مولانا زاہد الراشدی
گزشتہ دنوں قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے یا کسی قادیانی کو کمیشن کا رکن بنانے کی خبریں منظر عام پر آئیں تو اس پر ملک بھر میں تشویش پیدا ہو گئی کہ یہ قادیانیوں کو چور دروازے سے مین اسٹریم میں داخل کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ اس پر اعتراضات و خدشات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہم نے بھی تحفظات کا اظہار کیا، چنانچہ وفاقی کابینہ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کسی قادیانی کو اقلیتی کمیشن کا ممبر نہیں بنایا جا رہا۔ یہ اعلان دینی حلقوں کے لیے اطمینان کا باعث بنا اور عمومی طور پر اس کا خیر مقدم کیا گیا مگر اسلام آباد کی ’’شہداء فاو نڈیشن‘‘ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں نمائندگی نہ دینے کے فیصلے کو چیلنج کر دیا اور باضابطہ رٹ دائر کی جس سے تشویش و اضطراب کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا کہ جب مسئلہ نمٹ گیا تھا تو ازسرِنو اسے دوبارہ کیوں چھیڑا گیا ہے۔
اس پر باہمی مشاورت کے ساتھ ’’مجلس احرار اسلام پاکستان‘‘ نے کیس میں باقاعدہ فریق بننے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اگر کیس میں کوئی الجھاؤ والی بات نظر آئے تو اسے اعتماد کے ساتھ سنبھالا جا سکے۔ چنانچہ ۴ جون کو جس روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ بالا رٹ کو سماعت کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کا اعلان کرنا تھا، ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ اور ’’مجلس احرار اسلام پاکستان‘‘ دونوں کی قیادت اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران موجود تھی تاکہ اگر رٹ کو سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا تو وہ اس میں باقاعدہ فریق بننے کی درخواستیں دے سکیں، مگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس وضاحت کے ساتھ یہ رٹ کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا کہ اگر قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا تو کسی اور کی بجائے متاثرہ فریق ہونے کی وجہ سے یہ کیس خود انہیں لڑنا چاہیے۔
ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا مگر تازہ ترین خبر کے مطابق جس فریق کی رٹ خارج کی گئی ہے اس نے مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل حاجی عبد اللطیف چیمہ کے خلاف اسلام آباد تھانہ میں مقدمہ درج کرا کے محاذ آرائی کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے جس سے معاملات نیا رخ اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں، جبکہ کچھ نظریں پردۂ غیب کی طرف بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ دیکھیں اس کے پیچھے سے کیا نمودار ہوتا ہے؟
ہمارے خیال میں اس صورتحال کے پس منظر میں باقاعدہ ایک سوچ کام کر رہی ہے جس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ جب قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل کیا جا رہا تھا تو اس کا ظاہری مطلب یہ بنتا تھا کہ سرکاری طور پر قادیانیوں کو اقلیت کا درجہ دے دیا گیا ہے، اور یہ قادیانی مسئلہ کے حل کی ایک صورت ہو سکتی تھی جس کا دروازہ خواہ مخواہ بند کر دیا گیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ محض ایک مغالطہ ہے کیونکہ قومی اقلیتی کمیشن میں کسی قادیانی کو ممبر بنانے سے قادیانیوں کی نمائندگی تب بنتی جب قادیانیوں کی طرف سے کہا جاتا کہ یہ ہمارا حق بنتا ہے، ہمیں نمائندگی دی جائے، یا کم از کم کمیشن میں نمائندگی کے لیے قادیانی جماعت سے باضابطہ پوچھا جاتا کہ یہ نمائندگی ان کا حق بنتا ہے اس لیے وہ اپنا کوئی نمائندہ نامزد کر دیں تاکہ اسے ممبر بنایا جا سکے۔
قادیانیوں کی درخواست، یا ان سے پوچھے بغیر کسی کو ان کا نمائندہ بنا دینا ویسے بھی نمائندگی کے اصول کے خلاف ہے اس لیے کہ اپنا نمائندہ مقرر کرنے کا حق اسی کا ہوتا ہے جس کی اس نے نمائندگی کرنی ہے۔ مثلاً کسی صاحب نے کسی اجلاس میں ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کی نمائندگی کرنی ہے تو ان کا تعین کونسل خود کرے گی، اجلاس والے حضرات کسی کو ازخود کونسل کا نمائندہ قرار دے کر اجلاس کے فیصلوں میں شریک کر لیں تو یہ بات عقل اور منطق کے خلاف ہو گی۔ اس لیے قادیانی جماعت کی اپنی درخواست یا اس سے پوچھے بغیر کسی قادیانی کو قومی اقلیتی کمیشن کا ممبر بنا دینا باقی تمام باتوں سے قطع نظر خود نمائندگی کے مسلمہ اصول کے بھی خلاف بات تھی، جیسا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج نے یہی کہا ہے کہ اگر قادیانیوں کا حق تلف ہوا ہے تو اس کی بات خود انہیں کرنی چاہیے۔ اور اسی وجہ سے وفاقی کابینہ کی طرف سے سامنے آنے والی پہلی بات پر اعتراض کیا گیا کہ قادیانی جب تک دستور کو تسلیم نہیں کرتے اور دستور و قانون کے مطابق اپنی اقلیت کی حیثیت کو باضابطہ قبول نہیں کرتے، کسی قادیانی کو حکومت کی طرف سے ازخود کمیشن کا ممبر بنانا غلط بات ہے، جس کا وفاقی کابینہ نے بروقت احساس و ادراک کر کے کسی مزید تاخیر کے بغیر اعلان کر دیا کہ کسی قادیانی کو قومی اقلیتی کمیشن کا ممبر نہیں بنایا جا رہا۔
اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی قادیانی قومی اقلیتی کمیشن کا ممبر بن جاتا تو یہ انہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دینے کے مترادف ہوتا، مگر ہم اس کالم میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ بھٹو مرحوم کے دور میں اس کا تجربہ کیا گیا تھا جو ناکام ہو گیا تھا۔ وہ اس طرح کہ ایک قادیانی کو قومی اسمبلی، اور ایک کو صوبائی اسمبلی کا ممبر بنوایا گیا تھا، مگر قادیانی جماعت نے انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور دوٹوک کہہ دیا تھا کہ جب وہ دستور کے اس فیصلہ کو ہی نہیں مانتے جس میں انہیں اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے تو وہ کسی قادیانی کو اقلیتی سیٹ پر اپنا نمائندہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟
ان وضاحتی گزارشات کے ساتھ ہم تمام حلقوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ خدارا کوئی ایسا راستہ اختیار نہ کیا جائے جس سے قادیانیوں کے بارے میں امت کا اجتماعی موقف اور محاذ متاثر ہو اور چور دروازے سے کسی قادیانی کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوئی مہم کامیاب ہو سکے۔