مفکر احرار،چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
مسئلہ شہید گنج
مسلمان بیدار ہو رہے تھے۔ مگر ابھی پورے طورپر سیاسی شعور پیدا نہ ہوا تھا کہ ایک اہم سیاسی الجھن پیدا کر دی گئی۔ مسجد شہید گنج جو ایک عرصہ سے سکھوں کے قبضہ میں تھی۔ دشمنان امن نے اس کے ایک حصہ کو گرانا شروع کیا۔ ہم اس وقت لائلپور میں کانفرنس کررہے تھے۔ مولانا ظفر علی خان جو بقول مولانا محمد علی مرحوم کے کہنی مار کے آگے بڑھ جانے کے عادی ہیں۔ مجلس احرار کو ملک میں چھایا ہوا دیکھ کر کچھ کھچے کھچے رہتے تھے۔ انہوں نے لائل پور کانفرنس پر پہنچ کر کانفرنس میں ناکام شور وشرپیدا کرنا چاہا اور لاہور واپس آتے ہی مسجد شہید گنج کے واقعہ کو ہوا دینی شروع کی۔
مجلس احرار اپنے تمام سیاسی مخالفوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حتیٰ کہ ان دوستوں کے خلاف جو ان کی بربادی کا باعث ہوئے، محتاط رہنا قرین اخلاق سمجھتی ہے۔ باوجود اس کے ہمارے مخالف ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جو تحریک شہید گنج کو نامناسب بھی سمجھتا تھا، لیکن مسلمانوں میں غلط طور سے ہر دلعزیز بننا چاہتا تھا۔ اس سلسلہ میں مجھے مولانا عبدالقادر قصوری کو پیش پیش دیکھ کر بے حد صدمہ ہوا۔ اگر وہ اس میدان میں نمایاں طور سے حصہ نہ لیتے تو شاید ڈاکٹر عالم وغیرہ بھی نہ آتے لیکن یہ سب کچھ ایک لحاظ سے اچھا ہوا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ گناہ گار ہونے کے باوجود مجلس احرار خدا کی خوشنودی کواپنے ہر معاملہ میں مقدم سمجھتی ہے۔ اور جو راستہ قوم کے لئے غلط خیال کرتی ہے اسے کسی حال میں بھی اختیار نہیں کرتی۔
یہ خبر ہمیں لائل پور معلوم ہوگئی۔ کہ لاہور میں مسجد شہید گنج کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے۔ ہم نے اس وقت احرار کی ورکنگ کمیٹی میں معاملہ پر کئی گھنٹے بحث کی۔ ہم میں سے کئی ایسے تھے۔ جو ۱۹۲۱ء سے شہید گنج کی واپسی کی تحریک سے متعلق تھے۔ سب کامشورہ یہی تھا کہ معاملہ سول نافرمانی اور ایجی ٹیشن سے سلجھ نہیں سکتا بلکہ اور الجھ جائے گا۔
ہرچند مجلس احرار کوئی حریف جماعت نہ تھی، لیکن ہمارا انتظار مناسب نہ سمجھا گیا۔ مولانا ظفر علی کی سیمابی طبیعت نواب صاحب ممدوٹ کی پر سکون آغوش میں آسودہ ہوگئی۔ خان بہادروں اور سروں کا جلوس لے کر مولانا شہید گنج کی مہم کو سر کرنے کے لیے نکلے۔ ہم سے جہاں تک ہوسکا سمجھایا کہ انقلاب سلطنت میں ضائع کی ہوئی چیز انقلاب سلطنت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر زوری سے یا زاری سے یہ جگہ مل بھی گئی۔ تو بیسیوں ایسی متنازعہ مساجد ہیں جنہیں ہندو غلط یا صحیح مندروں پر تعمیر شدہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اس ایجی ٹیشن کی کامیابی کے بعد ہمیں لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ لیکن جوش وہیجان کے وقت عقل کی بات کون سنتا ہے ۔
مولانا ظفر علی کی صدارت میں ایک جلسہ عا م میں قرار دار منظور ہوئی کہ مسجد کو آئندہ گزند سے بچانے کے لیے حکم امتناعی حاصل کیا جائے۔ لیکن یہ ریزولیوشن ڈپٹی کمشنر کے اشارہ ابرو پر قربان کردیا گیا۔ کسی نے حکم امتناعی اس لیے حاصل نہ کیاکہ ڈپٹی کمشنر نے ذمہ لے لیا تھا کہ مسجد نہ گرائی جائے گی۔ مسجدِ شہید گنج کے انہدام سے پہلے مولانا ظفر علی، مولانا داؤد غزنوی اور میاں امیرالدین سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ اور اس کے رفقا سے ملے۔ سکھ لیڈروں نے کہاکہ مسجد کی ہم مرمت کردیتے ہیں تم باز یابی کے لیے جھگڑا نہ کرو۔ لیکن مولانا ظفر علی خان خدا جانے کس خیال خام میں تھے۔ نہ مانے اور کہا کہ مسجد کی فورا مرمت کرو اور مقدمہ کے ذریعہ سے باز یابی کا حق ہمیں باقی رہے گا کہتے ہیں کہ ماسٹر تارا سنگھ نے کہا کہ اس کا یہ مطلب ہوا کہ داڑھی تو میں یہاں تم سے منڈوالوں اور کیس عدالت میں منڈاؤں؟ اس پر معاملہ ختم ہوگیا۔ تاہم انہدام کی جرات کسی نے نہ کی۔ آخر ہزا یکسی لینسی سر ایمرسن لاہور آئے۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ڈیپوٹیشن سے ملاقات کی۔ سکھوں کے سب مقتدر لیڈروں نے یقین دلایا کہ وہ مسجد گرانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اور دو روز میں پربندھک کمیٹی کا جلسہ کر کے اس کی تصدیق کردی جائے گی۔ یہ واقع ہے کہ۷،۸ جولائی کی رات کو مسجد گرائی جاتی ہے، لیکن پربندھک کمیٹی کو علم نہیں ہوتا۔ وہ ۸ جولائی صبح گور نر سے وعدہ کی تصدیق کر نے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ خبر ملتی ہے کہ مسجد توشب گزشتہ گر چکی ہے۔ وہ اپنے ایک مقتدر رکن سردار منگل سنگھ ایم، ایل، اے کو بھیجتے ہیں کہ اگر مسجد کا انہدا م شروع ہوتو اس کو روک دیاجائے۔ لیکن ڈپٹی کمشنر نے مسجد کے قریب جانے کی اجازت نہ دی۔ وہ حکومت جو ہوا میں سازشوں کی بو سونگھتی ہے، وہ انہدام مسجد کے وقت کہاں تھی۔ جب سکھوں کے رہنماؤں نے گورنر کو کہا تھا کہ وہ مسجد گرانا نہیں چاہتے تو مسجد گرائی کیسے گئی؟ لیکن حکومت سے باز پرس کون کرتا۔ بد نیت لیڈروں کو مسجد گرائے جانے کا افسوس نہ تھا۔ انہیں یہ فکر تھی کہ کس طرح مجلس احرار کو لوگوں کی نظروں میں سے گرایا جائے۔
ہم نے ہر چند کوشش کی کہ شہید گنج ایجی ٹیشن کے علمبرداروں سے مل کر کام کریں تاکہ قوم تکلیف سے بچ جائے۔ لیکن انہیں صرف یہ دھن تھی کہ شہید گنج کو اسمبلیوں میں پہنچنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ جس نے بھی باعزت صلح کے لیے بیچ بچاؤ کرنا چاہا۔ اس کے تعاون سے انکار کردیا گیا۔ آخر چیف جج پنجاب کی زبان سے سب نے سن لیا کہ انھوں نے مسجد شہید گنج کے بارے میں صلح کی کوشش کی، لیکن ایک مسلمان سیاست دان نے کہا کہ اگر صلح ہوگئی تو میرا الیکشن خطرے میں پڑجائے گا۔
شہید گنج کے مسلمان شہداء پر خدا کی ہزار رحمتیں ہوں۔ لیکن اس تحریک کے بعض لیڈروں نے قوم کو اپنے مفاد کے لیے دیدہ دانستہ دھوکا دیا۔ بعض بے چارے کارکن خود فریب خوردہ تھے۔ جوں جوں انہیں شہید گنج تحریک کی حقیقت معلوم ہوئی وہ اس سے الگ ہوگئے۔ تحریک شہید گنج کے سارے واقعات ابھی تازہ ہیں۔ مولانا مظہر علی اظہر نے کتاب ’’خوفناک سازش‘‘ لکھ کر ساری تفصیل کو بیان کردیا ہے۔ اس کو لوٹانا اور دہرانا ضروری نہیں۔ یہ تحریک درحقیقت بعض دوستوں کا ہماری پشت پر خنجر سے اچانک حملہ تھا۔ خدا ان کو معاف کرے، اور آئندہ قوم کو ایسے لوگوں کے شر سے بچائے۔
حکومت وقت، مرزائیوں اور ان مخالف دوستوں کی کوشش یہ تھی کہ احرار کہیں اسمبلیوں میں بر سر اقتدار نہ آئیں۔ ۱۹۳۶ء میں الیکشن تھا۔ ابھی تحریک شہید گنج کے سارے پہلو قوم کے سامنے نہ آئے تھے۔ ہمارے خلاف طوفان مخالفت ابھی تھمنے نہ دیا گیاتھا۔ میرے حلقہ انتخاب میں ڈاکٹر کچلو کے نام سے جھوٹے اشتہارات اور لٹریچر کا سیلاب بہا دیا گیا۔ کہ مسجد افضل حق نے گروائی ہے۔ لولے اور لنگڑے آدمیوں کی لاریاں بھر کر بھیجوائی گئیں۔ جو درد ناک آواز میں اپنے ٹنڈمنڈ اعضا دکھا دکھا کر کہتے تھے کہ صاحبو افضل حق کی مہربانی ہے، ہم شہید گنج کے مجروح ہیں۔ علاقہ میں آگ لگ گئی۔ مجھے اپنی پوزیشن کا بچانا مشکل ہوگیا۔ میں نے بارہ برس کے بعد ۹۸ ووٹ پر انتخاب میں شکست کھائی۔ حکومت اور سب مخالفوں کی خواہش یہی تھی کہ میں اسمبلی میں نہ جاؤں۔ مبادا راجپوت جن کی اسمبلی میں بھاری تعداد ہے، میرے ساتھ شامل ہو کر حکومت بنالیں۔ اس ناکامی کے بعد بھی میرے دل میں کدورت نہیں۔ ہمیں خدمت سے سروکار ہونا چاہیے، نتائج اﷲ کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ سب طوفان صرف الیکشن کے لیے تھا۔ پھر آہستہ آہستہ مخالفوں کی بے ایمانیاں بے نقاب ہونا شروع ہوئیں۔ مولانا مظہر علی نے سول نافرمانی کر کے مخالفوں کی ریاکاری کا پردہ چاک کردیا اور ۱۵۰۰ رضا کار جیل میں چلے گئے تو پنجاب گورنمنٹ کو اعلان کرنا پڑا کہ اس مسجد کو حاصل کرکے پانچ سو ایسی مسجدیں واپسی کرنی پڑیں گی جو مندروں پر تعمیر ہیں۔ یہ مسجد صرف سمجھوتہ یا مقدمہ سے حاصل ہوسکتی ہے۔ مسلمان اکثریت کے بل بوتے پر قانون بنوا کر یا سول نافرمانی سے حاصل نہیں کرسکتے۔ اس اعلان کے بعد دنیا نے پکار کر کہا کہ پھر احرار کا کیا قصور ہے وہ تو ابتدا سے ہی یہی کہتے تھے۔
جب ہم انتخاب میں ناکام ہوئے تو بعض اربا ب جہل نے کہا جماعت میں اخلاص نہ تھا۔ ورنہ کامیاب ہوتے۔ کیا مخلص لازمی طور سے کامیاب ہوتا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا یزید کے مقابلہ میں حضرت حسینؓ کے اخلاص پر شبہ کیا جائے؟ پھر یَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ کے کیا معنی ہوئے؟
عزیزو! خلوص کا میابی کے لیے ضروری ضرورہے مگر یہ فوری کامیابی کا کفیل نہیں۔ اسباب اور تدبیر کے بغیر خلوص کار تھ نہیں چل سکتا۔ بعض لوگ سب لوازمات کے باوجود ناکام رہتے ہیں۔ دنیا میں اتنی قوتیں کام کرتی ہیں کہ ایک انسان کی تدبیر دنیا کے تمام عناصر پر قابو نہیں پاسکتی۔ بعض اوقات بڑی بڑی چیزوں پر نظر ہوتی ہے۔ چھوٹی چیز نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے اور وہی شکستِ عزم کا باعث بن جاتی ہے۔ انسان تدبیر کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو تقدیر کا رونا رورو کر جمع کرتا ہے۔ لیکن پر اگندہ فوج کی طرح تدبیر کے اجزاء جمع ہونے اور درست ہونے میں نہیں آتے۔
نیک نیتی ناکام ہوکر بھی بیج بوجاتی ہے۔ شہید کون ہوتے ہیں ناکام انسان، مگروہ اپنی ناکامیابی سے کا میابی کی کھیتی سینچ جاتے ہیں جو کبھی کبھار بار آور ہوتی ہے۔ بد نیتی فوری کا میابی کی طلب گار ہے۔ لیکن خلوص کی کامیابی کے لیے ایک عمر چاہیے: آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
جماعت احرار :
ہندستان میں مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کی تشریح میں عقل حیران ہے۔ صحرا میں کھوگئے انسان کی طرح مسلمان پریشان ہے۔ جنگل میں بھٹکی ہوئی دو شیزہ کی طرح دل سے سو بار سوال کرتا ہے کہ اب کیا کروں۔ میں نے طالب علم کی حیثیت سے راستے کی مشکلات سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اپنے کمزور فہم کے مطابق جماعتی نقطہ نگاہ سے حل ڈھونڈھنے کی سعی کی ہے، جسے آل انڈیا احرار کانفرنس منعقد پشاور کے صدارتی خطبہ میں لکھ دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ حل صحت کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ یہ خطبہ ہماری بیس سالہ سیاسی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔
میں خود جذبات کی مخلوق ہوں، لیکن غلطی سے قیاس کیا جاتاہے کہ میں احرار کی پالیسی کا خالق ہوں ۔دنیا کی جماعتوں کی تشکیل جذبات اور مفاد پر ہوتی ہے۔ لیکن اسلامی جماعت کے کار پر دازوں کو دونوں کمزوریوں سے بالا ہونا چاہئے۔ مسلمان لیڈر قومی مفاد کا محافظ اور عوام کے جذبات کا پاسدار ہو۔ جہاں عوام کے جذبات اور قوم کے مفاد ایک دوسرے کے خلاف ہوں،وہاں بے سمجھ عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی بجائے خود قوم کے غصہ کا شکار ہوجانا بہتر ہے، تاکہ مفادِ عامہ کو نقصان نہ پہنچے۔ یہی نظریہ شہید گنج میں احرار کی جاں گسل مشکلات کا باعث ہوا۔ احرار عوام کے غصہ کا شکار ضرور ہوگئے، مگر قوم ایک بڑی پریشانی سے بچ گئی۔ کسی قوم کی خوش نصیبی ہے کہ اس میں اچانک کوئی مخلصین کا گروہ پیدا ہوجائے۔ اس قوم کی بد نصیبی کا کیا کہنا، جس کے افراد میں ایک دوسرے کو گرا کربڑھنے کی عادت پیدا ہوجائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان بھر میں مجلس احرار ہی ایسی جماعت ہے جس میں کہنی مار کر بڑھنے کی نہیں بلکہ دوستوں کی ہر دلعزیزی سے خوش ہونے کی خو ہے۔ ہماری جماعت میں کہنی ماروں اور لیڈری کے شیداؤں کی قطعی گنجائش نہیں۔ ہم میں ہر شخص بنیادی بننے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ نمایاں نہ ہو۔ مبارک ہیں وہ جو ’’کام میں نام نہ ہو‘‘ کے اصول پر زندگی بسر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سچائی میں ترقی کی استعداد بے شک ہے۔ لیکن دروغ کو فروغ اس کے سازوسامان سے مل جاتاہے۔ رائے عامہ خریدی جاتی ہے یازور سے خاموش کردی جاتی ہے۔ مخلصوں کی غریب جماعت کے لیے خدشات ان گنت ہیں۔ کامیابی اس کی ہے جو زر اور زور سے بے نیاز متبعین کی معتدبہ تعداد جمع کرے۔ احرار کی قوت متبعین کے اخلاص پر ہے۔ ورنہ بارہ مہینے دفتروں میں رمضان شریف کی برکتیں نازل رہتی ہیں۔ رائے عامہ آوارہ عورت ہے جو اس مرد کو محبوب رکھتی ہے جو تنومند تند اور تیز ہو۔ لیکن کوئی بہکانے والا مل جائے، تو طوطا چشمی اختیار کر کے اٹھا دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہولیتی ہے۔ اس لیے برسرِ حکومت اور طالب حکومت گروہوں کو بد فطرت گھوڑے کے سوار کی طرح رائے عامہ سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ لگام ذرا ڈھیلی ہوئی تو پیٹھ سے گر کر سینہ کے بل آرہے ہیں۔ رائے عامہ کو ہمیشہ اپنا میت سمجھنا،جیت کو ہار میں تبدیل کرنا ہے۔ امان اﷲ نے رائے عامہ کو مستقلاً اپنا سمجھا، مگر وہ مسٹر ویشیا کے لباس میں کرنل لارنس کے بہکانے سے بگڑی او ر بچہ سقہ کی غلام ہوگئی۔
شہید گنج کی تحریک ہوش کی دوا ہوگئی۔ اب احرار پٹ کر دانا ہوگئے ہیں اور رائے عامہ کے اتار چڑھاؤ پر نگاہ رکھتے ہیں۔ رائے عامہ بھکارن کی طرح ہر وقت بھیک مانگتی ہے۔ پتھر دل تماشائی کی طرح اسے خاک وخون کا کھیل پسند ہے۔ اس بھکارن کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو، تو دعائیں اور جان پر کھیل کر تماشادکھاتے جاؤ، تو خوش ہے۔ جہاں اس کے تقاضوں اور کھیل اور تماشوں میں فرق آیا تم دل سے اتر گئے۔ قوم کے لیے بیس برس کی قید کاٹ کر آنے والا خوش بیان اور لسّان نہ ہو تو عوام اس کی خشک تقریر کوپانچ منٹ کی قربانی کر کے نہ سنیں گے۔ بلکہ منہ بسور کر گھروں کو چلے جائیں گے۔ ایک باتونی جو باتوں کے طوطے مینا بنا کر عوام کا دل خوش کرے، لوگ گھنٹوں اٹھنے کا نام نہ لیں گے جزاک اﷲ کے ڈونگڑے برسائیں۔ احرار اب رائے عامہ سے ہوشیار ہیں شہید گنج کے بعد مومن کی طرح احرار دوبارہ نہ ڈسے جائیں گے۔