تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

جماعتِ احمدیہ اور شدت پسندی

منصوراصغرراجہ
جماعت ِاحمدیہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عقائد و نظریات میں بے حد متشدد واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر ہروہ شخص جماعتِ احمدیہ کے نزدیک لائقِ عتاب ہے جو اُس کے بانی کی خانہ ساز نبوت پر ایمان نہ لائے۔ قادیانیوں کے نزدیک ایسے شخص کی نماز جنازہ میں شرکت اور اس کے لیے دعائے مغفرت ہر گز جائز نہیں ہے ۔ شدت پسندی کے الزام میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر تو مفت میں بدنام ہیں ،وگرنہ جیسی شدت پسندی اور انتہاپسندی جماعتِ احمدیہ کے ہاں پائی جاتی ہے ،اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جماعت کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بانی جماعتِ احمدیہ مرزا قادیانی اُس شخص کا جنازہ پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے جو اُن کی خانہ ساز نبوت پر ایمان نہ لایا ہو اوراس سلسلے کی پہلی مثال انہوں نے اپنے گھر سے قائم کی تھی ۔
مرزا قادیانی کے اپنی پہلی بیوی حرمت بی بی دختر مرزا جمعیت بیگ سے دو بیٹے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد تھے ۔سیرت المہدی جدید میں نقل کی گئی روایت نمبرسینتیس( 37)کے مطابق بانی جماعتِ احمدیہ کی بسیار کوشش کے باوجود جب مرزا احمد بیگ کی بیٹی محمد ی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہو گئی اور سب قریبی رشتے داروں نے اس سلسلے میں مرزا احمد بیگ کا ساتھ دیا ، تو اس پرسیخ پا بانی جماعتِ احمدیہ نے اپنے دونوں بیٹوں کوالگ الگ خط لکھا کہ ان سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے ،اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں ۔لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو ۔اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کرنا ہو گا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمھارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا ۔میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں۔اس پر مرزا سلطان احمد نے تو باپ کو صاف جواب دے دیا۔دوسرے بیٹے مرزا فضل احمد پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور ان کی پوسٹنگ ملتان میں تھی۔وہ اپنے والد کے اتنے فرمانبردار تھے کہ انہوں نے جوابی خط میں انہیں لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے ، ان (محمدی بیگم کے والد کا ساتھ دینے والے رشتے داروں) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔(اس پر) حضرت صاحب نے مرزا فضل احمد کو جواب دیا کہ تو اپنی بیوی بنت مرزا علی شیر کو (جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی ) طلاق دے دو ۔مرزا فضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس ارسال کر دیا ۔(سیرت المہدی جدید ، جلد اول،حصہ اول ، صفحہ 26)
کتاب ’’ انوار العلوم ‘‘ مرزا بشیر الدین محمود کی تقاریر و کتب کا مجموعہ ہے ۔وہ اپنے سوتیلے بھائی مرزا فضل احمد کے متعلق بیان کرتے ہیں :
’’آپ( بانی جماعتِ احمدیہ ) کا ایک بیٹا (مرزا فضل احمد )فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا ۔جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے کہ آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میری فرمانبرداری میں ہی رہا ہے ۔ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدتِ مرض میں مجھے غش آ گیا ۔جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا ۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا ،حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی نہ ہوں گے ۔محمد ی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے،اسی طرح کریں۔لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا‘‘۔(انوارخلافت،انوارالعلوم ،جلد3، صفحہ 149)۔یہاں مرزا محمود کا یہ جملہ ’’ جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا ‘‘ محل نظر ہے ۔مرزا فضل احمد اور ان کی نماز جنازہ کے متعلق بیان کردہ قادیانی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا فضل احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کی بطور باپ تو بے حد عزت کرتے تھے لیکن بطور نبی ان پر ایمان نہیں لائے تھے ۔اگر ایسا ہوتا تو بانی جماعتِ احمدیہ ان کی نماز جنازہ میں ضرور شرکت کرتے۔اب ذرا مرزا فضل احمد کی نماز جنازہ کا احوال بھی ملاحظہ فرمائیے۔جماعت ِ احمدیہ کے سرکاری ترجمان ’’ الفضل ‘‘ بابت 22اپریل تا 2مئی 1941ء میں چھپنے والے ایک مضمون میں مرزا قادیانی کے منجھلے صاحبزادے مرزا بشیر احمد بیان کرتے ہیں :
’’مرز افضل احمد صاحب کے جنازے کے ساتھ سید ولایت شاہ صاحب موصوف بھی قادیان میں تھے ۔یہ معلوم نہیں کہ ساتھ گئے تھے یا پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے دفن کرنے اور جنازہ پڑھنے سے قبل حضرت مرزا غلام احمد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام )نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ باہر ٹہل رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو اس کی وفات سے حد درجہ تکلیف ہوئی ہے ۔اسی امر سے جرات پکڑ کر میں خو د حضور کے پاس گیا اور عرض کیا کہ حضور وہ آپ کا لڑکا تھا ۔بے شک اس نے حضور کو خوش نہیں کیا ،لیکن آخر آپ کا لڑکاتھا ،آپ معاف فرمائیں اور اس کا جنازہ پڑھیں۔اس پر حضرت صاحب نے فرمایا نہیں شاہ صاحب وہ میرا فرمانبردار تھا۔اس نے مجھے کبھی ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں کیا تھا۔اس لیے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھتا ،آپ جائیں اور پڑھیں۔شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس پر میں واپس آ گیا اور جنازہ میں شریک ہوا ۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس میں موجود مرزاقادیانی کے الفاظ ’’ اس نے مجھے کبھی ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں کیا ‘‘ سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ نجانے مرزا فضل احمد سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا جس کے سبب ان کا ربّ ان سے خفا ہو گیا ، اور اسی لیے ان کے والد تک نے بھی ان کی نماز جنازہ میں شرکت گوارا نہ کی ۔لیکن جماعتِ احمدیہ کے ترجمان اخبار ’’ الفضل ‘‘ کا بھلا ہو ،جس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ ’’حضرت مرزا صاحب نے اپنے بیٹے ( فضل احمد صاحب )مرحوم کا جنازہ محض اس لیے نہیں پڑھا کہ وہ غیر احمدی تھا ‘‘(الفضل ، قادیان ، 15دسمبر 1921ء )۔واضح رہے کہ مرزا فضل احمد کا انتقال 1904میں ہوا ۔
اس سلسلے میں دوسری بڑی مثال سر میاں فضل حسین کی ہے جو متحدہ پنجاب کے معروف سیاسی رہنما اور یونینسٹ پارٹی پنجاب کے بانیوں میں سے تھے ۔سر فضل حسین 1877ء میں پشاور میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد میاں حسین بخش ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے ۔انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔پنجاب میں تعلیم ، صحت اور بلدیات کے وزیر رہے ۔وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے رکن رہے ۔اگر زندگی وفا کرتی تو 1937ء کے صوبائی انتخابات کے بعد وہ متحدہ پنجاب کے پہلے وزیر اعظم بنتے ۔لیکن کاتبِ تقدیر نے یہ عہدہ سر سکندر حیات کے نصیب میں لکھ رکھا تھا ۔سر فضل حسین کا الیکشن سے کچھ ہی پہلے جولائی 1936میں انتقال ہو گیا ۔
جماعتِ احمدیہ کی سرکاری تاریخ ’’ تاریخ احمدیت ‘‘ کے مطابق بانی جماعتِ احمدیہ سے سر فضل حسین کی پہلی ملاقات 1908ء میں مرزا قادیانی کے آخری سفر لاہور کے دوران ہوئی ۔جماعتِ احمدیہ کے سرکاری مورخ مولوی دوست محمد شاہد قادیانی لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کے مشہور روشن خیال سیاسی لیڈر فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ( متوفی ۱۹۳۶)ایک دوسرے بیرسٹر کے ہمراہ ملاقات کے لیے ۱۵ مئی کو حاضر ہوئے ۔مسٹر فضل حسین صاحب نے متعدد سوالات کیے جن کا حضورؑ نے مفصل جواب دیا‘‘۔(تاریخ احمدیت، جلد دوم ،صفحہ 529،سنِ اشاعت 2007ء )
سر فضل حسین جماعتِ احمدیہ کے لیے کافی نرم گوشہ رکھتے تھے ۔1935ء میں وہ جب وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت سے فارغ ہوئے تو ان کی جگہ پر سر ظفراﷲ قادیانی کا تقرر ہوا ۔ظفر اﷲ قادیانی کو وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت سر فضل حسین کے طفیل ہی حاصل ہوئی تھی جس کی پوری تفصیل مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی آپ بیتی ’’ سرگزشت ‘‘ میں بیان کی ہے کہ سر فضل حسین نے ظفر اﷲ قادیانی کو وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنوانے کے لیے کیا کردار اد ا کیا تھا۔1936ء میں سر فضل حسین کے انتقال پر جماعتِ احمدیہ میں بھی اعلیٰ سطح پر سو گ منایا گیا ،اور ان کی ذاتی شخصی خوبیوں اور کامیابیوں کو بھی جماعت ِ احمدیہ کا فیضان قرار دینے کی سعی کی گئی ۔مرزا بشیر الدین محمود نے 10جولائی 1936ء کو خطبہ جمعہ کے موقع پر سر فضل حسین کی وفات کو الہیٰ نشان قرار دیتے ہوئے کہا :
’’موت تو سر میاں فضل حسین کی جولائی میں مقدر تھی اور پہلے عہدہ سے علیحدگی کے بعد ان کے لیے بظاہر کوئی چانس اور موقع ایسا نہ تھا جس میں وہ پھر کوئی عزت حاصل کرسکتے ۔مگر ان کے دشمنوں نے چونکہ انہیں ’’ مرزائیت نواز ‘‘ کہہ کہہ کر ذلیل کرنا چاہا ، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس اعتراض کی غیرت میں انہیں عزت دی اور عزت دینے کے بعد انہیں وفات دی ۔اس کے لیے خداتعالیٰ نے کتنے ہی غیر معمولی سامان پیدا کیے ۔چنانچہ پنجاب کے وزیر تعلیم سر فیروز خان نون کے انگلستان جانے کا بظاہر کوئی موقع نہ تھا ۔اور جن کو اندرونی حالات کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ آخری وقت تک سر فیروز خان صاحب نون کے ولایت جانے کے متعلق کوئی یقینی اطلاع نہ تھی ۔بعض اور لوگوں کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا اورولایتی گورنمنٹ بھی کوشش کر رہی تھی ۔اور اگر سر فیرو ز خان پنجاب میں ہی رہتے تو اب سر فضل حسین صاحب بغیر کسی عہدہ کے حاصل کرنے کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ۔لیکن اﷲ تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے اوپر کوئی اعتراض لیتا ہے ،ہم اسے بھی بغیر عزت دئیے فوت نہیں ہونے دیتے ۔پس غیر معمولی حالات میں سر فیروز خان صاحب نون ولایت گئے اور سر میاں فضل حسین صاحب وزیر تعلیم مقرر ہو گئے اور چند دنوں کے بعد ہی وفات پا گئے ۔میرے نزدیک یہ بھی خدائی حکمت اور خدائی مکر تھا جو دشمنوں کو یہ بتانے کے لیے اختیار کیا گیا کہ تم تو اس کے دشمن ہو اور چاہتے ہو کہ اسے ذلیل کرو ۔لیکن ہم اس کو بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے جو گو احمدی نہیں لیکن احمدیت کی وجہ سے وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بنا ہوا ہے ‘‘(تاریخ احمدیت ، جلد ہفتم، صفحہ نمبر 315،سنِ اشاعت 2007ء )۔
اس خطبے میں قابل غور بات یہ ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود نے بڑی عیاری سے سر میاں فضل حسین کی سیاسی کامیابیوں کا ذکر کرکے قادیانیت کی حقانیت ثابت کرنے کی سعی کی ہے لیکن سر فضل حسین کے لیے دعائے مغفرت کی زحمت نہیں کی کیونکہ انہوں نے اپنے خطبہ میں خود ہی بتا دیا کہ سر فضل حسین مرزائیوں کے لیے نرم گوشہ ضرور رکھتے تھے لیکن بذات خود قادیانی نہیں تھے، اور غیر قادیانی کی نماز جنازہ میں شرکت تو درکنار ، جماعت ِ احمدیہ ایسے شخص کے لیے دعائے مغفرت کو بھی جائز نہیں سمجھتی ۔یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر تمام تر احسانات کے باوجود قادیانیوں نے سر میاں فضل حسین کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی ۔
سر فضل حسین کو بٹالہ ( مشرقی پنجاب ) میں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا ۔پروفیسر الیاس برنی ؒ اپنی کتاب’’ قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ ‘‘ کے پہلے حصے کی دسویں فصل بعنوان ’’ قادیانی صاحبان اور مسلمانانِ دین و ملت ‘‘ میں سر فضل حسین کی نماز جنازہ کے سلسلے میں پھلواری شریف کے مقامی اخبار ’’ نقیب ‘‘ کا حوالہ لائے ہیں جو اس سلسلے میں لکھتا ہے :
’’عام مسلمانوں اور اسلامی اخبارات کی رائے ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ ان کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس دعویٰ کا تازہ ثبوت خود قادیانیوں نے بھی بہم پہنچا دیا۔سر فضل حسین کا انتقال ہوا جو قادیانیوں کے محسنِ اعظم تھے ۔جن کی بدولت سر ظفر اﷲ خاں قادیانی وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہوئے اور قادیانیوں کو ان کی ذات سے فوائدِ عظیمہ حاصل ہوئے ۔لیکن ان قادیانیوں کی محسن کشی اور شقاوت کا یہ حال ہے کہ مرحوم سر فضل حسین کی نماز جنازہ میں انہوں نے شرکت نہیں کی اور جنازہ کے ساتھ جو غیر مسلم ہندو ،سکھ ،عیسائی شریک تھے ، نمازجنازہ کے وقت قادیانی بھی ان کے ساتھ مسلمانوں سے علیحدہ جا کھڑے ہوئے ۔اس سے معلوم ہو گیا کہ قادیانیوں کی جگہ مسلمانوں میں نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں میں ہے ‘‘( نقیب ، پھلواری شریف ، 25جولائی 1936ء )۔
اس سلسلے میں تیسری بڑی مثال بانی ِ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کی ہے ،جن کے جنازے کا یہ قصہ زبان زد خاص و عام ہے کہ بابائے قوم کے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خاں قادیانی موقع پر موجود ہونے کے باوجود اُن کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔عبدالستار عاصم نے اپنی کتاب’’ انسائیکلوپیڈیا جہانِ قائد ‘‘ میں لکھا ہے کہ چودھری ظفر اﷲ خان پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے ،جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی اور غیر مسلم سفیروں کے ساتھ جنازہ کے وقت گراؤنڈ کے ایک طرف بیٹھے رہے ۔جب ان سے مولانا اسحاق مانسہروی نے دریافت کیا :
’’ جنازہ کے موقع پر موجود ہوتے ہوئے بھی آپ نے جنازہ میں شرکت کیوں نہیں کی ؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا :
’’مولانا! آپ مجھے مسلمان حکومت کا ایک کافر ملازم یا ایک کافر حکومت کا مسلمان ملاز م خیال کر لیں‘‘۔(صفحہ:1360)
اسی سلسلے میں معروف قانون دان اور کالم نویس جناب آصف بھلی لکھتے ہیں:
’’ میں نے نوائے وقت کے دفتر میں آویزاں تصاویر میں ایک تصویر دیکھی ہے جس میں قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ ہو رہی ہے اور ان کے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ قادیانی جوتوں سمیت زمین پر تشریف فرما نظر آتے ہیں۔
(نوائے وقت،13دسمبر 2012ء )۔
اس سلسلے میں چوتھی مثال برصغیر کے معروف اخبار نویس مولانا عبدالمجید سالک کی ہے۔ سالک مرحوم کے خاندان کے کئی افراد قادیانی تھے ۔اپنے والد کے بارے میں وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں :
’’ والد منشی غلام قادر کا انتقال 5جولائی 1936ء کو ہوا ۔چونکہ والد صاحب احمدی عقائد رکھتے تھے ،اس لیے احمدیوں کی فرمائش پر پٹھان کوٹ سے ایک میل دور موضع دولت پور میں دفن کیے گئے جہاں احمدیوں کا اپنا قبرستان تھا‘‘
(سرگزشت :317)
جماعت ِ احمدیہ اور اس کے تیسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود سے سالک مرحوم کے بڑے خوشگوار تعلقات تھے ۔انہوں نے اپنی ’’ سرگزشت ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ 1931ء میں جب وادی کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے اخبار روزنامہ انقلاب نے بھی ڈوگر ہ راج کے نظام کے خلاف مضامین چھاپنے شروع کیے ،جس پر انگریز سرکار نے’’ انقلاب ‘‘ سے پانچ ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی ۔اس پر جہاں کئی زعمائے ملت نے ’’ انقلاب ‘‘ سے یکجہتی کا اظہار کیا ،وہیں پشاور سے صاحبزادہ عبدالقیوم ، بھوپال سے شعیب قریشی اور قادیان سے مرزا بشیر الدین محمود نے سالک مرحو م کو تار بھیجا کہ سرکار کی طرف سے طلب کردہ پانچ ہزار روپے کی پوری ضمانت وہ یکمشت داخل کردینے کو تیار ہیں لیکن ’’ انقلاب ‘‘ بند نہیں ہونا چاہئے ۔مرزا محمود سے ان خوشگوار تعلقات کا ہی نتیجہ تھا کہ سالک مرحوم مجلس احرار ہند اور روزنامہ زمیندار کی بھی اپنے قلم کے ذریعے گاہے گاہے خبر لیتے رہتے تھے ،اور ’’انقلاب ‘‘ میں چھپنے والی ایسی تحریروں کو ’’الفضل ‘‘ اپنے صفحات پر خاص جگہ دیا کرتاتھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب حکیم الامت حضرت اقبالؒ کی تحریک پر مرزا بشیر الدین محمود کی کشمیر کمیٹی سے چھٹی کرائی گئی تو اس موقع پر علامہ صاحب کے بجائے عبدالمجید سالک مرزا محمود کے ساتھ کھڑے ہوئے ، جس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی میں یوں کیا ہے :
’’میں بیان کر چکا ہوں کہ جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلاضرورت ہنگامہ آرائی شروع کی اور کشمیر کی تحریک میں متخالف عناصر کی ہم مقصدی وہمکاری کی وجہ سے جو قوت پیدا ہوئی تھی ،اس میں رخنے پڑ گئے ،تو مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور ڈاکٹر اقبال اس کے صدر مقرر ہوئے ۔کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لیے شروع کی کہ وہ احمدی ہیں ۔یہ صورتحال مقاصدِ کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دہ تھی ۔چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس میں سالک ، مہرؔ ( مولانا غلام رسول مہر )، سید حبیب ( مدیر سیاست )، منشی محمد دین فوق (مشہور کشمیری مورخ ) ، مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی و غیر احمدی رفقا سب شامل تھے ۔ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مبادا کشمیر کمیٹی آگے چل کر احرار کی ایک شاخ بن جائے اور وہ متانت و سنجیدگی رفوچکر ہو جائے جس سے ہم اب تک کشمیر میں کام لیتے رہے ہیں ‘‘ (سرگزشت :277)۔اس ایسوسی ایشن کے قیام کا تذکرہ ’’ تاریخ احمدیت ‘‘ کی پانچویں جلد میں بھی کیا گیا ہے ۔
عبدالمجید سالک پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے بانی جماعتِ احمدیہ مرزا قادیانی کی شخصیت سازی کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے ۔شورش کاشمیریؒ کے بقول سالک صاحب کا یہ رویہ اکثر معمہ رہا کہ وہ مختلف اکابر کے تذکرے میں مرزا قادیانی کو ضرور لاتے رہے ،جس سے مرزا قادیانی کی صفائی یا بڑائی مقصود ہو ،حالانکہ ان کے سوانح و افکار میں مرزا قادیانی کا ذکر انمل بے جوڑ ہے (احتسابِ قادیانیت ،جلد: 27، صفحہ: 55)۔اس سلسلے میں ان کی کتابوں ’’ ذکر ِ اقبال ‘‘ اور ’’ یارانِ کہن ‘‘ کے اولین ایڈیشن میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے خاکے کی مثال دی جاتی ہے ۔لیکن فریقین میں اس قدر گہرے اور خوشگوار تعلقات کے باوجود جماعتِ احمدیہ نے غیر قادیانی سالک ؔ کے بارے میں اپنا عقیدہ نہیں بدلا ۔عبدالمجیدسالک کا انتقال 27ستمبر 1959ء کو لاہور میں ہوا اور انہیں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔شورش کاشمیر یؒ ان کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں:
’’ سالک صاحب کے چھوٹے بھائی آج تک قادیانی ہیں۔ مولانا کے انتقال پر ان کے سگے چھوٹے بھائی نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا تھا ۔اور یہ تماشا مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں راقم الحروف نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے ‘‘( ہفت روزہ چٹان ، 3جولائی 1967ء ، احتسابِ قادیانیت ، جلد: 27، صفحہ: 55)
اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی نماز جنازہ کے سلسلے میں جماعتِ احمدیہ کا یہ شدت پسندانہ رویہ صرف قیادت کی سطح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عام قادیانی بھی اس عقیدے کی پاسداری کرتا ہے ۔انجمن احمدیہ منٹگمری ( ساہیوال ) کے سیکرٹری نیاز احمد ’’ الفضل ‘‘ بابت 20اپریل 1915ء میں لکھتے ہیں :
’’ میں نے اپنی ہمشیرہ سے کہا کہ مسلمان بن جاؤ خلیفہ ثانی ( مرزا محمود ) کے ہاتھ پر ۔ورنہ میں توجنازہ بھی نہیں پڑھوں گا ۔تب اسے فکر پیدا ہوئی ،وہ سمجھانے پر سمجھ گئی اور اب وہ حضرت مرزا صاحب کو اس زمانے کا نبی اور رسول مانتی ہے اور بیعت کی درخواست کرتی ہے ‘‘۔
اسی طرح ’’ الفضل ‘‘ بابت 6اکتوبر 1917ء میں ایک قادیانی کا مراسلہ شائع ہوا جس میں رئیسِ بٹالہ فضل حق قادیانی کے مسلمان والد کے جنازے کا احوال بیان کیا گیا ۔ذرا مراسلہ ملاحظہ فرمائیے :
’’مجھے قادیان کی طرف آتے ہوئے چند دن بٹالہ میں بھائی فضل حق خاں صاحب رئیس بٹالہ کے ہاں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا ۔اتفاقاً ان ہی دنوں ان کے والد جو غیر احمدی تھے ، اسہال کبدی سے بیمار ہو کر فوت ہوگئے ۔بھائی فضل حق خاں صاحب نے احمدی احباب کو ایسے موقع پر نہ بلایا ۔تاہم ہم چار پانچ آدمی جنازہ کے موقع پر موجود تھے ،اور تنہا ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔غیر احمدیوں کی اچھی خاصی تعداد جنازے کے لیے جمع ہو گئی تھی ۔اس مجمع میں سے بھائی فضل حق خاں صاحب کے چچا جو اُن کے خسر بھی تھے ، ان کے پاس آئے اور جنازہ پڑھنے کے لیے کہا ۔مگر انہوں نے صاف انکار کیا ۔پھر چند اور اشخاص آئے ۔انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ جنازہ نہ پڑھیں ، علیحدہ ہی پڑھ لیں۔اس پر انہوں (فضل حق خاں) نے جواب دیا کہ میں امام الوقت کے احکام کو بجا لاؤں گا اور جنازہ نہیں پڑھوں گا ۔میں نے ان کی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا کہ اگر آپ احمدی نہ ہو ں گے تو آپ کا جنازہ ہم میں سے تو کوئی بھی نہیں پڑھے گا ۔پھر فاتحہ خوانی کی رسم کو آپ نے بالکل ادا نہیں کیا ،بلکہ جو آیا اسے متانت سے سمجھاتے ہوئے منع کردیا ۔میں امید کرتا ہوں کہ اس قابلِ رشک نمونہ پر ہر ایک احمدی دوست عمل کرکے ثواب دارین حاصل کرے گا ‘‘۔
اسی طرح ’’ الفضل ‘‘ بابت 20اپریل 1915ء قادیانی قوم کے ایک ’’ غیور فرزند ‘‘ کے بارے میں بڑے فخر سے لکھتا ہے :
’’ تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان) میں ایک لڑکا پڑھتا ہے ، چراغ الدین نام ، حال ہی میں جب وہ اپنے وطن سیالکوٹ گیا تو اس کی والدہ صاحبہ فوت ہو گئیں ۔متوفیہ کو اپنے نوجوان بچے سے بہت محبت تھی ، مگر سلسلے میں داخل نہ تھیں ۔اس لیے عزیز چراغ الدین نے ( باوجودیکہ اس کی آنکھیں اشکبار تھیں اور دل غمگین اور تن تنہا غیر احمدیوں میں گھرا ہوا ) اس کا جنازہ نہ پڑھا ۔اپنے اصول اور مذہب پر قائم رہا ۔شاباش اے تعلیم الاسلام کے غیور فرزند کہ( قادیانی) قوم کو اس وقت تجھ سے غیور بچوں کی ضرورت ہے ۔زندہ باش ‘‘۔
سوا ل یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ آقائے کریم ؐ کی ختم نبوت پرایمان رکھنے والے مسلمانوں سے اتنا بغض کیوں رکھتی ہے کہ ایک قادیانی کسی مسلمان کے جنازے تک میں شرکت گوارا نہیں کرتا خواہ وہ اس کا باپ ، ماں ، بھائی یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو ۔اگر ہم بانی جماعتِ احمدیہ اور ان کے جانشینوں کے فرمودات پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ مرزا قادیانی کی جعلی نبوت کو نہ ماننے والوں کو سرے سے مسلمان ہی تسلیم ہی نہیں کرتے ۔اس بارے میں مرزا قادیانی کا کہنا ہے :
’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا ، وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے ‘‘(تذکرہ:607)
دوسری جگہ پر لکھتے ہیں :
’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا اور تیرا مخالف رہے گا ،وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے ‘‘(تذکرہ : 336) ۔واضح رہے کہ کتاب ’’ تذکرہ ‘‘ مرزا قادیانی کے الہامات کا مجموعہ ہے اور قادیانی اسے( نعوذ باﷲ )قرآن مجید کا درجہ دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کے جانشین مرزا بشیر الدین محمود کا بھی یہی کہنا ہے :
’’جو مسلمان حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا ، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ‘‘(آئینہ صداقت ، انوار العلوم ، جلد : 6، صفحہ: 110)
اسی سلسلے میں ’’ الفضل ‘‘ بابت 6مئی 1915ء لکھتا ہے :
’’ اگر یہ کہا جائے کہ کسی ایسی جگہ جہاں تک تبلیغ نہیں پہنچی ،کوئی مرا ہوا ہو اور اس کے مر چکنے کے بعد وہاں کوئی احمدی پہنچے تو وہ جنازہ کے متعلق کیا کرے ۔اس کے متعلق یہ ہے کہ ہم تو ظاہر پر ہی نظر رکھتے ہیں ،چونکہ وہ ایسی حالت میں مرا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی اور رسول کی پہچان اسے نصیب نہیں ہوئی ،اس لیے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے ‘‘۔
’’الفضل ‘‘ ہی میں کسی نے یہ سوال پوچھا کہ کیا کسی شخص کی وفات پر جو سلسلہ احمدیہ میں داخل نہ ہو ، یہ کہنا جائز ہے کہ خدا مرحوم کو جنت نصیب کرے۔اس کے جواب میں لکھا گیا :
’’غیر احمدیوں کا کفر بینات سے ثابت ہے اور کفار کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں ‘‘۔(الفضل ، 7فروری 1921ء )
اس پوری بحث میں ان غیر قادیانی سیاسی و غیر سیاسی اور ادبی و صحافتی عناصر کے لیے بڑا سبق پنہاں ہے جو قادیانیوں کی وکالت کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔وہ یہ بات لکھ رکھیں کہ ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد جماعتِ احمدیہ ان کی قبر پر تھوکے گی بھی نہیں۔تو پھر اس گناہ ِ بے لذت کا کیا فائدہ ؟۔۔۔سر فضل حسین اور سالک مرحوم کی مثالیں ان ہی کے لیے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ دیگر اقلیتوں اور قادیانیوں میں سب سے بڑا فرق یہی ہے ۔قادیانی آقائے کریمؐ کا کلمہ پڑھنے والوں کو ہی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں گویا بت ہم کو کہیں کافر ۔۔۔علاوہ ازیں قادیانی آج بھی خود کوغیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ’’ احمدی مسلمان ‘‘کہلواتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف اس قدر متشددانہ خیالات و عقائد اور رویے کے بعد بھی دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے مسلمانوں کی صفوں میں گھسنا اور خود کو مسلمان کہلوانے پر اصرار ہر گز قرینِ انصاف نہیں ہے ۔اگر اپنی الگ ’’ نبوت‘‘ اور الگ ’’امت‘‘ تراشی ہی ہے تو پھر جماعت ِ احمدیہ کو اپنی یہ الگ شناخت برقراربھی رکھنی چاہئے ۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.