تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار (دوسری قسط)

مؤلف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
مقدمہ: امام سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
تحریک سے متعلقہ لٹریچر بہ شمول تاریخ احرار کے سلسلہ میں جماعت کے مختلف عناصر کا جو نفسیاتی تجربہ سابقہ صفحات میں پیش کر دیا گیا ہے اسے ملحوظ رکھنابہر طور ضروری ہے۔ اس کا اصولی مفادیہ ہے کہ جماعت کی طرف سے کسی بھی مطبوعہ مضمون و خطبہ اور کتاب میں بہ وقت مطالعہ قارئین کو اگر کسی لکھنے والے بزرگ کے فکر و مسلک اور جماعتی عقائد ومقاصد میں کوئی بعد وتضاد محسوس ہو تو مذکورہ بالا تجزیہ دیکھ کر ایسے اختلاف کو فی الحقیقت جماعتی منشور کا معنوی اختلاف وتضاد سمجھنے کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ کیونکہ ایسی مشکوک تحریر لازماً جماعت میں شامل رہے ہوئے کسی دوسرے فرقہ سے متعلق رہنما اور کسی خاص علمی و سیاسی موضوع سے دلچسپی رکھنے والے بزرگ کے ذاتی تاثر و خیال او رانفرادی رجحان ورائے کے تحت ہی شاملِ مضمون ہوئی ہوگی ۔بطورِ اصول پوری جماعت کے مرکزی فکر وعمل سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ کیوں کہ جماعتی منشورودستور اس کی مطبوعات اس کے تحریک وعمل اور اکابر کے فکر و مسلک میں بحمد اﷲ کوئی حقیقی اختلاف و تضاد ہے ہی نہیں۔ اب چاہے شیعہ، سنی مسلک کی تحقیق ہو یا دیوبندی ، بریلوی اور غیر مقلد مکتب فکر کی کوئی بحث ایسے ہی مسئلہ اصلاحِ معاشرہ اور کسان مزدور کی تنظیم کا ہو یا ملکی دستور و قوانین کی تدوین و تشکیل کا اور وہ مضمون و کتاب یا خطبہ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکرِ احرار امیر افضل حق ، مولانا داؤد غزنوی اورمظہر علی اظہر کی کوئی نگارش ہو یا شیخ حسام الدین ، ماسٹر تاج الدین اور حافظ علی بہادر خان کا کوئی نقش قلم جس موضوع کی تشریح میں جہاں کہیں کوئی رائے جماعتی اصول و مقاصد سے اجنبی اور اس کی تحریک وجدوجہد سے مختلف اور متنا قض محسوس ہو، اس سے اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ جماعت کی بنیادی ساخت اور قبل از تقسیم والے اس کے طریقہ کار پرتاریخی نظر رکھنے والا ہر شخص اسے بہر کیف و بہر حال کسی بزرگ کا ایک اتفاقی اور انفرادی احساس و تاثر اور ذاتی رائے تو سمجھے گا جماعت کا کوئی فکری منصوبہ اور اس کا اجتماعی منشو رونظام ہر گز قرار نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ ہزارحد ۃِ فکر ویگانگت ِعمل اور ہزار جماعت واجتما عیت کے رنگ میں ڈوب جانے کے باوجود بھی گلہائے رنگارنگ سے چمن کو زینت دینے والے احسن الخالقین کا ضابطہ تخلیق یہی ہے کہ ہر شخص کی ذات اور انفرادیت بہر حال اپنا اظہار چاہتی ہے اور اس کے اظہار میں اختلاف اور انوکھا پن اصول فطرت کے عین مطابق ہے کوئی عیب اور موجب اعتراض امر نہیں ہے۔
وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلوَانِکُمْ اِنَّ فِی ذَالِکَ لَاٰیاٰتِِ لِّلْعٰلِمِیْنْ (الروم پ۲۱)
ترجمہ: تمہاری زبانوں اور رنگتوں کے جدا پن میں بلا شک اہل علم کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
مصنف کتاب کے مفصل ومستند سوانح تو انشاء اﷲ تھوڑے عرصہ تک ایک مستقل کتاب کی صورت میں نیز ’’ زعماء احرار‘‘ نامی زیرِ ترتیب کتاب میں شامل کرکے کچھ مدت بعد نذرِقارِئین کیے جائیں گے البتہ خلاصۂ احو ال ملاحظہ کریں۔
رعنا قد، گٹھیلا جسم، کشادہ سینہ، شگفتہ رنگ ،تبسم فشاں، چمکیلی شربتی آنکھیں، ابھرے ہوئے رخسار، گول چہرہ، ہلکی ہلکی ملگجی ڈاڑھی ، لمبی ستواں ناک، تیکھے نقوش، نکیلے خط و خال، آواز بلند اور پاٹ دار مگر جیل میں سرمہ کھِلائے جانے کے بعد سے آخر عمر تک دبی گھٹی اور وقفہ وقفہ سے کھلنے والی لہجہ متین اور باوقار ، مزاج میں رنگینی اور لطافت ،طبیعت میں ظرافت و شرافت ،خاندانی وجاہت و تمکنت کا مثالی پیکر ’’ افضل حق ‘‘ نام، مفکر احرارلقب، تخلص نامعلوم ،خاندانی وطن مالوف گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجا ب، راجپوت برادری کے ایک معزز شریف اور نیک گھرانے میں جناب چودھری امیر خان مرحوم کے ہاں ۱۳۰۸ھ بمطابق ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئے۔ بعض مخصوص حالات کی وجہ سے گھر والوں کا امرت سر میں قیام ہوگیا تھا۔ ۱۳۱۶ھ بمطابق ۱۸۹۹ء کے دوران امرت سر کے ایک سکول میں داخل ہوئے فطری استعداد اور ذہانت نے ہر جماعت میں ممتازرکھا ۔ماحول ابتدا ہی سے دینی تھا، خصوصاً والد ہ محترمہ بڑی پارسا خاتون تھیں بچپن میں ہی مذہب سے شغف تھا گھر والوں کی دیکھا دیکھی عبادت میں مشغول ہوجاتے فرائض کے علاوہ نوافل کے بھی پابند ہوگئے تھے۔ خود نوشت سوانح میں فرماتے ہیں’’اس زمانے میں شاید ہی کوئی نماز قضا ہوتی ہو‘‘ ۔انگریز پرستوں سے قدرتی طور پر شروع سے ہی متنفرو بیزار تھے اور اس دورِ جبروتشدد میں بھی جو حضرات انگریز دشمنی کا دم بھرتے مرحوم ان کے مداح ہوتے تھے۔ سوءِ اتفاق کہ سکول میں جانے کے بعد نئی تعلیم و تہذیب کا جوں جوں رنگ چڑھتا گیا۔ بے لوث طبیعت اس کے خطرناک اثرات کا عکس لیتی رہی قربِ بلوغت کے وقت ہی افکار میں سخت برہمی اورعقا ئد میں تذبذب پیدا ہونے لگا حتیٰ کہ نو عمری میں ہی وہم وخیال نے وجود باری تعالیٰ کے انکار تک پرواز کی اس مرض کے علاج کے لیے کچھ مدت سرگرداں رہے اور اسی حالت میں ایک بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرڈالی ۔ذوق صحیح اور فہم سلیم تھا، نیکی ورثہ میں ملی تھی، خارجی تربیت ذکر اﷲ میں مشغولیت اور کثرت عبادت نے اَشہَبِ عقل کی تیز گامیوں کا رخ بجائے بے راہ روی کے پھر صراط مستقیم کی طرف موڑ دیا۔ اور انکارِ مذہب کا شیطانی وسوسہ بحمداﷲ دور ہوگیا کئی برس کی محنت سرے چڑھی اور افضل حق بجائے ایک آوارہ و ناکارہ شخص کے جوان صالح کے روپ میں نمودار ہوئے امرتسر میں انٹرنس تک تعلیم پائی۔ ۱۳۲۸ھ مطابق ۱۹۱۰ء کے دوران میں لاہور آکر اسلامیہ کالج میں پڑھنا شروع کیا سوء ِاتفاق سے ۱۳۳۰ھ مطا بق ۱۹۱۲ء میں ایف۔ اے میں فیل ہوگئے ۳۱؍۱۳۳۲ھ بمطابق ۱۹۱۳ء میں ’’دیال سنگھ کالج‘‘ میں داخلہ لے لیا یہاں کا فطرتہً اجنبی ماحول طبیعت پر بہت اثرانداز ہوا تاہم ابتدا عمر سے فکر و عمل پر چو نکہ دین غالب چلا آتا تھا، اسی کاا ثر معاون بنا کالج کی اعلیٰ تعلیم اور بھی آزادانہ تھی اس لیے سابقہ تجربہ کے پیش نظر ہر قابل غور مسئلہ کو تحقیق وتفتیش سے حل کرنے کی فکر طبیعت کا عام انداز بنا رہا۔ دفاعی تدابیر کے باوجود دوران تعلیم میں اسی کالج کے ایک ہندو پرفیسر مسٹر’’ مِسرا ‘‘ کے ساتھ تصوف کے موضوع پر بحث ہوگئی، بساط کے مطابق جواب دِہی کرتے رہے لیکن علوم دینیہ سے عدم واقفیت اور اسلام کے شعبہ عبادات کی صوفیانہ تعبیر سے علمی اور فنی لگاؤ نہ ہونے کے باعث اس کی تشریحات کے متعلق مدت مدیدہ تک دل میں ایک کھٹک باقی رہی ۔دوران تعلیم میں ہی آپ کی صحت خراب رہنے لگی خصوصاً کھانسی کی تکلیف شدت اختیار کر گئی حالات پر قابونہ رہا تو آپ نے کالج کی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی۔ باوجودیکہ مرحوم شروع سے ہی باغیانہ رجحانات رکھتے تھے لیکن فرنگی کا یہ سارا نظام تعلیم ہی چونکہ حقیقی علم سے دوری کا سبب اور صرف ملازمت و نوکر شاہی کے کارندے پیدا کرنے کا مہذب ذریعہ ہے پھراسی نظام کے تحت نوجوانوں کو تربیت کالادین ماحول نصیب ہوتا ہے اوراس کے بالکل منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرحوم کو بھی انھی امور سے سابقہ پڑا اور اسی قسم کے نتائج بھی ترک تعلیم کے وقت مرتب ہوئے چنانچہ کچھ مدت کے انتظار اور غور و مشورہ کے بعد آپ پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہو کر ٹریننگ کے لیے قلعہ پھلور ضلع لدھیانہ میں چلے گئے اور فراغت کے بعد لدھیانہ میں تھانہ صدر کے سب انسپکٹر متعین ہوکر کچھ مدت تک وہیں مقیم رہے۔ ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم ترکی کی شکست پر ختم ہوئی اتحادی ممالک نے اس کے مقبوضات اور اس کی حدود میں شامل تمام اہم مقامات بندر بانٹ کر کے آپس میں تقسیم کر لیے ۔خلافت عثمانیہ کی موت کے پروانہ پردستخط ہوگئے مسلمانوں کے بین الاقوامی مصائب کے نئے باب کا افتتاح ہوا پوری اسلامی دنیا میں اس حادثہ سے کہرام برپا تھا ہر فرد بشربہ قدر شعور احساس متاثر ہوا آپ بے حد حساس اور غیور تھے سخت اثر لیا خصوصاً رعایا اور ملازم ہونے کی دوہری غلامی نے تازیانہ کاکام کیا ۔خود نوشت سوانح میں فرماتے ہیں کہ انگریزی ملازمت کی ایک ایک گھڑی میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایک سچے مسلمان کی حیثیت میں طبیعت کی اشتعال انگیز اثر پزیری اور غم کائنات کی وسعت و ہمہ گیری خصوصاً انگریز سے وحشت اس کے کفریہ اقتدار کے ساتھ غیر اختیاری تعاون تک سے ذہنی بغاوت دل برداشتگی اور گریز آپ کے نظریاتی تغیر اور عملی انقلاب کا بڑا اور بنیادی سبب تھا۔ انھی دنوں آپ کے بڑے بھائی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے اس ذاتی صدمہ نے قومی صدمات میں زبردست اضافہ کیا طبیعت مذبذب ہوگئی اور ملازمت سے چھٹکارے کی تدابیر سوچنے لگ گئے۔
۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ء کا زمانہ ہے جو تحریک خلافت کا دورِ عروج تھا۔ بہ سلسلہ تحریک لدھیانہ میں ہی ایک قومی اجتماع منعقد ہوا حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اﷲ علیہ تحریک اور اس جلسہ کے روح ورواں تھے انھی کا خطاب تھا سرکاری رپورٹر پولیس کے مکمل عملہ کے ہمراہ کراماً کاتبین کافرض ادا کررہے تھے۔ اسی حلقہ میں ایک قوی ہیکل،جوان رعناء جس کی خاندانی شرافت ووجاہت اس کے چہرہ سے عیاں تھی زیادہ انہماک سے رپورٹ منضبط کررہا تھا۔ حضرت امیر شریعت نے تلاوتِ قرآن کریم کے بعد واقعات وحقائق اور شعروظرافت کے امتزاج کے ساتھ فرنگی کی ازلی وابدی اسلام دشمنی کی مفصل تاریخ بیان فرمائی۔ ترکی سے خلافت کے خاتمہ اور سلطانِ ترکی کی معزولی، جنگ عظیم ثانی میں ترکوں کی مظلومی ورسوائی، ارضِ ہند میں تحریک آزادی وطن کے دوران میں فرنگی کے انسانیت سوز مظالم، ہندو اکثریت سے متوقعہ خطرات اور مسلمانوں کی دوگونہ بے کسی ومجبوری کی داستان دہرائی تو مجمع مسحور ہو چکا تھا، فضا وجد کررہی تھی، تفتیش وتجسس کی پگڈنڈیوں میں بل کھاتا ہوا قلم یکایک رک گیا اور وہی نوجوان جو چند گھڑیاں پہلے ’’طَوعاً وَّکَرھاً‘‘ اطاعت فرنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے سام راج کے باغی امام خطابت اور وقت کے عظیم دینی رہنما کی بے باکانہ تقریر سرکاری مسل میں محفوظ کررہا تھا اس پر حقیقت آشکار ہوگئی ۔غیر ملکی اقتدار و تسلط کے مظالم کی داستان دل کی کایا پلٹ کر گئی نیم خفت جذبات بھڑک اٹھے ،قلم رک گیا، آنکھیں آنسوؤں کی شبنمی جھالر بننے لگیں ،رپورٹر افضل حق اپنی جگہ سے ہل گئے، فطری استعداد اور نسلی خودداری نے سونے پر سہاگے کاکام دیا ،جلسہ کے بعد جیسے کیسے ہیڈ کوارٹر واپس پہنچے ،دل ودماغ میں انقلاب آچکا تھا ،مرد قلندر کی برق آفرین نگاہ اپنا مخفی کام کرہی چکی تھی، ادھر حضرت امیر شریعت اپنی تقریر کی پاداش میں میاں والی جیل پہنچے اور اس طرف چودھری صاحب نے اہل خاندان ارباب محکمہ اور دوسرے تمام فرضی خیرخواہوں کی ہر نصیحت کو بالائے طاق رکھ کر ملازمت سے استعفاء دے دیا اور حضرت امیر شریعت کے دامن محبت ورفاقت میں پنا ہ لے لی
شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے
اس پر بس نہیں کی ،شدتِ تاثر اور فرطِ جذبات کے تحت چند روز بعد اپنے مُستَقر تھانہ صدر کے قریب ہی اسی موضوع پر خود ایک کامیاب تقریر کرڈالی عوام وخواص اور خود حکومت والے اس روحانی انقلاب و تغیر پر حیران تھے۔
آخر گھر واپس آگئے تعمیری سرگرمیاں شروع کردیں گڑھ شنکر اور مضافات میں ازخود جلسہ کا اہتمام کرکے عوام کوان کے فرائض و حقوق اور تحریک کے اصول سے آگاہ کرتے ،غلامی کی آہنی گرفت مضبوط تھی۔ حضرت سید احمد شہید بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی تحریک حکومت الٰہیہ ان کے جہاد و شہا دت اور انقلاب ۱۸۵۷ھ کے نتائج سے ڈرے ہوئے مسلمان معمولی اصلاحی اور رفاہی اقدام سے بھی خائف تھے ۔آپ کے استعفاء کے بعد حکومت کی خاص نگرانی کے پیش نظر لوگ علانیہ تعاون سے گریزاں رہتے، بلکہ عافیت کو ش مخالفت و مزاحمت کرتے ،ہندو اور سکھ چونکہ کانگرس کی بدولت نسبتاً زیادہ ہوشیار و بیدار اور منظم و بے باک ہو چکے تھے اس لیے زیادہ متوجہ ہوتے ،حکومت نے گڑھ شنکر کو گہری نظر سے دیکھنا شروع کیا آپ کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ اور قومی اعتماد کا جائزہ لینے کے لیے ’’کمشنر ہرکشن لال کول‘‘ جو بعد میں ریاست کشمیر کا وزیر اعظم بنا تھا خود وہاں پہنچا اس نے گفتگو کے لیے بلایاآپ نے انکار کردیا اس نے برادری میں سے ایک ذیل دار کو واسطہ بناکر متاثر کرنے کی تدبیر کی تو جواب دیا کہ اس کے پاس نہیں جاؤں گا البتہ تمہاری خاطر اپنے مکان پر ملاقات کرتا ہوں۔ خلاف توقع جواب پاکر کمشنر واپس چلا گیا۔ ’’تحریک ترک موالات‘‘ یا’’ عدم تعاون‘‘ جوُ بن پر تھی اس ہنگامہ آرائی میں آپ نے دو سال تک بڑے جوش اور پامردی کے ساتھ حصہ لیا ۔سول نافرمانی شروع ہوچکی تھی۔ خلافتی کانگریسی رہنما اور کارکن دھڑا دھڑ جیلوں میں جارہے تھے آپ نے تقلیداً سخت مخالفانہ تقاریر کیں سابقہ انتہا پسندانہ رویہ اور یہ سرگرمیاں سبب بنیں آپ کو زیرِ دفعہ سترا الف ، ب مقدمہ بنا کر وارنٹ دکھائے بغیر پہلی مرتبہ گرفتار کر کے ’’ماھل پور‘‘ حوالات میں پہنچا دیا گیا۔ چندروز بعد سماعت مقدمہ کی غرض سے مورخہ ۱۲؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۴؍ فروری ۱۹۲۲ء بروزجمعہ ’’ ہوشیار پور‘‘ جیل میں منتقل کردیئے گئے۔ ابتداء سپیشل کلاس میں رکھا گیا تحریری بیان کے لیے صرف دو روز کی قطعاً ناکافی مہلت دی گئی تھی اس لیے آپ نے ۱۸؍ جمادی الاخریٰ ۱۹۴۰ء مطابق ۱۶ فروری ۱۹۲۲ء کو یک شنبہ (اتوار) کو کچہری میں پیشی تک احتجاجاً کوئی بیان نہ دیا مختصر مگر سخت بحث کے بعد چھے ماہ کی سزادی گئی جیل میں بھی آرام سے نہ بیٹھے بلکہ قیدیوں کے معاشرتی و اخلاقی معاملات اور سیاسی حقوق اور دوسرے کئی جائز مطالبات کے لیے بھوک ہڑتال تک نوبت پہنچی جسے مکمل وقار کے ساتھ نباہا۔ حکام نے تنگ آکر آپ کو ایک سکھ ساتھی کے ہمراہ ’’ انبالا‘‘ جیل میں منتقل کردیا وہاں بھی یہی کچھ پیش آیا تو آپ کو قید تنہائی میں ڈال دیا گیا قریباً تیرا چودہ گھنٹے پاؤں میں بیڑی اور ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر کڑیاں باندھی گئیں دوران خون معطل ہونے سے یہیں فالج کا حملہ ہوا اسی جیل میں آپ کو گندی غذاء کے ساتھ ساتھ سرمہ کھلایا گیا جس سے عمر بھر کے لیے گلے کی بندش کا موذی عارضہ لاحق ہوا۔ نیز کھانسی دمہ اور دائمی قبض جیسے مہلک امراض کا بھی شکار ہوگئے اس کے باوجود اپنے کام میں مصروف رہے کئی مطالبات منظور کرالیے جیل میں اصلاحات کا آغاز ہوا آپ کی مبارک صحبت سے بیسیوں قیدی پاک بازبن گئے جیل گھر کی طرح خوش گوار ہوگئی اور چھے ماہ کا عرصہ گذر گیا۔ رہائی کے بعد پھر سابقہ دینی قومی اور سیاسی مشاغل کا آغاز ہوا اسی دوران میں اﷲ تعالیٰ نے ماحول اتناساز گار فرمادیا کہ پنجاب ’’لیجسلیٹو ‘‘اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوگئے اور بارہ برس تک اہم قومی اور اسلامی خدمات انجام دیتے رہے ۔ ۴۵،۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں راولپنڈی کے سکھ مسلم فسادات کے خطرناک نتائج سے فکر مستقبل کے طور پر سکھوں کی’’ کرپان‘‘ کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے کلھاڑی رکھنے کابل پیش کیا اور بڑی صبر آزما جد وجہد کے بعد اسے منظور کراکے دم لیا یہ آپ کا اہم کارنامہ ہے جس کے لیے قوم، ہمیشہ کے لیے آپ کی ممنون رہے گی۔
اس کے بعد دوسال کا عرصہ سیاسی لحاظ سے بڑا طوفانی دور تھا پنجاب کی ’’کمیونسٹ دہشت پسند پارٹی‘‘ نے تشدد آمیز کارروائیاں شروع کردیں’’ سائمن کمیشن ‘‘ جو اقوام ہند کی مشترکہ مشکلات حل کرنے کے لیے مرتب کیا گیا تھا جب اس میں خود ہندوستانی نمائندوں کو ہی جگہ نہ دی گئی تو ہندو مسلمان دونوں مشتعل ہوگئے ۔اسی گڑبڑ میں لالہ ’’ لاجپت رائے‘‘ ایک انگریز افسر کی لاٹھی سے سخت مضروب ہوکر جان دے بیٹھے یہ واقعہ ایک مستقل ہیجان کا ذریعہ بنا تھوڑ وقفہ سے دہشت پسندوں نے انتقام میں بم مار کر ایک دوسرے انگریز افسر سانڈرس کے پر خچے اڑا دیے ۔سرکاری تجسس وتفتیش کے ذریعہ تمام کارروائیوں کا راز کھل گیا۔ بھگت سنگھ دت اور بوس جیسے سرغنہ انقلابی پکڑے گئے اور ہزار جتن کے باوجود بھی رہائی نہ ملی پھانسی پر لٹکائے گئے اور ان کی لاشیں جنگل میں جلا کر دریائے ستلج میں بہادی گئیں۔ عوامی جذبات سرد ہوگئے پھر کچھ مدت بعد بدنام زمانہ نہر و رپورٹ سکھوں کی ضد، بے اعتباری و خیانت اور ہندؤں کی معروف متعصب اور فریب آمیز سیاست گریز وفرار مسلمانوں کے حقوق کے نقصان کے خطرہ نے ہماہمی پیدا کی ،علی برادران اور چند دوسرے مسلم رہنما کانگریس سے الگ ہوگئے۔ مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھ دی گئی، بقیہ اکابر جو بعد میں بانی احرار ہوئے ان کی اکثریت ابھی تک خلافت اور کانگریس سے وابستہ تھی۔ ۴۸،۱۳۴۷ھ مطابق ۱۹۲۹ء کا یہ سال بڑا عجیب اور ہنگامہ خیز زمانہ تھا۔ خلافت اور کانگرس کی مشترکہ جدوجہد سے آئینی انقلاب کے واضح آثار پیدا ہونے لگے تو لارڈاِروَن وائسرائے ہندنے گاندھی جی کو صلح کی پیش کش کردی ۔گفتگو ناکام ہوگئی تاآنکہ لاہور میں کانگریس کا مشہور انڈیا اجلاس منعقد ہوا جس میں قانون نمک سازی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عام نافرمانی اور حصول کا مل آزادی کی قرارداد منظور کر لی گئی ۔آزاد خیال مسلم رہنما اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم تھے یعنی خلافت اور مسلم لیگی مسلم کانفرنس اور خلافت اور کانگریس، علی برادران صرف اپنی منوانا چاہتے تھے۔ انھوں نے خلافت کے پنجابی رہنماؤں میں سے حضرت امیر شریعت ،محترم شیخ حسام الدین، مولانا داؤد غزنوی رحمتہ اﷲ علیھم، جناب مولوی مظہر علی اظہر اور مرحوم چودھری صاحب کو مطلقاً باغی گروپ قرار دیا گیا اور مولانا عبدالقادر قصوری اور جناب مولوی ظفر علی خان مرحومین پر محض گروہ بندی اور جاہ و اقتدار پسندی کا جرم عائد کیا گیا۔ چودھری صاحب مرحوم اپنے دوسرے رفقاء سمیت خلافت سے الگ ہوگئے اسی موقع پر یہ سب معتوب رہنما ایک جگہ غالباً دفتر خلافت بیرون دہلی دروازہ لاہور جہاں تقسیم ملک کے کچھ عرصہ تک اخبار احسان کا دفتر قائم تھا جمع ہوئے اور حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمتہ اﷲ علیہ کے خاص ایما و مشورہ او رزبردست خواہش اور تجویز کے مطابق مجلس احرار اسلام کے نام پر ایک مستقل انقلاب و آزادی پسند، خالص اسلامی جماعت کے قیام کا فیصلہ ہوا ،بانی حضرات میں اصولاً صرف یہ بزرگ شامل تھے سید الاحرار حضرت امیر شریعت مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری ، حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، محترم شیخ حسام الدین، مفکر احرار جناب امیر افضل حق رحمتہ اﷲ علیھم، جناب غازی عبدالرحمن امرت سری، جناب مولوی مظہر علی اظہر، مولوی ظفر علی خان صاحب مرحوم، علی برادران کے ذریعہ مطعون ہو کر بھی احرار کے بانی بزرگوں کے گروہ سے متفق نہ ہوئے ۔فطری تلون، مصیبت خیز،اختلاف پسندی، کسی سے بھی نبا ہ نہ کر سکتے زبردستی آگے نکلنے اور مستقل لیڈری کی زمین ہموار کرنے کی خوگر سیمابی طبیعت او رخطر ناک منتقم مزاجی ان کا عرف و شعار تھا چنانچہ انھی اثرات کے مطابق اپنی الگ ٹولی بنانے کے لیے اندرونی پخت وپز۔ کی اکابر احرار کے بے مقصد و بے درد حریف جناب ڈاکٹر محمد عالم گجراتی مرحوم اور انگریز کے چند سرکاری درباری لوگوں کو ساتھ ملایا اور جس دن لاہور میں مجلس احرار اسلام کی باوقار تشکیل ہورہی تھی بابائے زمیندار مرحوم عین اسی روز لاہور ہی میں ڈاکٹر محمد عالم مرحوم کے مکان پر احرار کے بالکل متوازی ایک نئی فرضی جماعت بنام مسلم نیشنل پارٹی کی تشکیل میں مصروف تھے۔ ادھر نمکین ستیاگرہ شروع ہو چکی تھی ۔ مولانا آزاد رحمتہ اﷲ علیہ اپنی جگہ مرحوم چودھری صاحب کو بلامشورہ اپنا قائم مقام نام زد کر گئے۔ آپ کی صحت خراب تھی جیل جانے کا ارادہ نہ تھا تاہم مرکزی کانگرس ورکنگ کمیٹی کے خلاف قانون اجلاس منعقدہ دہلی میں شرکت کی تو محترم ڈاکٹر مختار احمد انصاری مرحوم پریزیڈینٹ’’ وٹھل بھائی پٹیل‘‘ ’’پنڈت مدن موہن مالوِیَا ‘‘اور دوسرے اراکین کے ہمراہ گرفتار ہو کر قریباً نو ماہ کے لیے سزا یاب ہوگئے۔ یہ دوسری قید محرم ۱۳۴۹ھ مطابق مئی ۱۹۳۰ء میں ہوئی چند روز تک آپ کو دوسرے ساتھیوں سمیت دہلی جیل میں رکھا گیا پھر ڈاکٹر انصاری مرحوم لالہ دُنی چند اور سکھ لیڈر منگل سنگھ گجرات جیل میں بھیج دیئے گئے ۔چونکہ پہلی گرفتاری کے وقت آپ کے احتجاجی طرز عمل سے حکومت پنجاب پہلے ہی باخبر اور چوکنی تھی،اس لیے آپ کو پنجاب کی کسی بھی جیل میں رکھنے سے انکار کردیا چنانچہ تھوڑے وقفہ سے پھر تقسیم کی گئی پنڈت مالویا کو بنارس، پزیڈنٹ پٹیل کو انبالا اور آپ کو گور کھپور جیل میں منتقل کردیا گیا اسی جیل میں آپ نے خالص اسلامی ادب کا نمونہ اور انشاء عالی شہکار اپنی مشہور و مقبول اور بے نظیر کتاب ’’زندگی‘‘ تصنیف فرمائی۔
کچھ مدت بعد حکومت اور کانگریس میں مصالحت ہوگئی جس کانام گاندھی اِروَن پیکٹ مشہور ہوا اس معاہدہ کے تحت ۲۵ شعبان ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۵ جنوری ۱۹۳۱ء بروز پنج شنبہ تمام سیاسی قیدی رہا کردیے گئے۔ آل انڈیا کانگریس کے اجلاس کراچی کی طیاری شروع ہوگئی اس کی نئی ورکنگ کمیٹی کا انتخاب ہونا تھا پنجاب کانگریس کی نمائندگی کے لیے مرکز میں کوئی معروف و مقبول اور وزنی شخصیت موجودنہ تھی غالباً مولانا عبدالقادر قصوری مرحوم نے تعلقات کی بنا پر مولانا آزاد رحمتہ اﷲ علیہ کو آمادہ کیا اور دونوں نے مل کر گاندھی جی کو ڈاکٹر محمد عالم مرحوم کی نام زدگی کامشورہ دیا۔ پنجابی خلافتی گروہ کے نمائند گان اور کئی دوسرے مسلم رہنما ڈاکٹر مرحوم کے سیاسی کردار اور عدم صلاحیت کے پیش نظراس تجویز کے سخت خلاف تھے نتیجتاً جب گاندھی جی نے اجلاس میں ڈاکٹر عالم کی نام زدگی کا اعلان کیا تو سارا پنڈال مخالفانہ آوازوں اور احتجاجی نعروں سے گونج اٹھا ۔لیکن گاندھی جی کے شخصی اور جماعتی وقارنے کسی کی نہ چلنے دی مرحوم چودہری صاحب نے اس موقع پر ہمت کر کے ذرہ انداز بدل کر یہ فرمایا کہ ڈاکٹر کی جگہ مولانا عبدالقادر قصوری ہی کو نام زد کردیا جاتا تو بہتر تھا۔ اس سے ڈاکٹر مرحوم سخت ناراض ہوگئے اس تمام احتجاجی مظاہرہ کی ترتیب و انگیخت کا کلی ذمہ دار چودھری صاحب کو قرادے دیا۔ نتیجتاً آپ کے تمام خلافتی رفقاء بھی اس غصہ و عتاب کی زدمیں آگئے حتیٰ کہ آں جہانی پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی سخت برامنایا اور بعد میں ایک غلط تاثر کے تحت اپنی سوانح کی کتاب میں یہاں تک لکھ مارا کہ بعض ممبروں کو اس انتخاب پر اعتراض تھا کہ ان کے حلقے میں سے کسی کو بھی کانگرس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی میں نشستیں نہیں دی گئیں اس لیے یہ لوگ کانگرس ہی کے خلاف ہوگئے اورانھوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک الگ اور مستقل اسلامی انجمن بنا ڈالی حال آنکہ حقیقت اس کے بالکل خلاف تھی اس واقعہ اور جھوٹے الزام نے پنجابی زعماء اور کانگرس کی تائید کرکے مسلم عوام کے ہیجان وتنفر اور ہندو سکھ کے شک آمیز گریز وفرار اور اختلافی مظاہرہ سے کافی زک اٹھا چکے تھے۔ لیکن جب کانگرس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس لاہور میں اس کی تائید کے باوجود اس رپورٹ کو خود ہی مسترد کردیا اور اس کے بعد بھی ڈاکٹر انصاری مرحوم نے ہندو سکھ کے اتحاد سے سیاسی پلیٹ فارم کی مضبوطی کے لیے سکھوں کو تناسب آبادی سے زائد حقوق دینے اور انتخابات میں بے جا مراعات تک سوچنے کے نظریہ سے قدم پیچھے نہ ہٹائے تواس صورت حال کے پیش نظر اکابر پنجاب خلافت اور کانگرس کا اشتراک عمل مشکل ہوگیا۔ چنانچہ بالآخر یہ پورا گروہ کانگرس سے مستعفی ہوگیا مرحوم چودھری صاحب بھی اس میں شامل تھے آپ نے مرکزی کانگریس کے نام اپنے استعفاء میں پوری تاریخی اور سیاسی کیفیت واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر انصاری مرحوم کو لکھ بھیجا کہ پنجاب کے سودے میں تورتی کی گنجائش نہیں آپ دھڑیاں تول رہے ہیں ۔جب مسلم قوم نے نہرورپوٹ کو نہ مانا تو مزید حقوق دینے پر اس کو کیسے آمادہ کرسکیں گے اس لیے میں پنجاب کی سیاسی گتھی سلجھانے میں اور گنجائش نہ پاکر مستعفی ہوتا ہوں۔
احرار کی ذہنی نقشہ کشی اور قانونی تشکیل تو ۲۷ رجب ۱۳۴۸ھ مطابق ۲۹دسمبر ۱۹۲۹ء بروز یک شنبہ اتوار ہی کو ہوچکی تھی اسی اجلاس میں حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کے زیرِ صدارت جداگانہ حقوق و انتخابات اورجداگانہ تنظیم کے عنوان سے عوام کو تعاون کی دعوت دی صرف اس نئے نام اور پلیٹ فارم سے عملاً مصروف کار ہونے کامرحلہ باقی تھا۔ مرحوم چودھری صاحب سمیت خلافتی اکابر کے کانگرس سے استعفاء کے بعد یہ مشکل بھی قدر آسان ہوگئی چنانچہ تشکیل جماعت سے پونے دوسال بعد ۲۴ صفر ۱۳۵۰ھ مطابق ۱۱؍جولائی ۱۹۳۱ء بروزشنبہ ہفتہ حبیبیہ ہال لاہور میں اس نئی فعال و مخلص اور انقلابی اسلامی جماعت کا پہلا اہم اجتماع عام منعقد ہوا جس میں کانگرس اور لیگ سے بنیادی اختلافات کی نشان دہی اور اغراض ومقاصد کی تشریح کر کے قوم کو نیا لائحہ عمل دیا گیا مرحوم چودہری صاحب کو جماعت میں شروع سے ہی مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھوڑے وقفہ سے جماعت کو اپنی سب سے پہلی اور سب سے بڑی عوامی جدوجہد تحریک کشمیر میں مصروف ہونا پڑا ۔قریباً چھے مہینوں میں پچاس ہزار رضا کار گرفتار ہوئے سب اکابر جیلوں میں بند ہوگئے اتفاقاً چودہری صاحب مرحوم اپنی علالت اور بہ ظاہر عملی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے سبب بچے ہوئے تھے لیکن عوام اور جماعت کے متعلقین پر مرزائیوں ،ٹوڈیوں او ر دوسرے دشمنوں کے پروپیگنڈے کا برا اثر پڑنے لگا تو آپ نے باوجود بیما رو کمزور ہونے کے کام شروع کردیا۔ حکومت نے چند گھنٹے کی مہلت دے کر پہلے تو لاہور سے نکال کر آپ کو اپنے وطن گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور نظر بند کیا مگر آپ نے وہاں بھی تبلیغ و تقاریر کے ذریعہ تحریک کا کام شروع کردیا تو تیسری دفعہ گرفتار کر کے رفقاء کے پاس ملتان نیو سنٹرل جیل میں ایک سال کے لیے قید کردیئے گئے۔ شروع سے ادیبانہ طبع و مزاج رکھتے تھے ، حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ اور اپنے اکثر دوسرے بے تکلف احباب کا مجمع ملا تو جیل میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا اس لیے ذہن پر ذرہ زوردے کر شعر گوئی شروع کی لیکن رہائی کے بعد یہ مشغلہ ختم ہوگیا اس دور کی یاد گار چند منظومات وغزلیات اور متفرق اشعار موجود ہیں ۔ ۱۳۵۳ھ،۱۹۳۴ء میں مرزائیت کے منظم تعاقب سرکوبی کے لیے خاص کادیان میں جماعت کا شعبہ تبلیغ قائم کر کے دفتر مسجد مدرسہ وغیرہ کا افتتاح کیا گیا اس وقیع تجویز میں آپ کا اصولی مشورہ شریک تھا درمیان میں تحریک مسجد شہید گنج کا دل دہلا دینے والا خوں ریز و دردناک قضیہ شروع ہوگیا غلط کارلیڈروں ، سرکارپر ستوں اور مرزائیوں کے اشتراک سے اس کے لیے چلائی گئی تحریک سے جماعت الگ رہی فرنگی اقتدار اور ان عناصر کی مشترکہ سازش زہر ناک اور تباہ کن سیاسی پروپیگنڈے نے جذباتی قوم کو پاگل کردیا دشمن کی چال بڑی حد تک کامیاب ہوئی جماعت زبردست اشتعال و مخالفت کی زد میں آگئی اس کے عوامی رسوخ ووقار کو سخت دھکا لگا اور دوسال بعد اواخر واوائل ۵۵،۱۳۵۶ھ مطابق آغاز ۱۹۳۷ء میں منعقد ہونے والے ملکی انتخاب کے موقع پر کام کرنا اور الیکشن لڑنا مشکل ہوگیا۔ تاہم زخمی ہو کر بھی جماعت نے بارہ نشستیں جیت لیں تیرھویں سیٹ چودھری صاحب مرحوم کی تھی آپ کی مرکزی شخصیت و اہمیت نیز سابقہ مفید اور روشن کارناموں سے حکومت اور مذکورہ عناصر خار کھائے بیٹھے تھے انھوں نے یہاں تک کمینگی کی کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے لولے لنگڑے اور مختلف حادثات میں مجروح شدہ اپاہجوں کو زبردستی جمع کیا ٹرکوں میں بھر بھر کر آپ کے حلقہ میں پہنچائے اور معذروں کو پٹی پڑھا کر ان کی زبان سے یہ شیطانی پروپیگنڈا کرایا کہ چودھری صاحب اور اس کی جماعت احرار نے شہید گنج کروا کر ہندوؤں ،سکھوں اور انگریزوں سے ہم لوگوں کو تباہ کردیا ہے ۔اب یہ شخص پھر الیکشن لڑ کر اسمبلی میں جانا چاہتا ہے اس سے بچو اور اس کو گراؤ ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاہل اور بے خبر عوام برافروختہ ہوگئے علاقہ بھر میں آگ لگ گئی اور آپ اپنی برادری پرانے قومی رسوخ اور مقبولیت کے باوجود چودہ برس بعد صرف اٹھانوے ووٹوں سے ہرادیئے گئے اس خطرناک مہم کے بعد بھی قومی خدمت میں مصروف رہے اس زمانہ میں جواہرات ،شعور نامی مختصر اخلاقی افسانوں کے مجموعات لکھے اور اسلامی سیاست کا تاریخی کردار واضح کر کے ملکی آزادی میں ادیبا نہ رہنمائی کے طور پر آزادیِ ہند جیسی زبردست مؤثر و معنیٰ خیز اور انقلاب انگیز کتاب تصنیف فرمائی۔
کچھ عرصہ بعد ۷ا؍رجب ۱۳۵۷ھ مطابق ۳ ستمبر ۱۹۳۹ء بروز دوشنبہ پیر برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر کے دنیا کی دوسری بڑی جنگ کا آغاز کردیا۔ انقلاب پسند اسلامی جماعت کی حیثیت سے مجلس احرار اسلام کے لیے انگریز کو موت و حیات کی اس کشمکش میں بیش از بیش نقصان پہنچا کر آزادی کی منزل قریب لانے کا بہترین موقع ہاتھ آیا چنانچہ حسب روایات فوجی بھرتی بائیکا ٹ نام سے زبردست مخالف تحریک شروع کردی گئی کانگرس مصالحت ومعاہدہ کے چکر کے ذریعہ صوبہ جات سے یک دم مرکز پر تنہا قبضہ کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی اورلیگ اپنا مستقبل پر امن و عیش رکھنے کے لیے نہ کانگرس کی ہم نواہوئی نہ اس نے انگریز کی مکمل تائید کا کھل کر اعلان کیا بلکہ تاجرانہ ذہنیت ، ریاء کارانہ عافیت کوشی سب سے الگ تھلگ تکبر آمیز اور گول مول پالیسی کے ذریعہ سب کو دھوکے میں رکھنے کی چال چلتی رہی پھر بھی اس کے اکثر بیانات اور تقاریر علانیہ انگریز کے حق میں گئیں، آزادی خواہ انقلاب پسندوں کو ان دونوں بڑی جماعتوں کی غلط پالیسی سے سخت نقصان پہنچا احرار سمیت دوسرے تمام قوم پر ورعناصر اور ان کے درمیان اختلاف وبعد کی خلیج اور بھی وسیع ہوگئی۔ آنجہانی بابوسبھاش چند ربوس کی جماعت فارور ڈبلاک ملک بھر میں واحد تنظیم تھی جس نے احرار کے اس فکر و عمل کی کھل کر تعریف و حمایت کی فرنگی کی عیاری و جفاء کاری کا نشانہ بننے کے لیے تحریکی محاذ پر احرار کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا تاہم سرفروشوں کی یہ جماعت احساس فرض اور اداء فرض کے جذبہ سے بخوشی قبول کرکے ہرکڑی سزا جھیل گئی حسب دستور کارکنوں کے ساتھ اکابر کو بھی دعوت داروروسن قبول کرنی پڑی ۔جناب شیخ حسام الدین رحمتہ اﷲ علیہ اور مولوی مظہر علی اظہر سمیت مرحوم چودھری صاحب چوتھی دفعہ گرفتار ہوکر ڈیڑھ سال کے لیے راولپنڈی جیل میں پہنچا دیئے گئے آپ پہلے ہی دائمی مریض چلے آتے تھے یہاں آکر صحت کا ڈھانچا اور بھی ہل گیا تاہم آپ نے دینی اور علمی و ادبی معمولات جاری رکھے اسی جیل میں سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق آپ نے اپنی محبوب ترین کتاب ’’ محبو ب خدا‘‘ کا تتمہ لکھ کر اسے مکمل کیا جو بعض جزئی خیالات و تعبیرات کے سویٰ اپنے موضوع پر بہترین کتاب شمار کی گئی ہے ۔ساتھ ہی اپنے بچوں کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ مرتب کیا جو آپ کی وفاۃ کے بعد ’’خطوط افضل حق‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ تحریری آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آغاز جنگ اور قید سے پہلے ہنگامی دور میں ہی تاریخ احرار کامواد فراہم کرناشروع کردیاتھا لیکن پوری کتاب نہ لکھ سکے تھے کہ جنگ کی قیامت ٹوٹ پڑی کچھ طبیعت کا میلان اور بعض دوسری مذکورہ تصانیف کی تکمیل کا عزم حائل ہوگیا اس لیے فرض تکمیل کی طرف بعد میں متوجہ ہوئے مسلسل علالت سے سخت نحیف اور مغموم و مایوس ہورہے تھے رہائی کے بعد بحالی صحت کے لیے کچھ عرصہ کراچی وغیرہ میں بھی گزارا لیکن ضعف و انحطاط نہ رُکا بیماری کا آخری حملہ کار گر ہوگیا لیکن اس حالت میں بھی اپنے زروجواہر سے قیمتی افکار قلم بند کرنے میں مصروف رہے اسی دوران میں مسئلہ ملکیت مال وجاگیر پر امرت سر کے مشہور عالم استاد زادہ امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ مولانا ابوالضیاء محمد بھاء الحق قاسمی زید مجدہ کے ساتھ ایک تحریری بحث شروع ہوگئی سخت علمی معرکہ برپا ہوا بالآخر جانبین کو مائل بہ اعتدلال کر کے حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ نے یہ قلمی مناظرہ ختم کرادیا۔ اسی مضمون کے بعض حصص سے مفاد پرستانہ استدالال کرکے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور کئی ناقص دینی معلومات اور ناپختہ ذہن رکھنے والے جدت پسندوں نے آپ کو زبردستی ہی اپنا موید و حامی مشہور کرنا شروع کیا اس سے دینی عناصر میں بدگمانیاں پیدا ہوئیں خصوصاً ایسے موقع کی تاک میں رہنے والی نئی خود غرض حریف تنظیم جماعت اسلامی نے جو انھی دنوں تازہ تازہ ولادت پذیر ہوئی تھی حسب مزاج ومعمول برسوں تک مرحوم مفکر احرار اورجماعت احرار کے عقائد و مسلک کے متعلق زبانی اور تحریری طور پر نہایت غلط اور مکروہ پروپیگنڈا جاری رکھاجو بہ تغیر عنوان اب بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ لیکن اکابر اور جماعت کی کتاب وسنت اور اجماع امت کے مطابق بے پناہ تقریری مہم اور مسلسل و ناقابل تردید عملی صفات نے اس نفس پرستانہ مخالفت کا منہ توڑ کر رکھ دیا آپ کی یہ علمی تحریر اسلام میں امراء کا وجود نہیں کے عنوان سے شائع ہو کر کارکنان جماعت علماء کرام اور دوسرے اسلام پسند اہل فکر و نظر کو دعوتِ غور کا باعث بن گئی۔
مجلس کی دعوت و تحریک اور اس کے مختلف ادوارِ زندگی کی سن وار تاریخ و روداد کے ضمن میں وہ اپنے جماعتی منصب اور حیثیت کے پیش نظر بہت کچھ لکھنا چاہتے تھے شروع میں مختلف تحریکات کے ہنگاموں نے سانس نہ لینے دیا اور جب کچھ فرصت میسر آنے لگی تو مذکورہ موانع پیش آگئے ایمرجنسی جنگی قوانین اور سنسر وغیرہ کی آفت سرپر مسلط تھی برصغیر پر سراج اﷲ اور ٹیپوشہید رحمتہ اﷲ علیھما سے لے کر شہداء کشمیر و شہید گنج تک تمام مظلومین حق او رکشتگان لیلائے آزادی افرادو تحریکات کے دوش بدوش انگریزی دسیسہ کاریوں او رستم رانیوں کے لرزہ خیز واقعات قلم بند کرنے کا پختہ عزم تھا لیکن قانون کفر و جبر حائل ہونے کے سبب سے ہزاروں اوراق پر مشتمل ہونے والا دفتر ایثار وقربانی تاریخ احرار کے چند سو صفحات میں سمٹ کر رہ گیا پھر یہ مختصر روداد بھی تو برداشت نہیں ہوئی مسلمان نما کفر پرور، زلہ خوار انِ افرنگ، لیگی اور غیر لیگی پشتینی کا سہ لیسوں اور غداروں او ردشمن اسلام وقوم تجارت پیشہ سیاسی ٹولیوں کے خفیہ راز طشت ازبام ہوتے دیکھ کر پنجاب گورنمنٹ نے تاریخ احرار کے مسودہ پر سنسر اور عدم اشاعت کے قانون کا چھرا چلا دیا نتیجتاً
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خلق خدا کے خوف سے ناگفتہ رہ گئے
بہر کیف اس نام سے جو کچھ بھی معزز رہنما نے جمع اور شائع کیا، ’’مجبور ی کا نام صبر کے مصداق ہزار غنیمت سمجھا گیا تمام اکابر اور لاکھوں خدام احرار نے اس پرخلوص کوشش کو اپنی حسین آرزوؤں اور معصوم امیدوں کی نقشہ کشی کی طرف ایک مثبت ومفید اور نتیجہ خیز تعمیری اقدام شمار کیا اتحادیوں کے حق میں جنگ کا پانسا پلٹ جانے کے بعد تکمیل مقصد کی غرض سے چودھری صاحب مرحوم نے دوسرا قدم اٹھا یا اور پاکستان اور چھوت کے نام سے انگریزی میں ایک بڑا پر مغز سیاسی مقالہ مرتب کیا جو آپ کی وفات کے کچھ مدت بعد اکرام قمر صاحب کے اردو ترجمہ کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہوگیا اسی دوران میں اسلامی عقائدو احکام کی حکمت کے موضوع پر آپ نے دین اسلام کے نام سے بڑی پر مغز اور معرفت آمیز کتاب لکھنا شروع کی او رموت کی گھڑیوں تک اس کی تحریر میں مشغول رہے حتیٰ کہ وفات کے بعد آپ کے سرہانے سے اسی کا مکمل شدہ مسودہ اٹھایا گیا تھا جسے بفضلہ تعالیٰ ان کے ایمان پر ورحسن خاتمہ کے لیے عنوان و دلیل شمار کیا گیا ہے اس کے بعد کچھ اور مقالات کتابچوں کی شکل میں یکے بعد دیگرے چھپ رہے تھے۔ احرار اور پاکستان کے موضوع پر بڑی مناسب و مدلل اور مسکت وا طمینان بخش تشریح کے ساتھ علمی گفتگو جاری تھی لیکن صحت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالانہ مل سکا اور طویل علالت کے بعد آپ کے اور ہمارے درمیان موت کی اٹل دیوار حائل ہوگئی انا ﷲ وانالیہ راجعون۔
مفکر احرار رحمتہ اﷲ علیہ گوناگوں امتیازات وخصائص کی حامل شخصیت کے مالک تھے فطرت فہم سلیم اور قلب مستقیم لے آئے تھے ۔طبیعت علم و تجسس کی خوگر ،ذوق ادب اور انشاء کے سانچے میں ڈھلا ہوا مزاج ،خالص اسلامی اور روحانی اقدار سے رنگین ومنور کفر واسلام کی کشمکش کو تاریخ و سیرت کے آئینہ میں دیکھا پڑھا بہ قدروسعت واستعداد اردو، فارسی ، انگریزی اور جزئی طور پر عربی میں اسلامی اصول واحکام سے تعارف حاصل کیا۔ اپنے پیش رواکابر کے علمی، فقہی، سیاسی اور جماعتی مسلک وموقف سے پوری طرح متفق ہو کر آزادی وطن اور غلبہ اسلام کی جدو جہد میں رضا کارانہ شرکت کرلی، اطاعت و خدمت ،غازیانہ عزم اور مجاہد انہ ایثار و قربانی کے بے مثال جذبہ کے ساتھ عظیم کارنامے سرانجام دیئے، اپنی خداد اد قابلیت و بصیرت کے زیر اثر چند دنوں میں ہی جماعت کے مفکر اور سیاسی و انقلابی دماغ کی حیثیت سے اُ فق شہرت و مقبولیت پر جلوہ فگن ہوگئے پھر زمانہ نے ہر ملکی و قومی مدو جزر کے وقت ان کی ذہانت و فراست کی عجوبہ کاریاں اور ان کے علم وتدَبُّر کے حیرت انگیز مظاہرات دیکھنے آخر عمر میں علمی و تاریخی ذوق و شعور اتنا سمجھ گیا اور اسلامی معلومات اتنی وسیع تھیں کہ بلندپایہ اہل علم کے ساتھ اہم دینی موضوعات پر زبان، قلم کے ذریعہ ناقدانہ مبادلہ افکار کرسکتے تھے۔ انتہائی ستھرے اور نکھرے ہوئے پاکیزہ اخلاق کا پیکر متحرک، صوم وصلوٰۃ کے پابند اور فلسفہ دین و روحانیت سے عارفانہ لگاؤ رکھنے والے تھے۔ اگر سیاسی جھمیلوں سے کچھ مدت تک کے لیے الگ ہو کر کسی شیخ وقت سے باقاعدہ استفادہ کیا ہوتا تو بجائے خود ایک مرشد و خانقاہی زندگی کے حامل ہوتے لیکن اصل یہ ہے کہ حکیم مطلق نے ازل میں جس شخص کو جس کام کے لیے منتخب فرمادیا وہ دنیا میں فطرۃً اور عملاً اسی وظیفہ حیٰوۃ کی تکمیل اور فرض بندگی کی ادائیگی میں ہی لازماً مشغول رہ کر مشیت ایزدی کا مظہر بنا رہتا ہے اور بعینہ یہی حال مرحوم چودھری صاحب کا تھا کہ گھر کا آرام جاگیر و جائداد کی بافراغت زندگی مزید براں انگریزی دور میں سرکاری ملازمت خصوصاً پولیس سے وابستگی کا شاہانہ طمطراق اور خودمختار انہ دبدبہ یہ سب لوازم عیش وراحت تیاگ کر عمر بھر کے لیے تحفظ ختم نبوت کے درویشان خدامست کے سلسلہ عالیہ میں بیعت کی خانقاہ تحفظ ناموس اصحاب وازواج رسول کے متوالے قلندروں کے ہم پہلو اخلاص وایثار کے زاویہ میں معتکف ہو کر سلوک عشق کی منازل طے کر ڈالیں حاصل یہ ہے کہ ان کی زندگی ارشاد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم خیرالناس من ینفع الناس (بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کے کام آئے )کی روح کا پر تو تھی انگریز دشمنی ،آزادی کی تڑپ، قومی برتری کی آرزو، قدیم و خالص اور موروثی اسلام کے احیاء و عروج اور غلبہ و نفاذ کی حسرت و تمنا، اقتصادی اعتدال اور معاشی مساوات کا علمی جذبہ، ملوکیت وجباریت اور دولت پرستی کے خاتمہ، اور عوام وغرباء کی خوش حالی وفارغ البالی کی امنگ، دین کی بھر پور تبلیغ کے لیے مجاہدہ اور عمل پیہم، بڑوں اور چھوٹوں سے حسب درجات احترام و تعظیم اور محبت و شفقت کا سلوک ،اقارب واحباب اور اغیار کے ساتھ حسن معاشرت، خدمت خلق، جماعتی قومی اور دینی امورمیں سرگرمی ،چستی و چابک دستی، محنت وجاں ،فشانی ، خلوص وایثار، حمیت وغیرت، حلم و تدبر اور صبرو استقامت کا ہر ممکن عملی مظاہرہ اور اس کی دعوت خصوصاً نوجوانوں میں رضاکار انہ جذبہ اطاعت و خدمت، جوش جہاد اور جماعتی تنظیم سے وفادارانہ وابستگی کا داعیہ ابھارتے رہنا ان کی زندگی کا مقصد عظیم (مشن) تھا۔ جس کے لیے وہ صحت و علالت، فقروغناء او رقید و آزادی ہر حالت میں عاشقانہ جنون کے ساتھ سرگرم عمل رہے اور بالآخر اسی روش پر گام زن رہتے ہوئے اپنے مولائے حق سے جاملے اور خلوص ووفا کی حدیہ ہے کہ جس جماعت کے دفتر میں ادا فرض کے لیے داخل ہوتے وقت ان کی سواری آکے رکی تھی جیتے جی اسے نہ چھوڑا بلکہ اسی دفتر احرار سے ان کا جنازہ اتارا گیا۔ آپ نے مورخہ ۱۹؍ ذوالحجہ ۱۳۶۱ھ مطابق ۸ ؍ جنوری بروز پنج شنبہ جمعرات سابق دفتر مجلس احرار اسلام ہندو دفتر روزنامہ آزاد لاہور بیرون دہلی دروازہ لاہور کی بالائی منزل میں انتقال فرمایا اور قرستان مزنگ اچھر اروڈ میں مدفون ہوئے رحمتہ اللّٰہ و مغفرتہ ورضوانہ علیہ آمین۔
مفکر احرار رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے بعد بڑی صابرہ وشاکرہ مطیع ووفادار اورنیک بیوی کو سوگوار چھوڑا چار فرزندوں میں سب سے بڑے عزیزی شمس الحق ۔ بی ۔ اے ۔ایل ۔ ایل ۔بی ایڈوکیٹ، صاحبِ عیال ہیں نہایت شریف الطبع، شگفتہ مزاج وبااخلاق ساہیوال میں مقیم ہیں۔ عزیزی ضیاء الحق کالج تک کی تعلیم کے بعد کئی برس سے جرمنی میں بہ سلسلہ ملازمت مقیم ہیں ۔عزیزی قمرالحق پاشا سکول مدرس ہیں اسی سال شادی ہوئی ہے عزیزی اظہار الحق ادیب والد گرامی قدر کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ۔ماشااﷲ شادی شدہ اور پاکستانی فوج میں عہدہ دار ہیں تین صاحبزادیاں بحمداﷲ اپنے گھروں میں آباد ہیں یہ گھرانا مفکر احرار مرحوم کی زندگی میں بھی معزز تھا آپ کے وصال کے بعد بھی پوری جماعت آپ کی اہلیہ کے لیے ایک قابل صد فخرو احترام خاتون کی حیثیت سے پر خلوص جذبات رکھتی ہے اور آپ کی اولاد کو عزت و محبت کی نگاہ سے دیکھتی ہے راقم الحروف کو حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی زندگی میں ہی مفکر احرار مرحوم کی خدمت میں کئی بارسلام کے لیے حاضر ہونے کا موقع ملا، دوگونہ تعلقات کے باعث میں مرحوم کو چچاجی کہتا اباجی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کی اہلیہ کو بہن بنایا تو ان کو پھوپھی اور چچی کہہ کر سلام عرض کرتا ۔دونوں بے انتہاء شفقت و محبت فرماتے آپ کی اولاد میں عزیز شمس الحق قریباً میرے ہم سن ہیں دونوں بہنیں غالباًبڑی ہیں عزیزی ادیب کے سویٰ بقیہ بہن بھائیوں میں گھنٹوں بلکہ دنوں کھیلتا رہا ہوں آج تک اس معصوم دور کی حسین یادیں زندہ ہیں دعا رہے کہ اﷲ تعالیٰ تادم آخر ہمیں اس گھرانے کے ساتھ دین اور جماعت کے رشتہ سے وابستہ رکھیں اور اس خاندان کے ہر فرد کوبھی اپنے بلند مرتبہ پیش رو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی قدیم و مخلص اور تعاون کی مستحق جماعت کے ساتھ حقیقی اور دائمی وابستگی نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین
آخرِ کلام میں نشرواشاعت کے متعلق چند ضروری باتیں عرض ہیں۔ الحمداﷲ ثم الحمد اﷲ کہ پورے بیس برس کے بعد مجلس احرار اسلام پاکستان کے نئے مکمل دستور کی اشاعت کے ذریعہ جماعت کے مکتبہ مرکز یہ کا مبارک وانقلاب انگیز افتتاح ہوچکا ہے ۔اس دور سیاہ میں جبکہ انگریز پرستوں ،سبائی، مرزائی، پرویزی اور شیطانی بغض وتعصب کے اسیر قلم کاروں نے یہودیت کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور تحریف و خیانت کے مرتکب لیگی وغیرہ لیگی پرچہ نویسوں نے سیاسی دھاندلی اور علمی ڈکیتی کاخوفناک طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس سیلاب بلا کے آگے بند باندھنا ملک کے علمی وتاریخی مستقبل کے تحفظ کے لیے ایک فرض کی صورت اختیارکر چکا ہے چنانچہ تحریک آزادی کی جامع مکمل اور مستند تاریخ کو صحیح ترتیب کے ساتھ منظر عام پر لانے کی غرض سے دستور جماعت میں مذکورہ وسائل کار کی شق پر فوری اور بھر پور عمل درآمد کرتے ہوئے اہم ذخیرہ فراہم کرلیا گیا ہے۔ مختلف دینی سیاسی اور ملکی موضوعات سے متعلق کئی ایک کتب ورسائل زیر اشاعت ہیں البتہ جماعتی نقطہ نظر سے قریباً سوا چھبیس برس کے بعد مختصر تاریخ احرار کو اس کی اصولی و مرکزی حیثیت کے مطابق ترجیح دے کر طبع ثانی کی صورت میں سب سے پہلے پیش خدمت کیا جارہا ہے تاکہ ربع صدی سے جماعت کے بنیادی لٹریچر کے لیے بے چینی سے منتظر ومشتاق عوام اور خود اہل جماعت کی علمی وتاریخی تشنگی کسی قدر سیرابی اور سکون سے بدل سکے۔ اس کے بعد جماعتی اور غیر جماعتی مطبوعات نیز ملفوظات اکابر پر مشتمل مفصل تاریخ کل ہند و پاکستان مرکزی مجلس عامہ و مجلس مندوبین کی منظور کردہ رہنما قراردادوں کا مجموعہ نیزاکابر احرار کے اسلامی فکر وشعور سیاسی بصیرۃ اور حکمت وتدبر کی آئینہ دار تقاریر وخطبات کی عظیم تاریخی امانت قوم کے سپرد کی جائے گی، علاوہ ازیں دوسرا تمام مطلوبہ مواد بھی پوری آب وتاب کے ساتھ اور ہماری اشاعتی روایات کے مطابق بتدریج منظر عام پر آتا رہے گا۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ
خصوصیت کے ساتھ ملحوظ رہے کہ وہ لٹریچر جو کسی جماعتی رہنما یا کارکن کی سعی کا نتیجہ ہو اولاً تو اس کے ساتھ لکھنے والوں کے انفرادی حقوق وابستہ ہیں اور جماعت کے تعلق سے اس میں دوہرے حقوق شامل ہیں ۔ ایسے ہی وہ تحریکی اور تبلیغی مواد جو بلاذکر مصنف و مؤلف شائع ہو وہ بھی اگرچہ شخصی مفادات سے تو خالی نہیں تاہم اس میں بھی جماعتی حقوق بہ درجہ اولیٰ شامل ہیں لیکن زبانی تعارف چند روزہ شناسائی اور کسی قسم کے تعلق کو بہانہ بنا کر ذات اور جماعت دونوں کے مفادات پر شب خون مارنے والے بہت سے بے نام و بے رشتہ نئے نئے وارث پیدا ہوگئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں ۔خصوصاً لٹریچر تو ہر وقت ان اشاعتی چھاپہ ماروں کی زد میں رہتا ہے اس لیے قارئین کو بالعموم اور مذکورہ لٹریچر کو بلا اجازت ہضم کرتے رہنے کے خوگر اصحاب کو خصوصاً واضح طور پر مطلع اور متنبہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرشریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے بیاض و ملفوظات ، بیانات و خطوط ،مقدمات اور خطبات و تقاریر نیز مرحومین میں سے مفکر احرار امیر افضل حق، محترم شیخ حسام الدین ، محترم حافظ علی بہادر خان ، باقیات میں سے محترم شیخ تاج الدین لدھیانوی اور جناب مولوی مظہر علی اظہر کے تحریکی مضامین ، خطبات و تقاریر بیانات و خطوط اور کتب ورسائل کا تمام مطبوعہ یاغیر مطبوعہ ذخیرہ خالصتہً بہت سے خاندانوں اور خود جماعت کی ملکیت ہے اور ان سے وابستہ افراد ہی اس کے اصل وارث ہیں ۔لہٰذا اوّل تو کوئی شخص یا ادارہ ان چیزوں کی خفیہ یا علانیہ اشاعت کرکے دینی اخلاقی اور قانونی جرم کا اتکاب نہ کرے اور اگر وہ کسی بھی خیال یا نسبت سے ایسا غلط قدم اٹھا چکا ہو جیسا کہ بعض کم ظرف اور سنگدل لوگوں نے اپنا لایعنی تعلق اور سراسر جھوٹا حق جتلا جتلا کر مال مفت دل بے رحم کے مصداق بن کر ہمارا بہت ساذاتی اور جماعتی لٹریچر بالکل زبردستی نہایت لغو، غلط اور بھونڈی شکل میں چھاپ چھاپ کر بیچ کھانے کو پیشہ بنا رکھا ہے اور وہ اپنے اس گناہ پر بجائے ندامت کے اپنی دھاندلی پر پوری ڈھٹائی سے قائم ہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ آئندہ کے لیے اس مکروہ فعل سے بالکل دست بردار ہوجائے تاکہ لٹریچر کے اصل مالکین اور اس کے درمیان ناگزیر تصادم رونما نہ ہو۔ ورنہ واضح رہے کہ اس ذخیرہ میں سے کوئی بھی مواد اس کی اصل حالت یا بدلتی ہوئی صورت میں مکمل یا تحریف کر کے کسی بھی حیلہ سے شائع کیا گیا تو ذمہ دار ان مجلس اور مکتبہ مرکز یہ کے منتظمین ایسے ہر فرد یا ادارہ کے خلاف ہر قسم کی قانونی چارہ جوئی میں بالکل آزاد و خود مختار اور مکمل حق بہ جانب ہوں گے بعد میں ان کی کوئی غلط تاویل ،جھوٹا عذر یا فرضی جواب قابل پذیرائی نہ ہوگا اور وہ ہرگو نہ نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے چنانچہ اسی ضابطۂ اخلاق کے ساتھ معلوم رہنا چاہیے کہ مفکر احرار رحمتہ اﷲ علیہ کا وہ ذاتی لٹریچر جولاہور کا ایک ادارہ زندگی میں مرحوم کی اجازت سے اور بعد میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ معاہدہ کے مطابق شائع کررہا ہے اسے چھوڑ کر آپ کی زیرِ نظر کتاب ’’تاریخ احرار‘‘ نیز مضامین و خطوط بیانات ، تقاریر و خطبات اور کتب ورسائل کے جملہ حقوق اشاعت راقم الحروف نے مرحوم کی اہلیہ محترمہ اور فرزند اکبر عزیزی، چودھری شمس الحق کی وساطت سے زبانی اور تحریری اجازت کی شکل میں خصوصیت کے ساتھ حاصل کرلیے ہیں لہٰذا کوئی شخص یا ادارہ ان چیزوں کے متعلق بھی کوئی غیر شریفانہ ارتکاب نہ کرے ورنہ نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ وما علینا الاالبلاغ۔
رب کریم سے التجاء ہے کہ وہ جماعت کے بلند اصول و مقاصد کی تکمیل کے لیے ہماری دیرینہ تبلیغی و اشاعتی آرزو ئیں پروان چڑھائیں تاکہ مجلس کے خدام موجودہ اور آئندہ نسل کو ان کے تحریکی ماضی کے مدفون کارناموں ،مستور تاریخی حقائق اور اس کی مبنی برحق وصواب جدوجہد کی دینی و سیاسی امانت بہ خیر و خوبی سپرد کرکے اپنے حقیقی فرض سے سبکدوش ہو سکیں آمین ثم آمین۔ انسان حاجات اور عیوب کا مرقع ہے انبیاء علیہم السلام بھی معصوم و مستغنی ہونے کی شان کے باوجود اﷲ تعالیٰ سے عالم اسباب میں اپنے لیے ساتھی اور مدد طلب فرماتے رہے۔ ان کے سامنے ہم گنہگاروں کی کیا حیثیت ہے چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ اس لیے جملہ ہمدردان دین حق، طلب گاران تنظیم و اتحاد اور مخلص متعلقین جماعت کا فرض ہے کہ وہ کفرو الحاد کے تسلط اور مظلومی اسلام واہل حق کے اس نازک دور میں آگے بڑھیں اور جماعت کو دامے ،درمے خیالے ، سخنے، قدمے ہر قسم کے تعاون سے بہرہ ور کر کے رضاء خداوندی، حسن خاتمہ اور نجات و کامرانی کے مستحقین میں شمار ہوں ۔ وَاللّٰہُ عِنْدَہ أَجْرٌ عَظِیمٌ۔
کالعدم وسائل اوردرویشانہ انداز میں جو ہوسکا وہ پیش خدمت ہے انشاء اﷲ نفع سے خالی نہ ہوگا، خود پڑھیں او ر اس نایاب تاریخی تحفہ کے ساتھ ساتھ جماعت کی ہر تحریر اور پیغام حق کو ملک کے کونے کونے میں پہنچائیں ۔خلوصِ نیت کے ساتھ ہر ممکن محنت وسعی جاری رکھیں نتائج اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ ان شاء اﷲ ذرہ برابرعمل بھی ضائع نہ ہوگا دنیا دارُالعمل ہے اور اجر کی جگہ عالم آخرت!
وَاللّٰہُ عَلٰی مٰانَقُولُ وَکِیل وَسَلامٌ عَلَی المُرسَلِینَ خُصُوصاً عَلٰی سَیِّدنٰا مُحَمَدِ وَّأَصحٰابِہٖ وَأَزْوَاجِہٖ وَأَولاٰدِہٖ وَأَتْبٰاعِہٖ أَجمَعِین ۔أٓمِین۔!
راقم السطور خادم احرار ابن امیرشریعت سید ابو معاویہ ابوذر بخاری
ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام پاکستان
کا شانۂ معاویہ ۲۳۲ کوٹ تغلق شاہ ملتان شہر
شب چہارشنبہ: ۳۰؍۱۰؍۱۳۸۷ھ …… ۳۱؍۱؍۱۹۶۸ء
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.