حضرت مولانا عبدالواحد
توبہ کرنے والا خدا کا پسندیدہ ہے:
قرآن مجید میں ایک مقام پر توبہ کرنے والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی تحسین کی گئی ہے اور انہیں بشارت دی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
اَلتَّآ ئِبُوْنَ العَابِدُوْنَ الحَا مِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرَّاکِعُوْنَ السَّاجِدُوْنَ الْاٰ مِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحَافِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِالْمُؤْ مِنِیْنَ۔ (التوبہ: ۱۱۱)
’’وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تلقین کرنے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اﷲ کی حدود کا خیال رکھنے والے اور ایسے مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے‘‘۔
اس آیت کریمہ میں التَّآئِبُوْنَ کو مقدم کرکے دراصل توبہ کرنے والوں کی صفت حمیدہ کا تذ کرہ کیا گیا ہے، یہ صفت خدا وندقدوس کو بہت ہی پسند ہے۔
توبہ کی چُھوٹ :
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اﷲ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ عَبْدًا اَذنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہٗ: اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِہٖ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ۔ ثَمَّ مَکَثَ مَاشَاءَ اللّٰہُ، ثْمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ: رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْباً فَاغْفِرْہُ۔ فَقَالَ: اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہْ رَبّاً یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأَخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِی۔ْ ثَمَّ مَکَثَ مَاشَاءَ اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْباً قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْباً آخَرَ فَاغْفِرْہُ ِلیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبأً یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُبِہٖ غَفَرَتُ لِعَبْدِیْ فَلْیَفْعَلْ مَاشَاءَ۔ (مشکوٰۃ)
’’حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر کہنے لگا اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا (فرشتوں سے) کیا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو (جس کو چاہتا اور جب چاہتا ہے) اس کے گناہ بخشتا ہے اور اس کے گناہ پر مواخذہ کرتا ہے (تو جان لو) میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا وہ بندہ اس مدت تک کہ اﷲ نے چاہا (گناہ کرنے سے) باز رہا۔ اس کے بعد اس نے پھر گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میر ے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ کیا یہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور ا س پر مواخذہ کرتا ہے میں نے بندہ کو بخش دیا وہ بندہ اس مدت تک کہ اﷲ نے چاہا گناہ سے باز رہا اور اس کے بعد پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگارمیں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے، اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ بخشتاہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے میں نے اس بندہ کو بخش دیا پس جب (تک وہ استغفار کرتا رہے) جو چاہے کرے۔‘‘
فائدہ: اﷲ اکبر! کیا شانِ کریمی ہے! یہ نہیں فرمایا کہ: میں دوبارہ اس کو معاف کرچکا ہوں، لیکن یہ پھر گناہ کرتا ہے، تیسری بار پھر معافی مانگنے آیا ہے، اب اس کو معاف نہیں کروں گا۔
نہیں، بلکہ اس کے بجائے یہ فرمایا کہ: میرا بندہ جتنی بار بھی گناہ کرے میں معاف کرتا جاؤں گا۔
قربان جائیے اس رحمت اور اس شان کریمی پر یہ مطلب نہیں کہ آئندہ گناہ کرتا رہے لیکن تو بہ نہ کرے توتب بھی معافی کا وعدہ ہے، نہیں، بلکہ یہ مطلب ہے کہ سو مرتبہ بھی گناہ کر کے آئے اور معافی کا طالب ہو، تب بھی میں معاف کرتا رہوں گا، گویا ا س حدیث میں گناہ کرتے رہنے کی چھوٹ نہیں دی گئی، بلکہ باربار توبہ کی ترغیب دی گئی ہے، کہ خواہ کتنی ہی بار توبہ ٹوٹ گئی ہوتب بھی بندہ مایوس نہ ہو، بلکہ فوراً توبہ کی تجدید کرکے معافی کا مستحق ہوسکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحاً بِتَوْبَہِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِ کُمْ کَانَتَ رَاحِلَتُہٗ بِاَرْضٍ فلاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہ وَعَلَیْھَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَاَیِسَ مِنْھَا فَاتیٰ شَجَرَۃً فاضطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَد اَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَاھُوَکَذٰلِکَ اِذْ ھُوَ بِھَا قَائِمَۃٌ عِنْدَہٗ فَاَخَذَ بِخِطَا مِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الفَرَحِ اللھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَا مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ۔ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ)(کتاب التوبہ،ص 355مکتبہ قدیمی کتب خانہ)
’’اور حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس شخص سے جو اس کے سامنے توبہ کرتا ہے اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا تم میں سے وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا جس کی سواری بیچ جنگل بیابان میں ہو اور پھر وہ جاتی رہی ہو (یعنی گم ہوگئی ہو) اور اس سواری پر اس کا کھانا بھی ہو اور پا نی بھی، اور وہ (اس کو تلاش کرنے کے بعد) نا امید ہوجائے اور ایک درخت کے پاس آکر اپنی سواری سے نا امیدی کی حالت میں(انتہائی مغموم و پریشان) لیٹ جائے اور پھر اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑے ہوئے دیکھ لے۔ چنانچہ وہ اس سواری کی مہار پکڑ کر انتہائی خوشی میں (جذ بات سے مغلوب ہوکر) یہ کہہ بیٹھے:’’ اے اﷲ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘ مارے خوشی کے زیادتی کے اس کی زبان سے یہ غلط الفاظ نکل جائیں۔‘‘
فائدہ
یعنی اس شخص کو اصل میں کہنا تو یہ تھا کہ: اے اﷲ! تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ مگر انتہائی خوشی کی وجہ سے شدت جذبات سے مغلوب اور خوش ہوکر یہ کہنے کی بجائے یہ کہہ بیٹھا ہے کہ: اے اﷲ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔
اس ارشاد کا مقصد اس بات کو بیان کرنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول فرما کر اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اس خوشی کو اس شخص کی خوشی کے ساتھ مشابہت دی جس کی سواری جنگل بیابان میں گم ہوجائے اور پھر اچانک اُسے مل جائے۔