ڈاکٹر عمر فاروق احرار
مرکزی سیکرٹری اطلاعات مجلس احرار اسلام پاکستان
قادیانیوں کے حوالے سے بحث و مباحثہ زوروں پر ہے ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہونے کے بجائے ساری توانائیاں اپنی اپنی پارٹی کے دفاع میں صرف کی جا رہی ہیں۔ اللہ کے بندو! ہوش کے ناخن لو۔ قرآن نے ہمارے مومن ہونے کا معیار اپنی جان، مال اور اولاد سے بڑھ کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو عزیز رکھنا مقرر فرمایا ہے۔ یہ معاملہ عقل کا نہیں عشق کا ہے کہ اپنی محبوب ہستی کے ناموس کی حفاظت کے لیے جسم و جاں اور ہر متاع عزیز کو قربان کرنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ کچھ لوگ مسلمانوں کے ختم نبوت سے بے پایاں لگاو کے اظہار کو وحشت اور مذہبی جنونیت سے جوڑ کر عمران خان سے اپنی وفاداری کی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض ناپختہ افراد کی پوسٹیں شائستگی و متانت سے خالی اور بد تہذیبی سے آلودہ بھی تھیں، لیکن ان کی نیٹ پر شبہ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ ناموس رسالت کا مسئلہ ہی ایسا نازک ہے کہ اس مرحلہ پر ہر بے عمل مسلمان بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ہمارا فرض ایسے جاں نثاروں کو تربیت دینا ہے، نہ کہ انہیں طعنہ زنی کر کے مذہب بیزاری کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خام مال ہے جو تحریکوں کی بنیادوں کی مضبوطی کا کام دیتا ہے۔ ان کی جذباتیت کی تربیت و تہذیب کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دور پر نظر ڈالیں جب تحفظ ختم نبوت کے معاملے کو ہمارے پڑھے لکھے لوگ “احراری احمدی تنازع” کہا کرتے تھے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس مسئلے میں ہر مسلمان احراری ہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ بالآخر قادیانی اپنے انجام کو پہنچ کر رہے۔ تب بھی اہل خرد نے اپنی جانیں بچا کر ان غریب و مفلس مگر ایمان کی دولت سے معمور لوگون کو جذباتی اور جنونی کہنے پر اکتفا کیا تھا اور آج بھی ختم نبوت کے نام لیواوں پر طعن وتشنیع سے کام لیا جا رہا ہے۔
خدارا سیاسی وابستگیوں کو چھوڑیے۔ قادیانیوں کی خوشنودی کے لیے صرف عمران خان ہی کے دور میں ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں ، بلکہ نواز شریف، زرداری اور مشرف کی حکومتیں بھی اس گناہ میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ اس لیے سیاس ہمدردیوں کو بالا طاق رکھیے اور ختم نبوت کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایک آواز ہو کر دین کے مشترکہ دشمن منکرین ختم نبوت کی ریشہ دوانیوں کے سدباب کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ اسی میں ہمارے ایمان کی سلامتی اور اسلام کی بقا ہے۔ وما توفیقی الا بااللہ