مولانا زاہد الراشدی
یہ ہمارے معاشرتی مزاج اور روایات کا حصہ ہے کہ گھر کے آٹھ دس افراد میں سے جو’’کاما‘‘ ہوتا ہے اسے ہی گھر کے تمام کاموں کا ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ گھر کا جوفرد خود محنت اور مشقت کا عادی بن کر مختلف کاموں کو نمٹانا شروع کردیتا ہے گھر کے دوسرے افراد سارے کام اسی کے کھاتے میں ڈال کر خود کو ہر کام سے فارغ سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اس غریب کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کوئی کام سرانجام دینے کا کریڈٹ تو کبھی نہیں ملتا، البتہ جو کام نہیں ہو پاتا اس کا الزام یہ دیکھے بغیر اس ’’کامے‘‘ پر لگادیا جاتا ہے کہ یہ اس کے کرنے کا تھا بھی یا نہیں، اور اس کام کے لیے اس کے پاس وقت بھی تھا یا نہیں۔ حتیٰ کہ اسے اپنے اس بھائی کی خشمگیں نگاہوں کا سا منا بھی کرنا پڑ جاتا ہے جو سارا دن لمبی تان کر سویا رہتا ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو اس ٹوہ میں لگ جاتا ہے کہ’’کامے‘‘ بھائی کی کوئی کوتا ہی سامنے آئے تو اس کے لتے لینے کا موقع ہاتھ آئے۔
یہی حال بے چارے ’’ملا‘‘ کا ہے جو اس جرم میں امت مسلمہ کی ہرنا کامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس نے معاشرتی تقسیم کا ر میں اپنے حصے کی ڈیوٹی ادا کرنے میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی اور جو کام اس کے ذمے تھا وہ اس نے ہر مصیبت برداشت کرکے اور ہر رکاوٹ عبور کرکے بہر حال پورا کردیا ہے۔ ا س ستم ظریفی کا صحیح طور پر اندازہ کرنے کے لیے ذرا اس فہرست پر نظر ڈال لیجئے جو ملا کی ناکامیوں کے نام پر بار بار دہرائی جارہی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست بھی سوچے سمجھے بغیر اسی کاتکرار کیے چلے جارہے ہیں کہ
امت مسلمہ سائنسی ترقی میں باقی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، اس کا ذمہ دار ملا ہے۔
امت مسلمہ اپنے معاشی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکی اور ان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں رکھ سکی ، اس کی ذمہ داری ملا پر عائد ہوتی ہے۔
امت مسلمہ اپنے دفاع اور عسکری صلاحیت میں دوسری اقوام کے ہم پلہ نہیں ہے، یہ بھی ملا کا قصور ہے۔
امت مسلمہ کو آج کی ٹیکنالوجی پر گرفت حاصل نہیں ہے، یہ کوتاہی بھی ملا کے کھاتے میں ہے۔
امت مسلمہ اپنی سیاسی وحدت ومرکزیت قائم نہیں رکھ سکی اور انتشار وانار کی کا شکار ہوگئی ہے، یہ بھی ملا کی نا اہلی کا نتیجہ ہے۔
غرضیکہ امت مسلمہ کی ہرنا کامی اور کوتا ہی ملا کے کھاتے میں ہے گویا کہ امت میں اسی ایک طبقے کا وجود باقی رہ گیا تھا اور باقی کسی کے ذمے کوئی کام نہیں تھا۔
ملاپر ’’چاند ماری‘‘ کی مشق کرنے والے ان دانشوروں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ آمریت اور ملائیت کا باہمی تعلق اور رشتہ استوار ہوگیا تھا، اس لیے امت کی ساری خرابیاں ان کے نزدیک اسی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن تاریخ میں شاید یہ بات ان کی نظر سے نہیں گزری کہ امت مسلمہ میں ملائیت کے چار میں سے تین بڑے نمائندوں یعنی ائمہ اربعہ میں سے تین امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ وہ ہیں جنہوں نے آمریت سے براہ راست ٹکرلی ہے اور اپنی پشتوں پر آمروں کے کوڑے کھائے ہیں۔ حتیٰ کہ سب سے بڑے امام کو تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اور پھر آمریت اور مطلق العنانی سے ہر دور میں ٹکرانے والے ملاؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام ابو حنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور امام مالکؒ کی سنت کو ہردور میں زندہ رکھا ہے۔
اس مختصر مضمون میں اس فہرست کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے البتہ حوالہ کے لیے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ضخیم کتاب ‘‘تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ کا مطالعہ کرنے کی سب دوستوں کو دعوت دوں گا جوکئی جلدوں میں ہے اور اس میں چودہ سو سال کے ان ملاؤں کا تاریخ کے حوالے کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے جنہو ں نے آمریت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی بجائے اسے للکارا اور قربانی وایثار کے ہر مرحلے سے باوقار طور پر گزر گئے۔ خود ہمارے برصغیر میں اکبر بادشاہ کی آمریت والحاد کو مسترد کرنے والے مجد دالف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒبھی ملاتھے اور فرنگی اقتدار سے ٹکرا کر کالا پانی کا جزیرہ آباد کرنے والے اور درختوں کی ٹہنیوں پر ہزاروں کی تعداد میں سو لیاں پانے والے مولوی بھی اسی ملائیت کا حصہ تھے جسے آمریت کا ساتھی قرار دے کرامت کی ہرنا کامی اور رسوائی کو اس کے حساب میں لکھا جا رہا ہے۔
امت کی ہر خرابی کو ملا کے نام لکھنے والے ان دانشوروں سے ایک سوال کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پہلے اس کا پس منظر دیکھ لیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے ہمارے جدید پڑھے لکھے اور دانشور کہلانے والے حضرات نے خود یہ کہہ کر ملا کو پیچھے دھکیل دیا تھا کہ معاشرے کی اجتماعی قیادت اس کا کام نہیں ہے۔ بس وہ آرام سے گھر بیٹھے جبکہ یہ کام اب ہم کریں گے۔ چنانچہ ملانے اپنے بھائیوں کی یہ بات مانتے ہوئے ان کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر اپنے ذمے یہ کام لے لیا تھا کہ امت کے اجتماعی کام آپ سنبھالیں، ہم قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم کو باقی رکھنے اور امت کی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ اور پھر یہ ڈیوٹی اپنے ذمے لے کر ملانے ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے خود کو مسجد ومدرسہ تک محدود کر لیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ وہ برٹش حکمرانوں کے خلاف غم وغصہ اور نفرت کے اظہار کے حق سے کبھی دستبر دار نہیں ہو ا اور جب موقع ملا اس پر ضرب لگانے سے بھی گریز نہیں کی۔ مگر اس طبقہ نے اپنے ذمہ بنیادی کام یہ رکھا کہ قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ علوم کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں اگلی نسلوں تک منتقل کردے۔
دوسری طرف جدید علوم اور معاشرتی امور میں امت کی رہنمائی کاکام ایک نئے طبقے نے سنبھال لیا تھا۔ یہ تقسیم کار ملانے نہیں کی تھی بلکہ اس کے سر تھوپی گئی تھی جسے اس نے قبول کرکے اپنے حصے کاکام سنبھالا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج اگر اس تقسیم کار میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حصے کاکام سرانجام نہیں دے سکا اور گزشتہ ڈیڑھ سوبرس میں مغربی آقاؤں کی ناز برداری اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کوئی کام نہیں کر پایا تو اپنی اس ناکامی کا طوق ملا کے گلے میں کیوں ڈال رہا ہے؟ ملانے تو اپنا کام کردکھا یا ہے کہ آج قرآن وسنت کے علوم اور اسلامی روایات واقدار کے پرچار کے حوالے سے جنوبی ایشیا کایہ خطہ دنیائے اسلام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن چونکہ سائنس وٹیکنالوجی، معیشت، سیاست اور معاشرتی قیادت 1857ء کے بعد ’’مسٹر‘‘ نے اپنے ہاتھ میں لی تھی اس لیے ان شعبوں میں ناکامی کا ذمہ دار بھی مسٹر ہی ہے۔ اور اگر وہ ملا کو طعنہ دے کر اپنی ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ تاریخ کی کسوٹی بالا خر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیتی ہے اور شاید اس کا وقت بھی اب زیادہ دور نہیں رہا۔