سجاد ضیغم (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے پاس ہونے والی دوسری آئینی ترمیم constitution second Amendment Act, 1974 جس میں آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 106 اور آرٹیکل 260 میں ترمیم کر کے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے منکرین (قادیانی اور لاہوری گروپ جو اپنے آپ کو احمدی کہلواتے ہیں) کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ بلاشبہ یہ قرارداد جو دوسری آئینی ترمیم کے نام سے موسوم ہے پاکستان کی آئینی تاریخ کا سنگ میل اور مسلمانان پاکستان کی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دی جانی والی لازوال قربانیوں کا ثمرہ تھی۔اس ترمیم کے بعد قادیانی غیر مسلم تو ڈکلیئر ہو گئے مگر عملی طور پر ان کی سرگرمیاں ویسے ہی جاری رہیں۔ وہ بڑے دھڑلے سے اپنے عقیدے کا پرچار کرنے کے علاوہ اسلامی شعائر کو اپنے سے منسوب کرنے لگے تھے جس سے مسلمانان پاکستان میں روز بروز اضطراب اور تشویش پیدا ہونے لگی۔
1984 میں اس مسئلے پر زبردست تحریک چلی۔ جس کے نتیجے میں بالآخر مسلمانان پاکستان کے قلبی، ایمانی وایقانی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس1984 ( The Anti_Islamic Activities of Qadiani Group, Lahore Group and Ahmadis (Prohibition and Punishment) Ordinance 1984 جاری کیا جس کے تحت تعزیرات پاکستان یا Pakistan Penal Code1860 میں دفعات 298 بی اور 298 سی کا اضافہ کیا گیا، ضابطہ فوجداری یا Criminal Procedure Code (1898) کی دفعہ 99 اے و شیڈول 2 اور پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس(1963) کی دفعہ (provisions) 24 میں ترمیم کرکے قادیانیت کے پرچار، اور اسلامی شعائر کے قادیانیت کے لیے استعمال کو قابل تعزیر جرم بنادیا گیا۔ اس آرڈیننس کی رو سے کوئی قادیانی نہ تو خود کو مسلمان کہ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کر کے اس کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ یوں ملک میں قادیانیت کے فروغ، پھیلاؤ اور propagation پر عملی طور پر پہلی دفع ریاست پاکستان نے موثر انداز میں پابندی لگا دی۔ جس سے قادیانیوں کے ناپاک منصوبوں کو زک پہنچی۔ پہلے وہ اپنی ارتدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے مگر امتناع قادیانیت آرڈیننس کے بعد انگریز کی ’’خودکاشتہ اس جعلی نبوت‘‘ پر بالفعل لگام ڈالی گئی۔
قادیان کی انگریز کی تیار کردہ اس جعلی نبوت کی گرتی ہوئی دیواروں کو دیکھ کر اس کے سازشی قادیانی ڈھنڈورچیوں نے اس آرڈیننس کے خلاف پوری دنیا میں شور واویلا کیا، اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کرکے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر بد نام زمانہ مہم چلائی مگر انہیں مسلمانانِ پاکستان کے اس مسئلے پر کامل اتفاق اورشہدائے ختم نبوت کی قربانیوں کی بدولت ہر فورم اور ہرسطح پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس طرح یہ آرڈیننس جھوٹ، مکرو فریب اور دجل وکذب بیانی کی قادیانی عمارت کے لیے گرزالبرز شکن ثابت ہوا۔ اس کے اجراء و نفاذ سے انگریز کی خانہ ساز نبوت کی چولیں ہل کر رہ گئیں۔ پیش آمدہ حالات سے سر چکرا کر قادیانیوں کے دونوں گروہوں یعنی قادیانیوں و لاہوریوں نے بالترتیب فیڈرل شریعت کورٹ میں شریعت پٹیشنز نمبر (1984)17/1 مجیب الرحمان وغیرہ بنام فیڈرل گو رنمنٹ اور شریعت پٹیشن نمبر (1984) L/2 کیپٹن ریٹائرڈ عبدالواجد وغیرہ بنام اٹارنی جنرل آف اسلامی جمہوریہ پاکستان دائر کیں۔ اس فیصلے کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں قادیانیت کے حوالے سے پہلا مفصل (exhaustive) اور لینڈ مارک ( land mark) فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔28؍اکتوبر 1984 کو 142 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سنایا گیا جسے بعد میں وزارتِ مذہبی و اقلیتی امور حکومت پاکستان، اسلام آباد نے بڑے پیمانے پر شائع کر کے عوام الناس کو اس میں مندرج اظہر من الشمس حقائق سے روشناس کرایا۔ چیف جسٹس فخر عالم کی سربراہی میں جسٹس چوہدری محمد صدیق، جسٹس مولانا ملک غلام علی اور جسٹس مولانا عبدالقدوس قاسمی پر مشتمل چار رکنی بنچ نے قرآن و سنت اور 14 سو سالہ اجماع امت کی روشنی میں تاریخ ساز و قادیانیت سوز فیصلہ دیا۔ قادیانی اس آرڈیننس کو کالعدم کروانا چاہتے تھے جبکہ وفاقی شرعی عدالت نے امتناع قادیانیت آرڈیننس کو قادیانیوں کے بنیادی حقوق کے منافی نہ قرار دے کر، مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے قادیانیوں کے موقف کو باطل، حقائق کے منافی اورمبنی پر تلبیس قرار دیا۔ فیصلے کے پیرا نمبر 12 کے مطابق: ان دو پٹیشنز ہاے میں قادیانیوں نے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے ان کے اپنے مذہب پر عمل اور پرچار پر پابندی کو شرعی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔ جس کو آگے تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ناقابل تردید حقائق وبراہین سے غلط قرار دیا۔ جبکہ فیصلہ کے پیرانمبر 13 کے مطابق: آئینی دفعات کے باوجود پٹیشنرز نے اپنے دلائل میں اپنے آپ کو مسلمان اور اپنے مذہب کو اسلام کہلانے پر زور دیا اور موقف اختیار کیا کہ انہیں آئینی ترمیم کے زریعے کسی مذہبی ہیئت نے نہیں بلکہ حکمران جماعت نے غیر مسلم قرار دیا ہے۔ یہ موقف اختیار کرنے پر پٹیشنرز پر عدالت نے واضح کیا کہ آئینی ترمیم تمام جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر پاس کی گئی ہے اور پارلیمنٹ نے اپنا فیصلہ عدالتی انداز میں دونوں فریقین بشمول احمد یہ کمیونٹی کے سربراہ کو سننے کے بعد کیا ہے جس کا اسے مکمل حق حاصل ہے۔
فیصلے میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کے موقف اور قادیانیوں سے اختلاف پر عمدہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ قرآن مجید، احادیث شریف، اجماع امت، فقہ ولغت کی مستند کتابوں سے lexicographers، مفسرین، محدثین وفقہاے امت اور اکابرین امت کے حوالوں سے عقیدہ ختم نبوت کو واضح کیا گیا ہے۔ اگر لسان العرب، المفردات، تاج العروس، مجمع البحار کے حوالے ہیں تو وہیں علامہ ابن جریر طبری، امام طحاوی، علامہ ابن حزم اندلسی،امام غزالی، محی السنہ بغوی، علامہ زمخشری، قاضی عیاض، امام رازی، علامہ شہرستانی، علامہ بیضاوی، علامہ حفیظ الدین نسفی، علامہ علائالدین بغدادی، علامہ ابن کثیر، علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ ابن نجیم، ملاعلی قاری، شیخ اسماعیل حقی، علامہ آلوسی وغیرہ کے علاوہ دس شیعہ مجتہدین و علماء کی کتابوں کے حوالے دے کر ختم نبوت کے عقیدے کی مدلل انداز میں صراحت کی گئی ہے۔
فیصلے کے 131 صفحہ پر یہ رائے دی گئی ہے۔
The conduct of the Qadianies when they were in Quadian and held a majority and considerable influence there is relevant. The Quadianies had stopped the Muslims from calling Azan in their own mosques. The Ahrar sent some volunteers to call Azan in mosques of Muslims in Quadian but the Quadianies attacked them with sticks and caused a large number of injuries to each of them. They had to remain bed ridden in hospitals. (Tehrik i khatm e Nabuwat1891_1974 by shorish kashmiri, page 78)
This could have been by brute force only during the British Rule. This is an example that what they considered to be their shiar ( distinctive feature) was made by them practically unlawful for the Muslims. It follows that in their view also such restraint by the majority in power is legal.
ترجمہ: قادیانیوں کا رویہ جب وہ قادیان میں اکثر یت اور کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے متعلقہ امر ہے۔ قادیانیوں نے مسلمانوں کو انکی اپنی مساجد میں اذان دینے سے روک دیا تھا۔ احرار (مجلس احرار اسلام) نے کچھ رضاکار قادیان میں مسلمانوں کی مساجد میں اذان دینے کے لیے بھیجے مگر قادیانیوں نے ڈنڈوں سے ان پر حملہ کیا اور ان سب کو بری طرح زخمی کیا۔ وہ ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ (تحریک ختم نبوت 1891 تا 1974 از شورش کاشمیری صفحہ 78) یہ سب کچھ برطانوی راج کے دوران بے رحم قوت سے کیا گیا۔ یہ ایک مثال ہے کہ وہ جس چیز کو اپنا شعار (امتیازی وصف) سمجھتے ہیں اس کو مسلمانوں کے لیے عملی طور پر غیر قانونی قرار دیتے ہیں (بسوخت عقل زحیرت ایں چہ بوالعجبی است)۔ اس سے(عملی طور پر) یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ انکے اپنے نکتہ نظر کے لحاظ سے مقتدر اکثر یت کی طرف سے ایسی پابندی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ (آسان لفظوں میں جو رویہ قادیانی قادیان میں اپنی اکثریت کی وجہ سے اختیار کر تے تھے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب پاکستان میں مٹھی بھر قادیانی اقلیت کی طرف سے ریاست کے اکثریتی مسلمانوں کے جذبات کی آئینہ دار اس فیصلے یعنی امتناع قادیانیت آرڈیننس پر شورو غوغا نامناسب لگتا ہے)۔
اس فیصلے کے صفحہ نمبر 141 پر یہ رائے دی گئی ہے: مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی زندگی میں مسیح موعود، مہدی اور نبی ہونے کے دعووں پر شدید احتجاج ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد اس ایشو پر قادیانیوں کے رویے کی وجہ سے احتجاج نے شدت پکڑ ی جسے دبانے کے لیے 1953 میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ تاہم یہ پابندیاں مسلمانوں کی آواز کو خاموش نہ کر سکیں، جیسا کہ یہ علماء کے مشہور 22 نکات والے مطالبے میں شامل اہم مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ تحریک ختم نبوت جاری رہی حتی کہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو انکے سربراہ مرزا ناصر احمد کے ذریعے مکمل سماعت کا موقع دینے کے بعد 1974 میں دوسری آئینی ترمیم پاس کی۔ جس میں آئین کے آرٹیکل 260 میں قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور آرٹیکل 106 میں ترمیم کے ذریعے انہیں دوسری اقلیتوں جیسے عیسائی، پارسی اور ہندووں وغیرہ کے ساتھ شامل کیا گیا۔ یہ قرارداد جو مسلماں کے متفقہ مطالبے اور لازوال جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ اس کے بعد قادیانیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اپنے آپ کو مسلمان کہیں اور اپنے مزعومات وباطل عقائد کی بطور اصل اسلام کے پرچار کرکے یہاں کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں۔ مگر انہوں نے آئین پاکستان کا احترام نہ کیا اور پہلے کی طرح اپنے مذہب کو اسلام کا نام دیتے رہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کا کتب، رسائل و جرائد اور تقریر کے ذریعے بلا کسی جھجک و روک ٹوک پرچار جاری رکھاجس سے مسلمانان پاکستان میں شدید آزردگی وتشویش پیدا ہوی اس کے نتیجے میں نقص امن کا سب سے بڑ ا و نازک مسئلہ پیدا ہوا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ امتناع قادیانیت آرڈیننس پاس اور نافذ ہوا۔
اس فیصلے میں اصل عربی عبارتیں معہ مستند حوالہ جات کے لکھ کر اور قادیانیوں کی کتابوں سیرت المہدی، روحانی خزائن، تحفتہ الندوی، توضیح المرام، ازالہ اوہام، انجام آتھم، حمامتہ البشری، براہین احمدیہ، نشان آسمانی، فتح اسلام، الملفوظات، ایک غلطی کا ازالہ، خطبہ الہامیہ، تحفہ گولڑویہ، تجلیات الہیہ، تریاق القلوب، حقیقت الوحی، کلمتہ الفصل وغیرہ سے گستاخانہ و اہانت آمیز عبارات کے حوالے دے کر قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان حد فاصل کو الم نشرح کیا گیا ہے۔
اس فیصلے کے صفحہ نمبر 114 پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 260(3) میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آئین پاکستان کے شہریوں کی مذہبی آزادی سے متعلق آرٹیکل 20سے تقابل کیا گیا ہے۔ جس پر قادیانی وکیل مجیب الرحمن نے زور دیا کہ اس آرٹیکل کی رو سے انہیں اپنے مذہب کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ جس پر فاضل عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ یہ آرٹیکل Subject to law and order ہے اور قادیانی اپنے مذہب پر یوں عمل تو کر سکتے ہیں They can not profess themselves to be Muslims or their faith to be Islam. مگر ’’وہ اپنے آپ کو نہ تو مسلمان کہ سکتے ہیں اور نہ اپنے مذہب کو اسلام کا نام دے سکتے ہیں۔‘‘ اس مقدمے میں سب سے بڑی مشکل قادیانیوں کا رویہ تھا وہ آئین پاکستان کو تسلیم کرکے خود کو غیر مسلم گرداننے کی بجائے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے اور اپنے پروپیگنڈے و پرچار کو اسلام کا نام دے کرپروان چڑھا نے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔ اس طرح وہ مسلم امہ کے صبر کا امتحان لیتے رہے۔ فیصلے کے مطابق اسلامی القابات ام المومنین، امیر المومنین، خلیفۃ المومنین، رضی اﷲ عنہ، صحابہ اور اہل بیت کو استعمال کرنے پر پابندی کی وجہ یہ ہے کہ قادیانی ان خالص اسلامی اصطلاحات سے عام لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس طرح عدالت نے میرٹ پر تفصیلی سماعت، فریقین کے دلائل اور زبانی و دستاویزی شہادتوں کو مکمل طور پر ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد ان دونوں پٹیشنز ہائے بابت کالعدم قرار دیئے جانے امتناع قادیانیت آرڈیننس کو خارج کر کے امت مسلمہ کے ساڑھے چودہ سو سال سے متفقہ عقیدہ ختم نبوت کی ترجمانی کا شاندار فریضہ سرانجام دیا۔ جس کی جتنا تعریف کی جاے کم ہے۔ تاج و تخت ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زندہ باد۔
اس فیصلے کو اصل متن کے ساتھ پڑھنے کے لئے ملاحظہ کریں: (PLD 1985 FSC 8)
(نوٹ: وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف قادیانیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جسے چیف جسٹس محمد ظلہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے خارج کیا۔ یوں قادیانی وہاں سے بھی خائب و خاسر اور بے نیل و مرام لوٹے اس کی تفصیل اگلی قسط میں۔ ان شاء اﷲ العزیز