ڈاکٹر عمر فاروق احرار
اکابر کا تذکرہ دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہوتاہے ۔یہی ایمان پرورتذکرے ہی ہمارے یادگار سفرکا بہانہ بنے۔ لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے جناب میاں محمد اویس ڈپٹی جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام پاکستان ،تلہ گنگ تشریف لائے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قرب و جوار میں مدفون عظیم مجاہدین کی قبور پر حاضری دی جائے اور یہ بھی طے پایا کہ ان کے مزارات پر اُن کے اسمائے گرامی اور تاریخ وفات پر مبنی بورڈ لگائے جائیں ،چنانچہ بورڈ تیار ہوگئے، مگر شدید بارش کی وجہ سے سفرملتوی ہوگیا۔ بالآخر 31؍مئی 2020ء کو احباب نے اس کار خیر کے لیے رخت سفر باندھا۔ میرے ساتھ مولانا تنویر الحسن، مولانا محمد شعیب اور مولانا محمد حذیفہ تلہ گنگ سے روانہ ہوئے اور ضلع میانوالی کے معروف قصبہ چکڑالہ پہنچے۔جہاں ملک محمدعبداﷲ علوی امیر مجلس احراراسلام چکڑالہ ،محمد امتیاز، عبدالخالق احرار، محمد رفیق اور مجاہد ختم نبوت مولانا عنایت اﷲ چشتی رحمتہ اﷲ علیہ کے صاحبزادگان محترم فرخ اقبال اور جناب محمد ابوبکر علوی سمیت کارکنان احرار کی کثیر تعداد نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔عبداﷲ علوی صاحب کی زیرنگرانی تعمیر ہونے والی مسجد ختم نبوت میں حاضری کے بعد ہمارا قافلہ قریبی قبرستان میں پہنچا۔ جہاں مولانا عنایت اﷲ چشتی محو اِستراحت ہیں۔ مولانا عنایت اﷲ چشتی وہ عظیم المرتبت شخصیت تھے، جنہیں مجلس احرار اسلام نے 12 فروری 1934ء کوقادیان میں پہلے مبلغ کی حیثیت سے تعینات کیا تھا اور انہوں نے وہاں منکرین ختم نبوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آٹھ سال تک تحفظ ختم نبوت کا علم بلند کیے رکھا۔ ان کے قادیان میں تقرر کے بعد احرار نے اپنا شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کیا اور پھر اکتوبر 1934 کو قادیان میں تین روزہ تاریخی آل انڈیااحرار تبلیغ کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں ہندوستان بھر کے چوٹی کے اکابر مثلا شیخ الاسلام حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اﷲ دہلوی، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری،مفتی عبدالرحیم پوپل زئی رحمہم اﷲ سمیت احرارکے تمام مرکزی قائدین نے شرکت فرمائی اور ہندوستان بھرسے دولاکھ سے زائد فرزندانِ ختم نبوت اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ۔ اس موقع پر حضرت امیر شریعت مولاناسید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ تعالی نے تاریخ ساز خطاب فرمایا تھا اور اسی کانفرنس کی کارروائی کے دوران ہی 16 قادیانیوں نے اسلام قبول کرنے کی سعادت بھی حاصل کی تھی۔ کارکنان احرار نے ختم نبوت زندہ باد کے نعروں کی گونج میں مولانا عنایت اﷲ چشتی کی قبرپر تجدید عہد کیا کہ ہم تادمِ واپسیں ختم نبوت کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ بورڈ کی تنصیب کے بعد مولانا تنویر الحسن نے اس عظیم مجاہد ختم نبوت کے حضورمختصر خراج تحسین پیش کیا اور پھر ہماراقافلہ مجاہد احرار، رفیق امیر شریعت جناب کپتان غلام محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی قبر مبارک پر پہنچا۔ کپتان غلام محمد مرحوم مجلس احرار کے انتہائی دلیر ،مخلص اور بیباک رہنما تھے۔ ساری زندگی محنت و مزدوری اور جفاکشی میں گزاری، لیکن توحید و ختم نبوت اور ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لیے پوری قوت سے سرگرم عمل رہے اور زندگی کی آخری سانس تک کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی ایمان و عقائد پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔فدائے احرارمولانا محمد گل شیر شہید نے انہیں مقامی جماعت کا کپتان مقرر کیا اور پھر کپتان کا سابقہ ان کے نام کا حصہ ہو کر رہ گیا۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے دور علالت میں کپتان مرحوم نے ان کی خدمت گزاری کا حق ادا کیا۔ کپتان صاحب نے ساری زندگی درویشی میں گزاری، لیکن اُن کے کردار کے اجلے پن نے علاقہ بھر میں ان کی بے داغ، بے لوث اور بے غرض شخصیت کا سکہ اس طرح بٹھایاکہ آج بھی اُن کا نام لیتے ہوئے لوگ اپنے سر کو عقیدت سے جھکا دیتے ہیں۔ انہوں نے میانوالی ،بھکر ،چکوال اور اٹک کے اضلاع میں تبلیغی کانفرنسوں اور اجتماعات کا لامتناہی سلسلہ جاری کیا۔جس کے نتیجہ میں بے شمار لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوئی اور اور ان کی زندگیاں بدل گئیں۔مولانا محمدگل شیرشہید کی محنت شاقہ کے بعد کپتان غلام محمد مرحوم ہی کی بدولت ان علاقوں میں آج تک دینی ماحوال اورمجلس احرار اسلام کا کام موجود ہے۔ ان کی قبر پر بورڈ لگایا گیا اور اُن کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
چکڑالہ سے قافلہ احرار ضلع اٹک کے مشہور قصبہ ملہووالی کی طرف رواں دواں ہوا۔ اس قصبہ کی بنیادی شہرت متحدہ پنجاب کے معروف مقرر اور نامور مجاہد آزادی حضرت مولانا محمد گل شیر خان شہید رحمتہ اﷲ علیہ کی ذات گر امی کا مولدومسکن ہونے کی وجہ سے ہے ۔ مولانا گل شیر شہید رحمۃ اﷲ علیہ برصغیر کے نام ور خطیب تھے ۔ ابتدائی دور میں وہ مجلس احرار اسلام کے ناقدین میں سے تھے۔ اگر اِن فوجی اضلاع چکوال، جہلم، گجرات، بھکر، میانوالی، اٹک اورراولپنڈی میں کوئی احرار رہنما یا دیگر آزادی پسند لیڈر دورہ پر تشریف لاتے اور انگریز کے خلاف عوام کی ذہن سازی کرتے تو اگلے دن ہی مولانا گل شیر شہید اُن کے باغیانہ اثرات کو زائل کرنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے اوراپنی خداداد صلاحیت یعنی خطابت کے ذریعے عوام کے ذہنوں کا رُخ موڑ دیتے۔ 1939ء میں مولانا گل شیر فریضۂ حج اداکرنے کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ ایک روز مسجد نبوی کے سایہ میں سوئے ہوئے تھے کہ خواب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور بارگاہ ِنبوی سے ہندوستان واپس جاکر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مجلس احرار اسلام کے ساتھ مل کر کام کرنے کا حکم ارشاد ہوا۔ حج سے لوٹے تواحرار میں شامل ہوگئے اور زندگی کے باقی سال تحریک آزادی کی جدوجہد کے فروغ، نظام جاگیرداری کی مخالفت اور ہندو بنیے کے معاشی ظلم کے خلاف عرصہ ٔجہاد میں گزار دیے۔ اُن کی آخری مڈ بھیڑ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے ریاستی تشدد اور عوام پر لگائے گئے ناجائز ٹیکسوں کے سدباب کے لیے ہوئی۔ آپ نے عوامی حقوق کے تحفظ وبحالی کے لیے ’’ تحریک کالاباغ‘‘ چلائی اور اُس کے نتیجے میں 24مئی 1944ء میں آپ کو گھر میں نیند کی حالت میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ آپ کی انگریز اوراُس کے حاشیہ نشیں جاگیرداروں کے خلاف معرکہ آرائیاں پنجاب کے سپوتوں بھگت سنگھ اور دُلہ بھٹی سے ہرگزکم نہیں ہیں۔
مولانا گل شیر کے نواسے جناب مفتی ہارون مطیع اﷲ کراچی سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ان کی ہدایت پر اُن کے بڑے بھائی مولانا زکریا کلیم اﷲ قصبہ میں پہنچے ہوئے تھے۔ اُن کی بدولت وہاں بہت سے احباب سے نشست ہوئی۔ پرتکلف کھانے کے بعد ظہر کی نماز ادا کی ۔قبرستان میں گئے، بورڈ آویزاں کیا اور مولانا گل شیر شہید کی تاریخ ساز جدوجہد کوسلام عقیدت پیش کیا ۔بعدازاں ملہووالی ہی میں جماعت اسلامی ضلع اٹک کے امیر مولانا قاری عبدالمالک کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کی۔وہیں میری درخواست پر مولانا گل شیر شہید کے صاحبزادے مولانا حافظ حسین احمد تشریف لے آئے۔ کافی دیر تک نشست رہی اور روح پرورماضی کی یادوں کو دہراتے ہوئے اجازت لی اور اور عشاء کے قریب واپس تلہ گنگ پہنچ گئے۔