جانشین امیر شریعت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمۃعلیہ
زوال وبربادی کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب ملک اور قوم کا بڑا کہلانے والے انجام سے بے پروا ہو کر زندگی کے ہر شعبہ میں اﷲ تعالیٰ کے مقابلے پر اتر آئیں اور قوم صرف تماشائی بنی رہے۔ خدا فرا موشی، سر کشی اور دین بیزاری کے جو دل دوز مناظر پورے ملک میں دیکھے جارہے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے نصرت غیبیہ کے نزول کی دعا بھی ایک مذاق معلوم ہو رہی ہے۔
تشکیل پاکستان کے وقت حلفیہ وعدے اور قسمیہ نعرے بازی کے جُلو میں، غلاف کعبہ پکڑ پکڑ کر اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے ملک مانگا گیا تھا۔ لیکن ملک مل جانے کے بعد ہر حیلہ سے اسلام کو ملک بدر کردیاگیا۔ جس کے نتیجے میں صرف پچیس برس بعد ہم نصف ملک (مشرقی پاکستان) گنوا بیٹھے۔ وہاں لاکھوں کلمہ گو، کفار کے دلالوں اور ایجنٹوں کے ظلم وستم سے دریائے آتش وخون میں ڈوب گئے۔ امن وسکون ہمیشہ کے لیے عُنقا ہوگیا۔ لادین طبقہ عذاب بن کر اقتدار پر مسلط ہوگیا اور نفاذ اسلام کی موہوم سی امید کا چراغ بھی گل ہوگیا۔
اگر آج اس بچے کُھچے پاکستان میں بھی فسق وفجور پروری اور دہریت ومرزائیت نوازی کی ملعون ڈگرنہ چھوڑی گئی اور مصائب وآفات کے وقت خوف الٰہی کی جگہ احکام وتنبیہات الہیہ کے ’’مقابلہ‘‘ کافر عونی انداز ترک نہ کیا گیا تو پھر…… آسمان زمین کی جگہ آسکتا ہے مگر دنیا کے کفار ومشرکین اور یہودو انصاریٰ ہی نہیں بلکہ دوست مسلم ممالک کی بھرپور امداد بھی پاکستان اور اس کی لادین حکومت کو اﷲ کے غضب سے نہیں بچا سکتی۔ صرف مادی وسائل پر اعتماد، اﷲ ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بغاوت ومورچہ بندی، ائمہ کفر کی طرح للکارنا اوروہنکار نا موجب قہر وعذاب ہے۔
ابھی سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوا، توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ بارگاہ الٰہی میں اپنے کفر وفسق پر اظہار ندامت، مسلسل توبہ واستغفار، توڑے گئے عہدوپیان کی تجدید اور مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ہی رضاء الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کی طرف سے استہزء و تمسخر، مخالفت ومزاحمت اور سازش وتصادم کانقصان قبول کرلیں مگر دین پر عملی استقامت کا مظاہرہ کریں اور اس کی قبولیت کی دعا کریں۔ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرلینے میں ہی ظاہر وباطن کی نجات ممکن ہے۔
وَاللّٰہُ عَلیٰ مَانَقُوْلُ وَکِیْل، وَھْوَ یَقْولُ الْحَقَّ وَھْوَ یَھْدِ السَّبِیْل، اَللّٰھُمَّ لَاتَقْتُلْنَابِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ۔
اے اﷲ ہمیں اپنے غصہ وغضب سے قتل نہ کیجئے، اور اپنے عذاب کے ساتھ ہلاک نہ کیجئے، اور ایسا وقت آنے سے پہلے ہی ہمارے گناہ معاف فرمادیجئے۔
اقتباس اداریہ ’’الاحرار‘‘ جلد۴، ستمبر ۱۹۷۳ء (بہ موقع سیلاب)