، یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتوں کو محروم کرنا، یہ زمانۂ جاہلیت کے کفار کا طرز عمل ہے، حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ محِدّث دارالعلوم دیو بند نے ’’مفید الوارثین‘‘ میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے واضح اور صریح حکم کو پشت ڈال کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیں ہے، نہایت سرکشی اور اعلی درجے کا جرم ہے: بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔
یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے: بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے نصف علم قرار دیا ہے، دار قطنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَعَلَّمُوْا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسَ، فَاِنَّہ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَھُوْ اَوَّلُ شَیْ ءٍ یُنْتَزَعُ مِنْ اُمَّتِیْ‘‘ (کتاب الفرائض رقم:۱)
ترجمہ: اے لوگو! فرائض (میراث) کے مسائل سیکھو، اور اسے لوگوں کو سکھاؤ بے شک وہ نصف علم ہے اور وہ سب سے پہلے بھلایا جائے گا اور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔ بہت سارے دین دار کہلانے والے لوگ جو نماز،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں، ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں: لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں، یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے۔
ورثاء کے لیے مال چھوڑنا:
اپنی اولاد اور ورثاء کے لیے مال چھوڑ نا بھی ثواب کاکام ہے، امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ والے سال ایسا بیمار ہوا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے، حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! میرے پاس بہت سا مال ہے میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کا حصہ پہنچتا ہے، تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: آدھے ما ل کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کردوں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:تہائی وصیت کرسکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے، پھر مایا:’’أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أعْنِیَاءَّ ، خَیْراً مِنْ أنْ تَدَعَھُمْ عَالۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أیْدِ یْھِمْ‘‘ تم اپنے ورثاء کو مال داری کی حالت میں چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگدستی کی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں (صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، رقم: ۲۷۴۲)۔
آخر میں ایک دفعہ مکرّ ر یہ گزارش ہے کہ یتیموں ، عورتوں، اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنا بہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ، قانون خدا وندی سے بغاوت کے مترادف ہے، اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے: بلکہ جو شرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے، وہ ان کے سپرد کردیا جائے، ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اپنی رضاور غبت سے کچھ، یاسارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لیے لینا جائز ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ: ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتوں کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے، امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیت میں بدل دے۔ آمین