ایک فی البدیہہ شعر اور مولانا منظور مینگل کی روایت کی تصحیح
سید محمد کفیل بخاری
حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کا ایک فی البدیہہ شعر:
ملتان میں ایک شاعر و سیاسی کارکن پروفیسر محمد علی بخاری ہوا کرتے تھے ۔ مسلکاً شیعہ اور مشرباً مارکسی کمیونسٹ تھے ۔ ان کے ایک دوست سید مبارک علی تھے ۔ اپنے کام سے آتے جاتے اکثردونوں دوست حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے ہاں بھی آ جاتے ۔ کبھی ان کے ساتھ ملتان کے معروف شاعر و ادیب باسم میواتی بھی ہوتے۔
سنہ ۱۹۴۹ء میں جماعتِ احرار نے ملکی انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا اوراحرار کی قیادت بشمول حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کی جانب سے پاکستان کے استحکام و ترقی کے لیے لیگی حکومت کے ساتھ تعاون علی الخیر کا اعلان کیا جانے لگا۔یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے کہ ایک روز پروفیسر محمد علی بخاری نے میرؔ کی زمین ’’اے کشتۂ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا‘‘ میں اپنی غزل امیر شریعت کو سنائی جس کے دو اشعار یہ ہیں:
پیمانِ حفظِ دین و شریعت کو کیا ہوا
کچھ تو کہو امیرِ شریعت کو کیا ہوا
پھر ہم ہیں، وہ ہیں اور عقیدت کے پھول ہیں
جانے بتوں سے پہلی عداوت کو کیا ہوا
اصل میں پہلے شعر کا دوسرا مصرع یہ تھا:
’’تقدیر دو جہاں کی امانت کو کیا ہوا‘‘
لیکن امیر شریعت کو سناتے وقت مصرع بدل کر طنز کیا۔
میرے والد ماجد حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمہ اﷲ کی روایت ہے کہ ایک روز یہ حضرات حسب معمول امیر شریعت کے پاس آئے ۔ پروفیسر محمد علی بخاری نے اپنے طنزیہ شعر کو بعد میں اس طرح بھی سنایا:
مسلک بدل کے آج قیادت کے ساتھ ہے
کس سے کہیں امیر شریعت کو کیا ہوا
اس طنزیہ شعر کے جواب میں امیر شریعت نے فی البدیہ شعر کہا :
سید کے بالکے کا بھی کعبہ ہے ماسکو
سادات کی حمیت و غیرت کو کیا ہوا
پروفیسر محمد علی بخاری جوابا شعر سن کر سکتے میں آگئے ۔ ذرا سنبھلے تو داد دیتے رہے ۔ کہتے شاہ جی آپ نے بھرپور وار کیا ہے اور چوکس جواب دیا ہے ۔ قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے میر تقی میرؔ کی غزل کے تین اشعار درج کیے جاتے ہیں:
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو اُن نے، مروت کو کیا ہوا
اُمیدوارِ وعدۂ دیدار، مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
جاتا ھے یار تیغ بکف، غیر کی طرف
اے کشتہء ستم! تری غیرت کو کیا ہوا
مولانا منظور احمد مینگل کی روایت ، اور واقعہ کی درستی :
مولانا منظور احمد مینگل اپنے مخصوص مزاحیہ انداز گفتگو کی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ چند روز قبل ان کی ایک تقریر کا اقتباس سننے کو ملا، جس میں انھوں نے حضرت امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے سفر کا ایک واقعہ نا درست طور پر بیان کیا۔ کئی احباب نے فیس بک وغیرہ پر ہی اپنے تأثرات میں پریشانی اور تحفظات کا اظہار کیا۔ واقعہ میں ایک مسافر کے ساتھ حضرت امیر شریعت کے مکالمے کے الفاظ محل نظر تھے۔ یہ واقعہ قدیم احرار کارکن اور شاعر و ترانہ گو جناب سید امین گیلانی مرحوم و مغفور کی کتاب ’’بخاری کی باتیں‘‘ کے صفحہ ۱۷۲؍ پر ’’جیسے کو تیسا‘‘ کے زیرِ عنوان درج ہے۔ مولانا منظور احمد مینگل نے وہیں سے پڑھ کر بیان کیا۔ اگرچہ عالم دین ہونے کی حیثیت سے ان کا مکمل احترام ہے مگر ان کے اندازِ بیان سے اتفاق نہیں۔ مولانا منظور صاحب واقعہ بیان کرنے سے پہلے اگر اہلِ علم کے لائق طریقے سے اس روایت پر غور فرما لیتے تو مجھے امید ہے کہ اس طرح مرچ مسالہ لگا کر بیان نہ کرفرماتے۔
اصل واقعہ:
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر ایک ادھیڑ عمر شخص اسی ڈبے میں داخل ہوا جس میں حضرت امیر شریعت تشریف فرما تھے۔ آپ نے اسے بیٹھنے کے لیے اپنے ساتھ جگہ دی۔ تعارف کے لیے ان کا نام پوچھا تو کہنے لگے: ’’کلبِ حسین‘‘۔
ان صاحب سے فرمایا:
’’کلبِ حسین تو کوئی نام نہ ہوا۔ یہ تو انسانیت کی توہین ہے۔ اﷲ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے دور میں تو کوئی کلبِ علی نہ تھا اور نہ ہی حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے دور میں کوئی کلبِ حسن و حسین تھا۔ جن حضرات نے سادات کرام علی و حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کو دیکھا اور ان کی اطاعت کی ان سے زیادہ محبت کا دعویٰ آج کسے ہو سکتا ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنا نام ’خنزیر اﷲ‘ رکھ لے‘‘۔
وہ کہنے لگا: یہ کیا نام ہوا؟
آپ نے فرمایا: ’’کلب حسین کیا نام ہوا؟
اﷲ تعالیٰ نے تو سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کو انسان بنایا۔ اﷲ خالق اور حسین مخلوق ہیں۔
قرآن کریم نے مغفرت و نجات کے لیے جو راستہ بتایا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت، اﷲ کے آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت اور صحابہ رضی اﷲ عنہم کی اطاعت ہے۔ بے شک سیدنا علی اور حسنین کریمین رضی اﷲ عنہم کی اطاعت و فرماں برداری، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اﷲ کی اطاعت ہے ‘‘۔
کہنے نہ کہنے کی باتیں، کچھ گزارشات:
سید امین گیلانی مرحوم و مغفور کی کتا ب ’’بخاری کی باتیں ‘‘ پچیس تیس برس قبل پہلی بار شائع ہوئی اور مولانا منظور مینگل نے وہیں سے پڑھ کر اس واقعہ کو بیان کیا ۔
سید امین گیلانی رحمہ اﷲ کی اس کتاب میں بعض واقعات درست نقل نہیں ہوئے ۔ یہ واقعات اور لوگوں نے بھی نقل کیے لیکن ان میں فرق ہے ۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے فرزندان کئی واقعات کے خود راوی ہیں جو انہوں نے براہ راست اپنے والد ماجد سے سنے ۔ یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ابناء امیر شریعت خصوصا مولانا سید عطاء المحسن بخاری اور مولانا سید عطاء المؤمن بخاری رحمہما اﷲ نے سید امین گیلانی مرحوم سے درخواست کی اور خود راقم نے بھی ایک موقع پر عرض کیا کہ کتاب پر نظر ثانی فرمائیں ۔ انہیں متنازعہ مقامات کی نشان دہی بھی کی لیکن:اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ، کے مصداق وہ کتاب پر نظر ثانی نہ کر سکے ۔ بعض فرو گزاشتیں شورش کاشمیری اور جانباز مرزا مرحوم سے بھی ہوئیں۔ انہیں بھی متوجہ کیا گیا لیکن معاملہ وہیں کا وہیں رہا ۔
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ اور دیگر اکابر سے متعلق مختلف کتابوں میں موجود متعدد واقعات قابل اصلاح ہیں ۔ بڑی شخصیتوں کے ساتھ اس حوالے سے بہت ظلم ہوا ہے اور بے سرو پا باتوں سے ان کی شخصی عظمت مسخ و مجروح ہوئی ہے ۔ اسی طرح انٹر نیٹ پر ایک عربی خطبہ، سورۃ مریم، سورۃ یاسین اور سورۃ رحمان کی تلاوتیں حضرت امیر شریعت سے منسوب کر کے نشر کی گئی ہیں۔ یہ تمام چیزیں مولوی اسحاق عالم کی آواز میں ہیں جو کراچی میں مقیم ایک معاصر عالمِ دین ہیں۔ اب انھوں نے اسی خطبہ کو پڑھ کر اپنی ویڈیو جاری کی اور بتایا کہ یہ میری آواز ہے۔
حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کی اپنی آواز میں چند ثانیوں کی ایک ریکارڈنگ ہی محفوظ ہے جو سنہ ۱۹۵۶ء میں لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک خطاب کا حصہ ہے۔
امیر شریعت رحمہ اﷲ کو مزاح و لطافت میں بھی ابتذال سے تنفر تھا۔ حضرت کی طبیعت ان معاملات میں کتنی محتاط تھی اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اور واقعہ پیش خدمت ہے ۔
جامعہ خیرالمدارس ملتان کے ابتدائی زمانہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ (ساہیوال والے) طلباء کو نصیحت فرما رہے تھے۔ آپ نے سیرت طیبہ کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ جملہ کہہ دیا کہ: ’’ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مزاح بھی فرما تے تھے‘‘۔مولانا محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ کی اپنی روایت ہے کہ:قریب ہی امیر شریعت نماز پڑھ رہے تھے ۔ ان کے لیے نماز پڑھنی مشکل ہو گئی ۔ یہ جملہ ان سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ نماز مکمل کرتے ہی تیزی سے میری طرف آئے اور فرمایا:
’’ نا میرے مولانا! حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مزاح نہیں دل لگی فرمایا کرتے ‘‘
حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کی حیات طیبہ کا بڑا حصہ فتنۂ مرتدہ مرزائیت کے استیصال میں گزرا، منکرین ختم نبوت سے آپ کو انتہائی نوعیت کی نفرت و بیزاری تھی مگر آپ نے کبھی اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بھی ابتذال اور فحش گوئی کا سہارا نہیں لیا۔بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی منع فرماتے تھے کہ بالخصوص دوسرے قادیانی پوپ مرزا بشیرالدین کی بدکاریوں کے واقعات عوامی مجالس میں نہ سنایا کریں کیونکہ اس میں اشاعتِ فحش ہے۔
میں نے تبلیغی جماعت کے ایک بڑے بزرگ حضرت مولانا سعید احمد خان رحمہ اﷲ کا ایک بیان سنا، آپ نے چھے نمبر بیان کرتے ہوئے غالبا اکرام مسلم کے نکتے پر فرمایا:’’مجھے سب سے زیادہ فتنہ پھیلنے کا خطرہ متکلمین سے ہے، وہ اپنی گفتگو میں اخلاق کا دامن مضبوطی سے تھا میں‘‘
متکلمین اپنی گفتگو میں دعوت کے قرآنی و نبوی اسلوب کو اختیار کریں تو یقینا عوام میں اس کے اچھے اثرات ہوں گے اور کامیابی بھی ملے گی ۔ہنسنے ہنسانے والا کام تو ادا کار اور جوکر بہتر انداز میں کر رہے ہیں، اہل دین کو یہ زیبا نہیں ۔ اﷲ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔