حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
یہ دنیا دارالعمل ہے۔ ہست ونیست کی اس رزم گاہ میں قدم قدم پر انسان کو آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَ کُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً (سورۃ الملک:۲)
اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔
امتحان کوئی ساہو، اس میں کامیابی کا بھی امکان ہوتا ہے اور ناکامی کا بھی۔ مثل مشہور ہے عند الا متحان یکرم الرجل اویھانمگر وہ خوش نصیب انسان، جنہیں ایمان کی حالت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت میسر آئی اور ایمان کی دولت ہمراہ لے کر اس دنیاسے رخصت ہوئے جنہیں صحابہ یا اصحاب کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ان حضرات نے جس انقیاد واطاعت، تسلیم ورضا، سرافگنی اور جاں فروشی کا ثبوت دیا اس کی وجہ سے انہیں کامیابی ہی کامیابی نصیب ہوئی۔
اُولٰئِکَ الَّذْیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْ بَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ (الحجرات :۳)
وہی ہیں، جن کے دلوں کو اﷲ نے آزمالیا ہے تقویٰ کے لیے ان کے لیے بخشش اور بہت بڑا ثوب ہے۔
انہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رضامندی اورخوشنودی کا سرٹیفکیٹ ملا
اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَ وَّلُوْ نَ مِنَ الْمُھٰجِرِ یْنَ وَالْاَ نْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (التوبہ)
جو لوگ سبقت کرنے والے ہیں مہاجرین اور انصار میں سے، اور جو لوگ نیکی میں ان کے پیچھے پیچھے چلے، اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔
پھر اس خوشنودی اور رضامندی کے نتیجے میں انہیں من پسند اور لازوال نعمتوں کے گھر (یعنی بہشت) کا مژدہ سنایا گیا۔
یُدْ خِلُھُمْ جَنَتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الَْا نْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ اُولٰئکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلاَ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ المجاد لہ)
اﷲ تعالیٰ انہیں ایسی بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی،وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے خوش ہوئے وہ اﷲ کاگروہ ہے۔ سن لو کہ اﷲ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔
پھر یہی نہیں کہ وہ خود ہی کندن بن گئے، بلکہ انہوں نے پارس کے پتھر کا کام دیا۔ جو ان سے جڑگیا، وہ بھی زر خالص بن گیا یہ سب نتیجہ تھا آقائے دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی اور آپ کی اطاعت وفرماں برداری کا۔
صحابہ کرامؓ میں فرقِ مراتب:
یوں تو صحابہ کرامؓ سب کے سب وہ مثالی انسان تھے، جو نبوت کے نیرا عظم سے نورانیت حاصل کرکے سپہر علم وعمل پر طلوع ہوئے اور انہوں نے دنیا کو تابانی بخشی۔
آج ان ذروں کو بھی ناز اپنی تابانی پہ ہے
تیرے در کا نقش سجدہ، جن کی پیشانی پہ ہے
مگر کتاب وسنت کی رو سے پھر ان میں فرق مراتب پایا جاتا ہے چنانچہ قرآن پاک کی رو سے وہ صحابہؓ جو فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے انہیں بعد والوں پر برتری حاصل ہے
ارشاد ربانی ہے :
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ م بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلَّا وَّ عَدَ اللّٰہْ الْحُسْنیٰ (سورۃ الحدید)
تم میں سے وہ لوگ، جنہوں نے فتح(مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑے، وہ برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں، جنہو ں نے بعد میں خرچ کیا اور لڑے۔ (ویسے) ہر ایک سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔
پھر فتح مکہ سے پہلے والوں میں بھی کئی مدارج ہیں سب سے اونچا درجہ اصحاب بدر کاہے، پھر اصحاب احد کا، بعد ازاں اصحاب حدیبیہ کا، (جنہوں نے بیعت رضوان کی) انہی مدارج اور مراتب کے لحاظ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے حق میں بشار تیں سنائی ہیں یہ بشار تیں دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ جو عمومی اور اجتماعی نوعیت کی ہیں دوسری وہ جو خصوصی اور انفرادی شکل کی ہیں چند عمومی بشارتیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔
تمام صحابہؓ کے بارے میں عمومی بشارت :
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لاتمس النار مسلماً رآنی اورأی من رآنی (ترمذی شریف (ص۲۲۶ج۲)
کسی ایسے مسلمان کو، جس نے مجھے دیکھا، جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی اور نہ اس کوجس نے میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ امام ابن حزم سے نقل کرتے ہیں
الصحابۃ کلھم من اھل الجنۃ قطعا: صحابہ سب کے سب یقینی طور پر جنتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کافرمان ہے:
لَایَسْتَوِیْ مِنْکُمْ ……اَلْحُسْنیٰ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسنْیٰ اُولٰئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْ مَااشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خَالِدُوْنَ لَایَحْذَ نُھُمْ الْفَزَعُ اْلاَ کْبَرُ وَتَتَلَقّٰھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ (الحج)
(آگے سورہ حدید کی مندرجہ بالا آیت نقل کی ہے) جن لوگوں کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی (کاوعدہ) پیشگی ہوچکا ہے، وہ اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گے۔ اس کی بھنک تک نہیں سنیں گے اور وہ اپنی من پسند نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (قیامت کے دن کی) بڑی گھبراہٹ انہیں پریشان نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔ فثبت ان الجمیع من اھل الجنۃ وانہ لاید خل النار احد منھم (الاصابہ ص ۱۰ج۱)
تو ثابت ہوگیا کہ سب کے سب صحابہ جنتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا۔
ایک کور چشم کے لیے حسن وجمال کی پوری کائنات معطل ہے۔ پھولوں کی رنگت، کوہ کی بلند قامتی، سمندر کی پہنائی، صحرا کی وسعت اور طیور کی خوبصورتی سب بے کار اور بے معنی ہیں۔ ایک بہر ے کے لیے بلبل کے گیت، کوئل کی کوکو، فاختہ کی خوش الحانی اور قمری کے نغمے سب لغواور لاحاصل ہیں۔ اسی طرح اگر کسی عقل کے اندھے کو حضرات صحابہ کے محاسن اور کمالات نظر نہیں آتے تو اس کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ؟
اگر نوجوان طلباء علم یورپ سے در آمد شدہ ہسٹری کو پڑھ کریا بدنیت مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخ کو پڑھ کر اپنے دلوں میں حضرات صحابہ کے حق میں کچھ بدگمانی رکھتے ہیں تو ہم ان سے کہیں گے۔
جمال و حسن یوسف راچہ مے دانند اخوانش
زلیخا را بپرس از وے کہ صد شرح و بیاں دارد
حسن یوسف کی ولفریبیوں کے بارے میں پوچھنا ہو تو ان کے بھائیوں سے نہ پوچھو، ز نان مصر کو چھیڑ کر دیکھوجو ایک جھلک دیکھتے ہی اپنے ہاتھ کٹوابیٹھی تھیں ۔ صحابہ کے حالات مسلمان سیرت نگاروں سے پوچھو نہ کہ مغربیت زدہ مصنفین سے۔
اصحاب حدیبیہ کے بارے میں بشارت:
حدیبیہ کے مقام پر تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہؓ نے ایک درخت کے نیچے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی۔ ان حضرات کو اصحاب حدیبیہ بھی کہا جاتا ہے اصحاب بیعت الرضوان بھی اور اصحاب الشجرہ بھی ان کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لایدخل الناران شاء اﷲ من اصحاب الشجرۃ احد الذ ین با یعوا تحتھا (مسلم: ص ۳۰۳ج ۲ ترمذی ص ۲۲۶ج ۲)
جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان شاء اﷲ ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔
ترمذی شریف میں ایک اور حدیث ان الفاظ سے موجود ہے
لید خلن الجنۃ من بایع تحت الشجرۃ الاصاحب الجمل الا حمر (ترمذی ص۲۲۶)
جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی وہ ضرور بہشت میں داخل ہوں گے، لیکن سرخ اونٹ والا نہیں ہوگا۔
یہ سرخ اونٹ والا ایک منافق تھا اور اس نے بیعت بھی نہیں کی تھی، حالانکہ وہاں موجود تھا مؤرخین نے اس کا نام جدبن قیس بتایا ہے یہ ایک اونٹ کی اوٹ میں چھپ رہا تھا۔
اصحاب بدر کے بارے میں:
بدر کا معرکہ، پہلا معرکہ ہے جس میں مسلمان، مشرکین کے مقابلے میں صف آراء ہوئے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں تعداد کے لحاظ سے سہ چندتھے، جنگی سازو سامان سے لیس تھے جبکہ ادھر مجاہدین کی تعداد کم تھی اور سامان نہ ہونے کے برابر بظاہر کوئی امید افزا چیز نہ تھی تو حید کے علم بردار صرف دلوں میں ایمان لے کر اﷲ کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان میں اترے تھے۔ جنگ ہوئی اور پوری آب وتاب سے ہوئی۔ حق کو فتح ہوئی اور باطل کو شکست قرآن پاک میں اس دن کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ۳۱۳صحابہ کرام (۱) جو اس غزوہ میں شریک ہوئے خاص شان کے مالک شمار ہوتے ہیں کتب حدیث میں کسی صحابی کے بارے میں وکان بدر یا لکھا ہوا ہوتو یہ اس کی عظمت شان کی دلیل ہوگی او ر اس کی منقبت کابیان۔ قرآن مجید میں ایک پیغمبر حضرت شموئیل علیہ السلام کے جہاد کا ذکر ہے جس میں جناب طالوت کو حاکمانہ اختیار ملے تھے اس میں بھی مجاہدین کی تعداد ۳۱۳ تھی۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ ایک بدری صحابی ہیں۔ ان سے کوئی سیاسی غلطی سرزدہوگئی تھی حضرت عمرؓ سراپا غیرت تھے، وہ اتنے غصے میں آگئے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے حاطب کی گردن اڑا دینے کی اجازت چاہی حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عمرؓ! تمہیں معلوم نہیں شاید اﷲ تعالیٰ نے تو اہل بدر سے یہاں تک فرما دیا ہے کہ
اعملوا ماشئتم قد وجبت لکم الجنۃ (بخاری ص ۵۶۷)
تم جو چاہو، کرتے رہو، تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے۔
یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ کے آنسو آگئے اور کہنے لگے: اﷲ ور سو لہ اعلم
بحری مجاہدین کے بارے میں:
جزیرۃ العرب، ریگستانی علاقہ ہے صحرائی لوگ طبعا بحری سفر سے گھبراتے ہیں اس کے نشیب وفراز سے ناواقف ہوتے ہیں اس لیے سمندر میں سفر کرنا پسند نہیں کرتے جو مجاہدین سب سے پہلے اسلامی پرچم لے کر بحری سفر پر نکلے ہوں گے یقینا انہیں گونا گوں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ہوگا اور وہ اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھ کر ہی نکلے ہوں گے اس لیے وہ خصوصی انعام واکرام مستحق ٹھہرے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اول جیش من امتی یغزون البحر قداوجبوا (بخاری ص ۴۱۰)
میری امت کا پہلا لشکر، جو بحری سفر کر کے جہاد کو نکلے گا، اس کے مجاہدین نے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔
واضح رہے کہ پہلا بحری بیڑہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں والی شام حضرت معاویہؓ نے اپنی سرکردگی میں تیار کرایا، اور جزیرہ قبرص کی طرف سفر کر کے اسے فتح کرلیا تھا۔
مجاہدین قسطنطینیہ کے بارے میں :
قسطنطینیہ طلوع اسلام کے وقت قیصر روم کا مستقر تھا۔ اس وقت رومی سلطنت کی وہی حیثیت تھی جو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں امریکہ کی ہے سپرپاور شمار ہوتی تھی آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب سلاطین اور امراء سلطنت کو تبلیغی خطوط بھجوائے تھے تو قیصر روم نے اسلام تو قبول نہیں کیا تھا، مگر ویسے اس نے حضور کے نامۂ گرامی کا احترام کیا تھا۔حضرت ابو سفیانؓ (جو اس وقت مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، سے اس کا مکالمہ اور سوال جواب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں) کئی علاقے، عہد خلافت راشدہ میں مسلمانوں نے رومیوں سے لے لیے تھے شام، فلسطین، حمص وغیرہ اسی دور میں فتح ہوئے تھے قسطنطینیہ کا فتح کرنا، سفری مشکلات، عسکری مسائل وغیرہ کے لحاظ سے جوئے شیرلانے سے کم نہ تھا، اس لیے مجاہدین کی پہلی کھیپ جو اس طرح روانہ ہوتی وہ اجر خاص کی مستحق تھی۔ چنانچہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بشارت دی کہ
اول جیش یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم (بخاری ص ۴۱۰)
امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر کارخ کرے گا،اس کے سپاہیوں کو بخش دیا گیا
یہ پہلا لشکر، حضرت معاویہؓ کے دور خلافت میں قسطنطینیہ گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ (جنہیں میزبان رسول ہونے کی فضیلت حاصل ہے) بھی اس سپاہ میں شامل تھے اس وقت یہ شہر فتح تو نہیں ہوا تھا، لیکن اس واقعہ سے رومیوں کا زور بہت حدتک ٹوٹ گیا اور نتیجہ میں سپرپاور عیسائی رومیوں کے ہاتھوں سے نکل کر مسلمانوں کے پاس چلی گئی۔رومی دارالسلطنت کی فتح، کسی اور مسلمان بادشاہ کامقدر تھی چنانچہ یہ اعزاز سلطان محمد فاتح مرحوم کو حاصل ہوا کہ اس نے بڑی عقل مندی، بہادری اور حربی تدابیر سے کام لے کر ۸۵۷ھ میں اس شہر کو فتح کرلیا فﷲ درہ!
اسلامی فتوحات میں صحابہ ؓ کا حِصہ :
صحابہ کرامؓ نہایت دلیر، بہادر اور نڈر سپاہی تو تھے ہی، انہی کے مجاہدا نہ کارناموں کی بدولت مملکت اسلامیہ تھوڑے سے عرصے میں دور دور تک پھیل گئی اس کے علاوہ ان کا وجود سراپا برکت اور فتح مندی کا باعث تھا، بخاری اور مسلم میں ایک حدیث درج ذیل مضمون کی آئی ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایالوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ جماعتیں جہاد کے لیے نکلیں گی، وہ پوچھیں گے کیا تم میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی صحابی موجود ہے؟ جواب ملے گا،لوگ ہاں تو اس صحابی کی بدولت فتح ہوگی۔
پھر دوسرا دور آئے گا، لوگ جہاد کے لیے روانہ ہوں گے اور پوچھیں گے: کیا تم میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کا کوئی ساتھی موجود ہے؟ جواب میں کہا جائے گا ہاں تو اس تابعی کی برکت سے فتح ہوجائے گی۔
تیسرا دور آئے گا، لوگ نکلیں گے تو پوچھیں گے کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کو دیکھنے والے کا دیکھنے والا( یعنی تبع تابعی) موجود ہے؟ کہا جائے گا ہاں تو اس کی برکت سے بھی فتح ہوگی(بخاری ومسلم وغیرہ)
بخاری شریف میں ایک اور روایت آئی ہے جو تقریباً اسی مضمون کی ہے وہ اس طرح کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نیک لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہوتے جائیں گے باقی روی اور بے کارلوگ رہ جائیں گے جس طرح کہ جو کابے کار حصہ (چھلکے وغیرہ) ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا (گویا برکت ختم ہوجائے گی)
تاریخ کے طالب علم غور سے تاریخ کا مطالعہ کریں، انہیں نظر آئے گا کہ جو جوعلاقے عہد صحابہ میں فتح ہوکر بلاد اسلامیہ میں شامل ہوئے وہ آج بھی مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں صحابہ کا کوئی مفتوحہ علاقہ چاہے اسلامی نظام مملکت وہاں نافذ نہ ہو، مسلمانوں کے حیطۂ اقتدار سے خارج نہیں ہوا۔ یہ حقیقت حضرات صحابہ کی بلندی مرتبہ کی بین دلیل ہے۔
قیامت کے روز صحابہ کی افادیت :
صحابہ کرامؓ کی برکت اور افادیت، صرف جہاں گیری اور جہاں داری تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ان کی حقیقی برکت تو اس دن ظاہر ہوگی جس روز قُلُوْ بٌ یَّوْ مَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ کا منظر ہو گا المال والبنون سب بے سود ہو کر رہ جائیں گے اس روز اگرکوئی روشنی کار آمد ہوگی اور کسی کی قیادت، نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی وہ صحابہ کی قیادت اور نورانیت ہوگی رسول اﷲ صلی اﷲ نے فرمایا:
مامن احدمن اصحابی یموت بارض الابعث قائدا ونورا لھم یوم القیامۃ (ترمذی ص۲۲۶ج۲)
میرا کوئی صحابی، کسی سرزمین میں فوت ہوگا تو قیامت کے روز وہ ان کے لیے پیش رو اور نور بن کر قبر سے اٹھے گا۔ محولہ بالا آیات اور احادیث سے حضرات صحابہ کرام کی جلالت شان اور علو مرتبت بالکل واضح ہے، دنیا وآخرت میں ان کے مقام بلند اور دوسروں کے لیے باعث برکت ہونے کی تصریح ہے۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو ان کی مدح سرائی میں رطب اللسان رہتا ہے اور بدنصیب وتیرہ بخت ہے وہ جو ان کی شان میں ہر زہ سرائی کرتا ہے۔
فکل میسر لما خلق لہ اوفقنا اﷲ لما یحب ویرضی واعاذنا من شرور انفسنا۔
صحابہ کے بارے میں خصوصی بشارتیں :
کتب حدیث وسیرت میں بہت سے صحابہ کرامؓ کے حق میں خصوصی بشارتیں موجود ہیں۔ عشرہ مبشرہ کی مشہور اسلامی اصطلاح کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا جاتاہے کہ یہی دس حضرات ہیں جن کے بارے میں نام لے کر فردا ًفرداً جنتی ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے یا زیادہ سے زیادہ ان کے ساتھ سیدۃ نساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراؓ اور سیدا شباب اہل الجنۃ حضرات حسنینؓ کو ملا لیا جاتا ہے، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ عشرہ مبشرہ اصطلاح تو اس وجہ سے مشہور ہوگئی کہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں بیک وقت ان دس حضرات کے جنتی ہونے کی بشارت سنائی تھیں ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ متعدد دوسرے حضرات مرد اور خواتین ہیں جن کے بارے میں انفرادی بشارتیں دی گئیں۔ سرسری مطالعہ سے ہمیں جو نام مل سکے ہیں ان کا تذکرہ آپ کو آئندہ اوراق میں ملے گا ان کے ذکر میں سوانحی خاکے چنداں نہیں دئیے جائیں گے، صرف مختصر تعارف اور ہر ایک کے بارے میں جنتی ہونے کی بشارت نقل کی جائے گی، اﷲ کے ان محبوب بندوں پر تو ابر رحمت، ہر وقت برس ہی رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کے طفیل چند قطرے ہم اگنہگاروں کے حصے میں بھی آجائیں۔ وما ذلک علی اﷲ بعزیز
ایک علمی مسئلہ :
یہاں پر ایک مسئلہ کی وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات جاہل متصوفین اور شعراء کو دیکھا اور سناگیا ہے کہ وہ جنت کانام بڑی بے اعتنائی او رلاپروائی سے لیتے ہیں، حتی کہ اس سے اپنی بے نیازی تک ظاہر کرنے لگتے ہیں، گویا انہیں نہ تو جہنم سے بچنے کی ضرورت ہے نہ تو جنت میں جانے کی یہ انداز فکر غلط اور یہ طریق گفتگو بے ادبانہ ہے اس طرح سوچنا اور بولنا اﷲ کے دین سے استہزاء اور عقیدہ آخرت کی تکذیب کے مرادف ہے نعوذباﷲ منہ
قرآن پاک میں جنت کو ایمان والوں کی آخری منزل قرار دیا گیا ہے۔ کم وبیش ایک درجن آیات میں دخول جنت کو ذٰلک ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْم فرمایا گیا ہے، کہیں الفوذالکبیر یا اس طرح کے دوسرے الفاظ فرمائے گئے ہیں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَادْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَاذَ (سورہ آل عمران :۸۵ا)
جس شخص کو دوزخ سے ہٹاکر بہشت میں داخل کیا گیا، تو وہ کامیاب ہوگیا۔
احادیث صحیحہ میں اﷲ تعالیٰ سے جنت کے مانگنے اور دوزخ سے بچنے کے لیے دعا کی ترغیب دی گئی ہے کیا اس کے باوجود بھی بے اعتنائی اور بے نیازی دکھانے کی کوئی گنجائش رہ جاتی (۲) ہے؟ حاشا وکلا! لیجئے ہم قارئین کو ایک نسخہ بھی بتائے دیتے ہیں جس کے ساتھ ان شاء اﷲ، جہنم سے خلاص اور جنت کا حصول سہل ہوجائے گا۔
حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص صبح شام تین مرتبہ اﷲ تعالیٰ سے بہشت کا سوال کرے یوں کہے اللھم انی اسئلک الجنۃ بہشت خود اﷲ تعالیٰ سے در خواست کرتی ہے کہ اے اﷲ! اس کو بہشت میں داخل فرما۔ اور تین دفعہ یہ کہہ کر جہنم سے پناہ مانگے اللھم اجرنی من النار تو دوزخ خود اﷲ تعالیٰ سے درخواست کرتی ہے کہ اے اﷲ ! اس کو دوزخ سے بچا (مشکوۃ شریف بحوالہ ترمذی ونسائی)
اعتذار والتماس:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام موجود تھے۔ سینکڑوں شہادت کے بلند رتبہ پر فائز ہو چکے تھے، بہت سے وفات پاچکے تھے، ان میں سے کتنے حضرات ایسے ہیں جن کے مآثر اور فضائل سے طویل دفاتر مرتب ہو سکتے ہیں اور بڑے خوش نصیب ہیں وہ ائمہ اور علماء جنہوں نے اس سلسلہ میں گراں مایہ خدمات انجام دیں چنانچہ
امام ابن عبدالبر کی الا ستیعاب فی معر فۃ الاصحاب
علامہ ابن کثیر کی البدایۃ یہ والنھایہ علامہ ابن اثیر کی اُسدالغابہ
علامہ ابن حجر کی الاصابۃ فی تمییز الصحابہ
اس موضوع پر نہایت ہی قابل قدر تصنیفات ہیں۔ سیرالصحابہ دور حاضر کی بہترین تالیفات میں سے ہے، حیاۃ الصحابہ مصنفہ حضرت مولانا محمد یوسف کاندہلوی رحمہ اﷲ ایک شاہکار تالیف ہے، اس سلسلہ میں جناب طالب ہاشمی صاحب کاکام لائق صدتحسین ہے وغیرہ وغیرہ
راقم السطو رایک ہیچ مداں اور ہیچ میرز طالب علم کی کیا بساط کہ اس کی طالب علمانہ کاوش کو کوئی اہمیت دی جاسکے ۔ بس دل کی ایک پکار تھی جسے اس نے لبیک کہا اور یوں عقیدت کا ایک گلدستہ تیار ہوگیا، اور سچ تو یہ ہے کہ ایک درویش بے نوا، برگ سبز کے علاوہ پیش کرہی کیا سکتا ہے؟
گر قبول افتد زہے عزو شرف
راقم کے پاس کتابی ذخیرہ بہت ہی محدود ہے، حدیث کی متداول کتابیں اور درج بالا ’’اسفار اربعہ‘‘ میں سے استیعاب اور اصابہ اس کے پیش نظر رہی ہیں۔ اسد الغابہ کو دیکھنے کی ایک دیرینہ تمنا ہے مگر ایک باد یہ نشین کی یہ خواہش کیو نکر پوری ہو؟ البدایہ قریب ہی ایک فاضل دوست کے پاس موجود ہے، مگر افسوس کہ اس وقت وہ بھی میسر نہ آسکی۔ بہر حال جس نقطہ نگاہ سے راقم نے خامہ فرسائی کی ہے، اگر کوئی اہل علم اس موضوع پر کام کریں تو قوی امید ہے کہ خاصا مواد ابھی اور مل سکتا ہیففی الزوایاخبایا۔
ایک ضروری وضاحت :
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں آگے بشارات خاصہ کے عنوان سے اﷲ کے کچھ محبوب بندوں کا تذکرہ ہو گا۔ کسی صحابی کے بارے میں انفرادی بشارت، بہت بڑی منقبت اور عظمت کی دلیل تو بے شک ہے، مگر اس سے یہ نہ سمجھ لیا جاوے کہ یہ حضرات ان تمام دیگر اصحاب سے افضل ہیں، جن کے بارے میں ہمیں ایسی بشارتیں نہیں مل سکیں بجاہے کہ اس فہرست میں حضرات خلفاء راشدین کے نام بھی شامل ہیں۔ مگر ان کی افضلیت کے دلائل دوسرے ہیں اس لیے بہت سے اور کبار صحابہ ہیں جو بجائے خود بڑی عظمت اور جلالت شان کے مالک ہیں، اگرچہ یہ کتابچہ ان کے تذکروں سے خالی ہوگا مثال کے طوپر حضرت مصعب بن عمیرؓ حضرت صہیب رومیؓ حضرت خباب بن ارتؓ سعد بن عبادہؓ حضرت اسعد بن زرارہؓ حضرت اسید بن حضیرؓ حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ ہم کی رفعت شان کا کیا کہنا!لیکن آئندہ اور اق میں آپ کو ان حضرات کے اسماء گرامی نہیں ملیں گے۔ آپ یوں ہی سمجھئے کہ انفرادی بشارتوں کا سلسلہ محض ایک حیلہ بہانہ ہے کہ یوں ہم چند یاران رسول(علیہ وعلیھم التحیۃ والتسلیم) کا ذکر خیر، زینت اوراق بنا کر اپنی مغفرت کاسامان کرلیں
اے ہم نشین! ذکر یار کر کچھ آج
کہ اس حکایت سے جی بہلتا ہے
ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کا قدسی طائفہ تو من اولھم الی آخرھم بہشتی ٹولہ تھا۔ تفسیر مظہری میں لکھا ہے قدانعقد الا جماع علی ان الصحابۃ کلھم عدول وکلھم مغفور لھم (ص۳۸ج۹) علماء امت کا اس پر اجماع ہوچکا ہے کہ صحابہؓ سب کے سب راست باز ہیں اور سب کے سب بخشے ہوئے ہیں۔
ہم سرفہرست ام لمومنین سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کا نام لارہے ہیں، ایک تو اس لیے کہ انہیں علی الاطلاق، اسلام قبول کرنے میں اولیت کا شرف حاصل ہے، ثانیا
اس لیے کہ وہ پوری امت مسلمہ کی ماں ہیں اور ماں کا تعارت اولاد سے پہلے اچھا لگتا ہے ھذا مااردنا واﷲ الموفق لما نرید
حواشی
(۱) قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں پر ایک اور علمی مضمون کی طرف اشارہ کر دینا مناسب ہوگا کہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت صرف اس امت کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے نبی ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نبی الانبیاء ہیں اور حضرات انبیاء مسابقین کے توسط سے ان تمام امتوں کے بھی نبی ہیں۔ اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی دوجماعتیں بن جاتی ہیں۔
(۲) کبار علماء، محدثین اور حضرات صوفیاء کرام نے اخلاص کے جو مدارج بیان فرمائے ہیں ان میں خواص اور اخص الخواص کا اخلاص یہ بتایا ہے کہ آدمی جنت اور نار کے تصور سے بالا تر ہو کر محض اﷲ کی رضا کے لیے یا عبدیت کا مقتضا سمجھ کر عبادت کرے تو اس میں جنت سے بے نیازی اور بے اعتنائی قطعاً نہیں پائی جاتی۔ وہ دوسری چیز سے جو ان جاہلوں کے نظر یہ سے بالکل مختلف ہے۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
والعاقل تکفیہ الاشارۃ