حضرت مولانا سید اصغر حسین حسنی رحمۃ اﷲ علیہ
۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ میں حضرت مولانا سیدا صغر حسین نور اﷲ مرقدہ کے مرتبہ مکتوب شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ اس عاجز کو شائع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حسن اتفاق ملاحظہ کیجئے کہ ٹھیک گیارہ برس گیارہ ماہ بعد پھر یہی سعادت میرے حصہ میں آئی کہ جب سابق میں کتابوں کی گرد جھاڑ رہا تھا کہ اس میں کچھ رسائل نظر پڑے اب جوانہیں سنوارکے رکھنے لگا تو اچانک حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا رسالہ فرحۃ الصائمین باصرہ نواز ہوا۔ دیکھتے ہی پھڑک اٹھاکہ آج شام ہی رمضان المبارک کی شب اول کا مطلع آغاز ہے اور آج ہی اﷲ نے اس مبارک ومسعود کام کی طرف مطلع فرمایا ہے۔ فوراً ہی میرے منہ سے نکلا کہ اس رسالہ کو موقع کی مناسبت سے اشاعت پذیر ہونا چاہیے۔ مؤلف کتاب حضرت مولانا سید اصغر حسین نورا ﷲ مرقدہ مدرسہ عالیہ دیوبند کے جلیل القدر فرزند اور مایہ ناز مدرس تھے۔ حضرت نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کی اس کا حق ادا کر دیا۔ زیر نظر رسالہ بھی ان کے اعجاز وایجاز قلم کا کرشمہ ہے کہ چند اور اق میں روزہ کے احکام ومسائل سمود ئیے ہیں۔ اس دور میں جب کہ مسلمان گمراہی کے غاروں کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اکابر کی خیرو برکت بداماں تحریروں کا مطالعہ ہی انہیں راہ راست پر واپس لاسکتا ہے۔بڑی بڑی کتابیں کون پڑھتا ہے۔ ایسے رسائل ہی ہیں جو فکر وعمل کی یکجائی کا سبب بن سکتے ہیں۔
انشاء اﷲ یہ رسالہ ’’جوبہ قامت کہتر وبہ قیمت بہتر‘‘ کا مصداق ہے اصلاح کا حق ادا کردے گا۔ احباب سے التماس ہے کہ رمضان پاک کی سعید ساعتوں میں دعا ء خیر سے نوازیں۔ واﷲ الموافق وھوالمستعان!
خاک پائے علماء الاحناف
سید عطاالمحسن بخاری (رحمۃ اﷲ علیہ)
۱۹۷۳ء
قال اﷲ تبارک وتعالیٰ
یَااَیُّھَاالّٰذِیْنَ اٰمَنْوُ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الِصّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلیٰ الّٰذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونْ
حمد ہے اس ذات بے مثال ذوالجلال کو جس نے اپنی حکمت سے رمضان المبارک مقرر فرماکر ناچیز گنہگار بندوں کے لیے رحمت ومغفرت کا سامان فرمایا اور درو دوسلام ہو سردار دو عالم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی اولاد اور دوستوں پر جس نے ہم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے روزہ کا حکم سنایا اور سید ھا راستہ بتایا۔ اس کے بعد عرض ہے کہ رمضان المبارک کے متعلق مسائل میں اگرچہ بعض اردو کے رسالے اس سے پہلے لکھے گئے ہیں لیکن چونکہ اکثر مسائل کو تفصیل سے علیحدہ نہیں لکھا گیا اس سے عوام کو دشواری ہوتی ہے لہٰذاا حقر نے حدیث وفقہ کی نہایت معتبر کتابوں سے مختصر طور پر یہ مسائل جمع کرکے بفضل خدا تعالیٰ ماہ رجب ۱۳۲۲ ہجری میں ایسی سید ھی سادی عبارت اور عام فہم طور سے لکھ دیے ہیں کہ عام مسلمانوں کو نفع ہوتو خدا تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اورہمارے لیے باعث نجات بنادے ۔ آمین
رمضان المبارک اور روزہ کے فضائل اور فرضیت کابیان :
رمضان المبارک میں خدا تعالیٰ کی رحمت اہل دنیا کی طرف خاص طور سے نازل ہوتی ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔ کیسا برکت کامہینہ ہے کہ اکثر آسمانی کتابوں کا نزول اسی ماہ میں ہوا ہے یعنی حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کے صحیفے اسی مہینہ میں تیسری تاریخ کو عطا ہوئے، حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور اسی مبارک مہینہ کی اٹھارہ تاریخ کو مر حمت ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توریت بھی چھ تاریخ رمضان کودی گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل بھی تیرہ رمضان کو نازل فرمائی گئی اور اہل اسلام کی سب سے بڑی نعمت یعنی کلام مجید بھی اسی ماہ مبارک میں لوح محفوظ سے آسمان پر نازل کیا گیا اور پھر حسب موقع وضرورت تیئیس برس تک رفتہ رفتہ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا ہوتا رہا اور ہر رمضان المبارک میں حضور سرور دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام سے ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اور سب سے آخری رمضان المبارک میں آپ نے دو مرتبہ دور فرمایا۔ اس ماہ میں اکثر شیاطین قید ہوجاتے ہیں جس کا ظاہر اثر یہ ہے کہ گناہ اس مہینہ میں بہت ہی کم ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً رمضان کے اخیر دنوں میں بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ کسی پر پوشیدہ نہیں۔ صدقات وخیرات کا ثواب اس ماہ میں معمو ل سے صدہا درجہ زیادہ ملتا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنا اسلام کا تیسر افرض ہے جو اس کا انکار کرے مسلمان نہیں رہتا اور جو شخص اس فرض کو چھوڑ دے وہ سخت گنہگار اور فاسق ہوتا ہے۔خدا تعالیٰ نے روزے میں بے شمار حکمتیں رکھی ہیں اور اعضاء سُست ہوجاتے ہیں تو نفس کی تیزی جاتی رہتی ہے اور حرام کی طرف رغبت بہت کم ہوجاتی ہے۔ جب اعضاء میں صفائی آتی ہے تو دل بھی صاف ہو جاتا ہے غریبوں مسکینوں کی حالت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ان پر رحم آتا ہے ہرچیز کے لیے اس کی مناسب زکوٰۃ اور پاکی کا سامان ہوتا ہے۔ بدن کی زکوٰۃ اور پاکی کے لیے خدا تعالیٰ نے روزہ کو مقرر فرمادیا ہے چونکہ روزہ میں نفس پر سخت مشقت ہوتی ہے لہٰذا خدا تعالیٰ نے اس کو ثواب کی ایک حد مقرر فرمائی ہے مگر روزے کے ثواب کے لیے فرمادیا ہے کہ ہم خود بے حساب جس قدر ثواب چاہیں گے عطاء فرمائیں گے اور جب ایسا رحیم وکریم خود بلاحساب عطاء فرمائے گا تو لینے والا مالا مال ہو جائے گا۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک
روزہ میں نیت کی ضرورت کا بیان :
روزہ میں نیت شرط ہے (نیت کہتے ہیں دل کے قصد اور ارادے کو) اگر روزہ کاارا دہ نہیں کیا اور تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تو روزہ نہ ہوگا۔
رمضان کے روزے کی نیت آدھے دن تک کرسکتا ہے۔نذر معین کہتے ہیں دن مقرر کرکے روزہ ماننے کو مثلایوں کہے کہ اس ہفتہ میں جو جمعرات آوے گی اس میں خدا کے لیے روزہ رکھوں گا اور آدھے دن کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق (جن کی پیلی پوپھٹنا کہتے ہیں )ہو نے سے سورج چھپنے تک جس قدر فاصلہ ہو اس کے آدھے وقت تک نیت کرسکتا ہے ۔یعنی تخمینا گیارہ بجے تک،(ٹھیک دوپہراور زوال کا وقت ہونے سے ڈیڑھ گھنٹہ پیشتر) اس کے بعد نیت کرنے کا اعتبار نہیں۔ قضا روزے کی نیت رات سے کرنی ضروری ہے کفارہ کے روزہ کی نیت بھی رات سے ضروری ہے نذرمعین کی نیت بھی رات سے ضروری ہے یعنی صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے نیت کرلے (نذرغیر معین یہ ہے کہ کوئی دن معین نہ کرے بلکہ خدا کے لیے اپنے اوپر روزے واجب کر لے یا مثلا یوں کہے کہ اگر میرا بھائی تندرست ہوگیا تو پانچ روزے رکھوں گا) زبان سے نیت کرنی ضروری نہیں لیکن اگرچا ہے تو سحر کا کھانا کھاکر اس طرح نیت کرلیا کرے۔ بصوم غد نویت من شھر رمضان اگر کھانا کھانے سے پہلے نیت کرلے تب بھی جائز ہے بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ نیت کرنے کے بعد کھانا پینا جائز نہیں یہ خیال بالکل غلط ہے۔ بلکہ صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کھاناپینا جائز ہے خواہ نیت کی ہو یانہ کی ہو، رمضان میں اگر نفل وغیرہ روزہ کی نیت کرے تو رمضان ہی کا روزہ ادا ہوگا نفل نہ ہوگا۔
اُن باتوں کا بیان جس سے روزہ نہیں جاتا :
بھول کر کھانا پینا روزہ نہیں توڑتا۔ روزہ یاد نہ رہا اور صحبت کرلی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔بلا اختیار حلق میں دھواں یاگر دوغباریا مکھی مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ آٹا پیسنے والے اور تمباکو وغیرہ کو ٹنے والے کے حلق میں جو آٹا وغیرہ اڑکر جاتاہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔کان میں پانی چلا جاوے یا خود قصداً پانی ڈال لے ۔خود بخودآ جائے یا خواب میں غسل کی حاجت ہوجائے یا قے آکر خود بخود لوٹ جاوے ان سب باتوں سے روزہ نہیں جاتا اور کچھ خلل نہیں آتا۔ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں جاتا ۔خوشبو سو نگھنے سے کچھ خلل نہیں آتا بلغم دماغ سے اترا اور اس کو نگل گیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ تھوڑی سی قے (یعنی منہ بھرسے کم) اگر قصداً بھی کرے تو روزہ نہیں جاتا۔ تھوڑی سی قے آئی اور قصدًا لوٹا کر نگل گیا تو روزہ نہیں جاتا۔ دھاگے کو ایک طرف سے پکڑے رہا اور دوسری طرف سے نگل گیا اور پھر کھینچ لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اگر کوئی شخص بھول کر روزے میں کھاپی رہا ہے اگر وہ قوی تندرست ہے تو اس کو یاد دلانا بہتر ہے اور اگر ضعیف وناتواں ہے تو یاد نہ دلانا چاہیے۔ اگر تل یاخشخاش کا دانہ چبالیا تو روزہ نہیں جاتا کیونکہ وہ منہ میں رہ جاتا ہے حلق میں نہیں پہنچتا۔ اگر دانتوں میں خون جاری ہو مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں کچھ خلل نہیں آتا۔ اگر خواب میں یاصحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہ کیا تو روزہ میں کچھ نقصان نہیں آتا بلکہ اگر آفتاب نکلنے کے بعد بھی غسل کرے گا جب بھی روزہ درست وصحیح رہے گا البتہ غسل میں تاخیر کر کے نماز قضا کرنے کی وجہ سے گنہگار وعاصی ہوگا۔ اس مسئلہ کے متعلق احادیث جواب المتین کے صفحہ ۳۱ پر ملاحظہ کریں۔
بعض وہ باتیں جن سے روزہ جاتا رہتا ہے اور صرف قضاء واجب ہوتی ہے کفارہ نہیں :
کان اور ناک میں دوا ڈالنا، قصدًا منہ بھر کے قے کرنا، حقنہ کرنا، منہ بھر کرقے آئی تھی اس کو لوٹا کرنگل جانا کلی کرتے ہوئے منہ میں پانی چلا جانایہ سب چیزیں روزے کو توڑنے والی ہیں مگر صرف قضاء آئے گی کفارہ نہیں۔ عورت کو چھونے سے انزال ہوجائے یا بوسہ لینے سے انزال ہوجائے تو روزہ جاتا رہتا ہے مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے۔ کنکر یا لو ہے تا نبے کا ٹکڑایا کچا گیہوں نگل جائے تو روزہ جاتا رہتا ہے اور صرف قضا آئے گی۔ ہاتھ سے مل کر منی نکالنا حرام ہے اور اس کی وجہ سے دنیا وآخرت میں نہایت نقصان وعذاب اور وبال پڑتا ہے اگر روزہ میں ایسا کرے گا تو روزہ جاتا رہے گا صرف قضاء واجب ہوگی کفارہ نہیں۔ حقہ پینے سے روزہ جاتا رہتا ہے تل یا خشخاش کا وانہ ثابت نگل جانے سے روزہ جاتا رہے گا۔ حقہ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کفارہ واجب ہوتا ہے علیٰ ہذا القیاس اگر عود کی یا لوبان وغیرہ کی دھونی سلگا کر عمداً ناک یا حلق میں دھواں پہنچائے تب بھی روزہ جاتا رہے گا اور قضاواجب ہوگی اگر کسی ظالم نے قتل کا خوف دلایا بہت سخت مارنے سے ڈرا کر یا زبر دستی منہ چیر کر کچھ کھلا پلادیا تو روزہ جاتا رہا۔ اگر کسی نے بھول کر کھایا اور سمجھا کہ روزہ ٹوٹ گیا ہوگا پھر قصداً کھالیا تو روزہ گیا اور قضا واجب ہوگی اگر کسی عورت سے زبردستی جماع کر لیا جائے تو عورت پر صرف قضا واجب ہوگی۔ رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھائی تو قضا واجب ہوگی۔ اگر سوتے ہوئے کسی نے منہ میں پانی ڈال دیا تو صرف قضا واجب ہوگی۔ دن باقی تھا مگر غلطی سے یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے تو صرف قضا واجب ہوگی۔ ان سب صورتوں میں کفارہ واجب نہ ہوگا۔
ان چیزوں کا بیان جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا بھی واجب ہوتی ہے اور کفارہ بھی :
جان بوجھ کر بدول بھولنے کے صحبت کرنا یا کھانا پینا روزہ کو توڑدیتا ہے اور قضا بھی لازم آتی ہے اور کفارہ بھی(اگربھول کر یہ کام کرے تو روزہ نہیں جاتا اس کابیان ہوچکا ہے) روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو(یعنی اتنی قیمت کا مقدور نہیں رکھتا یا اس ملک میں غلام نہیں ملتا جیسے آج کل ہندو ستان میں ) تو متواتر ساٹھ روزے رکھے یعنی درمیان میں کوئی دن خالی نہ جائے۔ اگر کوئی دن چھوٹ جائے گا تو پھر تمام روزے شروع سے رکھنے پڑیں گے اگرروزہ کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلاوے لیکن شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو پہلے وقت کھلایا تھا انہیں کودوسرے وقت کھلاوے اگر ان کے سوا دوسروں کو کھلاوے گا تو کفارہ ادانہ ہوگا۔ اگر ایک مسکین کو برابر ساٹھ دن تک دونوں وقت کھانا کھلادیا کرے تب بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔ گر جو یاخرمایاچنادینا چاہے تو ہر مسکین کو ساڑھے تین سیر دینا پڑے گا۔ اگر ہر مسکین کو پونے دوسیر گہیوں کی قیمت دے دے تب بھی جائز ہے۔ اگر کسی عورت نے قصداً کچھ کھالیا یاپی کر روزہ توڑ ڈالا اور پھر اسی روز حیض آگیا تو کفارہ ساقط ہو جائے گا صرف قضا واجب ہوگی۔ کسی شخص پر روزہ توڑنے سے کفارہ واجب ہوا اور پھر اسی روز بیمار ہوگیا تو کفارہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا صرف قضا رہے گی۔ اگر مسافر اپنے وطن میں پہنچا او ر اسی دن روزہ توڑ ڈالا تو صرف قضا آئے گی۔ کفارہ نہیں نابالغ لڑکا یالڑکی یا مجنوں آدمی اپنا روزہ توڑ ڈالے تو کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ ماہ رمضان کے سوا اگر کسی اور قضا یانذریا کفارہ یانفل روزے کو توڑ ڈالے تو کفارہ واجب نہیں ہوتا صرف قضا کرنا آتا ہے۔
ان باتوں کا بیان جن سے روزہ نہیں جاتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا:
مسواک کرنا، سریا مونچھوں پر تیل لگانا، آنکھ میں دواڈالنا مکروہ نہیں اور سرمہ لگاکر سو رہنے سے بھی روزہ میں کچھ خلل نہیں آتا بعض لوگ جو روزہ میں سرمہ لگانے کو یا سرمہ لگا کر سور ہنے کو مکروہ سمجھتے ہیں غلط ہے اگر شہوت سے امن ہو یعنی یہ اندیشہ نہ ہو کر بوسہ لینے سے انزال ہوجائے گایا جماع میں مبتلا ہوجائے گا، تو بوسہ لینا مکروہ نہیں۔ خوشبو سونگھنا مکروہ نہیں، اگر بی بی کو اپنے خاوند کا اور نوکر اپنے آقا کے غصہ کا اندیشہ ہو تو کھانا نمک چکھ کر تھوک دینا جائز ہے نہ روزہ جاتا ہے، نہ مکروہ ہوتا ہے۔ گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا اور کپڑا تر کر کے بدن پر لپیٹنا مکروہ نہیں۔
وہ چیزیں جو روزوں میں مکروہ ہوتی ہیں لیکن روزہ نہیں جاتا :
بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یانمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا ایسی حالت میں بوسہ لینا کہ انزال کا خوف ہویا جماع میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو قصداً تھوک اکٹھا کر کے نگل جانا ۔ تمام دن جنابت یعنی غسل کی حاجت میں رہنا فصد کرانا بہت پچھنے لگوانا یہ سب چیزیں مکروہ ہیں مگر روزہ ان سے نہیں جاتا۔ غیبت کرنی حرام ہے اور غیبت سے روزہ نہایت سخت مکروہ ہوجاتا ہے روزہ میں لڑنا جھگڑنا گالی دینا مکروہ ہے اگر کوئی لڑے تو اپنے دل میں خیال کر لو کہ ہم روزہ سے ہیں ہم کو لڑنا نہ چاہیے یا اس سے بھی کہہ دو کہ اس وقت ہم روزہ دار ہیں تم کو جواب نہیں دے سکتے۔ جو شخص روزہ میں غیبت بد گوئی جھوٹ فریب اور گالی کو نہ چھوڑے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کو اس کے روزے کی کچھ پر وا نہیں۔ ان باتوں سے روزہ کاثواب بہت ہی کم ہو جائے گا اور روزہ مقبول نہ ہوگا۔
وہ عذر جن سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوجاتی ہے:
اگر مرض کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو رمضان میں روزہ نہ رکھے تندرستی کے وقت قضا کرلے۔ اگر روزہ رکھنے سے مرض کے زیادہ ہونے کا خوف ہے تب بھی روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ جو عورت حمل سے ہو اور روزہ رکھنے سے بچے کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ جو عورت اپنے یاغیر کے بچے کو دودھ پلاتی ہو اگر ضرورت سمجھے تو روزہ نہ رکھے پھر قضا کرلے۔ مسافر کو اجازت ہے کہ حالت سفر میں رمضان میں روزہ نہ رکھے سفر سے واپس ہونے کے بعد قضا کرے۔لیکن اگر کچھ تکلیف یا دقت نہ ہوتو بہتر اور افضل یہی ہے کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھ لے۔ اگر کوئی مسافر دوپہرسے پہلے اپنے وطن کو واپس آگیا اور اب تک کچھ کھایا پیا نہیں تو اس پر واجب ہے کہ روزے کو پورا کرلے کیونکہ سفر کا عذراب باقی نہیں رہا اگر کسی مسافر کو سفر میں روزہ رکھنے سے کچھ تکلیف نہیں ہوتی لیکن اس کے ساتھ والوں کو اس کے روزہ سے دشواری پیش آتی ہے تو افضل اس کو یہ ہے کہ یہ بھی روزہ نہ رکھے۔ واپسی کے بعد قضا کرلے۔ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت جب ہوتی ہے کہ تین روز کاسفر ہو جس کی مقدار علمانے چھتیس کو س یعنی اڑتالیس میل مقرر فرمائی ہے۔خواہ ریل کے ذریعہ سے سفر کرے یاکسی اور سواری پر یا پیادہ پایعنی اگر کسی تیز سواری پر یاریل میں اڑتالیس میل دوچار گھنٹے میں چلا جائے گا تب بھی مسافر اور رخصت اس کے لیے حاصل ہوجائے گی اگر کوئی شخص اس قدر بوڑھا ضعیف ہوگیا کہ روزہ نہیں رکھ سکتا ۔اس کو بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ہر ایک روزہ کے بدلے میں پونے دوسیر گہیوں مسکین کو دیوے اور اگر اتفاق سے اس ضعیف بوڑھے میں اتنی طاقت آجائے کہ روزہ رکھ سکتا ہے توجو روزے چھوڑ دیے تھے۔ ان کی قضا لازم ہوگی اور ہرروزہ کے بدلے میں پونے دوسیر غلہ گندم یعنی فدیہ جوادا کر چکا ہے، وہ کافی نہ ہوگااگر کوئی شخص زبردستی کر ے اور مار ڈالنے کا خوف دلائے تب بھی رمضان میں روزہ قضا کر دینا جائز ہے۔ عورت کو اپنے معمولی عذر یعنی حیض کے ایام میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح پیدائش کے بعد خون آتا ہے ان ایام میں بھی روزہ جائز نہیں ہے یہ دونوں ایسے عذر ہیں کہ ان میں اگر کوئی ناواقف روزہ رکھے بھی تو ادا نہیں ہوتا بلکہ پاک ہونے کے بعد قضا کرنا چاہیے
یہاں تک ان عذروالوں کا بیان ہو ا جن کو رمضان میں روزہ چھوڑ دینا جائز ہے لیکن ان لوگوں کو یہ نہیں چاہیے کہ سب کے سامنے بلاتکلف کھاتے پھریں۔ بلکہ رمضان المبارک کی تعظیم لازم ہے۔ ایک دفعہ تنہائی میں کھانے پینے کی ضرورت رفع کرکے پھر روزہ داروں کی طرح رُکے رہیں۔ اگر کسی عورت کو روزے میں حیض آگیا تو شام تک اس کو کھانا پینا نہ چاہیے اگرچہ قضا واجب ہوگی۔ لیکن اس طرح انشاء اﷲ ثواب اس روزہ کابھی مل جائے گا۔ اگر بلاعذر کوئی شخص رمضان کا روزہ نہ رکھے تو اس کے عوض میں اگر تمام عمر بھی روزے رکھے جب بھی وہ ثواب اور فضیلت حاصل نہ ہوگی جو رمضان میں ہوتی ہے۔ البتہ قضا روز رکھ لینے سے فرض ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔
روزہ تو ڑدینے کابیان :
نفل روزہ کو بلا عذر توڑ دینا بھی جائز ہے لیکن مکروہ ہے اور قضا واجب ہوگی اور اگر خفیف سا عذر پیش آگیا توتوڑ دینا مکروہ بھی نہیں بلکہ بعض صورتوں میں توڑنا مستحب ہوجاتا ہے اور کبھی ضروری مثلا کوئی مہمان آگیا جس کے ساتھ کھانا مناسب ہے تو روزہ توڑ دینا مستحب ہے یا کسی نے دعوت کردی اگر وہاں جاکر نہ کھائے گا تو اس کو رنج ہوگا تو روزہ توڑ دینا مستحب ہے اگر اس کے رنج کا اندیشہ نہ ہوتو بھی توڑ دینا جائز ہے اور اگر کوئی مرض یاسفر درپش آگیا یا محنت کاکام پڑگیا تب بھی توڑ دینا جائز ہے اور اگر ایسا مرض یا عذر پیش آگیا کہ اگر روزنہ توڑنے میں ہلاکت کا اندیشہ ہے تو روزنہ توڑ دینا واجب لازم ہوجاتا ہے۔ لیکن ان سب صورتوں میں توڑے ہوئے روزے کی قضا رکھنا واجب ہے اور فرض روزے کو بلاکسی شدید اور قوی عذر کے توڑ نا جائزنہیں۔اگر ایسا سخت بیمار ہوگیا کہ اگر روزہ نہ توڑ ے تو جان جانے کا اندیشہ ہے یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے تو روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے اگر ایسی شدید پیاس لگی، کہ روزہ تمام کرے گا تو مرجائے گا تب بھی روزہ توڑ ناجائز بلکہ واجب ہے۔ کسی جانور نے کاٹ لیایا کوئی زخم لگ گیا تب بھی روزہ توڑ کر دواپینا اور علاج کرنا جائز ہے ایسی سب صورتوں میں صرف قضا واجب ہے کفارہ آئے گا۔ اگر تب روزہ کی باری کا دن تھا اور یقین تھا کہ تپ دلرزہ آئے گا ا س نے پہلے ہی سے روزہ توڑ ڈالا اور پھر تپ ولرزہ نہ آیا تب بھی کفارہ نہیں صرف قضا واجب ہے دعوت ومہمان کی وجہ سے جیسے نفل روزہ توڑنا جائز ہے فرض کو توڑنا ہر گز جائز نہیں اگر رمضان میں ایسا کرے گاتو کفارہ واجب ہوگا جس کا بیان گزر چکا ہے۔
قضا روزے رکھنے کا طریقہ:
اگر کسی عذر سے روزے قضا ہوگئے ہوں تو جب عذر جاتا رہے اجلدادا کرلینا چاہیے کیونکہ زندگی کا بھروسہ نہیں کیا خبر ہے کہ موت آجائے اور فرض ذمہ رہ جائے ۔مثلا بیمار کو مرض سے صحت پانے کے بعد اور مسافر کو سفر سے واپس ہونے کے بعد جلدادا کرلینا چاہیے۔ رمضان کے روزے اگر قضا ہوگئے تو اختیار ہے کہ متواتر (یعنی لگاتا ر) رکھے یا جدا جدا متفرق طور پر رکھ لے۔ اگر گذرے ہوئے رمضان کے روزے کسی وجہ سے ادانہ ہو سکے اور دوسرا رمضان آپہنچا تو پہلے اس رمضان کو ادا کرلے جو روزے گذشتہ رمضان کے ذمہ ہیں ان کو پیچھے ادا کرے۔ اگر رمضان میں سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا اور پھر تندرست ہونے سے پہلے مرگیا تو قضاذمہ سے ساقط ہوگئی۔ اسی طرح اگر رمضان میں مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھااور پھر تندرست ہونے سے پہلے مرگیا تو ذمہ سے قضا جاتی رہی۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں ادا کرنے کا وقت ہی نہیں ملا اگر سفر میں بیس روزے قضا ہوے اور واپس آکر صرف دس روز وطن میں رہا تو دس ہی روز کی قضاء اس پر واجب رہی۔ اسی طرح اگر بیماری سے تندرست ہونے کے بعد چار دن زندہ رہا تو چار دن ہی کی قضاواجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کے ذمہ پر روزے قضا واجب تھے اور ادا کرنے کا وقت بھی پایا مگر ادا نہیں کیا اور مرگیا تو اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کو مناسب ہے کہ ہر ایک روزے کے بدلے پونے دوسیر گیہوں(گندم) یاساڑھے تین سیر جو یا چنایا مکئی جوار وغیرہ یا اسی قدر غلہ کی قیمت فقراء ومساکین کو دے دیں انشاء اﷲ اس کے ذمہ سے روزہ ادا ہوجائے گا اور اگر وہ شخص مال بھی چھوڑ گیا ہو اور اپنے روزے کے عوض میں فدیہ دینے کی وصیت بھی کر گیا ہے تو وارثوں کے اوپر ا س کو ادا کرنا واجب اور ضروری ہے۔
سحرکے کھانے کا بیان اور فضیلت :
روزہ کے لیے سحر کا کھانا بہت مسنون اور باعث ثواب ہے۔ رسو ل مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سحری کھایا کر و اس میں برکت ہوتی ہے یہ ضرور نہیں کہ خوب پیٹ بھر کر کھاوے بلکہ ایک دولقمہ یا دوچار دانے یاچھو ہارے کا ٹکڑا بھی کھالے گا تو سنت ادا ہوجائے گی ۔اس آسان اور مفید سنت کو ہر گز نہ چھوڑنا چاہیے اس کی وجہ سے روزہ میں قوت اور تسلی رہتی ہے اور سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ادا ہونے سے ثواب بے حساب حاصل ہوتا ہے۔ اگر چہ نصف رات گذرنے کے بعد جس وقت کھائے گا سنت ادا ہوجائے گی لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ رات کے آخری حصہ میں صبح صادق ہونے سے ذرا پہلے کھاوے۔ اگر سحر کھانے کو اٹھا اور شبہ ہوا کہ شاید صبح ہوگئی تو اگر غالب گمان صبح ہوجانے کا ہے تو سحرنہ کھانا چاہیے اور اگر رات ہونے کا گمان غالب ہو تو کھا لینا چاہیے ۔پھر اگر کسی وجہ سے معلوم ہوگیا کہ جس وقت کھانا کھایا صبح ہوگئی تھی تو صرف قضا واجب ہوگی مگر اس روز بھی تمام دن کچھ کھانا پینا نہ چاہیے۔ اگر صبح ہونے کا شک ہو اور کسی جانب گمان غالب نہ ہو تو ایسی صورت میں افضل یہ ہے کہ نہ کھائے لیکن اگر کھائے گا توروزہ ہوجائے گا اور پھر اگر کسی طرح معلوم ہوگیا کہ صبح ہوگئی تھی تو شام تک رُکنا اور قضا رکھنا واجب ہے۔
فائدہ: صبح صادق ہونے سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد آفتاب نکلتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد پس اگر اتفاق سے کسی روز آپ کی گھڑی غلط ہو یایہ معلوم نہ ہو کہ کس وقت صبح صادق ہوتی ہے آپ کو اشتباہ ہوجائے کہ آج ہم نے سحر کا کھانا صبح صادق سے پہلے کھایا ہے یا پیچھے اور آج کا روزہ ہوگا یا نہیں تو اس اشتباہ اور شک کو رفع کرنے کی بہت عمدہ صورت یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد فوراً ہی اپنے پاس یامسجد میں یا محلہ میں کسی کے پاس گھڑی دیکھ لو کہ اس وقت کتنا بجاہے اور کیا وقت ہے اور پھر صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے کے منتظر رہو۔ آفتاب نکلنے کے وقت پھر گھڑی دیکھ کر حساب لگا لو کہ اس وقت کھانا کھانے کو کتنا عرصہ گزرا ہے اگر ایک گھنٹہ بیس منٹ گزر گئے یا پورا ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ تو سمجھ لو کہ یقینا روزہ ہوگیا ورنہ سمجھو کہ نہیں ہوا۔ اگر روزہ نہ ہوا جب بھی شام تک کھانے پینے سے باز رہو تو انشاء اﷲ ثواب کامل ہوجائے گا۔ لیکن قضا رکھنا واجب ہوگا۔ اگر کسی مؤذن نے یا مرغ نے صبح ہونے سے پہلے اذان دے دی تو سحر کھانے کی ممانعت نہیں جب تک کہ واقع میں صبح صادق نہ ہوجائے ۔سحر کے بعد اگر منہ میں پان لے کر سوگیا جب تک حلق میں پیک پہنچنے کا یقین نہ ہوجائے صرف شک سے روزہ میں خلل نہیں آئے گا۔
روزہ افطار کرنے کا بیان :
آفتاب غروب ہوجانے کے بعد افطار میں دیرنہ کرنا چاہیے۔ البتہ جس روزابر ہواس دن کسی قدر احتیاط کے لیے دیر کرنا بہتر ہے کھجور یا خرما سے افطار کرنا مسنون اور باعث ثواب ہے۔ اگرخرمانہ ہو تو پانی سے افطار کرنا چاہیے۔ آگ کی پکی ہوئی چیز(مثلا روٹی، چاول،شیرینی وغیرہ) سے افطار کرنے میں بالکل خرابی اور نقصان روزہ میں نہیں آتا البتہ بہتر یہ ہے کہ دوسری کوئی چیز ہو اگر خرما ہو تو سب سے افضل ہے۔ روزہ افطار کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھو۔ اللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلیٰ رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ اور افطار کرکے بعد یہ دعا پڑھوذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلّتِ الْعُرُو ق وَثَبَتَ الاَْ جرُاِن شَاءَ اﷲ ذ روزہ افطار کرنے کے بعد نماز سے پہلے کلی کر لو تا کہ نماز میں کھانے کا مزا منہ میں نہ رہے، کسی کو افطار کے لیے کچھ کھانا یا خرما وغیرہ دے کر روزہ افطار کرانے سے اسی قدر ثواب ملتا ہے جس قدر روزہ رکھنے سے۔ اگر تم کو کوئی شخص افطار کے لیے کچھ دے تو لے لو کیونکہ اس سے تمہارے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی اس کو ثواب حاصل ہوجاتا ہے پھر تم کیوں بخل کرتے ہو۔ البتہ رشوت خوار سود خور کی افطاری سے روزہ افطار نہ کرنا ورنہ ثواب کم ہوجائے گا اگر روزہ افطار کرنے اور کھانے پینے میں مغرب کی نماز وجماعت میں دس بارہ منٹ کی تاخیر کردیں تو کچھ مضائقہ نہیں یہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے اور اسی پر عمل تھا ہمارے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اﷲ کا۔
نماز تراویح کابیان :
جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور شب کو حسب طاقت عبادت کرے صرف خدا تعالیٰ کی رضامندی کے لیے تو اس کے تمام پہلے کیے ہوئے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ رمضان المبارک میں عشاء کی فرض اور سنت کے بعد بیس رکعت تراویح مسنون ہے خود جناب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی چند روز تراویح باجماعت ادا فرمائی ہے اور پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں صحابہ نے بھی تراویح پڑھی ہے(بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ تراویح کی بیس رکعت بد عت ہے یہ غلط ہے) بیس رکعت سے کم تراویح پڑھنا نہ کسی حدیث سے ثابت ہے نہ کسی امام کا قول ہے نہ کسی مجتہد کا بارہ یا آٹھ رکعتوں کا جواحادیث میں ذکر ہے وہ تہجد کی نماز ہے۔ تراویح کواس سے کچھ علاقہ نہیں(تراویح بیس سے کم کہیں ثابت نہیں) تراویح کی جماعت سنت علی الکفا یہ ہے۔ اگر تمام اہل محلہ جماعت چھوڑدیں اور تنہا تنہا مکان میں پڑھا کریں تو سب گنہگار ہونگے اگر محلہ کی مسجد میں جماعت ہوتی ہے لیکن ایک شخص تنہا گھر میں اپنی تراویح علیحدہ پڑھتا ہے تو سنت ادا ہوجائے گی لیکن بہت بڑا ثواب اور فضیلت ہاتھ سے جاتی رہی۔ تمام رمضان میں ایک قرآن شریف ضرور ختم کر دینا چاہیے تین دن سے کم میں ایک قرآن تراویح میں ختم کرنا اچھا نہیں۔ اگر ترویح میں دورکعت پر بیٹھنا بھول گیا اور پوری چار رکعت پڑھ کر سلام پھیرا تو ان چار رکعتوں کو دو کی جگہ شمار کرنا چاہیے چار نہ سمجھنا چاہیے۔ اگر امام بیٹھ کر تروایح پڑھا وے اور مقتدی کھڑے رہیں تو جائز ہے۔ اگر ایک حافظ ایک مسجد میں بیس رکعت تراویح پڑھا چکا ہے اور وہی حافظ دوسری مسجد میں تراویح پڑھا دے تو جائز ہے مگر اچھا نہیں بعض لوگوں کے نزدیک اس طرح سنت ادا نہ ہوگی۔
جس شخص کی دوچار رکعتیں تراویح کی رہ گئی ہوں، وہ اگر وتر پڑھ لے اور پھر اپنی چھوٹی ہوئی تراویح ادا کرلے تو درست ہے۔ جو شخص وتر کی جماعت میں دوسری یا تیسری رکعت میں شریک ہو جب امام دعاء قنوت پڑھے تو وہ بھی پڑھ لے اور جب امام کے بعد اپنی رکعتیں ادا کرے تو ان میں صرف الحمد اور سورت پڑھے لیکن اگر غلطی سے اس نے دوبارہ بھی دعا قنوت پڑھ لی تو نماز میں کچھ خلل نہ آئے گا۔ جو حافظ روپیہ کے خیال سے تراویح میں قرآن مجید ختم کرتا ہے اس کے پیچھے پڑھنے سے اَلَمْ تَرَکَیْفَسے پڑھانے والے کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے جو مال کی طمع سے نہ پڑھتا ہو ۔اور اگر اجرت مقرر کرکے حافظ سے تراویح میں قرآن سنا جائے تو کسی کو ثواب نہیں ہوتا، نہ امام کو نہ مقتدی کو قرآن کو اس قدر جلد پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں بڑا گناہ ہے اس صورت میں نہ امام کو ثواب ہوگا نہ مقتدیوں ۔قوی اور بہت صحیح قول یہ ہے کہ نا بالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
اعتکاف کابیان :
رمضان المبارک کے آخر عشرہ میں اعتکاف سنت ہے۔ اگر سارے محلہ یا تمام بستی میں سے کوئی شخص بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے ذمہ ترک سنت کاوبال رہتا ہے۔ اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ نیت کرکے مسجد میں رہنا اور سوائے ضروری حاجت اور غسل وضو کے لیے باہر نہ آنا خاموش رہنا۔ اعتکاف میں بالکل ضروری نہیں بلکہ مکروہ ہے۔البتہ نیک کلام کرنا اور بدکلامی لڑائی جھگڑے سے بچنا چاہیے۔ اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں۔ بلکہ نماز وتلاوت قرآن یا پڑھنا پڑھانا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔اعتکاف اس مسجد میں ہو سکتا ہے جس میں پنچ گانہ نماز باجماعت ہوتی ہو۔ جمعہ کی نماز کے لیے اندازہ کر کے ایسے وقت چلا جاوے، کہ جامع مسجد میں جاکر سنتیں پڑھ لے اور خطبہ سُن لے۔ اگر کچھ زیادہ دیر لگ جائے گی تو اعتکاف میں نقصان نہ آئے گا اور اگر جامع مسجد ہی میں اعتکاف کرے تو بہت افضل ہے ۔ اگر بلا ضرورت طبعی و شرعی ایک منٹ کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا خواہ بھول کر نکلے یا عمداً اگر اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہو تو بیس تاریخ کوآفتاب غروب ہونے سے پہلے مسجد میں چلا جاوے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
شب قدر کا بیان :
لیلۃ القدرنہایت قدر والی رات ہے چونکہ اس امت کی عمریں بہت چھوٹی ہوتی ہیں ا س لیے خدا تعالیٰ نے ایک شب ایسی مقرر فرمادی کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار مہینے کی عبادت سے بھی زیادہ ہے (ہزار مہینہ کے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں) لیکن اس کو پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ ا س کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ تمام رمضان کی راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہیے حضوصاً آخری عشرہ میں اکیس، پچیس، ستائیس، انتیسویں شب میں زیادہ احتمال ہے لہٰذا ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت نہ ہو یاخوف بیماری کا ہو یا اپنے ضروری کام کے حرج کا خیال تو جس قدر طاقت ہو شب بیداری کرلے نفل نماز پڑھے یا قرآن مجید پڑھے یا اور کسی قسم کی عبادت کرے شب قدر میں کسی چیز کا نظر آتا ضروری نہیں اور اگر کبھی نور اور تجلی نظر پڑے تو کچھ بعید بھی نہیں۔
نفل روزہ کا بیان اور شش عید کا ذکر :
رمضان کے بعد سب سے زیادہ افضل روزے عشرۂ محرم کے ہیں اس لیے اس عشرہ میں جس قدر روزے رکھنے کی ہمت ہو رکھے ورنہ نو اور دس تاریخ کو تو ضرور ہی رکھے اور اگر صرف ایک رکھنا چاہے تو دسویں کو رکھے ا س روزہ رکھنے کے متعلق احادیث میں بہت فضلیت اور ثواب دار ہوا ہے۔ ذی الحجہ یعنی بقر عید کے مہینہ میں اوّل تاریخ سے نو تک جس قدر طاقت ہو روزے رکھے ورنہ صرف نویں کو رکھے ماہ شوال یعنی عید کے مہینہ میں اگر چہ روزے رکھے تو بہت ثواب حاصل ہو۔ ان روزوں کو ماہ شوال میں ختم کردینا چاہیے بس اور کوئی شرط نہیں خواہ ایک دفعہ برابر چھ روزے متواتر رکھ لے یا متفرق طور پر جدا جدا یہ بھی ضرور نہیں کہ عید کے اگلے روز ضرور رکھے بلکہ جب چاہے ادا کرے ماہ شوال میں چھ روزے پورے ہوجائیں۔ یہ ہی روزے اکثر جگہ شش عید کے روزوں کے نام سے مشہور ہیں۔ شعبان کی چودہ پندرہ کو نفل روزہ رکھنا بھی بہت ثواب رکھتا ہے۔ اگر دو نہ رکھ سکے تو صرف پندرہ کو ایک روزہ رکھ لے اور ہر جمعرات اور دو شنبہ کو روزہ رکھنا بھی مسنون ہے اور ہرماہ کی تیرہ چودہ پندرہ تاریخ کو بھی روزہ رکھنا بھی مسنون ہے۔ اسی کو ایام بیض کے روزے کہتے ہیں اور نفل روزہ کے شائق کے لیے یہ بہت اچھی صورت ہے اس طرح مہینے بھر کے روزوں کا ثواب ہوجائے گا۔ حدثیوں میں اس طرح نفل روزہ رکھنے کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ اگر عورت کاخاوند موجو د ہو تو اس کو چاہیے کہ نفل روزہ خاوند کی اجازت لے کر رکھے۔
مکروہ اور حرام روزوں کا بیان :
آدھا شعبان گزر جانے کے بعد نفل روزے مکررہ ہیں۔ لیکن اگر کسی کے ذمہ قضا روزے ہوں تو ان کو ادا کر لینے میں کچھ مضائقہ نہیں اسی طرح اپنی معمولی عادت کے نفل روزے رکھنے مکروہ نہیں مثلا تم دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہو تو اب پندرہ شعبان کے بعد اپنی عادت کے موافق دو شنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھنا مکروہ نہ ہوگا ابرو غیرہ کی وجہ سے جس روز رمضان ہونے نہ ہونے میں شک ہو، عام لوگوں کو روزہ نہ رکھتا چاہیے بلکہ دس بجے تک انتظار کرکے کھاپی لینا چاہیے۔ تمام سال برابر نفل روزے رکھنا بھی مکروہ ہے اگر بہت شوق ہو تو ایک روزہ افطار کر دواور ایک دن روزہ رکھو شوال کی پہلی تاریخ یعنی عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور ذی الحجہ کی دسویں گیار ھویں، باھویں، تیرھویں، یعنی بقر عید کو اور اس کے تین روز بعد تک بھی روزہ رکھنا حرام ہے۔
صدقۃ الفطرکا بیان :
صدقہ الفطر اس شخص پر واجب ہے کہ اس کے پاس موجودہ دور میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نقد یا اس سے زیادہ ہوں یا زیور یا کوئی مال، زمین جائیداد یا تجارت کامال ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت یا اس سے زیادہ قیمت کا ہو( صدقہ فطر واجب ہونے میں یہ شرط نہیں کہ سال بھر گذرجائے پس جس شخص کی ملک میں مال ہو جس کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کو اپنی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے اور اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے بھی بڑی(یعنی بالغ) اولاد کی طرف سے باپ پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ اگر خودان کی ملک میں مذکورہ بالا مقدار کامال ہو تو ان پر واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ بی بی کا فطرہ خاوند کے ذمہ واجب نہیں لیکن اس زمانہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر زوجہ کے پاس مال ہونے کی وجہ سے صدقہ واجب ہوتو خاوند اس کو ادا کرے اور اگر خاوند ادا نہ کرے تو عورت کو خود فکر چاہیے۔ اگر کسی کے پاس رہنے سے زائد مکان دکان ہو ں اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے جس شخص کے ذمہ اتنا قرض ہو کہ اگر اس کے ادا کرنے کا حساب لگا یا جائے تو تمام مال صرف ہو کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت سے بھی کم رہ جائے۔ یا کچھ بھی نہ رہے تو اس پر صدقہ فطرواجب نہیں۔ صدقہ فطر ایک آدمی کی طرف سے پونے دوسیر گیہوں لو یا ساڑھے تین سیر جو یا چنا وغیرہ دینا چاہیے۔
فائدہ: جو کے سوا جو دیگر اقسام کے غلے اور اناج ہیں مثلا چنا، مٹر، مکئی، جوار، ماش، مسور وغیرہ وہ بھی اگر گندم سے دو چند ادا کردئے جائیں تو صدقہ الفطر ادا ہوجائے گا۔ یعنی ایک شخص کیطرف سے ساڑھے تین سیر دینا کافی ہوگا، لیکن بہتر اور پُر احتیاط طریقہ یہ ہے کہ گندم اور جو کے سوا تمام غلوں کو قیمت کے حساب سے دیا جائے۔ جتنی قیمت کو پونے دو سیر گندم آتی ہو اسی قیمت کا دوسرا غلہ دے دے۔ مثلاً پونے دوسیر گندم تین آنے کے آتے ہیں اور اس کے گھر میں چنا یا مکئی یاچاول موجود ہے اسی میں صدقہ فطرادا کرنا چاہتا ہے تو تین آنے کی جس قدر مکئی بازار میں ملتی ہو اسی قدر صدقہ میں ادا کرے یا تین آنے کا جس قدر چنا فروخت ہوتا ہو اسی قدر ادا کرے علیٰ ہذا لقیاس اگر چاول دینا چاہے تو تین آنے کے جس قدر ملتے ہوں اسی قدر دے دے اور اگر دو آنے کے پونے دوسیر گیہوں ملتے ہوں تو دو آنے میں جس قدر چنا مکئی چاول وغیرہ بازار میں ملتے ہوں اسی قدر اد اکردینا کافی ہوگا۔ اگر خود سمجھ میں نہ آوے تو کسی عالم کو کتاب دکھلا کر سمجھ لینا چاہیے۔ اگر اسی قدر غلہ کی قیمت دے دے تب بھی جائز ہے۔ صدقہ فطر ایسے لوگوں میں تقسیم کرو، جو مفلس ومحتاج ہوں۔ اگر تمہارے عزیز ورشتہ دار غریب ومفلس ہوں، تو ان سے زیادہ کوئی مستحق نہیں۔ امامت یا اذان کے عوض میں صدقہ فطر دینا جائز نہیں۔ صدقہ فطر کی قیمت مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں۔ چند آدمیوں کا فطرہ ایک محتاج کود ے دینا جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ ایک آدمی کافطرہ کئی آدمیوں میں تقسیم کردو۔ صدقہ الفطر عید کی نماز سے پہلے ادا کردینا چاہیے جو بہت ثواب رکھتا ہے جو شخص عید کے دن صبح صادق سے پہلے مرجائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوتا۔ صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے روزے رکھنا شرط نہیں بلکہ جس نے غفلت سے یا کسی عذر سے روزے نہ رکھے ہوں، وہ بھی صدقہ فطر ادا کرے۔ اور اگر باپ مالدار ہو تو چھوٹے بچوں کی طرف سے بھی اداکرے ۔ اگرچہ بچوں نے روزہ نہ رکھا ہو۔
رمضان المبارک اور عید کاچاند دیکھنے کا بیان :
مسنون یہ ہے کہ شعبان کاچاند خوب غور وتلاش کرکے تاریخ کی تحقیق کرلیں تا کہ رمضان کے چاند میں آسانی رہے اور پھر انتیس تاریخ کو غور سے چاند دیکھیں ۔ اگر نظر آجائے تو اگلے روز۔ روزہ رکھیں اور اگر نظرنہ آوے، تو تیس روز شعبان کے پورے کریں پھر رمضان کا روزہ شروع کریں۔ اگر انتیس کو گردو غبارا بر وغیرہ ہو تو ایک شخص بھی چاند دیکھنے کا اقرار کرے خواہ مرد ہو یا عورت، حُر ہو یا غلام تو اس کی گواہی قبول کرکے اگلے روز روزہ رکھنا چاہیے مگر شرط یہ ہے کہ گواہی دینے والا مسلمان ہوا ور فاسق اور بدکار نہ ہو۔ اگر برو غیرہ نہ ہو تو بہت سے آدمیوں کا دیکھنا معتبر ہوگا۔ جن کے دیکھنے اور خبر دینے کے بعد کچھ شک وشبہ نہ رہے۔ دوچار کا یا ایک کا اعتبار نہ ہوگا۔ رمضان کے انتیس یعنی عید کے چاند کے روز اگر گردوغبار ابر ہوتو دومرد یا ایک مرد اور دوعورتیں اگر کہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے تو ان کی گواہی کا اعتبار کرکے عید کر لینا چاہیے۔ شرط وہی ہے کہ مسلمان ہوں اور فاسق بدکار نہ ہوں۔ اور اگر ابرنہ ہو تو اتنی جماعت کا دیکھنا معتبر ہوگا جن کے بیان کرنے کے بعد شک وشبہ نہ رہے۔ اگر کسی نے رمضان کا چاند دیکھا اور کسی وجہ سے اس کی گواہی مقبول نہ ہوئی تو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اگر عید کا چاند دیکھا اور گواہی اس کی منظور نہ ہوئی تو اس کو عید کرنا جائز نہیں بلکہ یہ بھی روزہ رکھے اور سب کے ساتھ عید کر ے۔ اگر رمضان کی تیس کو یقینی معلوم ہوگیا کہ کل چاند ہوگیا، تو روزہ افطار کر ڈالنا چاہیے اگر چہ شام ہی کو خبر آدے۔ کیونکہ عید کا روزہ حرام ہے۔ اگر ایسے وقت معلوم ہوا ہے کہ لوگ عید کی نماز کے لیے جمع ہوسکتے ہیں تو اسی روز نماز پڑھیں اور اگر اتنی مہلت اور موقع نہیں تو اگلے روز نماز ادا کریں۔
اکتیس روزہ کا مسئلہ:
مسئلہ عجیبہ: ایک شخص نے رمضان کا چاند دیکھا گواہی ا س کی کسی سبب سے مقبول نہ ہوئی مگر اس نے قائدہ شریعت کے موافق روزہ رکھ لیا اور سب لوگوں کا رمضان ایک روز بعد شروع ہوارفتہ رفتہ اس کے تیس روزے ہوگئے اور سب کے انتیس ہوئے ہیں اور چاند نظر نہ آیا تو اب اس کو چاہیے کہ اگلے روز بھی روزہ رکھے۔ اس طرح اکتیس روزے رکھے اور سب کے ساتھ عید کرے۔
عید کا بیان اور نماز کی ترکیب:
غسل کرو، کپڑے اچھے پہنو اور خوشبو میسر ہو تو لگاؤ نماز سے پہلے صدقہ فطرادا کرو۔ نماز کے لیے سویرے عید گاہ جاؤ جس راستہ سے گئے تھے اسے چھوڑ کر دوسری راہ سے واپس آؤ۔ عید کے روز جس قدر خیرات صدقات کرنے کی طاقت ہوکرو اور غریبوں کی خبر لو مفلسوں کی مدد کرو
نماز کی آسان ترکیب:
یہ ہے کہ جب امام کھڑا ہو تو تم بھی کھڑے ہوکر زبان سے یا صرف دل سے یہ نیت کرو کہ عید کی نماز معہ چھ تکبیروں کے خدا کے واسطے امام کے پیچھے پڑھتا ہوں۔
اول دفعہ اﷲ اکبر سن کر تم بھی اﷲ اکبر کہو اور ہاتھ باندھ لو اورتہمید یعنی سُبْحَانک اللّٰھُمَّ پڑو اور دوسری دفعہ اﷲ اکبر سن کر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دو۔ تیسری دفعہ اﷲ اکبر سُن کر پھر اسی طرح کرو، چوتھی مرتبہ اﷲ اکبر کہہ کر کان تک ہاتھ اٹھا کر باندھ لو اور جس طرح ہمیشہ نماز میں رہتے ہو۔ دوسری رکعت میں جب امام صورت ختم کرے گا تب اﷲ اکبر کہے گا۔ اسی وقت تم اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ اٹھاؤ اور چھوڑ دو، دوسری دفعہ پھر ایسے ہی کرو اور تیسری دفعہ بھی ایسے ہی کرو۔ ان تینوں دفعہ ہاتھ نہ باندھو۔ چوتھی مرتبہ اﷲ اکبر کہہ کررکوع میں چلے جاؤ باقی نماز حسب وستور تمام کرو اور خطبہ سن کر واپس آجاؤ اور خدا وند تعالیٰ کا شکر کرو جس کی توفیق سے عبادت تمام ہوئی۔