منصور اصغرراجہ
مرزا بشیر الدین محمود کے عہد میں جب بانی جماعتِ احمدیہ مرزا قادیانی کے صاحبزادے اور ’’خلیفہ وقت ـ‘‘ کے بھائی صاحبزادہ شریف احمد کو قادیان کے بازار میں ایک گداگر کے لڑکے حنیف نے سرعام لاٹھیوں سے پیٹا اور بات تھانے کچہری تک جا پہنچی تو بعض مقامی اخبارات نے اس کیس کی خبر کی سرخی یوں جمائی کہ ’’صاحبزادہ حنیف اور صاحبزادہ شریف کا مقدمہ ‘‘۔احرار رہنما ماسٹر تاج الدین انصاری ؒ کے مطابق بعض مقامی اخباروں نے اس ’’صاحبزادگی ـ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں صاحبزادگان نذرو نیاز پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ایک اعلیٰ پیمانے پر نذر وصول کرتا ہے اور دوسرا گھٹیا طریقے سے نذرانے کے بجائے خیرات پر اکتفا کرتا ہے (ہم نے قادیان میں کیا دیکھا، طاہر عبدالرزاق :۱۱۵)۔
مرزا قادیانی کے ’’سلسلہ نبوت ‘‘ میں چندے کے نظام کو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے کیونکہ گورداسپور کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر خانہ ساز نبوت تراشنے کا سب سے بڑا محرک پاپی پیٹ ہی تھا۔پروفیسر الیاس برنیؒ نے اپنی کتاب ’’ قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ میں تحفہ قیصریہ، حقیقۃ الوحی، سیرت المہدی جدید، خطوط امام بنام غلام اور انوار العلوم جیسی امہات کتب سے جو قادیانی روایات نقل کی ہیں، اُن کے مطابق دراصل جب برطانوی استعمار برصغیر میں جعلی نبی تلاش کر رہا تھا تو عین انہی ایام میں مرزا قادیانی خاندانی زوال کے باعث غربت کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے تھے ۔اگرچہ ان کے والد مرزا غلام مرتضیٰ دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور انگریز سرکار کے ایسے خیر خواہ تھے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان جنگجو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ انگریز سرکار کی مدد کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی ریاست زوال پذیر ہوتی گئی اور ان کی حیثیت ایک معمولی درجے کے زمیندار کی سی رہ گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریز سرکار نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد قادیان کے اس رئیس گھرانے کو مزید نوازنے کے بجائے ان کی خاندانی جاگیر ضبط کرکے سات سو روپے سالانہ اعزازی پنشن مقرر کردی جو مرزا قادیانی کے داد ا کی وفات کے بعد صرف۱۸۰روپے رہ گئی، اور تایا کے بعد تو وہ بھی بند ہو گئی ۔مرزا قادیانی خود تسلیم کرتے ہیں کہ، ’’ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا ۔مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی امید نہیں تھی کہ دس روپے ماہوار آئیں گے ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، ج۲۲، ص ۲۲۰)۔
ایسی کمزور مالی حالت کے باوجود مرزا قادیانی کے شوق شاہانہ تھے ۔سیرت المہدی جدید میں بیان کی گئی قادیانی روایات کے مطابق انہیں اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے بہت پسند تھے ۔سالم مرغ کا کباب اور گوشت کی خوب بھنی ہوئی بوٹیاں مرغوب تھیں۔تیتر، بٹیر، فاختہ اور مرغ کا گوشت بھی پسند فرماتے تھے ۔گڑ کے بنے ہوئے میٹھے چاول، انگور، بمبئی کا کیلا، ناگپوری سنگترے، سیب، سردے اور آم زیادہ پسند تھے ۔بازاری مٹھائیوں سے بھی کسی قسم کا پرہیز نہ تھا ۔روغن بادام، مشک و عنبر اور مفرح عنبری کا تو مذکور ہی کیا، اعصابی کمزوری دور کرنے کے لیے آنجہانی مرزا ’’زدجام عشق ‘‘نامی جو الہامی نسخہ تیار کرتے تھے، وہ بھی خاصا مہنگا تھا کیونکہ اس کی تیاری میں زعفران، دارچینی، جائفل، افیون، مشک، عقر قرحا، شنگرف اور قرنفل استعمال ہوتی تھی ۔علاوہ ازیں ولایت سے سربند بوتلوں میں آنے والی طاقتور شراب ٹانک وائن سے بھی شوق فرماتے تھے ۔ان عیاشیوں کے لیے پیسہ درکار تھا ۔چنانچہ جس طرح چھینکا ٹوٹنے پر بلی کے بھاگ جاگ جاتے ہیں، ویسے ہی انگریز سرکار کی طرف سے جعلی نبوت کی نوکری ملنے پر بانی جماعتِ احمدیہ کے بھی مقدر جاگ اٹھے ۔لہٰذا انہوں نے اپنی ذاتی غربت مٹانے کے لیے اپنی ’ ’امت ‘‘ سے چند ے کا مطالبہ شروع کیا اور اس سلسلے میں انبیاکرام پر بہتان طرازی سے بھی گریز نہ کیا ۔ذرا ان کے مطالبے کے الفاظ پر غور فرمائیے:
’’قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلے کی خدمت بجا لاوئے ۔مالی طور پر بھی خدمت کی بجاآوری میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔رسول کریم ؐ،حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کیے گئے ۔پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے ۔اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ‘‘(ملفوظات، ج ۶، ص۳۸)۔چنانچہ انہوں نے اپنی ’’امت ‘‘ کے لیے چندے کے نام پر ایسا مضبوط پھندا تیار کیا کہ وہ مہد سے لحد تک چندے ہی میں الجھی رہے ۔
اگر چہ ابتدا ء میں مرزا قادیانی نے مبلغ اسلام کا روپ دھار کر پوری مسلمان قوم کو لوٹنے کی بھی سعی کی ۔لیکن دعویٰ جعلی نبوت کے بعد تو اول بذات خود انہوں نے اور بعد ازاں ان کے جانشین مرزا محمود نے اپنی جماعت میں چندے کا ایسا مضبوط نظام قائم کیا کہ جسے قادیانی رائل فیملی کی ’’ چندہ انڈسٹری ‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس خانہ ساز نبوت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جس طرح بھوک کے ہاتھوں ستایا ہوا غریب آدمی دو جمع دو کا جواب چارروٹیاں دیتا ہے، اسی طرح مرزا قادیانی کو بھی وحی، الہامات اور خوابوں میں چندے کے منی آرڈر ہی آتے دکھائی دیتے تھے ۔مثال کے طور پر ایک مرتبہ صبح سویرے اس جعلی نبی پر وحی کے یہ الفاظ نازل ہوئے، ’’ عبداﷲ خان ڈیرہ اسماعیل خان ‘‘۔موصوف نے اس وحی کا مطلب یہ نکالا کہ عبداﷲ خان نامی کوئی شخص ڈیرہ اسماعیل خان سے اسی روز انہیں کچھ رقم بھیجے گا۔قادیان کے کچھ ہندو بانی جماعتِ احمدیہ پر وحی اترنے کے منکر تھے ۔چنانچہ’’ نزولِ وحی‘‘ کے بعد مرزا قادیانی بھاگے بھاگے ان ہندوؤں کے پاس پہنچے اور انہیں تازہ ترین وحی کے مندرجات سے آگاہ کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ اگر عبداﷲ خان نامی آدمی نے آج ہی مجھے پیسے نہ بھیجے تو سمجھ لینا کہ میں حق پر نہیں۔ستم یہ ہوا کہ اس نام کے آدمی کی طرف سے ارسال کردہ منی آرڈر اسی روز مرزا قادیانی کو موصول ہو گیا جس پر ہندو منکرین مبہوت رہ گئے (حقیقہ الوحی،روحانی خزائن، ج ۲۲، ص ۲۷۵)۔ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ۔مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ نقد چندے، تحائف اور ہدایا کی آمد کے سلسلے میں خدا کی طرف سے انہیں جو الہامات ہوئے، ان کی تعداد پچاس ہزار تھی:’’یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ اکثر جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں ۔ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب کے مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشانات پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، ج ۲۲، ص ۳۴۶)۔قادیانیت سے تائب ہونے والے ملک جعفر خان معروف قانون دان اور سابق وفاقی وزیر تھے ۔انہوں نے پون صدی قبل اپنی کتاب ’’احمدیہ تحریک ‘‘ میں لکھا : ’’ میری رائے میں خاندانی اقتدار اور وجاہت قائم کرنا مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کالا زمی جزو تھا ‘‘۔(صفحہ ۱۴)
اس چند ہ انڈسٹری اور خاندانی اقتدار کو مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے عہد میں کچھ اس طرح مستحکم کیا کہ اُن کے باوا کی ’’امت ‘‘ ان کی ذاتی غلام بن کر رہ گئی ۔شیخ راحیل احمدؒ پیدائشی قادیانی تھے ۔نصف صدی تک جماعتِ احمدیہ کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر کام کیا ۔جماعت کی رگ رگ سے واقف تھے ۔انہوں نے ’’ مضامین ِ راحیل‘‘ میں قادیانی چندے کی پچاس مدات بیان کی ہیں جن میں پندرہ سے زائد مدات لازمی ہیں جن میں کسی بھی قادیانی گھرانے کا ہر فرد چندہ ضرور دیتا ہے ورنہ اس کا ایمان اور اخلاص مشکوک ہوجاتا ہے۔ان میں سب سے دلچسپ چندہ بہشتی مقبرے کا ہے ۔شیخ راحیل احمد ؒ کے بقول ’’شروع میں جنت کے لیے پہلے صرف احمدی ہونا شرط تھا ۔پھر مالی قربانی شرط بنی۔پھر معیاری چندے شرط بنے، اور یہ بھی کافی نہیں، تو اب کچھ وصیت کراؤ تب کچھ بات بنے گی۔اس قسم کا تاثر دیا جاتا ہے کہ ویسے تو اﷲ غفور الرحیم ہے، اگر بخشنا چاہے گا تو علیٰحدہ بات ہے ورنہ جنت میں جانے والے لوگ بہشتی مقبرہ سے ہی لیے جائیں گے۔اِس کے بعد اگر اُس کی مرضی ہوئی تو باقی جنتی بھی احمدیوں سے ہی لیے جائیں گے ‘‘(مضامین ِ راحیل :255)۔بہشتی مقبرے کا چندہ تو اتنا مشہور تھا کہ اردو کے منفرد انشا پرداز خواجہ حسن نظامیؒ نے ایک مرتبہ مرزا محمود کی دعوت پر اپنے چند دوستوں کے ہمراہ قادیان کا دورہ کیا ۔واپسی پر انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ہم نے قادیان میں امور عامہ کا دور ہ کیا، نشرو اشاعت او ر تحریک جدید کے دفاتر دیکھے، اور پھر بہشتی مقبرے پہنچے تو اسے سبزہِ نورستہ کے اعتبارسے واقعی جنت معنوی پایا۔لیکن ایک بات بڑی حیران کن تھی کہ اس کے تمام درختوں اور پیڑوں پر قطار اندر قطار بیٹھے ہوئے پرندے ایک ہی راگ الاپ رہے تھے، چندہ، چندہ، چندہ ۔
لیکن دوسری طرف گھر کے کچھ ایسے بھیدی بھی تھے جو مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی لوگوں کو چیخ چیخ کر بتایا کرتے تھے کہ یہ نبوت نہیں محض دکانداری ہے۔ اس کی ایک مثال مرزا شیر علی ہیں۔مرزا شیر علی، مرزا قادیانی کے برادر نسبتی اور ان کے بیٹے مرزا فضل احمدکے خسر تھے ۔بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی ۔سفید رنگ تھا ۔تسبیح ہاتھ میں لیے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے ۔وہ قادیان میں بہشتی مقبرے کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھ جاتے ۔ہاتھ میں ایک لمبی تسبیح ہوتی ۔تسبیح کے دانے پھیرتے جاتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے ۔بُرا لٹیرا ہے ۔لوگوں کو لوٹنے کے لیے دوکان کھول رکھی ہے ۔جو کوئی نیا آدمی آتا، اسے اپنے پاس بلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کردیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے ۔آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لیے کھولی گئی ہے ۔اصل میں آمدنی کم تھی ۔بھائی نے جائیداد سے بھی محروم کر دیا ۔اس لیے یہ دکان کھول لی ہے ۔آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں کتنا بڑا بزرگ ہو گا ۔پتا تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لیے آپ کو بتائی ہیں(انوارالعلوم، ج ۱۸، ص ۲۳۷)۔
جب اس طرح کے عادی چندہ خورکسی وبا یا آفت کی وجہ سے پریشان مسلمانوں کی امداد کے لیے میدان میں نکلیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ۔پنجابی محاورے کے مطابق ہندو بنئے نے ایویں ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اس کی ماں اگر سر بازار منہ کے بل گری ہے تو کچھ دیکھ کر ہی گری ہوگی ۔اس لیے جماعت ِ احمدیہ کے ذیلی ادارے Humanity Firstکی رفاہی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔چند برس پہلے ایک سابق قادیانی مربی نے اپنے انٹرویو میں ہمیں بتایا تھا کہ وہ اندرون سندھ میں محض چند ٹافیوں کے عوض سادہ لوح مسلمانوں سے جماعت ِ احمدیہ کا رکنیت فارم بھروا لیتے تھے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ ہیومینٹی فرسٹ کوئی رفاہی ادارہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کا تبلیغی ادارہ ہے جو رفاہی سرگرمیوں کی آڑ میں قادیانیت کا پرچار کرتا ہے ۔شیخ راحیل احمد ؒ کے الفاظ میں ’’ہیومینٹی فرسٹ کی تنظیم بظاہر انسانی ہمدردی کی تنظیم ہے لیکن حقیقت میں شعبہ تبلیغ کا ذیلی ادارہ ہے ۔جہاں تبلیغ کے چانس ہوں، وہیں ان کی انسانی ہمدردی جاگتی ہے ‘‘(مضامین ِ راحیل :۲۵۴)۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علماکرام، سکالرز، فتنہ قادیان سے آگاہی رکھنے والے عصری و دینی اداروں کے اساتذہ کرام، قانون دان اور قلمکار بھی اس طرف فوری توجہ دیں اور عوام الناس کو اس فتنے سے آگاہ کریں کہ چند ہزار روپوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنا ہمیشہ کے خسارے کا سودا ہے۔ باری تعالیٰ دور حاضر کے ہر چھوٹے بڑے فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔