مرتب:ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
مقامی افسران:
شہروں میں خصوصاً بڑے شہروں میں جن سرکاری ملازمین کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی وہ دیہات وقصبات خصوصاً مرکزوصدر مقام سے دور دراز مقامات کے دیہات اور قصبات کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا ہر شعبہ زندگی میں بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے یہی لوگ وہاں کے سیاسی اور شہری نا خدا ہوا کرتے ہیں۔ اگر بد قسمتی سے انہی لوگوں میں سے کوئی کسی فرقہ وارانہ تعصب کے تحت کسی فریق کی جانب داری وپشت پناہی کردے تو وہ فریق ثانی کے لیے سخت مصیبتوں کا سبب بن جایا کرتا ہے۔ فرخ نگر میں مقامی عہدیدار اور ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: تھانیدار (مسلمان) نائب (برہمن) دیگر کا نسٹبلان (سات ہندو ایک مسلمان) ڈاکٹر سول ڈسپنسری (ہندو) ڈاکٹر مویشیاں (ہندو) پوسٹ ماسٹر (ہندو) ہیڈماسٹر (ہندو) اسٹیشن ماسٹر (ہندو) دفعدار چوکیدار (ہندو) علاقہ مجسٹریٹ (ہندو) اور پھر حاکم ضلع بھی ہندو ہی ہے۔ مختصر یہ کہ
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر
کب سے سیاسی تعلقات کشیدہ تھے؟
تحریک خلافت کے بعد جب شدھی اور تبلیغ کی کشمکش شروع ہوئی تو یہ علاقہ اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ رہا۔ دہلی سے آریہ پرتی ندھی سبھا کے کارکن فرخ نگر بارہا پہنچے مگر وہ وہاں کے ہندو مسلم اتحاد کو بربادنہ کر سکے۔ سوامی سچانند نے با رہا یورش کی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔مسلسل کوششیں زودیا بدیر بارآور ضرور ہوتی ہیں چنانچہ گؤر کھشا کے نام پر مفسدوں کو موقع مل گیا۔ اُپدیشکوں نے ضلع گوڑ گاؤں میں گؤرکھشا کی تحریک کو ہوا وی۔ چنانچہ سوفتہ ضلع گوڑ گاؤں میں قربانی گاؤ پرجھگڑا ہوگیا۔ ہندوؤں نے بموقع عیدالاضحی قربانی کی گائے چھیننے کی کوشش کی۔جہاں ہزاروں جاٹوں نے چند مٹھی بھر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ ابھی کوئی نقصان نہ ہوا تھا کہ عین اس وقت ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس مسلح گار ڈ لے کر موقع پر پہنچ گیا۔ سپرنٹنڈنٹ نے مجمع کو منتشر ہونے کو کہا مگر مجمع بہت زیادہ تھا اسے اپنی کثرت پر غرور تھا۔ اسی غرور کی بناء پر انہوں نے جیکارے لگانے شروع کردیے۔ حالات خطرناک صورت اختیار کرگئے۔ مجبور ہو کر پولیس نے فائر کر دیئے کچھ گرے، باقی بھاگے اور مٹھی بھر مسلمان قتل ہونے سے بچ گئے۔ اس بلوہ کامقدمہ چلاتو سر چھوٹو رام جو، اب وزیر ہیں۔ ہندوؤں کی طرف سے پیروی کرتے رہے۔ خیر یہ بات تو بحیثیت وکیل زیادہ قابل اعتراض نہیں، وہ اس علاقہ کے نمائندہ بھی تھے۔
فرخ نگر کے قریب سیواڑی میں بھی قدیم زمانہ سے مسلمان اپنے گھروں پر قربانی گاؤ کیا کرتے تھے۔ سیواڑی میں ہندوؤں او ر مسلمانوں کی آبادی جدا جدا ہے، مگر یہاں کے ہندو مہاجنوں نے ……جن میں رام چند بنیا سیراؤ گی خاص اہمیت رکھتا ہے…… اپنے اثر سے مہاجنوں، اچھوتوں اور جاٹوں کو اُکسایا۔ اور گذشتہ عیدالاضحی سے قبل مسلمانوں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اگر قربانی ہوئی تو سوفتہ کا ساحشر ہوگا۔ یہ رام چند بنیا سیراؤگی، سیواڑی سے ترک سُکونت کر کے فرخ نگر بساتھا۔ مگر سیواڑی میں اس کے بھائی بند کاروبار کرتے تھے۔ مسلمانو ں نے ہندوؤں کے ارادہ سے اطلاع پاکر ضلع میں درخواست کی کہ یہاں عرصہ دراز سے قربانی ہوتی چلی آئی ہے مگر اب رام چندر بنیا ساکن فرخ نگر ذیلدار تومانی، سُکھدیو سنگھ کا لڑکا، سربراہ کار سرور سنگھ، ننگلہ کے راجپوت اور کلی سنگھ، بختا ور سنگھ ساکنان سیواڑی سے انہیں بموقع عیدالاضحی فساد کا اندیشہ ہے۔ اور جب رام چند وغیرہ کو کسی طرح اس کا علم ہوا تو انہوں نے بمشورۂ مقامی ہندو مہاجنان و دیگر ہندو لیڈران مثل رام چند وغیرہ مسلمانوں کے خلاف درخواست دے دی کہ انہیں خطرۂ فساد ہے۔ اس درخواست میں انہوں نے فرخ نگر، خُرم پور، سیواڑی، جڑاؤ وغیرہ کے صاحب اثر وذی عزت مسلمانوں کے نام شامل کردیئے جن میں امام صاحب اور شیخ رحمت اﷲ وغیرہ کے نام خاص طور پر تھے۔اور جن کو حالیہ فساد میں بھی ایک من گھڑت قصہ بناکر پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ انہوں نے ۲۴ جولائی یوم فساد کو بعالم مخموری ہندوؤں کو گالیاں دیں۔ حالانکہ ۲۴ جولائی کو صبح سے فساد شروع ہوگیا تھا پنچایت کاموقع ہی کب تھا؟ بہر حال مسلمانوں کی درخواست علاقہ مجسٹریٹ نے خارج کردی کہ قربانی گاؤ سیواڑی میں نہ ہوتی تھی۔ اُدھر مسلمانوں نے دوسری درخواست دی جس پر پھر تحقیقات ہوئی۔ مسل سناہے کہ صاحب کمشنر بہادر کے پاس بھیجی گئی مگر نتیجہ کا علم نہیں۔ دوسری طرف ہندوؤں کی درخواست ہندو مجسٹریٹ اے ۔ڈی ۔ ایم کے روبرو پیش ہوئی۔ زیر دفعہ ۱۱۷؍ ۱۰۱ضابطہ فوجداری سربراہ مسلمانوں کو حوالات میں بند کردیاگیااور عید کے ایک یوم بعد چھوڑا گیا۔ زیر دفعہ ۱۴۴ قربانی گاؤ بند کردی گئی اور مسلمان گذشتہ سال بہ موقع عیدالاضحی اپنا فرض ادا نہ کر سکے۔ جبکہ ایک مسلمان مدرس کو جو نواب فرخ نگر کی اولاد میں سے تھے سیواڑی میں ذبیحہ گاؤ کے سلسلہ میں مستند شہادت پیش کرنے کے جرم میں فوراً ہندوؤں کی درخواست پر تبدیل کردیا گیا۔
حوصلے بڑھ گئے:
گؤر کھشا کے نام پر تحریک اندرہی اندرچل رہی تھی اس ایک واقعہ سے اس کے حامیوں کو تقویت پہنچ گئی اور مفسد عناصر کو صدرمقام کے طرز عمل سے جرأت پیدا ہوئی اور ان کے حوصلے مسلمانوں کے خلاف منتقمانہ جذبے کی شکل میں منتقل ہوگئے چونکہ فرخ نگر جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کا مرکز ہے۔ اور یہاں آباد مسلمانوں کی اکثر قریش برادری سے ہے، جو بوجہ اپنے کاروبار مویشیان ہندوؤں کے نزدیک زیادہ قابل ملامت ونفرت ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف سازش کامرکز یاگؤ رکھشا کا قلعہ بھی فرخ نگر ہی قرار پایا۔ جہاں پہلے سے متعصب مہاجن موجود تھے اور اب تو رام چند مہاجن سیواڑی والا بھی یہاں ہی رہتا ہے۔ چنانچہ انسدادِ ذبیحہ گاؤ کے نام پر فرخ نگر میں سازش شروع ہوچکی تھی تا کہ امسال ہر جگہ ذبیحہ گاؤ بند کرا دیا جائے اور مسلمانوں کو بجبر اس حق سے محروم کر دیا جائے۔ یہ وہ جنون تھا جس نے برادرانِ وطن کو غلط راستے پر ڈال دیا اور وہ اپنے دیر ینہ ہمسایوں کی جان کے لاگو ہو گئے۔
دہلی کے آریہ سماجی :
دہلی کے آریہ سماجی اُپدیشکوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ وہ مدت سے ندامت محسوس کررہے تھے۔ ان حالات نے ان میں نئے سرے سے جان ڈال دی۔ چنانچہ سنا گیا ہے کہ دہلی کے کوئی سچانند نامی آریہ اُپ دیشک فرخ نگر کئی بار آئے۔ ڈاکٹر رام چند اور دیگر ہندو مہاجنوں نے…… جن میں رام چند مہاجن ،لکھی مہاجن ،ہیرا مہاجن، رامیشور مہاجن،دینیاومنشی رام مہاجن، جھنی برہمن، ہرسہائے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں…… ایک پروگرام طے کیا جس کے مطابق گردو نواح کے دیہات میں بموقع شادی بیاہ لین دین بسلسلہ کا روبار تجارت گؤ رکھشا کے نام پر اپیلیں کی جانے لگیں، اجتماعات میں ہندو راج کی غلط تبلیغ ہونے لگی اور مسلمانوں کے خلاف جذبات نفرت پھیلائے جانے لگے۔ گؤ ماتا کے بچانے کا غلط راستہ اختیار کیا گیااور اندرہی اندر مواد پکنے لگا۔ سیٹھانی کی حویلی میں ہندو نوجوانوں کو غلط جذبے کے ماتحت اکھاڑ ا، گتکا بازی، لاٹھی اور داؤ یپچ سکھائے جانے لگے۔ اس سلسلہ میں پنچائتیں، سازشیں، لیکچر اور تقریریں ہوتی رہیں۔ حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ سیٹھانی کی حویلی ان سازشوں کا مرکزبن گئی۔ ڈاکٹر رام چند اور ان کے ساتھی مہاجن لیڈربن گئے اور ایک خوفناک جذبۂ نفرت مسلمانوں کے خلاف پرورش پانے لگا۔
مہاراجہ سروھی کی آمد :
فسادسے تقریباً چار ماہ قبل لکھی مہاجن کے ہاں جوریاست سروھی کامودی(داروغہ) ہے شادی تھی۔ اس شادی میں شمولیت کے لیے مہاراجا سروھی تشریف لارہے تھے۔ بد قسمتی سے گڑھی ہر سرُو پہنچ کر راجا صاحب کی موٹر خراب ہوگئی۔ راجہ صاحب وہیں رک گئے مگر ان کا عملہ وطائفہ فرخ نگر شادی میں شامل ہونے کے لیے پہنچ گیا۔ دیہات اور قصبات میں عام رواج ہے کہ جہاں کسی کے ہاں برات میں گانے والی رنڈیاں آئیں، تمام گاؤں بلاتخصیص مذہب گانا سننے کے لیے جمع ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی فرخ نگر میں ہوا، کرسیاں اور مونڈھے بچھ گئے، شامیانے تن گئے اور باراتی میزبان اور گاؤں کے سربرآوردہ لوگ آگے آن کر بیٹھ گئے۔ محفل طرب گرم تھی کہ ایک ہندو جاٹ نے رحمت اﷲ صاحب کے بھتیجے کو جومونڈھے پر بیٹھا ہوا تھا اٹھ کر چلے جانے کو کہا۔ لڑکے کو یہ بے عزتی ناگوار گزری۔ فریقین میں کچھ تلخ کلامی ہوئی۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا تھا۔ کچھ لڑکے اردگرد موجود تھے، جنہوں نے اپنے ساتھی کی بے عزتی پر برا منایا۔ گانے بجانے کا مجمع سیاسی جلسوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔فرق صرف نیکی اور بدی کا ہوتا ہے۔ورنہ جس طرح دو آدمی شور مچاکر جلسہ بربادکردیتے ہیں اسی طرح یہ بزم طرب جو سیاسی جلسوں سے بھی زیادہ نازک تھی ذرا سے شور شرابے کی نذر ہوگئی۔ محفل ختم ہوگئی، رنڈیوں نے جن کو راجا صاحب نے بھیجا تھا برا منایا۔ واپسی پر یہ سارا ماجرا راجا صاحب کے گوش گزار کیا گیا۔ وہ بھی بھڑکے اور سنا ہے کہ راجا صاحب نے اہل فرخ نگر(ہندوؤں) کو مطعون بھی کیا اور انہیں بہت شرم اور غیرت دلائی کہ مٹھی بھر مسلمان تم سے قابو نہیں ہوتے توہم کو کہا ہوتا۔ آگ کی دبی چنگاریوں کو دامن کی ہوا مل گئی مشہور یہ ہے کہ مہاراجا صاحب نے بھی گؤ رکھشا کے نام پردس ہزار روپیہ دان دیا گؤ رکھشا کے نام کو بہت ہی غلط استعمال کیا گیا۔ اسی نام پر اس علاقہ میں جتھابندی ہوئی۔
سازش بڑھ گئی:
دانیوں نے دان دینے شروع کیے۔ ممکن ہے بعض نے خالص مقدس مذہبی جذبے کے تحت دان دیا ہو مگر عام طور پر پراپیگنڈا بہت زہریلا ہوا۔ سیواڑی کی کامیابی نے اچھا خاصا موقع پیدا کردیا۔ عوام ہندوؤں کو گمراہ کیا گیا۔ مفسدین کی بن آئی ،مگر کھلم کھلا راجا سروھی کی توہین اور سیواڑی کے مسلمانوں کی درخواست ذبیحہ گاؤ کا بدلہ لینے کے لیے کوئی موقع ہاتھ نہ آسکا۔
سُرتی کا اسلام قبول کرنا:
سُرتی دختر چھجو کھاتی کی دہلی کے قریب بیگم پور میں شادی ہوئی، کچھ عرصہ بعد وہ بیوہ ہوگئی۔ اس کا بھائی اسے سسرال سے فرخ نگر لے آیا۔ بہن نے بھائی کے خلاف اپنے والد سے شکایت کی اور خوفناک چارج لگایا۔ والد مشتعل ہو گیا، مگر اس کابیٹا دبنے والا نہ تھا۔ اس پر شیطان سوار تھا،بحالت مجبوری والد اپنی لڑکی کو لے کر اپنے ہمسایہ مَنَّا پٹھان کے گھر آگیا۔ لڑکے نے پنچایت کی، ہندو طرف داربن کر آگئے۔ جب باپ نے لڑکی کی بپتا سنائی اور ہندوؤں کو ڈانٹ بتائی اور سوسائٹی کے گرے ہوئے کیریکٹر کاذکر کیا تو چھجو کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ چھجو ایک روز غالباً فساد سے دوماہ بیشتر سُرتی کولے کر دہلی پہنچا تا کہ اُسے اس کی منشا کے مطابق مسلمان بنوا دے۔ بد نصیب مَنَّا(نور محمد ) بھی ازراہ ہمدردی آیا۔ جامع مسجد دہلی میں سُرتی مسلمان ہوئی اور اس کا اسلامی نام نور بی رکھا گیا۔ مولوی صاحب نے اسلامی اصول کے مطابق اسے فرمایا کہ ابھی جوان ہو، کسی شریف آدمی سے نکاح کر لو۔ مَنَّاتو ہمراہ تھا ہی، دونوں کا نکاح ہوگیا۔ چھجو کا بوجھ ہلکا ہوا، وہ فرخ نگر تنہا واپس آگیا ۔کچھ دن دونوں میاں بیوی کسی گاؤں میں رہے، پھر فرخ نگر چلے آئے۔ فرخ نگر میں ان کے ایک ماہ تک کے قیام کے بعد مفسدین نے پھر کھچڑی پکانی شروع کی۔ ایک روز ۱۷؍ جولائی کو پنچایت کر کے مسلمانان فرخ نگر سے مطالبہ کیا کہ وہ سُرتی کو واپس دے دیں۔ مسلمانوں نے سُرتی اور مَنَّا کی حمایت نہیں کی۔ بلکہ صاف کہہ دیا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں۔ ہمارا آپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، سرتی سے پوچھ لو اگر وہ جانا چاہے تو خوشی سے لے جاؤ۔ سُرتی نے انکار کیا تو مسلمانوں نے کہا کہ نہ ہم نے انہیں مسلمان کیا اور نہ اس قصہ میں ہمارا ہاتھ ہے۔ دہلی کے مسلمانوں نے اسے مسلمان کیا ہے، تم جانو اور وہ جانیں۔ یہاں تک تو بات درست تھی۔ مگر ہندوؤں نے قتل کی دھمکیاں دیں اور سخت سست کہہ کر گھروں کو روانہ ہوگئے۔ پھر اندرہی اندر سازش ہوتی رہی مسلمانوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ کیا ہوتا ہے۔ البتہ مسلمانان فرخ نگر نے شرافت سے کام لیتے ہوئے اور برادران وطن کی دلداری کی خاطر مَنَّااور سرتی سے کہہ دیا کہ تم دونوں گاؤں سے چلے جاؤ تمہاری وجہ سے ہمارے تعلقات خراب نہ ہوجائیں۔ بھولی قوم یہ نہ سمجھی کہ سرتی بنا ءِ فساد نہیں فساد تو باقاعدہ سازش کا نتیجہ ہے۔
سُرتی کی روانگی اور اغواء :
۲۱ جولائی کی صبح کو چھے بجے کی گاڑی سیمَنَّااور سُرتی فرخ نگر سے دہلی کو جانے والی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ہندوؤں کو پتہ چلا تو انہوں نے رات ہی کو بندوبست کر لیا۔ سلطان پورا سٹیشن کو ملحقہ دیہات کے ہندو سور ماؤں نے سورج طلوع ہو نے سے بیشتر گھیر لیا۔ ریلوے لائن کے دونوں طرف دیہاتی باقاعدہ کھڑے تھے۔ فرخ نگر سے جھمّن برہمن زنانہ لباس پہن کر زنانہ ڈبے میں سوار ہوگیا اور جب گاڑی چل پڑی تو گھونگٹ اتار کر عورتوں کی تلاشی لینے لگا۔ اس حرکت پر بعض عورتوں نے برا منایا، مگر جھمن نے اپنا مقصد ظاہر کرکے معاملہ کو درست کرلیا۔ سرتی غریب کو پکڑ لیا گیا اور جب سلطان پور کا اسٹیشن آیا گاڑی کھڑی ہوئی تو جھمن کے اشارہ پر دوسرے ڈبوں سے اور باہر سے ہندو ٹوٹ پڑے۔ نوربی (سُرتی ) چلاتی رہی کہ میں مسلمان ہوں، دہلی جارہی ہوں، مجھے ان ہندوں سے بچاؤ !۔مگر بچاتا کون وہاں تو کوئی بھی مسلمان نہ تھا۔ مَنَّاکم بخت ڈرگیا، ہجوم دیکھ کر اسے حوصلہ نہ پڑا، وہ ایک ڈبے میں دبک کر بیٹھا رہا اور تیسرے سٹیشن پر جہاں ہندوؤں کا ہجوم کم تھااتر کر ادھر اُدھر مارا مارا پھرا، اور پھرپتا نہیں کہاں چلا گیا۔ مگر سُرتی کو سلطان پور سے اغوا کرلیا گیا اور سلطان پور کے ذیلدار کے پاس پہنچایا گیا۔ دو ایک گاؤں تک اس کا پتہ چلتا ہے اس سے آگے کچھ پتا نہیں کہ اس غریب نو مسلمہ کا کیا حشر ہوا؟
فرخ نگر ہندوؤں کی منشا پوری ہوگئی:
سُرتی کا مطالبہ تھا، اسے زبردستی حاصل کر لیا گیا۔ اگر صرف سُرتی بِناءِ فساد ہوتی تو پھر سُرتی کوحاصل کر لینے کے بعد تو ہندوؤں کو خاموشی سے بیٹھ جانا چاہیے تھامگر ایسا نہیں ہوا۔ سازش کچھ اور تھی فساد کا تعلق سُرتی کے واقعہ سے قطعاً نہ تھا۔ یہ واقعہ توطے شدہ سکیم کے راستے میں سر راہے آگیا۔ واپسی میں ہندوؤں نے کامیابی کی خوشی میں فرخ نگر پہنچ کر پنچایت کی اور مسلمانوں کا مجلسی بائیکاٹ کردیا۔ ۲۲، ۲۳ جولائی ۱۹۴۴ء کو ہندوؤں نے باقاعدہ تیاری کی، ملحقہ دیہات میں پروگرام بھیجا گیا۔ ۲۴ جولائی کادن مقرر کیا گیا، نشانات وعلامات بنائے گئے کہ فلاں وقت چلے آؤ۔ چنانچہ سیٹھانی کی حویلی میں بڑا نقارہ رکھا گیا۔ اردگرد کے دیہات میں بھی باقاعدہ نقارے رکھے گئے اور اطلاعات بھیج دی گئیں کہ سیٹھانی کی حویلی سے جس وقت طبل جنگ بجے اسی وقت یلغارکر دو۔
مُبارک پوروالوں کی عجلت :
۲۴ جولائی کی صبح کو تقریباً دس بجے جانب شمال کے گاؤں، مبارک پور والوں کی وجہ سے قبل ازاعلان جنگ گھروں سے مسلح ہو کر چل پڑے اور دس بجے کے قریب فرخ نگر کے قریب پہنچ گئے۔ ایک شریف ہندو جس کانام رسال سنگھ ہے پولیس کو ہمراہ لے کر دروازہ پر پہنچ گیا۔ کچھ سمجھایا کچھ دھمکایا اوراس ہجوم کو کسی نہ کسی طرح واپس کردیا۔ فرخ نگر کے ہندو لیڈروں کو جب پتا چلا تو انہوں نے واپس ہونے والوں کے پیچھے آدمی دو ڑائے کہ وقت قریب ہے اب واپس نہ جاؤ ٹھہر جاؤ اور نقارہ کی آواز پر کان دھرے رہو۔
مُسلمانوں نے کیاکیا؟
اس دو ران میں مسلمان بہت پریشان ہوئے۔ ہمارے پاس ان کے حلفی بیانات موجود ہیں۔ انہوں نے حکام کو مطلع کیا اور انتہائی کوشش کی کہ فرخ نگر فساد نہ ہو مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اوّل تو ان کی شنوائی نہ ہوئی اور اگر ہوئی بھی تو انہیں طفل تسلیاں دے کر ٹال دیا گیا۔
ہندوؤں نے باقاعدہ حملہ کردیا:
دن کے بارہ بجے ۲۴ جولائی کو ملحقہ دیہات کے پچیس تیس ہزار آدمیوں نے دروازہ خرم پور پرجہاں مسلمانوں کی آبادی تھی حملہ کردیا۔ مسلمانوں کے محلہ کا محل وقوع آڑے آگیا۔ جب ہندوؤں کا مسلح ہجوم مسلم آبادی کی طرف یلغار کرتا ہوا اور نعرے لگاتا ہوا بڑھا تو مسلمانوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب جان ومال کی خیر نہیں۔تقریبا دوسو مسلمان دروازہ خرم پور کی آڑلے کر حفظ ماتقدم کے طور پر لاٹھیاں لے کر دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ اپنی آبرو اور ناموس بڑی چیز ہے اور جب نتیجہ سامنے ہو کہ مارے جائیں گے ایسے موقع پر بُزدل روتا اور بھاگتا ہے، غیرت مند سیسہ پلائی ہوئی دیواربن جاتا ہے۔ ہزارہا ہندوؤں کا ہجوم جیکارے (جنگی نعرے) لگا کر حملہ آورہوا۔ کچھ مسلمان نوجوان جو قریش برادری کے تھے جی دار اور مضبوط تھے۔ موقع ایسا تھا کہ سارا ہجوم ایک ہی وقت میں حملہ آور نہ ہوسکتا تھا بلکہ بھیڑ کا زور حملہ کرنے والوں کو پیچھے سے آپ ہی دھکیل رہا تھا۔ جس سے مدافعت کرنے والوں کو کچھ عرصہ فائدہ پہنچتا رہا اور حملہ آور باوجود اس کے کہ جھنجھلا کر پوری قوت سے حملہ کرتے تھے منہ کی کھا کر واپس آجاتے تھے۔ یہ سلسلہ بارہ بجے شروع ہوا اور شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ قدرت کو کمزوروں اور مظلوموں پر ترس آتا رہا مگر دفاع کرنے والوں کی ہمت پانچ بجے شام جواب دے گئی۔ سخت گرمی تھی، دھوپ کی شدت تھی ، پانی کا ایک قطرہ نہ رہا، مدافعت کرنے والے پانی مانگتے تھے مگر گھروں سے دل خراش پیغام آتے تھے کہ بچے پانی کے بغیر بلبلا رہے ہیں۔
حملہ آوروں کا کامیاب حیلہ:
شام کو پانچ بجے جب کہ مسلمان پانی نہ ہونے کی وجہ سے نڈھال ہور ہے تھے۔ ہندو مفسدین نے نہایت ہوشیاری سے بندوق استعمال کی۔ ایک فائر کیا، سامنے ہو کر حملہ روکنے والے نوجوانوں میں سے چند ایک کے قدم ڈگمگائے، اسی پر ہجوم ٹوٹ پڑا اور مورچہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد حملہ آور انسان درندہ بن گئے جو نہ ہونا تھا وہ ہوا ۔ چھے لاشیں موقع پر ملیں دو مسلمان ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔ ابھی تک صرف آٹھ مسلمانوں کی قبریں فساد کی ہولنا کی کا پتادے رہی ہیں۔قصبہ دہشت زدہ ہے۔
مسلح پولیس کی آمد:
شام کے سات بجے مسلح پولیس فرخ نگر پہنچ گئی۔ اس عرصہ میں مقامی پولیس کی حالت قابلِ رحم اور قابلِ افسوس رہی، یہ بہادر تھا نے سے باہر ہی نہیں نکلے ۔اگر پولیس فرض شناسی سے کام لیتی تو شاید پہلے کی طرح ہجوم پلٹ جاتا۔ مگر مسلمانوں کی تقدیر ساتھ نہیں تھی۔ ان کی قسمت میں مرنا اور لٹنا لکھا تھا،دولت ،آبرو، مویشی، اور ڈنگر ڈھور سب لٹ گئے۔
مطالبہ:
انصاف کا تقاضا ہے کہ مناسب تحقیقات ہوں ۔ مجرموں کو عبر تناک سزائیں ملیں۔ مسلمانوں کا جو نقصان ہوا ہے انہیں دلوایا جائے۔ سُرتی کو اگر وہ زندہ ہے تو واپس لایا جائے۔ مسلمانوں کے گھروں پر تالے لگے ہوئے ہیں انہیں کسی اعلان کے ذریعے یقین دلایا جائے کہ قیامت کادن گزر گیا ہے۔ اب فرخ نگر میں پولیس کا پہرہ ہے۔ کوئی خطرہ نہیں واپس آجائیں۔ چونکہ مقامی اورضلعی حکام خصوصاً ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ،علاقہ مجسٹریٹ کے طرز عمل کے مسلمان شاکی ہیں۔ اس لیے بہ تقاضائے انصاف انہیں تبدیل کیا جانا ازحد ضروری ہے۔
موجودہ تفتیش تسلی بخش نہیں:
یہ مٹھی بھر پولیس والے جواس خوفناک فساد کی تفتیش کر رہے ہیں، یہ بیسیوں دیہات کے مجرموں کو جو فرخ نگر پر یورش کر کے آئے اور جنہوں نے قتل وغارت کا بازار گرم کیا کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے سٹاف بڑھنا چاہیے اور سی آئی ڈی بھی حرکت میں آئے تو کام بنے گا ورنہ معاملہ کھٹائی میں پڑرہا ہے اور مجرم اپنے لیے قلعہ بنا رہے ہیں۔ دولت کھیل رہی ہے۔ کوئی غیر جانبد ار پہنچے تو پتا چلے کہ فرخ نگر کی فساد کے بعد صورت حال کیا ہے؟
مسلمانان فرخ نگر کی استدعا:
مظلوم مسلمان حضرت مولانا مظہر علی صاحب اظہر جنرل سیکر ٹری مجلس احرار اسلام ہند سے ملتجی ہیں کہ وہ ان کا کیس وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کر کے فرخ نگر کوذی اثر مخالفین کے اثر ورسوخ سے بچائیں اور ہر ممکن امداد فرمائیں۔
تاج الدین ۳۰؍جولائی ۱۹۴۴ء