عبداللطیف خالد چیمہ
1990ء میں نیشنل مینارٹیز کمیشن کی باز گشت سامنے آئی جو 2013 ء میں پشاور چرچ حملے پر دوبارہ سنی گئی۔ لیکن اس کو باضابطہ طور پر اب 2020 ء میں میچور کیا گیا ہے اور اس میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے ۔اس کمیشن کی آئینی وقانونی حیثیت کی لمبی تفصیل سے قطع نظر 29 اپریل 2020 ء بدھ کو الیکٹرانک میڈیا پر جب یہ خبر آئی کہ اس کمیشن میں قادیانی نمائندگی کے لیے سرکاری سطح پر فیصلہ کرلیا گیا ہے تو پورے ملک کی فضا مکدر ہوگئی۔ اس لیے کہ لاہوری وقادیانی مرزائی تو اپنی آئینی و دستوری حیثیت کو نہ صرف ماننے سے انکاری ہیں بلکہ وہ ملکی وعالمی سطح پر قرار داد اقلیت والی ترمیم کو مسلسل چیلنج کررہے ہیں ۔92 میڈیا گروپ نے خاص طور پر ڈاکو منٹس کے ساتھ اس کونشر کیا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وفاقی کابینہ نے قادیانیوں کو اس کمیشن میں بطور اقلیت شامل کرنے کا فیصلہ کیا تاہم وفاقی وزیر مذہبی امور پیر انوار الحق قادری اولاََ اس کی تردیدکرتے رہے اور بعد میں اپنے بیان کو درست فرمالیا۔ بعد ازاں وزارت مذہبی امور نے وفاقی کابینہ کو ایک سمر ی ارسال کی جس میں قادیانیوں کو شامل نہ کرنے کی بابت کہا گیا تھا۔ وفاقی کابینہ نے قومی اقلیتی کمیشن کی منظوری بھی دی اور قادیانی نمائندگی نہ دینے کی بابت طے پاگیا۔ 5 ؍مئی 2020 ء منگل کو مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ’’ قادیانی نہ آئین پاکستان کو مانتے ہیں نہ اپنے آپ کو اقلیت مانتے ہیں، ان کو کسی بھی صورت اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا جاسکتا ‘‘ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو ٹوک مو ٔقف اختیار کیا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ہمیں تحفظ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کبھی حج فارم میں تبدیلی کر دی جاتی ہے ، کبھی کتب کے اندر سے خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کا لفظ نکال دیا جاتا ہے۔ آج تک ان سازشیوں کو کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی۔ اگر قادیانیوں کا سربراہ خود لکھ کر بھیج دے کہ ہم پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں اور خود کوغیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں ان کے اقلیتی کمیشن میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ کمیشن میں ہندو ، سکھ ، مسیحی اور دیگر بیٹھے ہیں ،ہم نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا۔کیوں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے ۔ادھر (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے کہاکہ ’’ قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل نہ کیا جائے، کیونکہ یہ غیر آئینی اقدام ہوگا ، انہوں نے کہا کہ اس ایشو پر ہم سے بطور اتحادی جماعت کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ‘‘۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ پر قومی سطح پر اتفاق رائے پایا گیا اور تمام دینی جماعتوں نے ایک ہی مؤقف اختیار کیا اور اﷲ نے کامیابی سے ہمکنار فرمایا ،بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہداء فاؤ نڈیشن کے حافظ احتشام کی جانب سے طارق اسد ایڈووکیٹ نے ایک پٹیشن دائر کی جو اس اجماعی مؤقف کے خلاف ہے ۔ یہ لوگ نامعلوم قوتوں کے اشاروں پر دین ووطن دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ عدالت نے 4 ۔ جون 2020 ء کو فریقین کو طلب کیا ہے اور کئی سوالات بھی اُٹھائے ہیں۔ان شاء اﷲ تعالیٰ اس محاذ پر بھی ہم آئینی و قانونی جنگ جیتیں گے۔ اس بابت قانونی ماہرین سے مشورہ جاری ہے ۔ اسی اثناء میں مسلم لیگ (ق) کے صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر نے 12 ۔مئی 2020 ء منگل کوپنجاب اسمبلی میں تحفظ ناموس رسالت ،تحفظ ناموس صحابہ و اہل بیت اطہار اور امہات المومنین رضی اﷲ عنہم کے عنوان سے قرار داد پیش کی جس کو پورے کے پورے ایوان نے متفقہ طور پر منطور کر لیا، جس ایمانی جذبے اورجرأت رندانہ کے ساتھ حافظ عمار یاسر نے کھل کر اس پر بات کی اس پر بجا طور پر وہ تحسین کے لائق ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں (آمین )ارکان صوبائی اسمبلی مولانا محمد الیاس چنیوٹی ،مولانا معاویہ اعظم نے بھی بھر پور تائیدی گفتگو کی ،اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی نے اپنی روایت کے مطابق مکمل تائید کی ،بعد ازاں مجلس احراراسلام پاکستان کے نائب امیر جناب سید محمد کفیل بخاری نے جناب چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کرکے ضروری امور پر گفتگو کی،12؍ مئی 2020 ء کو قادیانی جماعت کے ترجمان سلیم الدین نے ان حالات میں ایک بار پھر اپنے مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’’ ہم لوگ اپنے آپ کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے ۔آئین پاکستان کی وہ شق جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔کے بعدکسی قسم کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ سیدھاسادا بغاوت کا کیس ہے اور ایف آئی اے کوبھی ا س کا نوٹس لینا چاہیے ہم مکمل طور پر آئینی ودستوری جدوجہدپر یقین رکھتے ہیں اور قانونی طور پر ا س بات پر بھی مشاورت جاری ہے کہ سینٹ کے چیئرمین کے لیے بھی مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔کیونکہ صدر پاکستان کی ملک سے عدم موجودگی کی صورت میں سینٹ کا چیئرمین صدر مملکت ہوتا ہے۔ ان سارے امور کے لیے مجلس احرار اسلام پنجاب کے سیکر ٹری جنرل مولانا تنویر الحسن احرار، سید محمد کفیل بخاری اور راقم الحروف کی نگرانی میں کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پا کستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی اور دیگر کئی بڑے حضرات سے رہنمائی اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
تمام مسلمانوں ،احرار دوستوں اور قارئین سے درخواست ہے کہ وہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ یہی راستہ دنیا و آخر ت کی کامیابی کا ہے ۔اﷲ تعالیٰ آپ اور ہم سب کا حامی وناصر ہو ، آمین یارب العالمین!