مولانا عبید الرحمٰن شاہجہاں پوری
جدید قومی سرمایہ دارانہ ریاست اپنے ریاستی ستون و مراکز (بینک، پورٹس، سرمایہ دارانہ اقلیت، میڈیکل سائنس و ہسپتال، میڈیا وغیرہ) کو سماج میں عقیدے کے طور پر پیش کرتی ہے، اور اس کے لیے اگر لوگ مر بھی جائیں تو اس کو قبول کرتی ہے، کیونکہ کسی بھی نظریے کے داعی کا اپنے عقیدے کے لیے قربانی دینا اس کی اپنی اخلاقی سعادت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں مساجد پر پابندی لگانا جدید لبرل ریاست کے منہج میں اسی طرح معقول ہے جس طرح ریاست فرد سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ پارک نہ جاؤ۔ لبرل ریاست کے نزدیک پارک جانا اور مسجد جانا مساوی فعل ہیں، کیونکہ لبرل ازم کی رو سے یہ اجتماعی عقیدہ و رویہ نہیں بلکہ فرد کا انفرادی فعل ہے، جس پر لبرل ریاست کی اجارہ داری ہے۔ لبرل ریاست کا یہ فکری مقدمہ اگر قابلِ فہم ہے تو پھر ابوابِ مساجد مقفل اور سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں کے ابواب کیوں مفتوح ہیں، بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید لبرل ریاست کا جدید شہری کرنسی سے وہ خوف نہیں کھا رہا جو خوف وہ مساجد کے مصلے میں دیکھ رہا ہے، حالانکہ ڈبلیو ایچ او (WHO) کی تحقیق کے مطابق وائرس سب سے زیادہ کرنسی کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ لیکن کیوں؟ اس لیے کہ جدید لبرل ریاست کے نزدیک سرمایہ دارانہ اقلیت و سرمایہ دارانہ نظام کے مراکز بینک وغیرہ، لبرل ریاست کے اعتقادی ستون ہیں، اور عقیدے سے خوف نہیں کھایا جاتا بلکہ اس کے لیے قربانی دی جاتی ہے۔ ایسے میں کرنسی جو ’’خطرہ‘‘ ہے اس کے متعلق لبرل ریاست کا لبرل میڈیا ’’خوف‘‘ عام نہیں کرتا، بلکہ ’’خطرے‘‘ سے ’’خوف‘‘ دلانے کے بجائے خود خوف سے خوف کی تخلیق و تشہیر کرتا ہے!
چنانچہ لبرل میڈیا نے کیمرے کی آنکھ کو تفتان بارڈر سے مساجد کی طرف موڑ دیا ہے۔ افتراق سے بچنے کے لیے ہم زاویہِ فکر کی اس تبدیلی و انحراف پر بات نہیں کرتے، تاہم اتنا ضرور عرض ہے کہ زاویے کی اسی تبدیلی کے نتیجے میں ایک حقیقی مجرم کو کٹہرے سے فرار کراکے مولوی کو ہمیشہ کی طرح کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے، اور آئندہ چار سے پانچ ماہ کے لیے لبرل میڈیا کو مولوی کی آڑ میں تہذیب و اقدارِ اسلامی پر سنگ باری کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا ہے۔
اضطراب کے ان لمحات میں جب میڈیا پر علمائے اہلِ سنت کے متعلق ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، علمائے ملّت نے اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اور شروط و قیودات کے تناظر میں اجتماعی فتویٰ جاری فرمایا ہے۔ اس معتدل فتویٰ کو بھی اب اگر کوئی نامعقول سمجھتا ہے تو اُس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ وقت ہے مساجد کی اعتقادی، تہذیبی، سیاسی، و معاشرتی کلیت کو فعال کرنے کا، اس کے اس مخصوص معاشرتی تفاعل کو عام کرنے کا جس پر لبرل ازم کے جبر نے پہرے بٹھائے تھے، اور اس کے اظہار کا اس سے زیادہ مناسب موقع ہاتھ نہیں آنے والا! لیکن صد افسوس، احبابِ بزم پر کپکپی طاری ہے، وہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا! آج وطنِ عزیز پاکستان میں پوری ریاست (بینک، میڈیا ہاوسز، کورٹس، جمہوری و سرمایہ دارانہ اقلیت کے مراکز وغیرہ) کھلی ہے اور مساجد مقفل ہیں۔ ایک صاحب ِایمان کے لیے اپنے اعتقادی پسِ منظر میں یہ پیش منظر جس قدر ناقابلِ فہم ہے، جدید سرمایہ دارانہ ریاست کے لیے اسی قدر قابلِ فہم ہے۔ ہمارے لیے ناقابلِ فہم اس لیے ہے کہ ساری زمین ہی خدا کا گھر ہے اور یوں قوتِ نافذہ کا مرکز مسجد ہے۔
جدید ریاست کے لیے قابلِ فہم اس لیے ہے کہ ’’ریاست‘‘ و ’’مارکیٹ‘‘، ’’مسجد‘‘ نہیں ’’معاشرے‘‘ ہیں، لہٰذا لبرل ازم کی رو سے عبادت معاشرے نہیں فرد کا مسئلہ ہے۔ نیز یہ وبا خدا تعالیٰ کے گھر نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ مراکز (ریاست و مارکیٹ) میں فطرت سے بغاوت کے سبب پھوٹی ہے، لیکن پھر بھی الزام وبا سے متعفن سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی کو نہیں بلکہ مساجد کو ہے کہ بہرحال یہ ادارتی صف بندی لبرل منہج میں لبرل قومی عقائد کی علامت ہے۔ اس لبرل و کلیسائی نظریے کی تشہیر میں لبرل نہیں مذہبی حلقے کل تک شریکِ انجمن رہے تو آج بھی پیش پیش ہیں۔ اگر پوپ نے اٹلی میں ویٹی کن بند کیا تو ہم نے بھی اغیار سے تشبہ اختیار کرتے ہوئے حرم مکی و مدنی کو مقفل کرنا عین معقول سمجھا۔ آج بھی تفتان بارڈر سے مریض پاکستان تشریف لا رہے ہیں لیکن مساجد میں صحت مند نمازیوں کے جانے پر پابندی ہے، یہ عین نامعقول اقدام اگر معاشرے کے لیے معقول قرار پایا ہے، تو اس تنزلی کا سبب ہماری ربع صدی سے زائد عرصے پر محیط نظام افرنگ سے مفاہمت اور شرع شریف کی بابت مداہنت ہے!۔
کورونا وائرس اور جدید تصورِ اخلاقیات
اس وقت WHO ہم کو ڈکٹیٹ کررہا ہے کہ کیا کرنا ہے، اور اس کی ساری ترجیحات ’’فرد‘‘ کے علاج نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست کی ترجیحات (Capitalist Priorities) پر قائم ہیں۔ جبھی وہ یہ نہیں بتارہا کہ فرد مرض سے کیسے لڑے، بلکہ سارا زور اس پر ہے کہ ریاست مریضوں سے کیسے نبردآزما ہو؟ اب سائنس ریاست کو نہیں بلکہ ریاست سائنس کو بتارہی ہے کہ مذہب کو کیا حکم دینا ہے۔ ریاستوں کو بھی فرد کی موت کا خوف نہیں بلکہ اتنے ’’مجموعہ افراد‘‘ کی موت کا خوف ہے جس سے انہدام ریاست نہ ہوجائے۔ جبھی اس وقت پوری دنیا میں مریضوں کے ساتھ جو خلائی مخلوق والا رویہ رکھا جارہا ہے وہ بہت دردناک و خطرناک ہے، جس کا مشاہدہ ہم پاکستان میں بھی کررہے ہیں۔ ریاست و سائنس جدید اخلاقیات کی تدوین کررہے ہیں۔ یورپ میں اولڈ ہومز میں کام کرنے والے کام چھوڑ کر جارہے ہیں کہ یہ وبا بوڑھوں کو زیادہ لگتی ہے، اسپین کے اولڈ ہومز میں بیس لوگ اس وبا سے نہیں بلکہ اس کے خوف سے جان کی بازی ہار بیٹھے۔ مشہور پاکستانی صحافی و رپورٹر محترم عابد صاحب نے اس موضوع پر مستقل ڈاکومینٹری تیار کی ہے کہ کس طرح ہمارے مشرقی معاشروں میں بچے اپنے والدین کو چھوڑ کر جارہے ہیں یا ان سے اظہارِ نفرت کررہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں اس بیماری کے حوالے سے مضمونCOVID-19 Kills old people only شائع ہوا ہے، جس میں بزرگوں سے پیدا ہونے والی سماجی نفرت کو موضوع تحقیق بنایا گیا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں کورونا مریض سماج سے مجرد ہوکر ریاست و سماج کے مقابلے میں مستقل فریق (Opponent) کی حیثیت سے نمایاں ہورہے ہیں، جس کا اظہار نہ صرف عالمی ذرائع ابلاغ پر ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ خود سندھ میں quarantine کے اندر ہونے والی نمایاں و منظم بغاوت ہمارے اشرافیت زدہ رویوں (Aristocratic behavior) پر اعلانیہ دستک ہے کہ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا! ایسے میں کورونا وائرس کے بعد ریاست و سائنس جن جدید اخلاقیات کی اختراع کررہی ہے، ان کے مقابلے میں’’مسجد مرکز اخلاقیات‘‘ اور ’’معاشرت‘‘کی نفی کرنا درحقیقت بِنائے ملّت مِٹا دینے کے مترادف ہوگا!۔
معاصر متساہل اہلِ علم پر افسوس
عہدِ فاروقی میں اٹھائیس ہزار صحابہ و مسلمان طاعون سے شہید ہوئے، انہوں نے ان احادیث سے جب مساجد کو مقفل کرنے کا فہم کشید نہیں کیا تو ہم اس سرمایہ دارانہ ریاستی بدعت کی اختراع کیوں کریں! باقی میڈیا ہاؤسز، بینک، فائیواسٹار ہوٹل، ہسپتال سب کھلے ہوں اور خدا تعالیٰ کا گھر ہی مقفل ہو؟! عالمی سرمایہ دارانہ و استعماری قوتوں کی طرف سے مسلط کردہ اس کیمیائی جنگ میں اظہارِ شعارِ اسلامی اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح عین میدانِ جہاد میں، جہاں موت ہی کا گمان غالب ہے! لیکن روایت کے پروردہ جدیدیت پر نازاں علماءِ سلاطین، جو لبرل ریاست کے ایک حکم پر خدا تعالیٰ کے گھروں کو تالے لگانے کے لیے تو حاضر باش ہوتے ہیں، تاہم جب سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق فتویٰ پوچھا جاتا ہے تو ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہو کہ جدید قومی مغربی ریاست میں فتویٰ نفاذِ شریعت کے لیے نہیں بلکہ تخفیفِ احکام شرع (Reductionism) کے لیے ہوتا ہے اور پھر یہی ’’تخفیفِ‘‘ شرع شریف لبرل میڈیا میں ’’استخفافِ‘‘ شرع تک جا پہنچتی ہے۔ اسی تخفیفِ شرع کی رو سے فتویٰ کے نام پر امتِ مسلمہ کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کا حصہ بنا جاتا ہے۔
یہاں دیت کے نام پر ریمنڈڈیوس آزاد کیا جاتا ہے۔ یہاں ناموسِ رسالت و ناموسِ صحابہ کے سپاہیوں کو فتویٰ قصاص کے نام پر سولی چڑھایا جاتا ہے، اور فتویٰ کے نام پر مساجد کو تالے لگوائے جاتے ہیں! کورونا وائرس کا اصل سبب پیپر کرنسی، کرنسی مشین، اور اے ٹی ایم مشین ہیں، لیکن بینک کو تالے لگانے پر بھی ان اربابِ تجدد نے کوئی فتویٰ دیا ہے؟ یہ ہوتا ہے مچھر کھنگالنا اور اونٹ نگل جانا!! یہ وہی لوگ ہیں جو مغربیت (جمہوریت بمقابلہ خلافت، بینکنگ بمقابلہ حلال معاش) کو ترک کرنے کے لیے تو متبادل کا سوال کرتے ہیں لیکن جب خود احکاماتِ اسلامیہ پر عمل مشکل ہورہا ہو تو اس کی بابت احکامات ِشرع پر عمل کے متبادل کے بارے میں سوال نہیں کرتے، فتدبر! ان کو کورونا وائرس کی بابت تو متبادل تدابیر سوجھتی ہیں لیکن ان سے کوئی سوال کرے کہ زندہ کورونا پیشنٹ کا علاج ڈاکٹر قریب جاکر کرسکتا ہے تو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے قریب جاکر کورونا میت کو غسل کیوں نہیں دے سکتا؟ سارے متبادل مادہ پرستی کو نبھانے کے لیے ہیں، دین پر عمل کرنے کے کبھی متبادل کی آس نہیں ستاتی؟ بہر حال جس کو مسجد کے مصلے سے خوف آتا ہو وہ اپنا مصلیٰ لے جائے، اور جس کو مصافحہ سے خوف آتا ہو وہ بعد میں ہاتھ دھولے، یہ ہے آسان سا متبادل۔ نمازِ فجر کے متعلق ایک ساتھی فرما رہے تھے کہ ڈیفنس کے جس گھر میں بیس لوگ رہتے ہوں اس کو دس لوگوں کی جماعت سے روکا جارہا ہے۔ احقر نے عرض کیا: ابھی صبر فرمائیں ان ہی دانش کدوں سے اور سوالات پوچھے جانے ہیں نمازِ جنازہ کے بغیر تدفین، کفن کے بغیر پلاسٹک میں تدفین،یہاں تک کہ کورونا وائرس کی لاش کو نذرِ آتش کرنے کا مسئلہ، اﷲ رحم فرمائے!۔
مسجد مرکزِ تہذیب و معاشرت اور محلِ شفا
یہ مسئلہ ہر صاحبِ ایمان پر واضح ہے کہ کافرانہ اخلاقیات اور مومنانہ اخلاقیات میں کسی مرض کو سمجھنے، برتنے اور پرکھنے کے پیمانے مختلف ہیں۔ مثلاً ایک کافر کے نزدیک بیماری موت سے مشروط، علامت ِموت ہے۔ جبکہ ایک صاحبِ ایمان کے نزدیک مرض بھی خدا تعالیٰ کی مستقل مخلوق اور موت ایک دوسری مستقل مخلوق ہے اور دونوں اپنے خالق (یعنی امر خداوندی) کے تابع ہیں۔ ایک صاحبِ ایمان موت کو حادثہ نہیں امرِ ربی سمجھتا ہے، اور ایک کافر موت کو مرض سمجھنے کے سبب جینٹک انجینئرنگ (Genetic Engineering) کے لیے متحرک، مُردہ کو زندہ کرنے کا متمنی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ فکر و نظر کا یہ زاویہ مرض و موت کو برتنے کے متعلق دو متضاد رویوں کو تشکیل دیتا ہے۔ اسلام اسباب و اختیار سے صرفِ نظر نہیں کرتا بلکہ اسباب و اختیار ہی کی آزمائش پر فرد کو پرکھتا ہے، یوں کہ یہ فرد اسباب کی مادہ پرستی میں مبتلا ہوتا ہے یا اسباب و اختیار کو دنیا کے محدود وقت میں امانت سمجھتے ہوئے مادہ پرستی کے بجائے خدا پرستی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی خدا پرستی کی اجتماعی علامت، معاشرتِ اسلامی میں مساجد ہیں۔
اس علامت کی مرکزیت یہ ہے کہ مسلم معاشرے ’’مسجد مرکز‘‘ قرار پائے ہیں۔ ہر نظامِ ریاست و معاشرت اپنے عقیدے کے لیے قربانی دیتا ہے، مثلاً مغربی عقیدہ ’’ترقی‘‘ (Development) ہے۔ اس عقیدے سے جو ہوائی آلودگی پھیلتی ہے اس سے خود امریکہ میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ اور پوری دنیا میں ساٹھ لاکھ لوگ مرتے ہیں۔ تاہم مغرب اپنے اس عقیدہِ ترقی سے باز نہیں آتا بلکہ اسے مثالی تصور کرتا ہے۔ اسی طرح مساجد ملت ِاسلامیہ کا عقیدہ و شعار ہیں، جس پر شہادت تو دی جاسکتی ہے مفاہمت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ معاشرتِ اسلامی میں حیاتِ اجتماعی و بقائے ملت و بِنائے ملّت اسی پر قائم ہے۔ نیز ان حالات میں جب کورونا کے تناظر میں ریاست و سائنس جدید اخلاقیات کی تدوین کررہے ہیں، ایسے میں ملت ِاسلامیہ کا اعتقادی و اخلاقی بیانیہ مساجد کی معاشرتی ساخت و معنویت سے مملو ہے۔
مساجد کی فعالیت اور کورونا وائرس کا سماجی علاج کیوں اور کیسے؟
مسجد کی اعتقادی و معاشرتی ساخت ہی ذریعہ نجات ہے۔ وہ قوم جو استنجاء کرنا نہیں جانتی یا ٹشو پیپر کو استعمال کر کے احسانِ عظیم کرتی ہے، ان ہی مساجد کو انہیں دن میں پانچ بار وضو کرانا تھا۔ ان ہی مساجد کو انسانیت کو طبقاتی فساد و کشمکش سے بچانا تھا جو کورونا وائرس کے دنوں میں شدت سے جنم لے رہی ہے، کیونکہ امیر و غریب نہیں یہاں خدا کا گھر مورد اشتراک ہے۔ ان ہی مساجد میں اس غریب طبقے کے لیے دسترخوان لگنا تھا جس کی دہاڑی چھین لی گئی ہے۔ ان ہی مساجد
کو کورونا وائرس شاپنگ فیشن کے اس صارفانہ رویّے (Consumer behavior) پر روک لگانی تھی جہاں ایک امیر سارا مال اپنے قبضے میں لے کر چلتا بنتا ہے۔ ان ہی مساجد میں روحانی و جہادی ورزش کے ذریعے تندرست عوام میں اس وبا سے لڑنے کے لیے وہ جسمانی و ایمانی قوت پیدا کرنا تھی جو آج میڈیا کے سامنے بیٹھ کر ڈپریشن کے مریض بن رہے ہیں۔ ان ہی مساجد میں صحت مند افراد کو اجتماعی اعتکاف میں قیودات کے ساتھ بٹھانا تھا (حکومت نے شمالی علاقوں میں کچھ مساجد میں اہتمام بھی کیا ہے)۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے اس وقت پاکستانی ریاست نہیں بلکہ معاشرے کی مذہبی ساخت کامیاب و بھرپور مدافعت کررہی ہے، ملاحظہ فرمائیں The law of generosity combating corona virus in Pakistan BBC Report,1st April 2020 ان ہی مساجد سے اعلان ہونا تھا کہ کورونا مریض ریاست مخالف اچھوت نہیں بلکہ عام انسان ہے جس کی تیمار داری وارڈ بوائے سے پہلے بیٹے کا فرض ہے۔
ان ہی مساجد نے مشکل کی گھڑی میں خواہ زلزلہ ہو یا طوفان… خدمتِ خلق کے کام کیے ہیں، لیکن آج جب مساجد ہی کے دروازے حکومت نے بند کر دئیے ہیں تو کس منہ سے حکومتِ وقت مذہبی حلقوں کے کارکنان کو آواز دے رہی ہے؟ ان ہی مساجد کو تو ایک طرف نماز باجماعت کے طرزِ کُہن پر ڈٹ کر اور دوسری طرف شرع شریف کی بیان کردہ احتیاط میں توازن پیدا کرکے بتانا تھا کہ سنت کی رو سے احتیاط کا معتدل تصور کیا ہے، میڈیکل کونشیسنس (Medical consciousness) کے مارے نفسیاتی لوگوں کو بتانا تھا کہ غلو و احتیاط اور تشکیک و یقین میں کیا فرق ہے۔ ان ہی مساجد کو مسلم سماج میں اپنے اجتماعی تعاشر و اشتراک کے ذریعے وہ جسمانی قوت ِمدافعت بھی پیدا کرنی تھی جو صفائی سے نہیں اشتراک سے پیدا ہوتی ہے جس کو Herd Immunity کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جو مغربی اقوام میں نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے سبب کورونا سے کثرتِ اموات واقع ہورہی ہیں، اور اموات کا خاص شکار بھی وہ ممالک زیادہ ہیں جو over medicated societies قرار پائے ہیں، یعنی وہ معاشرے جہاں میڈیکل و صفائی کے معاملے میں غلو پایا جاتا ہے۔ اس سب سے بڑھ کر ان ہی مساجد کو تو یہ بتانا تھا کہ کورونا وائرس موت نہیں مرض ہے، اور مرض حاملِ شفاء تو موت حقیقت ہے۔
آج یہ موت تمہارے لیے حقیقت نہیں اور کورونا تمہارے لیے مرض نہیں بلکہ موت، اور موت تمہارے لیے ’’ہیبت ناک حادثہ‘‘ اس لیے قرار پایا ہے کہ تم نے اپنے رب کے پیغام سے کفران کیا ہے۔ تم کو خدا تعالیٰ نے اختیار و اسباب کی قدرت و امتحان میں ڈالا اور تم ان اسباب کی پرستش میں خالقِ اسباب سے ایسے غافل ہوئے کہ خود اسباب پر
غلبے کو اپنی زندگی کا سائنسی مطمح نظر قرار دیا۔ ایسے میں خالقِ اسباب نے ان ہی اسباب و قدرت کو منجمد کرتے ہوئے اپنا ’’موثر حقیقی‘‘ ہونا تم پر ظاہر کیا، جس کے بعد تمہاری ریاستیں، سرمایہ داری، گلوبلائزیشن، عالمی ادارے، میڈیکل سائنس، قومی افواج، ڈاکٹر، دانشور سب کے سب ’’عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی‘‘ کا مظہر اتم ہیں۔ محوِ تماشائے لبِ بام بھی کس مخلوق کے ہاتھ کون؟ وہ جو عصرِ جدید کے ابرہی ٹیکنالوجی کے ہاتھیوں پر سوار تھے لیکن خدا تعالیٰ کی ابابیلوں کے منکر تھے، آج نزلہ و زکام جیسی معمولی بیماری ان کے لیے کورونا بن کر تاریخ و مذہب کے تناظر میں ابابیلی علامت قرار پائی ہے، صالحین کے لیے آزمائش تو فساق کے لیے فقط عذاب!! بھلا یہ عذاب کیوں نہ ہو جب سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت… دونوں جڑواں بہنوں کا نام نہاد تصورِ علم و ترقی، فطرت سے ہم آہنگی نہیں بلکہ فطرت پر غلبہ اور اسے مسخ کرنے کو اپنا حتمی ہدف قرار دیتا ہے۔ ایسے میں خود مغربی محققین کے نزدیک سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت… دونوں کا یہی منحرفانہ عقیدہ فطرت، عالم کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ (Jared Diamond) تصریح کرتا ہے:
China`s leaders used to believe that humans can and should conquer Nature, that environmental damage was a problem affecting only capitalist societies, and that socialist societies were immune to it. Now, facing overwhelming signs of china’s own severe environmental problems, they know better.
(Collapse, Penguin Books America 373)
عقیدے کی جنگ اور سوشل ڈسٹینسنگ (Social Distancing) کا مفروضہ
یہاں پھر بعض قلتِ فہم کے حاملین احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ مسجد کے اجتماع میں مرض پھیلنے کا خطرہ ہے؟ تو اس کا تفصیلی جواب تو مذکورہ بالا سطور میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک کافر و مومن مرض کو اپنے اپنے اعتقادی منہج میں برتتا ہے، ہمارے نزدیک مسجد مرکزِ تہذیب و معاشرت اور محلِ شفا ہے۔ اس سے دوری کے کیا معنیٰ! عدالت، بینک نو گھنٹے کھلیں اور میڈیا ہاؤسز، منڈی، پورٹ، ہسپتال، آئل ریفائنری چوبیس گھنٹے… جبکہ مسجد پورے دن ڈھائی گھنٹے (ایک نماز / آدھا گھنٹہ) کے لیے کھلے تو تکلیف ہو، شعائرِ اسلامی سے یہ نفور کیوں؟! دراصل لبرل ازم ہمیشہ دینی طبقے سے دوسرا سوال پوچھتا ہے، مثلاً غیرت کے نام پر قتل کا سوال تو پوچھا جاتا ہے اور فحاشی پھیلانے کے متعلق یکسر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس لیے اصل اور پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان جو کلمہ گو ہونے کی داعی ہے وہاں دینِ اسلام کی جوہری علامت ’’مسجد‘‘
کو قومی ریاستی اداروں کی طرح ریاست اپنے وجود و حیات کے لیے ناگزیر سمجھتی ہے، یا اس کے نزدیک فرد کا مسجد و پارک جانا انفرادی فعل ہے، جس پر ریاست کی اجارہ داری ہے؟ اگر ریاست کلمہ گو ہونے کے دعوے کی دلیل میں مسجد کو’’مرکزی‘‘ تصور کرتی ہے تو پھر باقی اداروں کو کھول کر مسجد کو مقفل کرنا.. یہ منافقانہ تضاد ہے۔ اور اگر ریاست اس حقیقت کا اظہار کرتی ہے کہ میں ایک قومی ریاست ہونے کے سبب بینک،’ہسپتال (جہاں پہلے و دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کورونا وائرس پھیل رہا ہے)، میڈیا، عدالت اور دوسرے قومی اداروں کو کھلا رکھوں گی کہ میرے عقیدے کی رو سے، میری ریاستی حیات و ساخت کی نمو کے لیے ان اداروں کا وجود ناگزیر ہے چاہے اس چکر میں کتنے ہی لوگ مر جائیں! تو پھر ہم بھی ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسجد ہمارا عقیدہ، اجتماعی مرکز اور ظاہر و باطن کا محلِ شفا ہے جس کے لیے ہم احتیاط پر ’’بطریقِ سنت‘‘ عامل ہوتے ہوئے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں، آپ کو آپ کے عقیدے کی قربانی مبارک، ہمیں ہمارے عقیدہ کی، لکم دینکم ولی دین!! آج چیف جسٹس کی طرف سے’’عدالت‘‘ کے کھلے رہنے کی یہ توجیہ پیش کی گئی ہے کہ یہ قانونی کچہریاں عدل و انصاف کا مرکز ہیں، یہ نہ ہوں تو معاشرے عدل و اخلاقیات سے خالی ہو جائیں، ایسے میں عدل و اخلاقیات کے لیے ہر قربانی دی جاسکتی ہے! تو مؤدبانہ عرض ہے کہ معاشرتِ اسلامی میں عدالت کا محل برٹش کورٹس نہیں مساجد ہیں۔ ہمیں محترم چیف صاحب سے اتفاق ہے کہ اخلاقی صحت، جسمانی صحت سے ناگزیر ہے اور مسلمان تو جیتا ہی عقیدے اور اس سے برآمد ہونے والی اخلاقیات کے تحفظ کے لیے ہے۔ ایسے میں ایک لبرل کے لیے صبح نو سے شام چھے بجے تک کورٹس کا کھلے رہنا معقول فیصلہ ہے تو دس منٹ کی نماز باجماعت بھلا کیونکر ناقابلِ فہم ہے، بالخصوص جبکہ احتیاطی تدابیر کو مسجد کے منہج میں جس احسن طریقے سے برتا جاسکتا ہے ’’کچہری کلچر‘‘ اس کا متحمل ہی نہیں؟ نیز آج اور کل میں کتنے لوگوں کو میڈیا ہاؤسزا ور بینکوں میں کورونا وائرس ہوا، جواباً ریاست نے اپنے ان اعتقادی ستون (میڈیا، بینک وغیرہ) پر پابندی نہیں لگائی بلکہ ابھی وزیر اطلاعات صاحبہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کیمرہ مین کو ک’’کورونا کٹس‘‘ دیں گے۔
کیا جدید ریاست میں کیمرہ مین کا پیشہ، منصبِ امامت سے بڑھ کر ہے؟ اصل مسئلہ پھر عقیدے ہی کا ہےSocial Distancing!! سے ریاست کے اجتماعی نظام اور اعتقادی ستونوں کو استثنیٰ دینا اور ریاستی قانون کی رو سے انفرادی دائرہ کار کو انفرادی قرار دینے کے باوجود سوشل ڈسٹینسنگ کے قائم ہوتے ہوئے بھی سوشل ڈسٹینسنگ کے نام پر جبراً بند کرنا اور علماء ربانین کو پابندِ سلاسل کرنا، اپنے مذہبی لبادے کے ’’تاثر‘‘ کو لادینیت کی اصل برہنگی سے چاک کرنا ہے۔ Social Distancing کی فقہی رخصت سے بطور تدبیر اختلاف نہیں، لیکن اس تدبیر کو اعتقادی تقدیر بنا لینا کہ جہاں تھوڑا سا تساہل ہوا بندہ مارا جائے گا، محض ڈھکوسلا ہے۔ یورپ جس کی ساری معاشرتی ساخت ہی انفرادیت
پسندی کا شکار ہونے کے سبب سوشل ڈسٹینسنگ پر قائم ہے، پھر بھی وہاں کثرتِ اموات کا واقع ہونا، اس احتیاطی تدبیر کو تقدیر سمجھنے والوں کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے۔
خلاصہ کلام
مختصر یہ کہ مسلمان جینے کے لیے نہیں جیتا بلکہ عقیدے پر مرنے کے لیے جیتا ہے۔ مسجد ہمارے عقیدہ و معاشرت کا مسئلہ ہے۔ اس کو آباد کرنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر کو تو برتا جاسکتا ہے، لیکن اس اجتماعی علامت کو مقفل کرنا یا اس کے معاشرتی و اقداری کردار پر لبرل خطِ تنسیخ کھینچنا، یقیناً عقیدے کے باب میں معرکہ آرائی کا عنوان ہے اور رہے گا۔ مساجد مراکزِ ذکر ہی نہیں بلکہ ہماری دینی و معاشرتی زندگی کا حاصل یعنی ’’مساکن‘‘ ہیں جن سے ہماری’’’بقائے ملت‘‘ مشروط ہے۔ تہذیب و معاشرتِ اسلامی میں ان ’’مساکن‘‘ کی اساسی و مبادیاتی اہمیت اُنھیں ہی سمجھ آئے گی جن کے عقیدہ کا یہ حصہ ہو۔
امام اوزاعیؒ اسلافِ امت کا منہجِ ملت بیان فرماتے ہیں:
’’اصحابِ رسولؐ پانچ (اصولوں پر رضائے الٰہی و غلبہ اسلام کے لیے) قائم تھے: لزوم جماعت، اتباعِ سنت، مساجد کو اپنے مساکن بنانا، تلاوتِ قرآن مجید اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ (شرح اعتقاد ا?ہل السنۃ للالکائی، مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ: 49/1)۔
پس اصل مسئلہ کورونا یا سوشل ڈسٹینسنگ کا نہیں، مسجد کے تہذیبی و معاشرتی تفاعل کی نفی کا ہے، ورنہ خود WHO ’’اصل خطرے‘‘ کے بارے میں اعلان کرے کہ کرنسی و کرنسی مشین اور کرنسی مراکز اس وائرس کا اصل سبب ہیں۔ لیکن حکومت و نظام ’’خوف‘‘ مساجد کی بابت پھیلائیں اور ’’خطرے‘‘ کی بابت خوف نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی قائم ہو، تو یہ واضح منافقانہ تضاد ہے۔ اس لیے ’’خوف‘‘ سے ڈرانے کی ضرورت نہیں، ’’خطرے‘‘ سے خوف پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جبکہ وہ خطرہ خوف متصور ہو، نہ کہ عقیدہ، فتدبر!۔
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!
اے مسلماں! اپنے دل سے پُوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ
ہوگیا اﷲ کے بندوں سے کیوں خالی حرم