تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

کرونا لاک ڈاؤن، پابندیوں کی پامالی اور نشانہ مذہب

سید محمد کفیل بخاری
تین ماہ سے پوری قوم حبس بے جا کے جس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہے ۔اشرافیہ کو اس کا اندازہ نہیں۔ سونے کا چمچہ منہ میں رکھ کر، اقتدار کا جھولا جھول کر اور رشوتوں سے پل کر جو ان ہونے والے مقتدر کیا جانیں کہ عوام کیا ہوتے ہیں؟ غریب کسے کہتے ہیں اور اس کی زندگی کیا ہے؟ بندہ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں؟
کورونا وائرس دنیا بھر میں آیا لیکن پاکستان میں کچھ نرالا ہی آیا۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار کو آتا ہے اور باقی چار دن چھٹی کرتا ہے۔ صوبہ سندھ میں اتنا آیا نہیں جتنا شور ڈالا جار ہاہے۔ ہمارے خیال میں پوری قوم نے حکومتی احتیاطی تدابیر کے احکام (ایس اوپیز) پر بھر پور عمل کیا ہے۔ سب سے زیادہ عمل در آمد مساجد ومدارس سے وابستہ طبقے نے کیا اور عوام کو احتیاط کی تلقین کی۔ افسوس ہے کہ ہدف تنقید بھی صرف مساجد کو ہی بنایا گیا۔ بلکہ میڈیا ٹرائیل کیا گیا۔عام نمازوں میں فاصلے، کئی مقامات پر نماز جمعہ اور تراویح پر پابندی، اعتکاف پر پابندی اور معلوم نہیں کہ نماز عید کے ساتھ ریاست مدینہ کے نعرے باز کیا سلوک کرتے ہیں۔
تفتان بارڈر سے زائرین کو بغیر کرونا ٹیسٹ اور قرنطینہ کے ملک بھر میں پھیلانے سے لے کر یومِ شہادت سید نا علی رضی اﷲ عنہ کے جلوسوں تک حکومتی و ریاستی سر پرستی میں جو کھیل کھیلا گیا اسے وطنِ عزیز میں فرقہ واریت پھیلانے اور فرقہ وار انہ فسادات کو فروغ دینے کے سِوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ علماء کرام اور ہماری دینی قیادت کا احسان ہے کہ انہو ں نے حکومت وریاست سے مکمل تعاون کیا اور فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکنے نہیں دیا۔ ورنہ حکومت نے تمام اجتماعات پر پابندی کے باوجود یومِ علی پر اپنے ہی بنائے ہوئے اس اوپیز کو جس طرح پاؤں تلے روند کرپا مال ومجروح کیا اس سے کو رونا وائرس کے حوالے سے رائج پابندیوں کی آڑ میں مذہب دشمنی کا ایجنڈا واضح ہوگیا ہے کہ نشانہ صرف مذہب ہے۔ مساجد میں عبادات، تراویح و تلاوت قرآن ہے۔ ورنہ کھلے بازاروں اور نادرا دفاتر کے باہر لوگوں کا ہجوم اور سماجی فاصلوں کا خاتمہ کوئی مسئلہ نہیں۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان کی سر براہی میں پانچ رکنی بنچ نے ’’کورونا وائرس از خود نوٹس‘‘ کیس کی سماعت کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اٹھانے کے بعد اہم فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ:
1۔ کیا کورونا نے حکومت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ ،اتوار کو نہیں آئے گا؟
2۔ کراچی میں پانچ بڑے مالز کے علاوہ کیا سب مارکیٹس کھلی ہیں؟
3۔ اگرباقی مارکیٹس کھلی ہیں تو شاپنگ مالز کیوں بند رکھے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمار کس دیے کہ ملک بھر میں تمام چھوٹی مارکیٹس اور شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے رہے ہیں۔ ایس اوپیز پر‘ مالز میں زیادہ بہتر عمل در آمد ہوسکتاہے پورا ہفتہ یکساں طور پر تمام مارکیٹس کھول دی جائیں۔
چیف جسٹس کے ریمار کس اور فیصلے حکومتی اقدامات پر سوالیہ نشان ہیں۔ اگر ملک کو عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ہی چلانا ہے تو حکومت کیا کر رہی ہے اور موجودہ حکمران کس لیے ملک وقوم پر مسلط ہیں ؟’’خدا گنجے کوناخن نہ دے‘‘ اقتدار نا اہلوں کے ہاتھ آگیا ہے ۔کورونا کی آڑ میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جار ہا ہے حکمران اس کے نقصانات سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ہر بیمار کو کررونا مریض بنانا اور ہسپتال میں ہر مرنے یا مار دیے جانے والے کو کورونا کھاتے میں ڈالنا ، کورونا مریضوں اور لاشوں کا کاروبار کرنا کونسااور کس کا ایجنڈا ہے؟ لوگ ہسپتال کی بجائے گھروں میں عزت کی موت مرنا پسند کر رہے ہیں۔ ابھی تو ویکسین کا مرحلہ باقی ہے۔ اس کے ذریعے کتنے انسانوں کا قتل عام ہوگا؟ یہ عالمی طاغوتی منصوبہ سازہی جانتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے ہی پیسے لے کر ہمیں قتل کرنا ہے۔
ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی میرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے
حکمرانوں سے گزارش ہے کہ قوم کے ساتھ بھونڈا مذاق بند کریں۔ اب یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔خود ملک نہیں چلا سکتے تو حکومت کی جان چھوڑ دیں۔ قوم کے جسمانی ومعاشی قتل کی دلالی میں ملنے والے پیسے کب تک کھائیں گے ؟ آخر ایک دن کوروناانہیں بھی دبوچ لے گا۔

 

مفکر اسلام علامہ خالد محمود رحمۃ اﷲ علیہ

جید عالم دین، محقق ومناظر علامہ ڈاکٹر خالد محمود 20رمضان المبارک 1441ھ 14مئی 2020ء بروز جمعرات انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ چند روز قبل وہ اپنے بستر سے اٹھتے ہوئے نیچے گرے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہسپتال داخل ہوئے، غالباً آپریشن بھی ہوا لیکن جانبر نہ ہوسکے۔ وقت موعود آپہنچا اور وہ تقریباً ایک صدی کا سفر طے کر کے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہُ مَا اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْیٖٔ عِنْدَہٗ بِاَجَلٖ مُسَمّٰی
حضرت علامہ خالد محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے سوانحی حالات پر کوئی تحریر میسر نہیں عام طورپر وہ اپنے حالات بیان کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے۔ کوئی پوچھتا تو اکابر کے حالات پر بیان شروع کردیتے بعض مواقع پر نجی مجالس میں کسی نے سوال کیا تو مختصر جواب دیتے۔دستیاب معلومات کے مطابق علامہ صاحب 1925ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ مدرسہ نعمانیہ میں حضرت مفتی محمد حسن رحمۃ اﷲ علیہ (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) کے ہاں پڑھے۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ وہ دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے اور بعض نے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کا فاضل لکھا ہے۔ دونوں باتیں درست نہیں۔ علامہ صاحب رحمہ اﷲ نے جنوری 2020ء میں اپنے آخری دورۂ پاکستان کے موقع پر جامعہ اشرفیہ میں ابن الحسن عباسی صاحب کے سوال پر واضح ارشاد فرمایا کہ وہ دار العلوم دیوبند نہیں پڑھے۔
علامہ صاحب قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ منتقل ہو گئے۔ عصری تعلیم بھی حاصل کی۔ مرے کالج سیالکوٹ، ایم اے او کالج لاہور اور گورنمنٹ ڈگری کالج خانیوال میں پروفیسر رہے۔
قیام لاہور کے دوران وہ سول سیکرٹریٹ کی مسجد کے خطیب رہے، تنظیم اہل سنت نامی جماعت سے وابستہ ہوئے۔ مولانا سید نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی اور مولانا عبد الستار تونسوی رحمہم اﷲ کے ساتھ مل کر دفاعِ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے عنوان پر خوب تحریری کام کیا۔ تنظیم کے ترجمان ہفت روزہ ’’دعوت‘‘ لاہور سے منسلک رہے۔ مولانا زاہد الراشدی کی روایت ہے کہ 1956ء میں جمعیت علماءِ اسلام کے دستور کی تدوین ہوئی تو کمیٹی میں علامہ خالد محمود اور صدر احرار شیخ حسام الدین بھی شامل تھے۔ تب پہلی مرتبہ عوامی سطح پر حضرت علامہ کا نام معروف ہوا۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر لاہور کے معروف حلقہ نمبر چار سے امیدوار تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید احمد (بابائے سوشلزم) اور جماعت اسلامی کے قیم میاں طفیل محمد آپ کے مقابلے میں تھے۔ شیخ رشید جیت گئے۔
غالباً 1960ء کی دہائی میں ان کا انگلینڈ آنا جانا ہو گیا تھا اور 1970ء کے بعد تو وہ تقریباً وہیں منتقل ہو گئے۔ مانچسٹر میں اسلامک اکیڈمی اور سینٹر بنایا۔ اب تک اسی سے وابستہ تھے۔ سردیوں میں پاکستان تشریف لاتے اور تین چار ماہ قیام فرماتے۔ حضرت علامہ کے چاہنے والے اُن کی آمد کا انتظار کرتے اور کئی سوالات لکھ کر بیٹھے ہوتے۔ اس لیے کہ وہ مناظرانہ رنگ میں بات کرنے کے ماہر تھے۔ سائل یا مخالف کے سوال کے جواب میں سے جوابی سوال اٹھا کر مات دے دیتے۔ یہ اُن کا خاص وصف تھا۔ مشکل سے مشکل اور انتہائی متنازعہ سوال کا انتہائی معتدل جواب دینا ان کا خاص وصف تھا۔ انتہائی وسیع المطالعہ تھے۔
سیکڑوں موضوعات پر درجنوں کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب ’’عقیدۃ الامت فی معنی ختم النبوت‘‘ انھوں نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے ارشاد پر لکھی۔ امیر شریعت سے بے پناہ محبت تھی۔ اُن کے ذکر پر ہمیشہ آبدیدہ ہو جاتے۔ محبت کا یہ رویہ ابناء امیر شریعت اور خانوادہ امیر شریعت کے ہر فرد کے ساتھ آخر وقت تک قائم رہا۔
جنوری 2020ء میں اُن سے آخری ملاقات جامعہ اشرفیہ میں ہوئی۔ اس کی تفصیل مستقل مضمون کی متقاضی ہے۔ آئندہ شمارے میں نذر قارئین کروں گا۔ ان شاء اﷲ۔
علامہ خالد محمود حقیقتاً عالم اسلام کی عبقری شخصیت تھے۔ تقریباً پون صدی انھوں نے دین اسلام کی علمی، تبلیغی اور تحقیقی خدمت کی۔ وہ اپنی وضع اور خصوصیات کے منفرد انسان تھے۔
ان کے قریبی احباب و تلامذہ کی ذمہ داری ہے کہ حضرت کے حالات جمع کر کے کتاب شائع کریں اور نئی نسل کو اُن کے حالات، خدمات اور تحریرات سے مستفید کریں۔ (باقی آئندہ، ان شاء اﷲ)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.