تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نور العیون فی تلخیص سیرۃ الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم (قسط: ۷)

علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ مترجم: ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسلحہ کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس نو تلواریں تھیں، ان میں سے ایک کا نام ’’ذوالفقار ہے، یہ وہ تلوار ہے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غزوہ بدر میں مالِ غنیمت میں حجاج سہمی کی اولاد سے حاصل ہوئی۔ یہ وہی تلوار ہے جس کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب میں اگلا حصہ ٹوٹا دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے شکست کی تعبیر لی جو غزوہ احد میں سامنے آئی۔(۱)
تین تلواریں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غزوہ بنی قَینُقاع سے ملیں، جن کے نام یہ ہیں: القلعی، البتار، اور الحتف۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو تلواروں کے نام ’’المخذم‘‘ اور ’’الرسوب‘‘ بھی ہیں۔
اور ایک تلوار آپ صلی اﷲ علیہ وسل کو اپنے والدماجد کی جانب سے ترکہ میں ملی۔
ایک تلوار ’’العضب‘‘ تھی، یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے پیش کی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک ’’القضیب‘‘ نامی تلوار بھی تھی، یہ اسلام میں پہلی تلوار ہے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سونتی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس چار نیزے تھے، جن میں سے ایک نام ’’المنثنی‘‘ اور باقی تین بنو قینقاع سے حاصل ہوئے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ’’عنزہ‘‘ نامی ایک چھوٹا نیزہ بھی تھا، جو عیدین کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے اٹھایا جاتا تھا۔
ایک محجن (خم دار دستے والا عصا) تھا جو کہ ایک ہاتھ کے برابر تھا۔
اور ایک ’’العرجون‘‘ نامی مخصرہ (وہ عصا جس پر ٹیک لگائی جاتی ہے) تھا۔
اور ایک پتلی چھڑی تھی جس کا نام الممشوق تھا۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس چار کمانیں اور ایک ترکش بھی تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک ڈھال ہدیہ کی گئی، جس پر عقاب کی شبیہ بنی ہوئی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شبیہ پر ہاتھ رکھا تو خدا کی قدرت سے وہ شبیہ ختم ہو گئی۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار کی نعل اور دستہ چاندی کا تھا اور ان دونوں کے درمیان چاندی کے حلقے تھے۔ (۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس دو زرہیں تھی جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بنو قینقاع سے ملیں، ایک کا نام ’’السغدیہ‘‘ اور دوسری کا نام ’’فضہ‘‘ ہے۔
اسی طرح ایک ’’ذات الفضول‘‘ نامی زرہ بھی تھی، جسے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوہ بدر و غزوہ حنین کے دن پہنا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وہ زرہ بھی تھی جو حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کرتے وقت پہنی تھی۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ’’السبوغ‘‘ نامی خود (۳) بھی تھا۔
اسی طرح چمڑے کا ایک کمر بند بھی تھا، جس میں چاندی کے تین کڑے تھے۔
اور ایک چاندی کی ڈھال تھی، جس کا کنارہ بھی چاندی کا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پرچم سفید رنگ کا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑوں اور اثاثہ جات کا بیان:
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب دنیا سے پردہ فرمایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ سامان چھوڑا:
دو یمنی کپڑے، عمانی چادر، دو صحاری کپڑے اور ایک صحاری قمیص، ایک سحولی چادر، ایک یمنی جبہ، ایک منقش جبہ، ایک سفید کمبل، سر کے ساتھ چپکنے والی تین یا چار ٹوپیاں اور ورس و زعفران سے رنگا ایک لحاف۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس چمڑے کی ایک چھوٹی تھیلی تھی، جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا آئینہ، ہاتھی دانت کی بنی کنگھی، سرمہ دانی، قینچی اور مسواک ہوتی تھی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک کھجور کے پتوں سے بھرا چمڑے کا بستر تھا۔
اور ایک پیالہ جسے تین جگہ سے چاندی سے مضبوط کیا گیا تھا۔ اور اس کے علاوہ ایک اور پیالہ بھی تھا۔
اور ایک پتھر کا طشت تھا اور ایک تانبے کا برتن، جس میں مہندی اور وسمہ بنایا جاتا تھا، تاکہ گرمی محسوس ہونے پر سر پر رکھا جائے۔
ایک شیشے کا پیالہ تھا اور غسل کے لیے ایک کانسی کا برتن تھا۔
ایک بڑا پیالہ جس سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صدقہ فطر صاع (۴) کی مقدار سے نکالتے تھے اور ایک پیالہ مد (۵) کی مقدار نکالنے کے لیے تھا۔
ایک چارپائی اور ایک چادر تھی۔
اور ایک چاندی کی انگوٹھی، جس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا، جس پر محمد رسول اﷲ نقش تھا۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انگوٹھی لوہے کی تھی اور اس پر چاندی چڑھی ہوئی تھی۔
شاہ حبشہ نجاشی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں دو سادہ موزے ہدیہ بھیجے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں پہنتے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک کالے رنگ کا کمبل تھا۔ (۶)
اور ایک ’’السحاب‘‘ (بادل) نامی عمامہ تھا، جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو ہدیہ کر دیا تھا اور جب کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو یہ عمامہ پہن کر آتے دیکھتے تو صحابہ رضی اﷲ عنہم سے فرماتے: ’’تمھارے پاس علی بادل میں آئے ہیں‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس روز مرہ کے لباس کے علاوہ جمعہ کے دن پہننے کے لیے دو کپڑے خاص تھے۔ (۷)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک رومال بھی تھا، جس سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وضو کے بعد رخ انور صاف فرماتے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات میں سے چند ایک کا بیان
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بے شمار معجزات میں سے چند درج ذیل ہیں:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کا چاک کیا جانا۔
(سفر معراج کے بعد) بیت المقدس کے حالات بیان فرمانا۔ (۸)
چاند کو دو ٹکڑے کرنا۔ (۹)
اور جب قریش مکہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کے ناپاک ارادہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے سامنے گھر سے نکلے تو ان کی آنکھیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ پائیں۔ ان کی آنکھیں پست ہو گیں اور ان کی تھوڑیاں ان کے سینوں سے جا لگیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے سروں پر آ کر رکے اور مٹھی میں مٹی لے کر شَاہَتِ الْوُجُوْہُ پڑ ھ کر ان پھینک دی، ان میں سے جس جس شخص پر مٹی پڑی وہ غزوہ بدر میں مارا گیا۔ (۱۰)
غزوہ حنین کے موقع پر بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مٹھی بھر مٹی دشمن پر پھینکی تو اﷲ نے ان کو شکست سے دوچار کیا۔ (۱۱)
مدینہ منورہ ہجرت کے وقت غار ثور کے منہ پر مکڑی کا جالا بننا۔
دوران ہجرت جب سراقہ بن مالک (۱۲) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیچھا کرتا آیا تو پتھریلی زمین میں اس کے گھوڑے کا دھنس جانا۔ (۱۳)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک برس سے کم عمر کی بکری (جو ابھی نر سے نہیں ملی تھی) کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو اﷲ نے اس کے تھنوں کو دودھ سے بھر دیا۔
اسی طرح ام معبد کی نحیف و نزار بکری کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے تھے۔ (۱۴)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ کے لیے مانگی گئی دعا:
’’اے اﷲ عمر بن الخطاب کے قبول اسلام کے ساتھ اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘۔ (۱۵)
اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لیے کی گئی دعا کہ:
’’اے اﷲ علی سے سردی اور گرمی کو دور فرما دے‘‘۔ (۱۶)
(ان دعاؤں کی قبولیت بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک معجزات میں سے ہے۔)
اور حضرت علی المرتـضیٰ رضی اﷲ عنہ کی دکھتی آنکھوں کا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا لعاب مبارک لگتے ہیں ٹھیک ہو جانا، پھر کبھی آشوب چشم نہ ہونا۔ (۱۷)
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اﷲ عنہ کی آنکھ جو لڑائی میں اپنی جگہ سے نکل کر رخسار پر آ گئی تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے واپس اس کی جگہ پر رکھا تو وہ پہلے سے بھی اچھی طرح کام کرنے لگی۔ (۱۸)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کے تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ کے لیے مانگی گئی دعا کی قبولیت۔ (۱۹)
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کا اونٹ جو ہر مقابلہ میں پیچھے رہتا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے سبقت لے جانے والا ہو گیا۔ (۲۰)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی درازی عمر اور مال و اولاد میں برکت کی دعا کا قبول ہونا۔ (۲۱)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی کھجوروں میں برکت کی دعا فرمائی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کی بدولت ان میں اتنی برکت پڑی کہ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ نے ان کھجوروں سے اپنا سارا قرضہ اتارا پھر بھی ۱۳ وسق (۲۲) کھجور بچ رہی۔ (۲۳)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلوٰۃ الاستسقاء ادا کی تو پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بارش رکنے کی دعا فرمائی تو اسی وقت بادل چھٹ گئے اور مطلع صاف ہو گیا۔ (۲۴)
اور عتبہ بن ابی لہب کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بد دعا دکی اور درندوں سے چیر پھاڑ کی پیشین گوئی فرمائی تو وہ ملک شام میں زرقا کے مقام پر شیر کا لقمہ بنا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ جو آپ فرما رہے ہیں، اس پر آپ کے پاس کوئی گواہ بھی ہے؟ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ درخت اس کی گواہی دے گا۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا تو وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور چلا آیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے اپنی رسالت کی گواہی مانگی تو اس درخت نے تین بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی پھر اپنی جگہ لوٹ گیا۔
اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو درختوں کو یکجا ہونے کا فرمایا، وہ یکجا ہوئے پھر الگ الگ ہو گئے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رفع حاجت کا تقاضا ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ کھجور کے درختوں کے پاس جائیں اور انھیں کہیں کہ اﷲ کے رسول تمہیں ایک جگہ اکٹھا ہونا کا کہہ رہے ہیں (تاکہ پردہ ہو جائے) یہ سن کر سب درخت اکٹھے ہو گئے۔ جب آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھی صحابی سے فرمایا کہ درختوں کو اپنی جگہ لوٹنے کا کہہ دو تو وہ اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔ (۲۵)
ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے کہ ایک درخت زمین چیرتا ہوا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آ کھڑا ہوا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس درخت کے بارے بتایا گیا، اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ وہ خود آ کر مجھ پر سلام کہنا چاہتا ہے، چنانچہ اﷲ نے اسے اجازت دی تو یہ آیا۔ (۲۶)
اسی طرح بعثت کی راتوں میں شجر و حجر السلام علیک یا رسول اﷲ کہتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلام پیش کرتے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ کے اس پتھر کو اب بھی جانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ (۲۷)
کھجور کے خشک تنے کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فراق میں رونا۔ (۲۸)
کنکریوں کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتھیلی میں تسبیح پڑھنا۔
اور اسی طرح کھانے کا بھی تسبیح پڑھنا۔ (۲۹)
پکی ہوئی بکری کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتانا کہ مجھ میں زہر ملایا گیا ہے۔ (۳۰)
ایک اونٹ کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنا کہ میرا مالک مجھ سے زیادہ کام لیتا ہے اور چارہ کم دیتا ہے۔
ایک مرتبہ رسی میں بندھی ہوئی ہرنی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کھول دیا جائے ۔

حواشی
(۱) سنن ترمذی، حدیث نمبر ۱۵۶۱۔ (۲) سنن ترمذی، حدیث نمبر ۱۶۹۱، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۲۵۸۳۔ (۳) خود: لوہے کی ٹوپی جو لڑائی کے وقت سر پر پہنی جاتی تھی۔ (۴) صاع: ساڑھے تین کلو۔ (۵) مد: تقریباً ایک کلو۔ (۶) اسی کے بارے سورہ مزمل کی ان آیات میں اشارہ ہے: یَاأَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۔ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا۔(۷) کتاب ترکۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم والسبل التی وجہہا فیہا، حماد بن اسحق، ص ۱۰۔ (۸) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۸۸۶، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۷۰۔ (۹) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۶۳۶، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۸۰۰۔ (۱۰)مسند الامام احمد بن حنبل، ۱؍۳۰۳۔ (۱۱) صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۷۷۷، سنن دارمی، حدیث نمبر ۲۴۵۲۔ (۱۲) اُسد الغابہ، ابن الاثیر ۲؍۲۸۲۔۲۸۰۔ (۱۳) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۹۰۸، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۰۰۹۔ (۱۴) اُسد الغابہ، ابن الاثیر ۵؍۴۹۶۔ (۱۵) سنن ترمذی، حدیث نمبر ۳۶۸۱، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۱۰۵۔ (۱۶) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۱۱۷، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱؍۹۹۔ (۱۷) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۷۰۱، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۴۰۶۔ (۱۸) اُسد الغابہ، ابن الاثیر، ۳؍۷۶۔۴۷۴۔ (۱۹) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۴۳، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۴۷۷۔ (۲۰) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۷۱۸، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۷۱۵۔ (۲۱) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۶۴۳۴، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۴۸۱۔ (۲۲) وسق: دو سو دس کلو (سوا پانچ من) تقریباً۔ (۲۳) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۲۷۰۹، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۲۴۳۴۔ (۲۴) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۰۱۳، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۸۹۷۔ (۲۵) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۳۳۹۔ (۲۶) المنتخب من مسند عبد بن حمید، حدیث نمبر ۴۰۵۔ (۲۷) صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۷۷، سنن ترمذی، حدیث نمبر ۳۶۲۴۔ (۲۸) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۹۱۸، سنن ترمذی، حدیث نمبر ۵۰۵، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۱۴۱۴۔ (۲۹) صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۵۷۹، سنن ترمذی، حدیث نمبر ۳۶۳۳۔ (۳۰) سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۴۵۱۰۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.