مولانا محمد شفیع چترالی
قطر کے دارالحکومت دوحہ سے براہ راست مناظر دکھائے جارہے تھے کہ ایک جانب ستے چہرے اور اعتماد سے خالی بدن بولی کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغانستان میں ایک طویل اور تھکادینے والی جنگ کے خاتمے کے معاہدے کا اعلان کر رہے تھے اور دوسری جانب افغانستان کا ایک سیدھا سادہ ’’ملا‘‘ اور ’’برادر‘‘ سر پر عزت و افتخار کی پگڑی، کندھے پر فقیرانہ رومال مگر چہرے پر فاتحانہ تمکنت کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے ایک بار پھر اس اسلامی حکومت کے قیام کے عزم کا اظہار کر رہے تھے جس کے خاتمے کے لیے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک کی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس افواج نے افغانستان کو تاراج کرنے کی کوشش کی تھی۔ان مناظر کو دیکھتے ہوئے ذہن کی اسکرین پر قندہار کے مرد جری ملا محمد مجاہد کے وہ الفاظ جھلمانے لگے جو انہوں نے افغانستان پر اتحادی یلغار کے آغاز کے بعد قندہار چھوڑتے ہوئے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہے تھے کہ’’امریکا یاد رکھے اور آپ بی بی سی والے بھی یاد رکھیں کہ ہم نے امریکا کو شکست دینے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اپنالی ہے جو ایک دن دنیا کو حیران کردے گی۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے بے سرو سامان عوام نے آج دنیا کو حیران کردیاہے اور جرا ¿ت و بہادری کی اپنی تاریخ کو ایک بار پھر زندہ کرکے دکھایا ہے۔ فلک بوس پہاڑوں، بلند و بالا ٹیلوں، لق و دق صحراؤں، نغمگیں ندیوں اور دلکش و خوبصورت وادیوں کی سرزمین افغانستان ہمیشہ سے بہادر جوانوں شہسواروں اور جانبازوں کا مسکن رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے، دور دور تک آپ کو اس سر زمین کے وفا کیشوں کی آزادی و خودمختاری اور حریت و سربلندی کی داستانیں بکھری ہوئی نظر آئیں گی۔
قریش مکہ نے جب سیدالاولین والآخرین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا اور شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کردیا تھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے ان کے مظالم کے جواب میں ایک پر سوز قصیدہ کہا تھا جس میں بنو ہاشم کی مظلومیت کا تذکرہ کرکے مدد کی درخواست کی گئی تھی، اس قصیدے میں حضرت ابو طالب نے ترکی اور کابل ہجرت کرجانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کابل اس زمانے میں بھی آزاد خودمختار اور مظلوموں کی پناہ گاہ کے طور پر مشہور تھا۔ شعر درج ذیل ہے
یطاع بنا امر العدو واننا
یسد بنا ابواب ترک و کابل
(یہ لوگ ہمارے خلاف دشمنوں کی بات قبول کرتے ہیں اور ہمیں ترکی اور کابل کی طرف ہجرت کرنے بھی نہیں دیتے) واضح رہے کہ اس زمانے میں پورے افغانستان کو کابل کہا جاتا تھا۔
خلاصۃ التواریخ میں کابل شہر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے ’’کابل قدیمی عمدہ شہر ہے جس کی بنیاد پشنگ بن توربن فریدون نے رکھی تھی۔ ازروئے تاریخ، آج تک اسے آباد ہوئے دو ہزار ایک سو کچھ سال ہوئے ہیں لیکن اس کا قلعہ ایک پہاڑی پر کمال استحکام سے قائم ہے (یعنی کوئی اسے نقصان نہیں پہنچاسکا ہے)۔
شاید اسی تاریخی اہمیت کی وجہ سے ہی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اس سر زمین کا رخ کیا تھا اور اسے کفر و شرک اندھیروں سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی سے منور کرنا ضروری سمجھا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان نے ایشیا اور خصوصاً وسط ایشیا کے سیاسی مدّوجذر میں ہمیشہ مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ علامہ اقبال مرحوم نے تو یہاں تک کہا کہ ایشیا کی آزادی افغانستان کی آزادی سے وابستہ ہے، علامہ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغان دراں پیکر دل است
از کشاد او کشاد آسیا
از فساد او فساد آسیا
یعنی برصغیر ایک جسم کی مانند ہے اور افغان قوم اس جسم کے لیے دل کی طرح ہے۔ افغانستان کی آزادی سے ایشیا کی آزادی وابستہ ہے اور افغانستان کی بربادی پورے ایشیاکی کی بربادی ہے۔
افغانستان کی اس جغرافیائی اہمیت کو ہر زمانے کی سپر طاقت نے اہمیت دی اور سکند اعظم سے لے کر ’’امریکا عظمیٰ‘‘ تک سب نے اسے اپنی تسخیری مہم کی جولان گاہ بنایا مگر یہاں کسی کو کامیابی نہیں مل سکی۔ سکندر اعظم کو اسی خطے میں پہلی بڑی شکست کا سامنا ہوا تھا۔ بعد کے ادوار میں انگریز نے ا فغانستان پر طبع آزمائی کی اور3 بار کے بڑے حملوں اور زبردست سازشوں کے باوجود وہ یہاں قدم جما نہیں سکا اور بالآخر ۱۹؍اگست ۱۹۱۹ء کو افغانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرکے یہاں سے فرار ہوگیا۔ انگریزوں کے خلاف افغانوں کی جدوجہد کا وہ واقعہ افغانستان کے بچے بچے کو یاد ہے جب میوند کے مقام پر پانچ ہزار کے انگریز لشکر میں سے صرف ایک فوجی ڈاکٹر زندہ بچ کر کابل پہنچا تھا۔ جن دنوں ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں سے مکمل آزادی کی اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور حضرت شیخ الہند کی قیادت میں تحریک ریشمی رومال کے ذریعے انگریزوں کے خلاف عام بغاوت کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کے لئے مر کز کابل کو قرار دیا گیا کیونکہ وہ اس وقت انگریزوں کی عمل داری سے عملاً آزاد ہوچکا تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں انگریزوں اور مرہٹوں کے فتنے کے خلاف حضرت شاہ ولی اﷲؒ نے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی تھی اور حضرت سید احمد شہید نے بھی سکھوں اور انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز افغانستان کی سرزمین کو پشت بناکر کیا تھا۔ سوویت یونین کی افغانستان میں مہم جوئی اور اس کا انجام ابھی کل کی بات ہے۔ جس انداز سے افغانستان کے حریت کیش عوام نے د نیا کے نقشے پر تیزی سے پھیلتی سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا، اس کو نظر انداز کرنا کسی مورخ کے بس میں نہیں ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے محض انتقامی جذبے سے مغلوب ہوکر دنیا میں ایک نئی ’’صلیبی جنگ‘‘ لڑنے کا اعلان کردیا اور اس جنگ کے لیے میدان افغانستان کو منتخب کرلیا گیا جہاں ایک اسلامی حکومت قائم تھی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق آج تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن امریکا نے محض شبہے کے تحت طالبان کو مورد الزام ٹھہرا کر پہلے سے تباہ حال افغانستان کو مزید تباہی وبربادی سے دو چار کرنے کے لیے دنیا کی چالیس بہترین افواج کو لے کر یلغار کردی اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ بہت تھوڑے عرصے میں افغانستان میں دہشت گردوں (طالبان، القاعدہ) کا خاتمہ کردیا جائے گا اور وہاں ایک حقیقی جمہوری حکومت قائم کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکا اور عالمی طاقتوں نے اپنے تمام وسائل جھونک دیے، بعض رپورٹوں کے مطابق اب تک ۷ ٹریلین ڈالرز افغانستان کی جنگ پر خرچ کیے گئے، یہ رقم اگر کسی خطے کی تعمیر وترقی پر صرف کی جاتی تو پورے براعظم افریقا کے تمام غریب اور ترقی پذیر ممالک کو یورپ کے معیار زندگی کے قریب لایا جاسکتا تھا اور متعدد وبائی امراض کا دنیا سے خاتمہ کیا جاسکتا تھا لیکن عالمی طاقتوں نے دنیا کے بہترین وسائل کو افغانستان اور عراق کی لاحاصل جنگوں میں ضایع کردیا اور نہ صرف عالم اسلام میں اپنے خلاف نفرت کی ایک فصل کاشت کردی بلکہ خود اپنی معیشت اور عالمی اقتصادیات کو بھی شدید نقصانات سے دوچار کردیا۔
کوئی مانے یا نہ مانے،برسر زمین حقیقت یہ ہے کہ آج افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوچکی ہے اور امریکی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں امن معاہدے کی صورت میں دراصل امریکا کی شکست کی دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔ اب افغانستان کا مستقبل طالبان کے ہاتھ میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے نہ صرف عسکری محاذ پر دنیا کو حیران کردینے کی ملا محمد عمر کی پیشگوئی کو سچا ثابت کردیا ہے بلکہ حالیہ چند برسوں کے دوران مذاکرات کی میز پر بھی وہ ناقابل تسخیر ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے توقع رکھی جانی چاہیے کہ وہ اب بین ا لافغان مذاکرات کے مرحلے سے بھی سرخ رو ہوں گے اور افغانستان میں ایک وسیع البنیاد اسلامی حکومت کے قیام کی شکل میں لاکھوں شہدا کی قربانیوں کا ثمرہ سامنے آجائے گا اور افغان قوم کو چار دہائیوں پر محیط جنگ سے نجات ملے گی۔