سعود عثمانی
وہ چوکور سا دائرہ مجھ کو دائیں سے بائیں لیے چل رہا تھا
طواف اپنے مرکز کی جانب مجھے کھینچتا تھا
تمازت بھرا عصر کا وقت تھا اور دن ڈھل رہا تھا
میں رکنِ عراقی سے آگے بڑھا رکنِ شامی کی جانب
اور اس کو نگاہوں سے بوسہ دیا
کوئی آگ بھڑکی ہوئی تھی اور اس میں بدن جل رہا تھا
میں تھوڑا جھکا میری بائیں ہتھیلی نے رکنِ یمانی کو چوما
مرے ساتھ پیروں تلے میرا دل چل رہا تھا
اور آنکھیں جو ہمراہ آئی تھیں مجھ کو بھگونے
مرے تین کونے
الٰہی یہ میرے عراق اور شام اور یمن ہیں
الٰہی مرے تین کونے