تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قادیانی اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق

مولانامحمد اسحق الہندی
محترم ڈاکٹر محمدمشتاق صاحب کتاب چہرہ (فیس بک)کی معروف علمی شخصیت ہیں جو فقہی معاملات میں عمدہ ذوق اور درک رکھتے ہیں۔زیر نظر تحریر میں انہوں نے قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے پر چند پوائنٹس کو تنقیح مسئلہ کے طور پر پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر صاحب چونکہ فقہ سے ایک لگاو رکھتے ہیں سو ہم ان کی اس پوسٹ پر جزباتی قسم کا واویلا کرنے کی بجائے اس پر قانونی اور فقہی اعتبار سے وارد ہونے والے چند اشکالات کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔امید ہے ڈاکٹر صاحب کو ان امور کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔ذیل میں ہم ان کی تحریر من و عن نقل کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنی معروضات کو تبصرہ کے عنوان سے پیش کریں گے ۔
’’اقلیتی کمیشن اور قادیانی: مسئلہ کیا ہے ؟( ازڈاکٹر مشتاق پروفیسر ہیڈ اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد)
1۔ پہلے یہ بات نوٹ کریں کہ 2013ء میں پشاور میں چرچ پر حملے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کمیشن کے قیام کا حکم دیا گیا تھا تاکہ اقلیتوں کے حقوق کے بہتر تحفظ کی ذمہ داری پوری کی جاسکے ۔
2۔ اقلیتوں سے مراد ہے اسلام کے سوا کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق کھنے والے پاکستانی شہری ہیں۔
3۔ جن احباب کا خیال ہے کہ قادیانی”مرتد” یا “زندیق” ہیں، یہ ان کی راے ہوسکتی ہے ، اور ممکن ہے کہ ان کی راے درست ہو (یا غلط ہو) لیکن کم از کم پاکستانی قانون کی رو سے ایسا نہیں ہے ۔ پاکستان کے دستور کی رو سے قادیانی غیرمسلم ہیں۔ اس لیے وہ “اقلیت” کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔‘‘
تبصرہ: یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا دستور اقلیت یا غیر مسلم کی تو تعریف کرتا ہے لیکن اس میں مرتد یا زندیق کی کوئی تعریف موجود نہیں۔(غیر مسلم یا اقلیت کی تعریف بھی در حقیقت مسلمان کی تعریف کے عکس سے لی گئی ہے جب بھٹو دور میں قادیانی مسئلہ اٹھنے پر عدالت عالیہ نے مسلمان کی تعریف پوچھی تھی۔)
دوسری عرض یہ ہے کہ غیر مسلم اور مرتد و زندیق میں “عموم خصوص مطلق” ہے یعنی ہر مرتد اور زندیق تو غیر مسلم ضرور ہے لیکن ہر غیر مسلم کا مرتد یا زندیق ہونا ضروری نہیں۔چنانچہ ہندو سکھ پارسی عیسائی یہودی وغیرہ اگر اپنے اپنے مذہب پر ہی ہوں تو یہ فقط غیر مسلم کہلائیں گے لیکن مرتد نہیں۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ غیر مسلم مرتد بھی ہوسکتا ہے تو درایں صورت یہ کہنا کہ “کم از کم پاکستانی قانون کی رو سے قادیانی مرتد نہیں”، قابل غور معلوم ہوتا ہے ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئین پاکستان غیر مسلم کی تعیین کرکے اس کی انواع و جزئیات کی تفصیل سے ساکت ہے ۔اور اہل علم جانتے ہیں کہ عدم ذکر ذکر عدم کو مستلزم نہیں ہوتا۔(یعنی کسی بات کا ذکر نا ہونا اس کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتا) چنانچہ جب تک آئین پاکستان قادیانیوں کو غیر مسلم کی سب کیٹیگیری “مرتد” سے خارج کرنے کا اعلان نہیں کرتا،تب تک انہیں مرتد نا کہنے کیلئے آئین سے استدلال درست نہیں ہوسکتا۔
4۔ اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھنا چاہتے ہیں تو میرے نزدیک پہلی نسل کے قادیانی، جو مسلمان سے قادیانی بنے تھے ، وہ یقیناً مرتد تھے ۔ البتہ ان کی دوسری یا تیسری نسل کو مرتد نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی مسیحی، یا ہندو، یا کوئی اور غیر مسلم، قادیانیت اختیار کرتا ہے ، تو وہ مرتد نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر اب کوئی مسلمان سے قادیانی بنے ، تو وہ یقیناً مرتد کہلائے گا۔ البتہ یاد رکھیں کہ پاکستانی قانون میں اب تک ارتداد کی صرف ایک صورت پر سزا ہے : جب ارتداد توہینِ رسالت کی صورت میں ہو۔ ارتداد کی دیگر صورتوں پر پاکستانی قانون میں سزا نہیں ہے ۔ ہاں، انگریزوں کے دور کے ایک قانون کی رو سے ارتداد کی صورت میں نکاح کے خاتمے کے لیے عدالت میں دعوی دائر کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
تبصرہ: یہاں چند ایک امور کی وضاحت بہت اہم ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ قادیانیوں کی پہلی نسل کو جب آپ بلا شک و شبہہ مرتد تسلیم کرتے ہیں تو پھر دوسری جانب آئین پاکستان کا سہارا لیکر انہیں غیر مرتد کی کیٹیگری میں رکھنا ناقابل فہم ہے ۔
دوسری بات آپ قادیانیوں کی پہلی نسل کو جب مرتد تسلیم کرتے ہیں تو یہ مانناہوگا کہ بالفرض آئین اگر انہیں مرتد قرار نہیں بھی دیتا تب بھی کم از کم آپ کی نظر میں آئین کا یہ فیصلہ کسی طور پر درست نہیں کہا جاسکتا۔
(یہاں دل چسپ امر یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ایک چیز بیان کیا کرتے ہیں کہ چیزوں کی تفہیم کرتے وقت بنیادی اصولوں کو گڈ مڈ نا کیا جائے ۔تو اس اعتبار سے دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب نے خود آئین پاکستان سے “عدول”کرتے ہوئے قادیانیوں کو مرتد کہا ہے ۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے بقول آئینی لحاظ سے قادیانی غیر مسلم اقلیت تو ہیں لیکن مرتد یا زندیق نہیں……جب کہ ہماری رائے کے مطابق چونکہ آئین غیر مسلم کی بحث کے بعد مرتد زندیق وغیرہ کی بحث سے ساکت ہے لہذا اس اعتبار سے قادیانیوں کو مرتد یا زندیق کہنا کم ازکم ائین سے عدول نا ہوگا۔بلکہ اس کے اجمال کی ایک گونہ تشریح قرار پائے گا۔)
تیسری بات:سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان کی آئندہ نسلوں کو مرتد نا سمجھنے کی وجہ بیان کریں۔حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اﷲ نے اس مسئلہ کو ایسا بے غبار کیا ہے اب قیامت تک کوئی ماں کا لعل قادیانیوں کے ارتداد اور زندقہ کی تاویل نہیں کرسکتا……یہاں تفصیل کا یارا نہیں ہم ڈاکٹر صاحب سے سردست فقط اتنا پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب خود آپ نے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق توہین رسالت کرنے والا مرتد ہے تو بتلایا جائے وہ کونسا قادیانی ہے جو مرزا قادیانی کی پیروی کرتے ہوئے سرکار دوعالم کے منصب ختم نبوت پر ڈالے گئے ڈاکے کا دفاع نہیں کرتا……؟آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت اور احادیث مبارکہ پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے انہیں مرزا قادیانی ملعون پر منطبق نہیں کرتا……؟
کیا یہ سب توہین رسالت نہیں؟ چنانچہ باقی تمام دلائل تو ایک طرف آئین کی یہ شق کہ توہین رسالت ارتداد کے زمرے میں آتی ہے ،یہی ایک شق قادیانیوں کے ارتداد کو سمجھنے کیلئے کافی ہے ۔
باقی رہی یہ بات کہ پھر آئین خود انہیں مرتد قرار کیوں نہیں دیتا تو آئین بے چارے کے اپنے ہاتھ پاوں ہوتے تو وہ یہ کام کر بھی گزرتا……لیکن یہاں درحقیقت کوئی شرعی یا اصولی وجہ کی بجائے محض خارجی طاقتوں اور اندرونی لابیوں کا دباو ہے جو آئین کی “روح” پر عمل پیرا ہونے سے روک دیتا ہے ۔اسے ایک معذوری کے درجے میں قبول کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بالعموم علمائے کرام کا طریقہ ہے تاہم اسے ایک اصولی موقف قرار دیکر غوامد کی طرح پورس کے ہاتھی بننے سے گریز کیا جانا چاہیے ۔
5۔ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنا ان کے “غیرمسلم” ہونے کا لازمی نتیجہ ہے ۔ اس لیے مجھے اس پر اعتراض کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی۔
تبصرہ: ڈاکٹر صاحب بہت بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ ” آئین کی آڑ”لے کر کس طرح بوقت ضرورت “ہل” گرایا اور اونچا کیا جاتا ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ جب آئین انہیں یہ حق دیتا ہے تو ہمیں اعتراض کیوں ہے ؟ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ جب ایک فریق آئین کی طرف سے دی گئی اپنی شناخت ہی قبول نہیں کرتا تو وہ کس طرح اس شناخت سے وابستہ حقوق وصول کرسکتا ہے……جسے بدقسمتی سے آپ نے پوائنٹ نمبر 6 میں محض ایک “جذباتی نعرہ” سے تعبیر کرکے نہایت ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی عورت اپنے آپ کوبیوی تسلیم کیے بنا بھی مہر کا استحقاق رکھ سکتی ہے ؟(ازراہ کرم یہاں فقہ کی نادر الوقوع صورتوں کی بجائے عمومی صورت کو سامنے رکھا جائے )
کیا کوئی شخص جو خود کو پاکستانی شہری تسلیم نا کرتا ہو،وہ پاکستان کے شہری حقوق کا کیونکر حقدار بن سکتا ہے ؟بلکہ یہاں تو ’’صحیح مثال‘‘ یہ بنتی ہے کہ کوئی انڈین شہری(جن کا تخم ہی پاکستان دشمنی پر پلتا ہے )ہمارے یہاں کے شہری حقوق کا استحقاق کیونکر رکھ سکتا ہے ؟؟
یہ مثال اس لیے انسب ہے کہ جس طرح ’’دشمن ملک‘‘ کا شہری ہمارے ملک کے شہری حقوق حاصل نہیں کرسکتا…… اسی طرح ایک قادیانی جو اسلام اور آئین پاکستان کا علانیہ باغی ہے ، وہ اس آئین کے تحت بیان کردہ حقوق کیونکر حاصل کرسکتا ہے ۔؟
مجھے شدید’’حیرت‘‘ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح اسے محض ایک جذباتی نعرہ باور کرلیا ہے حالانکہ ہر عاقل بالغ شخص اپنے روز مرہ کے معاملات میں بھی اس اصول کو بروئے کار لاتا ہے ۔آپ کسی کمپنی میں ملازمت کرنا تو درکنار اس کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہوں اور ادھر کمپنی میں آپ کے ’’بہی خواہ‘‘ آپ کیلئے الاؤنسز منظور کروانے کے چکر میں ہوں تو ہرعاقل و انصاف پسند شخص اس پر معترض ہی ہوگا۔
6۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ وہ خود کو غیرمسلم نہیں مانتے ، اس لیے وہ آئین کے باغی ہیں، تو ایک تو یہ محض جذباتی نعرہ ہے ۔ اگر آپ انھیں واقعی آئین کے باغی مانتے ہیں تو ان پر آئین سے بغاوت کا مقدمہ درج کرائیں۔ یاد رکھیں کہ آئین سے بغاوت کی تعریف خود آئین میں موجود ہے اور جنرل مشرف کے خلاف فیصلے میں عدالت نے اس کی تفصیلی تشریح بھی کی ہے ۔ اس فیصلے کی رو سے جنرل مشرف تو یقیناً آئین کا باغی ہے لیکن قادیانیوں کو آئین کا باغی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہاں، اگر وہ خود کو غیر مسلم نہیں مان رہے ، تو وہ آئین کی ایک شق کی خلاف ورزی ضرور کررہے ہیں اور اگر وہ عوامی سطح پر اس کا اظہار کرکے خود کو مسلمان بتائیں، یا مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال کریں، تو اس پر تعزیرات پاکستان کے تحت قید اور جرمانے کی سزائیں موجود ہیں۔
تبصرہ: یہاں لوگوں کو قادیانیوں پر بغاوت کا مقدمہ درج کروانے کا مشورہ دینے کی بجائے اس اصولی چیز پر بحث کرنی چاہیے تھی جسے آپ نے محض جذباتی نعرہ قرار دے دیا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ جرم ہرگز ایسا معمولی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب اسے محض’’ایک شق‘‘ کی خلاف ورزی کہہ کر ہلکا کردیں۔
سپریم کورٹ نے اس ملک کے دو منتخب وزرائے اعظم حضرات(گیلانی اور راجا پرویز اشرف) کو اس سے بہت خفیف معاملے پر چلتا کیا ہے ۔جی ہاں ان دونوں حضرات نے بس عدلیہ کی حکم عدولی ہی تو کی تھی جو آئین کی کسی شق کا انکار کرنے سے بدرجہا اخف ہے ۔
دوسری بات:یہ قصہ محض ایک شق کا ہی تو ہے جو انہیں غیر مسلم قرار دیتی ہے……باقی آئین کے ہر ہر صفحے پر قادیانیوں کا کفر تھوڑا لکھا ہوا ہے ……؟
(واضح رہے کہ نواز شریف کا سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرتے باہر سڑکوں پر مجھے کیوں نکالا کا واویلا ڈاکٹر صاحب کی نظر میں جس قدر بھی قبیح ہو،ہماری رائے میں وہ محض اپنے خلاف چارج کی گئی شیٹ کا انکار ہی تھا۔آئین کی کسی شق کا انکار ہرگز نا تھا۔)
7۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر قادیانی آئین کی اس شق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کو غیرمسلم ماننے سے انکاری ہیں، تو وہ اس کمیشن میں شامل ہی کیوں ہوں گے ؟ اس صورت میں تو پریشانی کی کوئی بات ہی نہیں رہی۔ اس کے برعکس اگر وہ اس کمیشن میں شامل ہوں، تو وہ خود کو غیرمسلم مان کر ہی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو یہ نہایت صائب فیصلہ ہوا۔
تبصرہ: قادیانی جس طرح آئین پاکستان پر حلف لے کر وزیر مشیر بھی بن جاتے ہیں، ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط بھی کردیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ریشہ دوانیوں میں لگے رہتے ہیں……اسی طرح یہ لعین یہاں کریں گے ۔
آپ پوچھیں گے پھر اس کا حل کیا ہے ؟ سو عرض ہے کہ’’حل‘‘تو ان کے ہاتھ میں ہے جو ’’ارباب حل و عقد‘‘ ہیں…… ہمیں تو اتنا کرنا ہے کہ جس قدر اس حقیقت کو سمجھتے سمجھاتے جائیں گے ، اسی قدر ان کی ریشہ دوانیوں کا راستہ رکتا چلا جائے گا۔اس لیے ازراہ کرم اسے ’’صائب‘‘ یا دوراندیشی پر مبنی فیصلہ باور کرواکر ان کا راستہ مت کھولا جائے……
8۔ اگر یہ خدشہ ہے کہ اقلیتی کمیشن میں شامل ہو کر وہ اپنے رسوم وغیرہ کا تحفظ کرسکیں گے ، تو ایک تو وہ ایسا بطور اقلیت، یعنی بطور غیرمسلم ہی کریں گے ۔ اس لیے پریشان ہونے کی بات نہیں ہے ۔ دوسرے ، وہ بطور غیرمسلم اپنے رسوم کرسکیں گے لیکن ان پر قانونی پابندی برقرار رہے گی کہ وہ خود کو مسلمان بنا کر نہ پیش کریں ورنہ مذکورہ بالا قانون کی رو سے ان کا یہ فعل قابلِ سزا جرم قرار پائے گا۔ چنانچہ ان کے رسوم وغیرہ کا تحفظ اس شرط کے ساتھ مشروط ہوگا۔
تبصرہ: یہ بھی خوب رہی……کیا اب تک وہ اپنی رسوم بطور غیر مسلم کرتے ہیں جو ہم “بلاوجہ” کی یہ “خوش فہمی” پال لیں کہ طاقت اور اختیار ملنے کے بعد وہ “انسان کے بچے ” بن جائیں گے……؟
9۔ اگر کسی کو یہ خدشہ ہے کہ اس کے بعد وہ اس قانون کو اپنے حقوق سے متصادم قرار دے کر ختم کروانے کی کوشش کریں گے ، تو ایک تو سپریم کورٹ کا لارجر بنچ ظہیر الدین کیس میں قرار دے چکا ہے کہ یہ قانون دستور میں مذہبی آزادی کے حق سے متصادم نہیں ہے اور یہ کہ جب تک دستور کی رو سے وہ غیرمسلم ہیں تو وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کرسکتے کیونکہ یہ دھوکا ہے اور کوئی دستوری حق دھوکے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسرے ، اس صورت میں ہم سب پر لازم ہوگا کہ ان کی اس کوشش کو ناکام بنائیں اور اس قانون کا تحفظ کریں۔
تبصرہ: ہمارا نہیں خیال کہ طاقت اور اقتدار کے باب میں قادیانی ہم مسلمانوں جیسے “بھولے بھالے ” اور “غیرت مند”واقع ہوئے ہیں چنانچہ وہ دامے درمے سخنے کی پالیسی کے ساتھ ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور اس موقع سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ۔خاکم بدہن کہ وہ اس کے بعد کھلم کھلا اپنی مذہبی رسومات بجالانے لگیں اور ڈاکٹر صاحب ہمیں پاس کر یا برداشت کر کا سبق دینے لگ جائیں۔
10۔ یہ ساری بحث اس وقت تک فرضی بحث ہے جب تک قادیانی اس کمیشن کی رکنیت قبول نہیں کرلیتے ، اور ایسا کرنے کے لیے ان پر لازم ہوگا کہ وہ خود کو غیرمسلم مان لیں۔ اس لیے مجھے تو پریشانی کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہورہی۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔ھذا ما عندی، و العلم عند اﷲ۔
تبصرہ: ہمیں آپ کے اخلاص علم و دیانت میں قطعا کوئی شک نہیں لیکن ہمیں جو محسوس ہوا گوش گزار کردیا ہے ۔امید ہے اس گزارش کو ’’ایمان و یقین‘‘ کا معرکہ نہیں بنایاجائے گا بلکہ ایک مخلصانہ اختلاف پر ہی محمول کیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.